Lahasil by Iram Tahir Episode 1


رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی

احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا

جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ  گیا درمیان میں

دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط

وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی

لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد

جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے

اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی

وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا

یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے

جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

 

 

یہ شفا انٹرنیشنل لیمیٹڈ کامنظر ہے جہاں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت والے کمرے میں وہ بیڈ پر بےجان پژمردہ چٹ دراز تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے زندگی کے خوبصورت رنگوں سے سجی مکمل تصویر کی عکاسی کرتی اب یوں ادہ موئی موت میں لیٹی ، سانسوں کو مدھم کرنے والے ہولناک منظر سے دل دہلا رہی تھی۔

 

آلہ تنفس اور مختلف نالیوں سے اسکا چہرہ جکڑا ہوا تھا۔ متورم آنکھیں سختی سے بند تھیں ، ہونٹ آپس میں پیوست کیے ہوئے تھے۔ بائیں ہاتھ پہ ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ مسلسل معالج کی کوشش کے بعد اب وہ قدرے سنبھل چکی تھی۔آخری بار اسکا مکمل معائنہ کرکے ڈاکٹر باہر آیا تھا۔

 

وہ جو اضطراری کیفیت میں راہداری میں چکر کاٹ رہی تھی ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی اس تک لپکی تھی۔

"کیسی ہے وہ۔؟" سانسوں کو ہموار کرنے کے درمیان ، وہ لجاہت سے مستفسر ہوئی تھیں۔ اس کی استفہامیہ نگاہیں ، اسکی اضطرابی کیفیت کا آئینہ بنی ہوئی تھیں۔ اندر موجود وجود کی حالت کا سوچ کرہی اسکا دل شاخ سے ٹوٹے ہوئے سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔ دل گویا کوئی مٹھی میں جکڑ رہا تھا۔

 

"وہ اب ٹھیک ہیں۔" معالج نے اپنے مخصوص انداز میں کہہ کر گویا اس کی الجھی ہوئی سانسوں کو نرم سی تقویت دی تھی۔ مگر ابھی بھی اضطرابی اسکے انداز سے واضح تھی۔

 

"میں مل سکتی ہوں۔" وہ نگاہوں میں نرم تاثر لیے ، متانت سے گویا ہوئی تھی۔

"جی۔۔۔ اب انکی حالت سنبھل چکی ہے۔" معالج نے پیشہ وارانہ انداز میں کہتے ہی قدم آگے بڑھائے تھے۔  جبکہ وہ اسکی حالت کا سن کر دل میں اپنے پروردگار کی شکر گزار ہوئی تھی۔

وہیں کھڑے وہ آنکھیں بند کرکے پوٹوں کو نرمی سے مومی انگلیوں کی پوروں سے مسل کرکے اپنے اوسان ہوتے ہواسوں کو بحال کرتے اپنے قدم اندر کی طرف بڑھ گئی تھی۔

 

 رات کی تاریکی میں چھائے گہرے سناٹے میں  انتہائی نگہداشت والے کمرے کے بوجھل سکوت میں گہرے گہرےسانس بھرنے کی مدھم آوازیں ابھر رہی تھیں۔ موت جیسی وحشت ناک خاموشی میں اسکی سانسوں کی روانی زندگی کے آثار موجود ہونے کی دلیل دے رہی تھی۔ سفید بستر پر موجود اسکا وجود کب سے دنیا و مافیا سے بیگانا تھا مگر اب آہستہ آہستہ بے حد متورم آنکھوں کی خشک پلکوں کا لرزنا اشارہ کررہا تھا اسکی بیگانگی کے اختتام کا۔

متورم آنکھوں کی پلکوں کے لرزنے پر وش بستر پر موجود وجود پر اضطرابی کیفیت میں جھک کر اسکی سرد پیشانی کو ہاتھ سے چھو کر اسکو مزید پلکیں وا کرنے کی ہمت دلانے لگی تھی۔

 

ہوش میں آنے والے وجود نے مدھم کراہوں کے ساتھ پلکیں وا کرنے کی سعی کی مگر ہر منظر دھندلا ہوا نظر آیا تھا ، نیم غنودگی کی حالت میں اپنے اوپر جھکے ہوئے چہرے کو ایک نظر دیکھ کر وہ دوبارہ آنکھیں موند گئی تھی ،  وہ جو اسکی سعی سے پُرامید ہوئی تھی اسکے آنکھیں موندنے پر مایوس ہوگئی ، مگر اگلے ہی پل بستر پر موجود وجود کی پوری آنکھیں کھلے دیکھ کر اسکی مایوسی معدوم ہو ئی تھی۔

 

اسکے دیکھتے ہی  دیکھتے بستر پر موجود وجود کی چیخ و پکار سے ڈاکٹر  اور نرس راہداری سے اندر بڑھے اور جلدی سے اسکی حالت کے پیشِ نظر سکون آور ٹیکا لگایا جس سے منٹوں میں اسکا وجود ندھال ہوگیا اور کراہیں ، چیخ و پکار سب معدوم ہوگئیں۔

"اسکو کیا ہوا ہے؟ کیوں ایسے کررہی ہے؟" فکر مند انداز میں پوچھا گیا تھا۔

"کسی بات پر شدید صدمے کے باعث ایسا ہورہا امید ہے بہت ٹھیک ہو جائیں گی۔۔" معالج اپنے پیشہ وارانہ انداز میں کہہ کر واپس چلا گیا جبکہ وہ  سینتیس سالہ عورت اسکے قریب آکر اسکے چہرے کو اضطرابی آنکھوں سے دیکھنے لگی اسکے تنے ہوئے چہرے کے نقوش وقت و حالات کی سختی عیاں کررہے تھے۔۔۔

 

‎مُقدر مہلت دے تو یہ قصہ لکھوں گی

‎خود کو آپکا اور آپکو اپنا حصہ لکھوں گی

‎پہلے تو غلطی کا مطلب سمجھاؤں گی

‎پھر بے وفائی کو گُناہِ کبیرہ لکھوں گی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

"امی خدارا ایسے نہیں کریں۔ کیوں خود کو بےجا ہلکان کررہی ہیں"۔  ماہم اکتاہت ذدہ لہجے سے گویا ہوئی رات سے ہی وہ سجیلا (امی) کو اس واقعے کے بعد سے سنبھال رہی تھی جوکہ وقت کی چال پہ ماتم منائے روئے جارہی تھیں۔

"سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تربیت میں کہاں کمی بیشی رہ گئی۔" سجیلا نے مجرمانہ لب و لہجے سے کہا وہ اسکی سب سے لاڈلی اولاد تھی ماں باپ سب بچوں سے ہی پیار کرتے ہیں لیکن کچھ بچے ہوتے ہیں جوکہ ماں باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ یہ خوابناک واقعہ حقیقت ہے یا کچھ اور وہ اس سب کے بارے میں سوچ سوچ کر گھل رہی تھیں آخر اپنی آنکھوں سے دیکھا منظر کیسے دھندلا سکتا ہے۔

 

"میں یہ نہیں کہتی کہ وہ ٹھیک ہے یا غلط ہے لیکن اتنا اس کے حق میں ضرور کہوں گی کہ آپ لوگوں نے جلد بازی کی اسے تو سنتے۔"

"کیا سنتے؟ اسنے سننے لائق چھوڑا کچھ۔۔" ماہم جوکہ پیشمان لہجے سے ابھی بول ہی رہی تھی کہ سجیلا نے بات کاٹتے ہوئے برہمی سے کہا تھا۔

"بعض دفعہ دروازے سے پار کی آوازیں حقیقت سے دور بھی ہوتی ہیں اور یوں پردوں کے پیچھے کی باتوں میں صداقت کتنی ہوتی ہے آپ بہتر جانتی ہیں" ماہم نے ٹہرے لہجے میں دلیل پیش کی مگر افسوس دلیل میں وزن سننے والے کی ، "سننے کی صلاحیت" سے  پیدا ہوتا ہے۔

"صاف شفاف منظر کو بھی بھلا ضرورت ہوتی ہے ثبوتوں کی"

"منظر سے جو خاکہ ہم بنا لیتے ہیں نا اپنے دماغ میں اصل کچھ اور بھی ہو تو ہم جانچ پڑتال نہیں کرپاتے۔" لہجے کا ٹھراؤ ، دلیل میں وزن ، مزاج کا سردپن کچھ نہ کچھ باور کرواگیا لیکن دلیل اسکو ہی راس آتی جس میں اسکو سننے کی چاہ ہو۔۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

کالے ٹراوزر اور سفید ٹی شرٹ سے جھانکتے ہوئے کسرتی بازو ، صبیح  پیشانی پر بکھرے بال ، متورم آنکھوں میں ڈورتے لال ڈورے رات بھر جاگنے کی چغلی کھارہے تھے۔ دراز قد والا خوبرو مرد ندھال سا زینے اتر کر کچن میں کھانے کے میز پر آیا تھا۔ رات کے واقعے کی تلخی سے میز کے اردگرد  بیٹھے تنے ہوئے نقوش دیکھ کر ایک بار پھر اسکے دماغ کے پردے پر رات والا واقعہ گما وہ جو اپنی تمام تر ہمت مجمع کرکے آیا تھا ذہن کے یادگار خانوں والے حصے سے اپنی ہمت ہارنے لگا ، بمشکل ضبط کے گھونٹ بھرتے وہ اٹھ کھڑا ہوا

"کہاں جارہے ہو؟ ناشتہ تو کرتے جاؤ۔۔" اسکو بغیر ناشتہ کے اٹھتے دیکھ کر آنیہ نے فوراً ٹوکا تھا۔

"میرا دل نہیں چاہ رہا" بغیر کسی کی طرف دیکھے جواب دے کروہ قدم بڑھا گیا تھا۔

"حالانکہ ایسی عورت کے لئیے کھانا نہ کھانا سراسر بیوقوفی ہے۔۔" نخوت زدہ لہجے میں کہا گیا تھا۔وہ جو دروازے کی چوکٹ پہ پہنچا تھا لمحے کی تاخیر کیے بنا واپس پلٹا۔

"یہ آپ سب کی خام خیالی ہے۔" تیز لہجے میں کہتا وہ رکا نہیں تھا۔

پیچھے سرور آنیہ کو دیکھتے رہ گئے جو اپنی ہی بھتیجی کے بارے میں یہ سب کہہ رہی تھی۔ پھر سر جھٹک کر وہ باہر نکل گئے آخر آنکھوں دیکھی مکھی کوئی کیسے نگل سکتا تھا۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

اے سی کی خنکی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی کھڑکی پر سفید پردے پڑے تھے جوکہ سورج کی روشنی کو کمرے میں داخل ہونے سے باز رکھے ہوئے تھے۔ وہ صوفے پہ ٹکی گہری نیند میں تھی جبھی اسکا فون چنگاڑا اور کمرے میں چھائی سکوت میں خلل ہوا۔ اپنی نیند سے بوجھل آنکھوں کو وا کرکے ایک نظر فون کو دیکھ کر پھر بستر پر پڑے وجود کی طرف دیکھا جوکہ ہنوز غنودگی میں تھا یا خود  بیگانہ بنا تھا وہ فیصلہ نہ کرپائی سر جھٹک کر وہ سرعت سے کمرے سے باہر نکل کر موصول ہونے والی کال سننے لگی تھی۔

"ہاں وہ بس آج پہنچنے میں دیر ہوجائے گی ، دراصل کل پارٹی سے واپسی پر ایک بچی ملی تھی لمبی کہانی ہے آکر بتاؤں گی فلحال جب تک میں پہنچتی ہوں تب تک تم انتظامات دیکھو"۔ کال اوکے کرتے ہی عالیہ اسکی دیر پر بازپرس کرنے لگی ، مختصر اسکو بتا کر کال بند کر کے وہ ریسپشن پر آئی اپنا نمبر ، پتہ دے کر حساب برابر کروا کے ، اسکے ہوش میں آنے کی اطلاع خصوصی طور پر دینے کی ہدایت دے کر وہ دوبارہ کمرے میں آئی ایک نظر  اسے دیکھ کر اپنا بیگ لے کر وہ باہر آئی تھی۔ اسکا ارادہ اب گھر جانے کا تھا تاکہ تازہ دم ہوکر اپنی اہم کانفرس میں شرکت کرسکے ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


Lahasil by Iram Tahir Episode 1
Lahasil by Iram Tahir Episode 1

 

اسکے اندر کا موسم باہر کے سرد موسم کے برعکس تھا۔ وہ کمرے میں بائیں جانب دراز قد شیشے والی کھڑکی کے سامنے کھڑا باہر برستی بارش کو دیکھ رہا تھا جوکہ سرد موسم کی شدت میں مزید اضافہ کررہی تھی۔

 

انگلیوں میں سگریٹ دبائے اضطرابی کیفیت میں گہرے کش لیتے یہ اسکا مسلسل تیسرا سگریٹ تھا جو وہ بغیر ناشتے کے پھونک رہا تھا۔

 

گزرے پندرہ ماہ و سال آج بھی اس دن کی تاثیر اسکے دل و دماغ سے زائل نہ کرسکے تھے۔ وہ آج بھی شروع دن جتنا مضطراب ہوتا تھا اس دن۔ سکون کسی طور نہ آتا رات کڑواٹیں بدلتے آنکھوں میں گزرتی تھی۔

 

آسمان پر پھیلے کالے بادلوں سے گرتی بارش کی بوندوں کی پھوار بھی اسکی کیفیت پر اثر انداز کرنے سے قاصر رہی تھی۔ ایک بار پھر اپنے سرمئی رنگ کے شب خوابی کے لباس  سے موبائل نکال کر اسنے وہ مخصوص تصویر دیکھی تھی۔

 

"تصویریں بھی کمال ہوتی ہیں اس میں موجود کھوکھلی ہنسی حسین منظر دکھا کر گمراہ کرتی ہیں"

 

اپنی شادی کی تصویر دیکھ کر اسنے سرد آہ بھری تھی۔ بارہا دانستہ طور پر دماغ سے پچھلے تمام گزرے لمحوں کی جکڑ سے نکلنے کی کوشش کی گئی لیکن  آج بھی اسکی یہ کوشش اس چہرے کے آگے بےجان ہی رہی تھی۔

 

مہکتے خوابناک ماحول میں وہ ساکت بیٹھی موم کا حسین  پیکر بنی اس منظر کا حصہ لگ رہی تھی۔ برقی قمقموں اور سنگھار میز پر اسٹینڈ میں جلتی موم بتیاں ، کمرے میں پھیلی بھینی بھینی گلاب کی خوشبو کمرے کی فضا کو مسحور کن نکھار بخش رہی تھی۔ مگر اس کے دل کی حالت شدید بحران کا شکار تھی لمحے بھر کے لئیے بستر پر ٹک کر وہ کوفت سے اٹھی جہاں ابھی اسکو سیج پر بٹھایا گیا تھا۔ بھاری بھرکم جوڑے اور زیوارات سے لیس ایک نظر اس نے اپنے تراشے گئے عکس کو آئینے میں دیکھا تھا۔ استہزائیہ طور پر ہنستے گویا اپنے حسن پر ماتم کرتے وہ واشروم میں جاگھسی تاکہ اس ناقابلِ برداشت بوجھ کو اتار سکے جو اسکی روح کو سوہان کیے ہوئے تھا۔

 

دنیا فتح کر لینے والی چمک چہرے پہ سجائے وہ اندر آیا خالی بستر دیکھ کر وہ ٹھٹھکا تھا ، اچنبھے سے واشروم کی طرف دیکھا پانی گرنے کی آواز سے سکون کی ایک لہر اسکے جسم میں دوڑی ہی تھی کہ عروش کا دھلا صاف شفاف چہرہ دیکھ کر اسکا وہ تھوڑا سکون بھی غارت ہوا تھا۔ عروش بغیر گھبرائے ایک نظر اسے دیکھ کر درازقد آئینے کے سامنے جا رکی تھی۔ فارس جو کہ کمرے کے وسط تک پہنچ چکا تھا ، اسکی کاروائی سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے خاموش رہا اور پھر  چلتے ہوئے اسکے پیچھے آ رکا تھا۔

 

"عروش یہ کیا طریقہ ہے؟" شانوں سے تھام کر لہجے کو قدرے نرم رکھے وہ آئینے میں اسکی طرف دیکھ کر سوالیہ ہوا تھا۔

 

"کیا ، کونسا طریقہ؟"  وہ جانتے ہوئے بھی انجان بنی تھی۔

 

"مجھے نہیں لگتا میں نے کسی بچی سے شادی کی ہے۔" فارس نے آنکھیں سکیڑ کر کچھ باور کروانے والے انداز میں کہا تھا۔

 

"مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ آپکے لئیے وہ مصنوعی چیزیں اس قدر مقناطیسیت رکھتی ہیں"۔ چند لمحوں کی تاخیر کے بعد وہ طنزیہ ہوئی تھی۔

 

"خیر ایسا تو کچھ نہیں ہے۔" فارس نے فوراً تصیح کی تھی۔

 

"آج خالصتاً میرے لئیے تیار ہوئی تھی تو اس لیے پوچھا۔ ویسے حق رکھتا ہوں ، رکھتا ہوں نا؟" اس نے کندھوں کو ہولے سے دبائے دوبارہ سوال کیا جو عروش کی طبیعت پر کافی گراں گزرا تھا۔

 

"شادی کا تحفہ۔۔" ایک بار پھر کمرے میں چھائی جھنجھلاہٹ زدہ سکوت کو فارس کی آواز نے ختم کیا تھا۔ جیب سے مخملی ڈبی سے نازک سی چین نکال کر پہنائی گئی تھی ، وہ جو نامحسوس انداز میں اپنا آپ چھڑوانے کی لگن میں تھی اپنی کوششیں ترک کر گئی تھی۔

 

"اچھی نہیں لگی۔"

 

"میں نے ایسا کب کہا؟" عروش ساکت کھڑی ہنوز آئینے سے ہی اس پر نظریں جمائے ، سوال کے بدلے سوالیہ ہوئی تھی۔

 

"ہممم ،،، تم نے اسکی شان میں وہ تعریف اور قصیدے نہیں پڑھے نا جو کہ اکثر پڑھے جاتے اس لیے پوچھا۔ خیر شکریہ تو کہنا بنتا ہے"۔ فارس اسکا رخ اپنی طرف موڑے تفصیلی جواب کے بعد آخر میں شریر ہوا تھا۔ دفعتاً نگاہوں کا تصادم ہوا تھا۔ کہیں آنکھوں میں بیزاریت تیر رہی تھی تو کہیں محبت کا ٹھاٹے مارتا سمندر موجزن تھا۔

 

"میں تحائف کے تبادلے سے خاصی متاثر نہیں ہوں اس لئیے اس درخواست پر معزرت۔" وہ عام سے لہجے میں کہتی ، اسے ٹھٹھکا کر بیڈ کی طرف بڑھ گئی تھی۔

 

کمرے کے دروازے پر بیک وقت دستک سے وہ ماضی کے جھڑوکوں سے باہر آیا تھا۔ اجازت ملتے ہی ملازم اندر آیا اور ناشتے کا استفسار کرتے چلا گیا تھا۔ بچی سگیرٹ کو بجھا کر پیروں تلے روندتے ہوئے وہ فریش ہونے چلا گیا تھا۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اپنی حیوانیت دکھا کر وہ سیدھا وہاں سے نکل کر گھر آیا تھا۔ اندھیرے کے استقبال نے مزید اسے عاجز کیا وہ جو پہلے ہی اپنی بر وقت چوری پر جزبز تھا برہمی سے اپنے کمرے میں آیا اور بیڈ پر لیٹ کر آج ہونے والے واقعے کے بارے سوچنے لگا ، اسے اپنی لگائی ہوئی آگ کے نتائج سے اختلاف نہ تھا بلکہ وہ خوش تھا بس اس خوشی کو ادھورا اسکے منصوبہ پورا نہ ہونے نے کیا تھا جسکا اسے شدت سے انتظار تھا۔ جب سے اس پر نظریں ٹکی تھیں وہ ہمہ وقت موقع کی طاق میں رہتا کہ کیسے بھی کرکے وہ شیطانی کر سکے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

دس بجے کے قریب وہ مکمل ہوش میں آچکی تھی۔ بستر پر لیٹے وہ ساکت نظروں سے چھت کو گھور رہی تھی۔آنکھوں کے سامنے سارے منظر گڈ مڈ ہوتے چلے جارہے تھے۔

 

نرس اسکا مکمل معائنہ کرکے باہر ہسپتال کی استقبالیہ میں آئی تاکہ جو عورت اسے یہاں لے کر آئی تھی اسے مطلع کیا جائے۔

نرس کے جاتے ہی اسے اپنی ستم ظریفی یاد آئی جس پر اسنے بے آواز رو کر جی بھر کر دل کی بھراس نکالی۔ غم سے بوجھل  دل آنکھوں کے راستے نمکین پانی بے مول کرنے لگا تھا۔ گرم گرم سیال اسکی گالوں سے ہوتے تکیے میں جذب ہونے لگے تھے۔

 

"اتنی بے اعتباری کہ ایک دفعہ اپنی خود ساختہ عدالت میں مجھے اپنا مدعا بھی پیش کرنے کی اجازت نہیں دی۔

اتنے شک و شبہات میری ذات پر لاحق تھے؟۔

جسے اپنی عزت ، لباس اور دیگر القبات سے معتبر کیا تھا کل اسکی اس قدر تزلیل کس ڈھرلے سے کی۔ ،،،

کوئی تیسرا میرے مقابل زیادہ اعتبار کے حامل رہا۔۔۔

اور میں جو محبت چاہے وہ ماں باپ سسرال یا شوہر کے روپ میں ملی تھی ، کی اڑان بھرتے آسمان کی بلندیوں میں تھی،  کیسے بے مول شے کی طرح زمین پر پٹخی گئی ہوں۔

کیا تھا اگر منظر کے میری سچائی سے منافے ہوتے ہوئے  بھی وہ  ایک بار مجھے سن لیتے تو۔۔۔"

 

ٹک کی آواز سے دروازہ کھلا جسنے اسکی سوچوں کو جھٹکا تھا۔ نرس ہاتھ میں سوپ کا پیالہ لیے اندر آئی بیڈ کے قریب آکر اس نے  پیالہ بستر سے ملحقہ میز پر رکھ کر اسکو  بیٹھانے میں مدد کی پھر سوپ کا  پیالہ لیے اسکے سامنے بیٹھ کر آہستگی سے پلانے لگی ،،،وہ غائب دماغی سے ہر کام کرتی چلی جارہی تھی وقفے وقفے سے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر پھسل رہے تھے۔

 

"جو آپکو یہاں رات میں لے کر آئیں تھیں انکو اطلاع دے دی ہے انتظامیہ نے وہ آتی ہی ہوں گی۔ آپ دوا لے کر آرام کر لیں۔۔۔" نیپکن سے منہ صاف کرتے نرس اسکی حالت کے پیشِ نظر اسکو بتانے لگی تھی۔

_____________________________________________

 

اپنے دو کمروں کے آرائشی فلیٹ پر پہنچ کر اپنے پاس موجود چابیوں سے مرکزی دروازے کھول کر اندر آئی وہ جلدی سے اندر آئی تھی۔

 

وقت کی مناقبت سے جلدی والا ناشتہ کیا اور فریش ہوکر کانفرس کے لیئے نکل گئی جو کہ بہت اہم تھی۔

 

دفتر پہنچ کر اپنے آفس کی طرف جاتے ہوئے اسے عالیہ آتی دکھائی دی اس نے رک کر اسکا انتظار کیا تھا۔ عالیہ کے قریب آتے ہے وہ دونوں کمرے کی جانب بڑھ گئیں تھیں۔

 

"تیاری مکمل ہے؟"  عجلت بھرے انداز میں پوچھا گیا تھا۔

 

"جی ابھی دیکھ کر ہی آئی ہوں ،،، ٹیم آدھے گھنٹے تک آئے گی"۔ عالیہ کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے مزید معلومات فراہم کرتے بولی تھی۔

 

"اوہ۔۔ اچھا۔۔ چلو پھر ایک چکر لگا آئیں بالائی منزل کا۔۔۔" وش مصروف انداز میں کہتے اٹھی تھی۔

 

"ہممم۔" عالیہ بھی اسکے پیچھے چل پڑی تھی۔

 

یہ ایک تین منزلہ عمارت تھی۔ دروازے سے اندر کی جانب آتے ہوئے دائیں ہاتھ پر باغیچہ تھا جوکہ زیادہ وسیع نہیں تھا۔ اسکے آگے داخلی دروازہ تھا جسکے بائیں طرف ایک سوبر مرکزی دفتر تھا۔

 

نچلی منرل پر دو اور دفاتر تھے جبکے باقی بالائی منزلوں پر دائیں بائیں اشیاء ضرورت سے مزئین کمرے تھے۔

 

یہ منزل "اولڈ ہوم" کے نام سے جانی جاتی۔ یہاں رہنے والوں کی اچھی طرح دیکھ بال کی جاتی تھی۔ دھیمے مزاج اور انکساری سے یہاں کے کام کرنے والے حالات سے ستائے لوگوں کی دلجوئی کرتے تھے۔ ہر چیز اپنے سلیقے مند کی مثال اس لئیے تھی کہ یہاں توازن برقرار رکھنے کے لئیے انتظامیہ ہمہ وقت کوششوں میں جتی رہتی تھی۔

 

"چیک اینڈ بیلنس" کسی بھی چیز کی خوبصورتی کو نکھار دیتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ اور کمی بیشی توازن میں ارتعاش پیدا کرکے اسکی خوبصورتی کو زائل کردیتی ہے۔

 

مختلف کمروں کا جائزہ لے کر ، کچھ ان کی سن کر کچھ اپنی سنا کر وہ ٹیم کی آؤ بھگت کے لئیے کانفرس روم میں آئی تھیں۔

 

ٹیم کا پر تباک استقبال کے بعد باقائدہ انکے یہاں آنے کے مدعے پر گفتگو کا دور شروع ہوا تھا۔

 

یونیورسٹی کے نفسیات کا مطالعہ کرنے والے طلبہ و طالبات اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔

 

سب پروفیسر کے وش ملک سے بات کے اختتام کا انتظار کر رہے تھے جوکہ ضروری ہدایات دے رہی تھیں۔

 

"جیسا کہ آپ سب   آج یہاں آنے کا  مقصد جانتے ہیں۔ ہمارا موضوعِ غور تنہائی کے شکار لوگوں  کا مطالعہ کرنا ہے کہ ایسی کونسی سوچ یا چیز  انکو تنہائی  کی طرف دھکیل رہی ہے ۔

ہم یہاں موجود مختلف مزاج کے لوگوں سے مل کر انکے عادات و اطوار کے متعلق پوچھیں گے پھر اسے اپنے پاس محفوظ کرکے اپنا مقالہ بنائیں گے۔" وش سے بات کرنے کے بعد پروفیسر حبیب نے تفصیلا اگلا لائحہ  عمل بتایا اور گروپس میں طالبات کو بانٹ کر ان لوگوں کی طرف بھیجا تھا اپنی نگرانی  میں سوال و جواب کروائے اور ضرورت پڑنے پر ساتھ ھی وہ غلطیوں  کی تصیح بھی کرتے گئے تھے۔

 

 

چار گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ اپنا کام نبٹا کر فارغ ہوئے تھے۔ اس دوران وش بھی انکے ہمراہ رہی تھی۔

 

"امید ہے آپکا مقصد پورا ہوگیا ہوگا۔۔۔"

 

"جی اللہ کا کرم ہے۔باقی ان کے نتائج سے میں بروقت آپکو آگاہ کر دوں۔۔ آپکے اس تعاون کا میں اور میری ٹیم دلی مشکور ہیں۔"

 

ٹیم کے جاتے ہی وہ اپنے دفتر آئی تھی۔ چائے کا بول کر کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر وہ آنکھیں موند گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ملازم چائے تھامے اندر آیا اور اسکے سامنے پیش کرتے چلا گیا تھا۔

 

چائے کی آخری چسکی لیتے ہوئے اسکی نظر میز پر پڑے فون کی طرف گئی جسے وہ آج صبح سے ہی فراموش کیے بیٹھی تھی۔ وہ فون لے کر اسے کھنگالنے لگی دو سے تین کالز اور مسیجز اسکرین پر جگمگا رہے تھے۔

 

ان نون نمبر سے موصول ہوئی کال پر دوبارہ کال کی تو شک یقین میں بدلا ، نمبر دیکھتے اسے جانے کیوں ہسپتال کا گمان ہوا تھا۔ اسکی ہوش کی اطلاع سے وش کے اعصاب ڈھیلے ہوئے تھے۔ عالیہ کو فون کرکے وہ اپنی مصروفیت بتا کر وہاں سے ہسپتال کی لئیے روانہ ہوئی تھی۔

 

جاری ہے۔۔۔

 

Post a Comment

0 Comments