Hui Jo Ulfat By Iram Tahir 25

صبح کا اجالا ہر سو پھیل چکا تھا۔ رات کی تاریکی کو سورج نے اپنی روشنی سے چیرا تھا۔ آلارم کی آواز سے اس کی نیند میں خلل ہوا تھا۔ کسملندی سے لیٹے لیٹے اس نے آلارم بند کیا اور کروٹ لے کر پھر آنکھیں موند گیا۔ ردا کمرے میں آلارم کی آواز سے ہوتی ارتعاش پر کسمسا کر دوبارہ سو چکی تھی۔ زوار پانچ منٹ یونہی آنکھیں موندے اٹھنے کی ہمت متجمع کرکے ، آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھا تھا۔ رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے آنکھیں نہیں کھل رہیں تھیں۔ مگر وہ جبر کرتا جمائی کو بائیں ہاتھ کی پشت سے روکے بستر سے اٹھا تھا۔
اپنے کپڑے الماری سے نکال کر اس نے ردا کی طرف دیکھا تھا جو خوابِ خرغوش کے مزے لے رہی تھی۔ کپڑوں کو ہاتھ میں پکڑے وہ اسکی طرف آیا تھا۔ ایک نظر اسکا معصوم چہرہ دیکھ کر زوار نے دائیں ہاتھ سے اسکا کندھا ہلایا تھا۔
"ردا اٹھو صبح ہوگئی ہے۔" مگر ردا میڈیم کے تو کان میں جوں تک نہ رینگی تھی۔ جس پر زوار نے اسے دوبارہ ہلایا تھا۔
"اٹھو نا دیر ہورہی ہے مجھے۔"
"ہوں۔۔۔آں ہاں مجھے نیند آئی ہے۔ مجھے سونا ہے ابھی۔" نیند میں ڈوبی آواز میں احتجاج کیا گیا تھا۔ اپنی نیند میں خلل اسے ذرا برابر بھی پسند نہیں آیا تھا۔
"روز ہی آتی ہے کوئی نہی بات نہیں ہے۔ پلیز اٹھو۔" اب کی بار زوار نے خلافِ معمول نرم لہجے میں کہتے اسکے بائیں بازو کو نرم گرفت سے پکڑ کر اسے بٹھایا تھا۔ جس پہ وہ تلملا کر اپنے کھڑوس شوہر کو گھورنے لگی تھی۔
"منہ ہاتھ دھو کر فریش ہوجاؤ تب تک میں اپنا بیگ پیک کررہا ہوں اور جلدی آنا مجھے آفس کے لیے تیار بھی ہونا ہے۔" اسکی گھوری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے زوار نے کپڑے دھیان سے بیڈ کی پائنٹی پہ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ ردا کی جھنجھلاہٹ کے باعث وہ اسکے پہلے فریش ہونے پر بضد تھا۔ کیونکہ عین ممکن تھا کہ زوار کے جاتے ہی اس نے دوبارہ بستر سنبھال لینا تھا۔
"آں ہاں۔ ہاں کیا مصیبت ہے ، زندگی عذاب کرکے رکھ دی ہے میری اس کھڑانٹ نے۔ کھڑوس کہیں کا سونے بھی نہیں دیتا کوئی مجھے۔" وہ اندر ہی اندر آنسو پیتی پیر پٹختی واش روم میں گھسی تھی۔ اور دھرام سے دروازہ بند کیا تھا۔ جس پہ بےساختہ زوار کے لبوں پر میٹھی سی مسکراہٹ رینگی تھی۔ وہ سر جھٹک کر اپنے آفس کی تیاری کرنے لگا تھا۔
پانچ منٹ کے بعد وہ دھلا چہرہ لیے باہر آئی تھی۔ مزاج ابھی بھی برہم تھے۔ وہ منہ کڑوے بادام کو چباتے باہر آکر اسکے سر آن دھمکی تھی۔ زوار اپنی فائل بیگ میں رکھ کر سیدھا ہوا ہی تھی کہ ردا کو اپنے پاس کھڑے دیکھا تھا۔ جو استفہامیہ نظروں سے دیکھ کم اور گھور زیادہ رہی تھی۔ مقصد آگے کا لائحل عمل جاننا تھا۔
"چلو آپ میں بس دس منٹ میں آتا ہوں۔" وہ مسکرا کر نرمی سے بول کر آگے بڑھا تھا۔ جبکہ صبح ہی صبح اسکا فریش موڈ اور مسکراہٹ دیکھ کر ردا اندر تک کڑھ کر رہ گئی تھی۔ وہ آخری حد تک برا منہ بنا کر کمرے سے باہر نکلی تھی۔ اندر ہی اندر اسکا دل کررہا تھا کہ اپنے انکل کے بال نوچ دے چونکہ یہ ناممکن تھا تو وہ زور سے چیخنے پہ راضی تھی کم از کم اس طرح سے جو صبح سے اسکے اندر بھراس بھر رہی تھی اسکو تو نکلنے کا راستہ مل جاتا۔
وہ اپنا سا منہ لے کر نیچے آئی تھی جہاں ساریہ ناشتہ بنا رہی تھی۔ آج اسکا موڈ معمول سے ہٹ کر زیادہ خوشگوار تھا اور یہ احان کی محبت کا اعجاز تھا۔
ردا چلتی ہوئی لاؤنج میں بیٹھی شائستہ کے پاس آئی تھی۔ اس کو آتے دیکھ کر شائستہ نے مسکرا کر اپنی روٹھی بہو کو خوش آمدید کہا تھا۔ جبکہ وہ ابھی بھی منہ بسور اسکے پاس آکر رکی تھی۔
"اٹھ گئیں۔ کیسی ہے میری بیٹی۔۔؟" اسکو اپنے پاس بیٹھاتے شائستہ نرمی سے گویا ہوئی تھی۔
"جی ، میں ٹھیک ہوں آپ ٹھیک ہیں۔؟" دھلے صاف شفاف چہرے پہ شہابی پھولے ہوئے گالوں کے ساتھ وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔
"اپنی بیٹی کو دیکھ کر اب ٹھیک ہوں۔ کیا ہوا ہے منہ کیوں بگاڑ ہوا ہے؟" شائستہ اسکے پھولے گال دیکھ کر مستفسر ہوئی تھی۔
"رات کو میں اتنا تھک گئی تھی اب اٹھا نہیں جارہا تھا۔" مسکین بھرے لہجے میں وجہ بتائی گئی تھی۔ جس پہ شائستہ مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔
"ناشتہ کرکے سوجانا۔"
"اچھا۔۔۔ ساریہ آپی کیچن میں ہیں۔۔؟" وہ ادھر ادھر دیکھتے مستفسر ہوئی تھی۔
"ہوں۔"
"مجھے پیاس لگی ہے میں پانی پی کے آتی ہوں۔" وہ مسکرا کر کہتی کیچن میں آئی تھی۔
"السلام علیکم مما۔۔" ردا کے جاتے ہی آفس کی مخصوص تیاری کیے زوار لاؤنج میں آیا تھا اور اپنی جان سے عزیز ہستی کو دیکھ کر وہ ہشاش لہجے میں کہتا ، جھک کر اسکے بالوں میں بوسہ دے کر ، زندگی سے بھرپور مسکراہٹ سجائے شائستہ کے پاس بیٹھا تھا۔
"وعلیکم سلام میری جان۔" وہ اسکے چوڑے شانے پر اپنا دائیں ہاتھ رکھ کر ہولے سے تھپتھپاتی ، لہجے میں پیار سموئے بولی تھی۔
"ناشتہ نہیں بنا۔۔؟" گھڑی پہ اک نظر ڈال کر وہ مستفسر ہوا تھا۔
"بس تیار ہی ہے۔ تم نے ردا کو زبردستی کیوں جگایا تھا سونے دیتے اسکو تھک گئی ہوگی۔" بھلا ایسے کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی بہو کے ساتھ ہوئے ظلم کے خلاف نہ بولتی۔
"مما صبح ناشتے پہ ہی ہم سب ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں پھر سارا دن تو میں گھر نہیں ہوتا۔ ویسے بھی مجھے اچھا لگتا ہے یوں سب کا ایک ساتھ ناشتہ کرنا۔" ردا کو صبح صبح جگانے کی یہی وجہ تھی۔ اور وہ ٹھیک بھی تھا رات کو کبھی کبھی وہ لیٹ بھی ہوجایا کرتا تھا مگر وہ شروع سے ہی صبح کا ناشتہ ایک ساتھ کرنا پسند کرتا تھا۔
"ناشتہ تیار ہے بھائی۔" اس سے پہلے کہ شائستہ کچھ کہتی ، ساریہ نے آکر کہا تھا۔ جس پہ وہ دونوں سر ہلا کر اٹھے تھے۔
سب اپنی اپنی جگہ سنبھالے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔ زوار نے جلدی سے اپنا ناشتہ پورے کرکے عجلت میں ردا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"رات کو آٹھ بجے تک تیار رہنا علی کی برات ہے آج۔"
"مجھے نہیں جانا آج۔" وہ جو پہلے ہی منہ بگاڑے بیٹھی تھی زوار کی بات سن کر مزید منہ بگاڑ کر بولی تھی۔ زوار نے اسکی سابقہ حرکتوں کو ذہن نشین کرتے ہوئے بغیر کوئی بات کئے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ جبکہ ان دونوں کا عجیب سا انداز دیکھ کر شائستہ نے تیوری چڑھا کراستفسار کیا تھا۔
"کیوں نہیں جانا۔؟"
"مما یہ کل بھی وہاں بور ہورہی تھی۔ اس لیے آج میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔" وہ کہتے ساتھ سب سے سلام کرکے آفس کے لیے نکل گیا تھا۔
"مزہ نہیں آیا تھا کل۔؟" ساریہ نے حیرت میں بھنوئیں اچکائے ردا سے پوچھا تھا۔
"نہیں۔" نیند کی دیوانی ، نیند میں جھولتی بیزار ہوکر بولی تھی۔
"ہممم اچھا۔" اس کے جواب پہ ساریہ سر جھٹک کر اپنی پلٹ پہ جھک گئی تھی۔ جبکہ شائستہ پرسوچ نگاہوں سے ردا اور زوار کے سرد انداز کو سوچنے لگی تھی۔
احان کے امتحانات کو ختم ہوئے دوہفتے ہونے والے تھے۔ اور اس دوران اس نے ساریہ کی ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ کبھی کال کبھی مسیج ، اس پہ اسکا ، بات کو بڑھانے کا فن۔
احان نے مجت کی چاشنی سے اسے اپنی شوخ باتوں کے حصار میں کسی متاعِ جان کی طرح محصور کیا تھا۔ شان سے اس کی چاہت کی چادر اوڑھنے والی وہ خاص سی لڑکی اس قید میں صدقِ دل سے اپنا آپ ، اپنا صاف شفاف ہیرے کی طرح چمکتا دل اور محبت و حیا کے خوبصورت رنگ اپنی غزالی آنکھوں میں لیے اسکے حصار میں محصور تھی۔
زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی۔ مصروفیت کی وجہ سے آجکل زوار دیر سے گھر واپس آرہا تھا جس کی وجہ سے اسکی اور ردا کی نوک جھوک میں بھی کافی فرق آیا ہوا تھا۔
اس وقت سب خاموشی سے رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ آج زوار جلدی گھر آگیا تھا۔ اس لیے سب مل کر کھانا کھا رہے تھے۔
"پڑھائی کب سے شروع کرنی ہے۔؟" کھانا کھاتے دوران اچانک زوار کے دماغ میں جھماکا ہوا تھا۔ وہ روز یہ بات کرنے کا سوچتا تھا۔ مگر گھر آتے تک یہ بات اسکے دماغ سے نکل جاتی تھی۔ ابھی بھی کھانا کھاتے دوران یہ بات یاد آتے ہی اس نے بھنوئیں اچکا کر استفہامیہ نظروں سے ، کھانے کے ساتھ بھرپور انصاف کرتی ، ردا کی طرف دیکھا تھا۔
زوار کی بات اسکی سماعتوں سے ٹکڑانے کی دیر تھی کہ ردا کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔ اس سوال پہ اسکا ننھا دل احتجاجاً دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ وہ حد درجہ بچارگی اپنے معصوم چہرے پہ سجا کر اپنی افسردہ آنکھیں اٹھا کر اس کی استفہامیہ نگاہوں میں دیکھنے لگی تھی۔ اور پوچھ رہی تھی کہ بریانی کی پلیٹ کے آگے اتنا دل جلانے والے سوال کی کیا تک تھی۔
زوار کی بات پر ساریہ اور شائستہ بھی پلیٹ پہ جھکی اپنی نگاہیں اٹھا کر ردا پر مرکوز کرچکی تھیں۔ گویا وہ بھی اسکے شاہانہ جواب کی منتظر تھیں۔
مسلسل ردا کو خاموش آنکھوں سے اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ پھر سے سوالیہ ہوا تھا۔
"کب کرنی ہے۔؟"
"کھرانٹ انکل شروع ہی نہیں کرنی۔۔۔!" وہ جلے دل کے ساتھ دل ہی دل میں بولی تھی۔ مگر سب کو اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ مجبوراً بولی تھی۔ اسے اپنی ہی آواز گہرے دکھ اور صدمے کی وجہ سے کھائی سے آتی سنائی دی تھی۔
"جی کرنی ہے۔۔"
"کب کرنی ہے۔" وہ چاولوں سے بھری چمچ منہ کر طرف بڑھاتا دل کو جلانے والا ایک اور سوال عام سے لہجے میں پوچھنے لگا تھا۔
"جلد ہی۔" یہ زہر خندہ جملہ بمشکل اسنے اپنے منہ سے نکالا تھا۔
"ہممم۔" وہ ہنکار بھرتا نپکن سے ہاتھ صاف کرتے اٹھا تھا۔ اسے آج رات بیٹھ کر اپنی اسائمنٹ پوری کرنی تھی۔
ردا تو جلے دل کے ساتھ اپنی پلیٹ پر بلاوجہ چمچ ہلا رہی تھی۔ زوار کی بات سے اسی بھوک بھک سے اڑی تھی۔ جبکہ ساریہ اور شائستہ دونوں انکے مکالمے کے دوران مسکرا کر انہیں دیکھتی رہیں تھیں۔
"کھانا کیوں نہیں کھا رہی۔۔۔؟" شائستہ کب سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے کھاتے نہ دیکھ کر وہ مستفسر ہوئی تھی۔
"بس پیٹ بھر گیا ہے۔" وہ زبردستی مسکرا کر بولی تھی۔ ورنہ اندر سے تو اسکا دل کررہا تھا کہ انکل نامی مخلوق کو گنجا کر دے جس نے بیٹھے بیٹھے نیا شوشا چھوڑا تھا۔
"پلیٹ صاف کرتے ہیں ورنہ اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں۔" شائستہ نے نرمی سے سمجھایا تھا۔ جس پہ وہ سر ہلاتی پلیٹ صاف کرنے لگی تھی۔ ساریہ نے اپنا کھانا کھا کر ٹیبل سے برتن اٹھانے لگی تھی۔
_____________________________________________
وہ کمرے میں آتے ہی اپنے کام میں مشغول ہو چکا تھا۔ اس کی نیت جلد از جلد کام نبٹھا کر سونے کی تھی۔ مسلسل کام اور پڑھائی کی وجہ سے اسکا بدن تھکن سے چور تھا۔
_____________________________________________
کھانے کے بعد ردا ، ساریہ اور چائستہ ادھر ادھر کی باتوں میں لگ گئی تھیں۔ پھر دس بجے کے قریب ساریہ اور ردا اٹھ کر کیچن میں آئیں تھیں۔ رات کے کھانے کے برتن دھونے کے ساتھ ساریہ نے چائے کے لیے پانی بھی اوپر رکھ دیا تھا۔ ردا بھی اب برتن دھونے میں اسکی مدد کروانے لگی تھی۔
برتن دھو کر ردا کیچن میں موجود کرسی پر ہی گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی تھی۔ ساریہ اب چائے بنانے لگی تھی۔ ردا چائے نہیں پیتی تھی اس لیے دودھ کا گلاس ساریہ نے اسکے سامنے رکھا تھا۔ جسے وہ گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی۔ دس منٹ بعد ساریہ چائے چھان کر کپوں میں نکال رہی تھی۔
"ردا بھائی کو چائے دے دو۔" وہ چائے کا کپ ٹرے میں سجا کر میز پہ رکھتے ہوئے بولی تھی۔ جبکہ ردا منہ بناتی اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے ننھے دماغ میں ابھی بھی زوار کی پڑھائی کے بارے میں بازگشت چل رہی تھی۔
"پتہ نہیں مما کو بھی بس یہ سڑا ہوا کریلے جیسا انکل ہی ملا تھا میرے لئے۔" وہ ٹرے پکڑے کمرے میں جاتے ہوئے دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ زوار کی بات سے اسے اپنے ساتھ کسی انہونی کے ہونے کی شعاعیں آرہی تھیں۔ کیونکہ وہ جو کہتا تھا کرتا بھی تھا۔ اسی بات کے زیرِ اثر اسنے دھڑام سے دروازہ کھولا تھا۔ وہ جو بڑی انہماک سے کام میں مصروف تھا۔ چونک کر دروازے کی طرف دیکھنے لگا تھا جہاں اسکی جان کا عذاب منہ غبارے کی طرح پھلا کر ٹرے تھامے اندر آرہا تھا۔
"چائے۔۔۔۔" (اللہ کرے یہ آپ کے ہوم ورک پر گر جائے) وہ اس کے سر پر کھڑی عجیب بےدھنگے انداز میں چائے پیش کررہی تھی۔
"یہاں رکھ دو۔" وہ غلطی سے اپنی بیوی کی ذہانت سے واقفیت بھول کر بولا تھا۔ کیونکہ اب اس بیچاری کو کیا پتہ کہ یہاں کا مطلب سائیڈ ٹیبل پر رکھنے سے مراد تھا۔
جبکہ یہاں رکھ دو سن کر ردا کشمکش میں مبتلا ہوگئی کہ کہاں رکھے۔ اس لیے وہ کبھی ناسمجھی میں زوار کے جھکے سر کو دیکھتی تو کبھی نیچے پڑے اسکے کام کو۔
ہنوز اسکو اپنے سر پر کھڑا دیکھ کر زوار نے اس کی عقل پہ ماتم کرتے ہوئے ، نظریں نیچے کیے ہی چائے کا کپ تھامنے کے لیے ہاتھ لمبا کیا تھا۔ اتنی دیر بعد ہاتھ آگے کر وہ جھلا کر کپ اس کے ہاتھ پر پٹخ کر پیچھے مڑی تھی۔ ایک لمحے میں ہی زوار کی تیز آواز نے اسے پلٹنے پر مجبور کیا تھا۔
"آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ تمہیں عقل ہے۔۔۔؟ " کپ پکڑتے ہوئے توازن کے بگڑنے کی وجہ سے چائے کا کپ الٹا تھا۔ تھوڑی چائے اسکے بائیں ہاتھ کی پشت پر گری تھی۔ اور باقی کی چائے کپ سمیت زمین پر پڑی تھی۔ چائے کی کچھ چھینٹیں اسکی اسائمنٹ پر بھی گری تھیں ، جس پہ وہ تلملا اٹھا تھا۔ ہاتھ کو جھڑک کر اس نے جلدی سے نیچے دیکھا تھا جہاں اسکی اسائمنٹ پر چائے گر کر اسے منہ چڑا رہی تھی۔

Hui Jo Ulfat By Iram Tahir 25


"میں نے کیا کیا ہے۔۔۔؟" جبکہ اس کی جھنجھلاہٹ پر ردا ہولے سے منمنائی تھی۔
"جان بوجھ کر گرائی ہے تم نے۔۔۔" اپنی کام پر چائے پھرتے دیکھ کر اسکا خون خول اٹھا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ رداکو ایک لگادے۔ مگر ویسے ہی بیٹھے اسنے تیز نظروں سے اسے گھورا تھا۔
"میں نے نہیں گرائی ، آپ نے گرائی ہے۔" اسکے تیور دیکھ کر ردا بھی میدان میں عود آئی تھی۔ بس زوار کی برداشت یہاں تک کی تھی۔ اس نے مٹھیاں بھینچ کر غصہ ضبط کیا تھا۔ ردا نے بھنوئیں اکٹھی کرکے اسکی یہ کروائی تھی۔
"کیوں میری جان کا عذاب بنی ہوئی ہو۔" وہ دانت پیس کر بولتے ہوئے ، چیزیں سائیڈ پر کرتا ، اٹھ کر واشروم میں گیا تھا۔
واپس آکر اسے وہیں کھڑا دیکھتے ہوئے وہ جھلا کر بولا تھا۔
"اب جا کیوں نہیں رہی ہو۔۔؟"
"کہاں جاؤں۔" ردا نے اسکے ہی انداز میں پوچھا تھا۔ اس کو تو یہ انکل زہر لگ رہا تھا۔ ایک تو خود غلطی کی ہے اور اب مجھے خواہ مخواہ ڈانٹ رہے ہیں۔
"روز کہاں سوتی ہو۔۔۔؟" ردا کی بےتکی باتوں پر اسنے بےساختہ اپنا ماتھا پیٹا تھا۔سرد آہ باہر انڈھیل کر وہ اپنے آپ کو پرسکون کرنے کے جتن میں گھل رہا تھا مگر سامنے کھڑے اسکی اکلوتی بیوی اسکا کڑا امتحان لینے پہ تلی ہوئی تھی۔ ایک تو اسکی اسائمنٹ خراب کروائی اور اب اپنی بونگیوں سے اسکا پارہ مزید ہائی کررہی تھی۔
"وہاں سوتی ہوں۔۔۔!" زوار کے رویے سے وہ منہ پھلا کر ہاتھ سے بیڈ کی دوسری طرف اشارہ کرنے لگی تھی۔ زوار نے چہرے پر مصنوعی ہنسی سجاکر اسے بیڈ پہ سونے کا کہا تھا۔ تاکہ وہ مزید اسکی باتوں سے محفوظ رہے۔
"تو براہ مہربانی وہاں اپنی تشریف کا ٹوکڑا لے جائیں۔ اور سو جائیں ورنہ میں اب۔۔۔"
"ڈانٹیں گے نا آپ اور آپکو آتا ہی کیا۔ میں نے نہیں جانا۔ بلکہ میں نے یہاں رہنا ہی نہیں ہے۔" اس نے زوار کی بات کاٹتے ہوئے تیکھے لہجے میں کہا تھا۔ آخر میں وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتی دروازے تک جانے لگی تھی۔ زوار نے دائیں ہاتھ سے پیشانی مسل کر ، ایک جست میں اس تک پہنچ کر پیچھے سے اسکا بازو اپنی گرفت میں لیا تھا۔
"کہا جاؤ گی ہاں۔۔۔؟" ردا کی اس حرکت نے اسکے غصے کو ہوا دی تھی۔ وہ نم آنکھوں سے زوار کی تیز نگاہوں میں دیکھتے ہوئے منہ بسورتے ہوئے بولی تھی۔
"آنٹی کو شکایت لگانے جاؤں گی کہ آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں۔" چلو جی ردا نے اپنی ذہانت سے ایک نیا کھاتا کھول دیا تھا۔ وہ انجانے میں مسلسل زوار کے غصے کا گراف بڑھا رہی تھی۔
"تمہیں میں نے کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ کمرے کی باتیں باہر نہیں کرنی۔" وہ ہنوز اسکی بازو پکڑے ، کڑے تیور لیے اسکو گھور رہا تھا جیسے سالم نگلنا چاہتا ہو مگر شاید وہ یہاں بھی غلطی پر تھا کیونکہ ردا نے ضرور ہڈی بن کر اسے گلے میں اٹک جانا تھا۔
وہ سوں سوں کرتی اپنا بازو چھڑواتی بیڈ کی طرف بڑھی تھی۔ غصے سے گالوں پر لڑھکتے آنسو رگڑ کر دوپٹہ تکیے کے ساتھ پٹخ کر وہ دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹی تھی۔ زوار تو حقا بقا اسکا رد عمل دیکھتا رہ گیا تھا۔ اسکی ساری کاروائی دیکھ کر وہ سر جھٹک کر دوسری طرف آیا تھا۔ اسکے بعد وہ خاموشی سے کام کرنے لگا تھا شکر تھا زیادہ کام خراب نہیں ہوا تھا۔
ساڑھے بارہ بجے وہ کام مکمل کرکے انگڑائی کے کر سیدھا ہوا تھا۔ اسی دوران کب سے دبائی ہوئی ردا کی ہچکی نکلی تھی۔ وہ ابھی بھی رونے میں مشغول تھی۔ زوار نے چونک کر اسکی پشت کو دیکھا تھا۔
سوں سوں کی آتی آوازوں کی وجہ سے وہ تھوڑا اسکی طرف کھسک کر ، اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھے اسکا رخ اپنی طرف کرنے لگا تھا مگر ردا نے مخالف سمت زور لگا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟ کیوں رو رہی ہو۔۔۔؟" اب اس کے لہجے میں غصے کا کوئی عنصر نہ تھا۔
"ہنہہ اتنا ڈانٹ کے اب پوچھ رہے کیوں رو رہی۔ سڑیل ، گندے ، سڑی ہوئی سلانٹی نہ ہو تو۔" وہ دل ہی دل میں اسکو سلواتیں سنا رہی تھی۔
"جاگ رہی ہو تو بول کیوں نہیں رہی۔۔؟" اسکو ہنوز خاموش دیکھ کر زوار نے اسکا رخ اپنی طرف کرکے اسکی خفگی بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پھر سے سوال کیا تھا۔
"میں نے نہیں آپ سے بولنا۔" وہ پھوں پھوں کرتی بولی تھی۔ (اب ایسے بن رہے ہیں جیسے ڈانٹا ہی نہ ہو۔)
"کیوں۔" زوار ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے سوالیہ ہوا تھا۔
"میں کیوں بتاؤں۔" وہ چڑ کر کہتی اپنی رخ موڑ گئی تھی۔
"میرا میرا کام خراب ہوا تھا تو غصہ تو آئے گا نہ۔" زوار نے آنکھ تیڑھی کرکے اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے اپنے حافظے کو کھنگالہ تھا۔ پھر تھوڑی دیر پہلے ہونے والی ہاتھ پائی یاد آنے پر وہ مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے بولا تھا۔اور پھر سے اسکا رخ اپنے طرف کرنے لگا تھا۔
"مجھے نہیں پتہ مجھے سونے دیں۔" وہ بھرپور بیوی کا سا روپ اپنائے ، چہرے پہ بیزاریت سجائے ، دل ہی دل میں مزید نخرے دیکھانے کا سوچتے ہوئے بولی تھی۔ وہ اب زوار کو اچھا خاصا زچ کرنے کے موڈ میں تھی۔ آخرکار پڑھائی جیسی غلط بات کرنے کا بھی تو بدلہ لینا تھا۔
"اچھا کل باہر لے کر چلوں گا اب دوستی کرلوں۔" اس کو بھاؤ نہ دیتے ہوئے دیکھ کر ، زوار نے لالچ دے کر اپنی جان چھوڑوانی چاہی تھی۔
"مجھے نہیں کرنی آپ سے دوستی وستی۔" (ہنہہ بس باہر ۔۔۔؟ میں تو پڑھائی نہ کرنے کی شرط رکھوں گی انکل صاحب۔)۔۔۔۔وہ منہ پھلا کر کہتی دوسری طرف رخ کر کے اسے منہ چڑاتے ہوئے کہنے لگی تھی۔
"ٹھیک ہے پھر کل میں ساریہ اور عبیرہ باہر چلے جائیں گے تمہیں نہیں لے کے جائیں گے۔" وہ سیدھا ہوتا چڑانے کے لیے بولا تھا مگر وہ شاید بھول گیا تھا کہ اسکی بیوی کے پاس دنیا کے ہر سوال کے لاتعداد جواب ہیں۔
"ساریہ آپی نہیں جائیں گئیں اگر میں نہیں گئی تو۔۔۔" وہ ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے انداز میں بولی تھی۔
"اچھا پھر میں اور آپ اکیلے جائیں گے۔۔۔" وہ منہ بسور کر اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے خوشامدی لہجے میں گویا ہوا تھا۔
"میں نے نہیں جانا۔" وہ بضد تھی۔ اب تو زوار کا دل کر رہا تھا کہ ہر بات پر نہیں کرنی والی اس بچی کو کھینچ کے ایک لگائے۔ مگر ہائے رے قسمت وہ مروت میں اپنا آدھا خون جلا چکا تھا۔
"مرضی ہے پھر میں نے آئس کریم بھی کھلانی تھی۔"
اور کچھ آتا ہو یا نہ ہو بیویوں کی طرح منہ ضرور پھلانا آتا ہے۔ اب کل اس نے ڈھنڈورا بھی ضرور پیٹنا ہے اس بات کا۔ یااللہ کہاں پھنس کے رہ گیا ہوں۔ سارا مسئلہ ہی تو اس بات کا تھا کہ اس نے اصل بات تو بتانی بتانی تھی مگر ساتھ ساتھ اپنی مظلومیت بھری تصویر بھی کھینچنی تھی۔ پورے ایک گھنٹے کی تگ و دو کرنے کے بعد بھی وہ اپنی ضد کی پکی رہی تھی۔زوار دانت پیس کر اپنی جگہ پر لیٹ کر کراہ کر رہ گیا تھا۔
_____________________________________________
"احان مجھے سونے دیں اب۔ آپ تو میری نیند کے دشمن بن بیٹھے ہیں۔۔۔! " وہ ایک ہاتھ سے فون تھامے اور دوسرے ہاتھ کی پشت سے جمائی روکتے ہوئی خمار آلود آواز میں بولی تھی۔
ساریہ شائستہ کو چائے دینے کے بعد کمرے میں آئی تو فون بج بج کر پاگل ہو چکا تھا۔ آجکل تو وہ فون کمرے سے باہر لے جانے کی غلطی ہرگز نہیں کرتی تھی کیونکہ احان جیسے بندے کا اسے کوئی بھروسہ نہ تھا۔ پچھلے دو گھنٹوں سے کال پر باتیں کرکر کے وہ اب نیند میں جھول رہی تھی۔ مگر احان کو اس پہ ترس نہیں آرہا تھا۔
"تمہیں میرے سے ذرا پیار نہیں ہے۔" وہ اسے چڑانے کے لیے بولا تھا۔
"احان میں ساری رات آپ سے فون پہ بات کروں گی تب آپ کو یقین ہونا ہے۔۔۔؟" ساریہ شکوہ کنان نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
"تو سو کر خواب میں بھی تو مجھے ہی دیکھنا ہے اس سے اچھا خود بھی دیکھو مجھے بھی دیکھنے دو۔۔۔" احان نے شوخی سے کہتے شرارت سے آنکھ کا کونا دبایا تھا۔
"مجھے خواب نہیں آتے۔" وہ نیند میں جھولتی ، جان چھڑوانے والے انداز میں بولی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ جان اب پکڑی جانی تھی۔
"بس اب دیکھ لو ، میں تو روز سوچتا ہوں کہ جب ہماری شادی ہوگی۔۔۔۔"
"حان۔۔۔!" وہ مزید باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتے دیکھ کر روہانسی ہوئی تھی۔
"اچھا سو جاؤ۔ گڈ نائٹ بیٹر ہاف۔۔۔!" وہ مسکراہٹ دبا کر ، محبت سے بولا تھا۔ یہاں اسکا دل بہت مشکل لگا تھا۔ کسی بھی چیز میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہر وقت بس واپس جانے کا دل کرتا تھا
اس رات کے بعد ردا نے زوار کو صیحیح معنوں میں بتایا کہ وہ اب شادی شدہ مرد ہے۔ اگلے دن وہ صبح جانے سے پہلے ردا کو رات کو باہر جانے کاکہہ کر گیا تھا مگر کام کی مصروفیت کی وجہ سے وہ لیٹ آیا تھا۔ زوار کے نہ آنے پر اس کا خون مزید خولا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اس سے اگلے دو دن غبارے کی طرح منہ پھلائے بیٹھی تھی۔ مگر دل ہی دل میں وہ ایک بات کو لے کر خوش تھی کہ زوار نے پھر سے پڑھائی کا کوئی شوشا نہیں چھوڑا تھا۔
شام کو جلدی آنے کے بعد اس نے ردا کے غبارے سے پھونک نکالنے کے لیے اسے تیار ہونے کا کہا تھا جس پر وہ نہ سننے کی کمال اداکاری کررہی تھی۔ زوار نے اسکے تیویر دیکھ کر اسکے لیے بھی سزا سوچ رکھی تھی۔
"تیار ہو۔۔۔!" وہ اسکے پیچھے کھڑا ہوکر ڈریسنگ سے برش اٹھا کر بال بناتے ہوئے مستفسر ہوا تھا۔ شائستہ اور ساریہ کے بار بار کہنے پر وہ چار و ناچار تیار ہورہی تھی۔
"جی۔۔۔" وہ روکھے لہجے میں کہتی ، جوتے پہننے کے لیے بیڈ کی طرف آئی تھی۔ اسکے جاتے ہی زوار نے شیشے میں سے نظر آتی اسکی پشت دیکھ کر ، منہ چڑایا تھا۔ کیونکہ ان دو دنوں میں اس نے شائستہ سے اسکی اچھی خاصی کلاس لگوائی تھی۔
"جلدی آجاؤ مجھے بھوک لگی ہے۔" وہ پلٹ کر اسے کہتا کمرے سے باہر نکلا تھا۔
"کھانا تو اب میں کھلاؤں گی اس سڑی سلانٹی کو۔" وہ پھوں پھاں کرتی اسکے پیچھے کمرے سے نکلی تھی۔
وہ دونوں دس بجے کے قریب ہوٹل سے کھانا کم ، الٹ پلٹ چیزیں کھا کر نکلے تھے۔ زوار نے اس کے بگڑے منہ کی وجہ اسے آڈر دینے کا کہا تھا۔ ردا بھی اپنے نام کی ایک تھی اس نے ساری اوٹ پٹانگ چیزیں منگوا کر اسکا خون مزید جلایا۔ وہ بمشکل غصہ پیتا ردا کو برداشت کررہا تھا۔
اسکو آیس کریم کھلا کر وہ گاڑی نسرین کے گھر کی طرف موڑ چکا تھا۔
"کہاں جارہے ہیں ہم۔۔۔؟" وہ سنجیدگی سے گاڑی چلاتے زوار کو دیکھتے ہوئے مستفسر ہوئی تھی۔
"آنٹی سے ملنے۔۔۔"
"سچی۔۔۔! میرا بہت دل کررہا تھا مما کو ملنے کا۔" وہ خوشی سے چہکی تھی۔
پانچ منٹ تک وہ نسرین کے گھر پہنچ چکے تھے۔ نسرین کو ان دونوں کو یوں اچانک آتا دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ وہ حیرت اور خوشی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"جاؤ اپنا بیگ لے آؤ۔۔۔" کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد زوار شرافت کی عظیم ترین مخلوق سے تعلق جوڑے بڑے دوستانہ انداز میں ردا کے سر پر بم پھوڑ چکا تھا۔ اسکی بات سن کر تو ردا صدمے سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
"بیگ۔۔۔؟" نسرین نے ناسمجھی میں زوار کو دیکھا تھا۔
"اسکول بیگ ، آنٹی پیپر ہونے والے ہیں تو ردا کہہ رہی تھی کہ اسے پھر سے پڑھائی شروع کرنی ہے۔" زوار نے دھیمے لہجے میں مسکرا کر کہا تھا۔ زوار کی بات سے وہ سر سے لے کر پیروں تک سلگی تھی۔ اسکو اپنی جیسی حرکتیں کرتے دیکھ کر وہ غش کھا کر رہ گئی تھی۔ صدمے سے اسکی آنکھوں کی پتلیاں پھیلی تھیں اور زبان مارے صدمے کے تالو سے چپک گئی تھی۔
"اچھا۔۔۔! ردا وہ بیگ تمہیں نہیں ملے گا میں نے اسٹور میں رکھوا دیا تھا۔ تم تو پہلے ہی اتنا مشکل پڑھتی تھی تو میں نے سوچا کہ شادی کے بعد کیا ہی پڑھو گی۔" نسرین زوار کو حیرت سے دیکھتے ہوئے آخر میں سرد آہ بھرتے ردا سے نالاں ہوئی تھی۔ ردا تو ساس داماد کے گٹھ جوڑ کو دیکھ کر پیچ و تاب کھا کر رہ گئی تھی۔ اسکا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ زوار کو کنجا کردے۔ اور رہی سہی قصر نسرین نے بھی بڑے خوب انداز میں پوری کی تھی۔
"میں نے آپ سے کب کہا تھا کہ مجھے پڑھنا ہے۔" نسرین کے جاتے ہی وہ دبے دبے لہجے میں زخمی شیرنی کی طرح غرائی تھی۔
"میں نے کب کہا تھا کہ کمرے سے نکل جاؤں۔" زوار نے بھی اسی انداز میں بات کرتے ہوئے پرسوں کا واقعہ اسکے گوش گزار کیا تھا جب اس نے میسنوں کی طرح شائستہ کو کہا تھا کہ رات کو زوار نے اسے کمرے سے نکالا تھا۔ حالانکہ وہ بیچارا تو اسے بیڈ کا راستہ بتا رہا تھا۔
"آپ مجھ سے بدلہ لے رہے ہیں نا۔" وہ ایکدم روہانسی ہوئی تھی۔
"نہیں تو۔۔۔" ابھی وہ بات کررہا تھا کہ انہیں نسرین کی آواز سنائی دی تھی۔
"ردا۔۔۔!"
وہ زوار کو تیز نظروں سے گھورتی پیر پٹختی وہاں سے گئی تھی۔ پیچھے زوار تو اسکے اس شدید ردعمل پر حیرت سے اسے دیکھنے لگا تھا۔
"مما زوار نے جھوٹ بولا ہے۔ میں نے نہیں کہا کہ مجھے پڑھنا ہے۔" ردا اسٹور میں آتے ہی پھٹ چکی تھی۔ زوار کی پڑھائی والی بات نے تو اسکا ہاضمہ خراب کرکے رکھ دیا تھا۔
"ردا بہت بری بات ہے شوہر کے بارے میں ایسے نہیں کہتے۔" نسرین نے بھی چن کر اسکی پہلی بات پکڑے تھی۔ ردا کا تو دل کر رہا تھا کہیں دیوار پر سر دے مارے۔ جو کوئی نہیں اس کی سننے کی بجائے اپنی سنائی چلے جا رہا تھا۔
"مما مجھے نہیں پڑھنا نہ۔" وہ نسرین کو پلو نہ پکڑاتے دیکھ کر روہانسی ہوئی تھی۔ جھنجھلاہت لوں لوں میں پنہاں تھی۔
"تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا شوہر تمہیں پڑھا رہا ہے ورنہ کون پڑھاتا ہے۔" شاید سب نے آج اسے زچ کرنے کا مصمم ارادہ کیا ہوا تھا۔
"مما آپ ان میں سے ہی کوئی میرے لیے دولہا پسند کرلیتیں۔ بھئی مجھے نہیں پڑھنا۔" ردا نے منہ بسورا تھا۔ نسرین تو اسکی حماقتوں کو دیکھ کر تنک کر بولی تھی۔
"یہ نہ بیگ پکڑو اور اپنے شوہر سے بات کرو۔"
"مما۔۔۔!" وہ بےبسی کے اعلیٰ عہدے کی کرسی سنبھالے ہوئی گویا ہوئی تھی۔ نسرین اسکا ایک ہاتھ خود ہی آگے کرکے بیگ پٹخ کر اسٹور سے نکلی تھی۔
"توبہ استغفراللہ کتنا جھوٹ بولتے ہیں۔ یا اللہ ایسا سڑیل کھڑوس شوہر تو نے مجھے ہی دینا تھا۔ مجھے نہیں پڑھنا۔" وہ بیگ جو گھورتے جھنجھلا کر بولی تھی۔ زوار نے تو گویا ایک ہی بار میں اگلے پچھلے حساب برابر کیے تھے۔
وہ غم و غصے سے زوار کو دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ گھر کے لیے نکل چکے تھے۔
"مجھے نہیں پڑھنا۔" وہ سنجیدگی سے گاڑی چلاتے زوار کو دیکھ کر قطعیت سے بولی تھی۔
"میں آپکو بتا رہی ہوں۔۔۔!" اپنی بات کرکے وہ استفہامیہ نظروں سے زوار کو دیکھتے ہوئے اسکے جواب کی منتظر تھی۔ مگر وہ پھر خاموشی سے گاڑی چلانے میں مصروف رہا تھا۔
"اچھا پکا وعدہ آئندہ سے کوئی شکایت نہیں لگاؤں گی آنٹی سے ، پلیز نا نہیں پڑھنا مجھے۔" وہ دشمنوں کی چوکیوں سے نکل کر ، اپنا پینترا بدل کر مصلحت پسند ہوئی تھی۔
"ہممم۔" اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ پچھلے چار مہینوں سے طوطے کی طرح ایک بات رٹا رہا تھا مگر اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔ اب دیکھو اس ہیرون کو۔ نہیں بھئی اب تو میں پڑھا کر ہی چھوڑوں گا۔ دل ہی دل میں بڑابڑاتے اس نے ہنکار بھری تھی۔
"پکا وعدہ کریں نہیں پڑھائیں گے نا۔" ردا تند نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مستفسر ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا گھر آچکا تھا وہ منہ پھلائے گاڑی سے باہر نکلی تھی۔ اب بھی اس نے بیگ اٹھانے کی زحمت نہ کی تھی۔ زوار نے اسکی پشت کو گھورتے ہوئے پیچھے سے بیگ نکالا تھا۔
"کیا ہوا۔۔۔؟ یہ بیگ کس کا ہے۔۔۔؟" وہ ابھی لاؤنج میں ردا کی پیچھے آیا ہے تھا کہ شائستہ اسکے ہاتھ میں بیگ دیکھ کر حیرانی سے مستفسر ہوئی تھی۔
"میرا اسکول۔ بیگ ہے۔۔۔" ایک نظر زوار کو دیکھ کر اس نے بمشکل بولا تھا۔ (باہر لے کر جانے کا یاد نہیں رہتا بیگ کا یاد رہا ہے۔ مجھے صاف صاف پتہ ہے یہ سڑیل مجھ سے بدلہ لے رہے ہیں۔)
"او اچھا۔۔۔" زوار صوفے پہ بیگ رکھ کر گرنے والے انداز میں بیٹھا تھا۔
"آنٹی مجھے نہیں پڑھنا یہ مجھے زبردستی پڑھا رہے ہیں۔ اب آپ بتائیں شادی کے بعد پڑھائی ہوتی ہے کیا۔؟ ساریہ آپی آپ بتائیں۔۔۔؟" وہ سب بھلائے شائستہ کے قریب بیٹھ کر متانت سے بولتے ہوئے آخر میں ساریہ کی طرف رخ کر گئی تھی۔ ساریہ تو اسکے اچانک سوال پر گڑبڑا کر رہ گئی تھی۔ پھر سنبھل کر بولی تھی۔
"ارے بھائی بہت اچھے ہیں تمہارے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔" زوار تو اسکی بات سن کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا تھا کہ ایسے کونسے کارنامے یہ لڑکی سر انجام دے رہی ہے اپنے کمرے تو ابھی تک وہ خود پریس کرتا ہے۔
"زرا بھی نہیں اچھے ، ساری رات سونے نہیں دیتے صبح بھی جلدی جگا دیتے ، میری نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔" وہ رونی شکل بنا کر اپنی مظلومیت بھری زندگی پر روشنی ڈال رہی تھی۔ جبکہ اس بات سن کر زوار نے اپنا ماتھا پیٹا تھا۔ یا اللہ‎ اس آفت کی پرکالا کا کیا کروں میں۔ وہ کراہ کر رہ گیا تھا۔ جبکہ ساریہ اور نسرین تو اسکی بات سے محفوظ ہوتے ادھر ادھر دیکھنے لگیں تھیں مگر مجال ہو جو زوار کی اکلوتی بیوی کو ریت کے ذرے برابر بھی شئبہ ہو کہ اس نے بونگی ماری ہے۔
"آپ لوگوں نے کھانا کھا لیا ہے۔؟" وہ بات پلٹتے ہوئے بولا تھا۔
"ہممم۔ چائے لوگے۔۔۔؟" شائستہ مسکرا کر کہتی چائے کا پوچھنے لگی تھی۔
"نہیں مجھے نیند آئی ہے بہت ، میں سونے جارہا ہوں۔" وہ سر جھٹک کر کمرے میں جانے لگا تھا۔
جسکی بیوی ایسی کم عقل ہو اسے چائے نہیں زہر چاہیے ہوتا ہے۔
"آنٹی مجھے نہیں پڑھنا پلیز۔۔۔" اپنی بات سے دھیان ہٹا دیکھ کر وہ پھر سے روہانسی ہوئی تھی۔
"اچھا اس دفعہ پیپر دے دو پھر میں زوار کو آگے داخلہ نہیں کروانے دوں گی۔" شائستہ نے مسکراتے ہوئے اسے نئی تجویز دی تھی مگر اسے رتی برابر بھی پسند نہ آئی تھی۔
"آنٹی۔۔۔"
"اس دفعہ پیپر دے دو پھر اگلی دفعہ پکا نہیں کروانے دوں گی داخلہ۔" شائستہ نے گود میں دھرے اسکے نرم و گداز ہاتھ کو ہولے سے دباکر سمجھایا تھا۔
"اچھا۔" وہ دال نہ گلتے دیکھ کر سر ہلا کر رہ گئی تھی۔ نسرین نے تو پہلے ہی کوئی نرمی نہیں دکھائی تھی۔ زوار تو ویسے ہی اس فساد کی جڑ تھا۔ بس شائستہ بچی تھی مگر اس نے بھی نہیں مانی تھی۔
"میری بیٹی بہت اچھی ہے جلدی سے بات مان جاتی ہے۔ چلو جاکے سوجاؤ اب۔"
"اچھا گڈ نائٹ ، مگر آپ بھولنا نہیں اپنا پرومیس۔" وہ یاد دہانی کروانا نہیں بھولی تھی۔
"اچھا۔" شائستہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ ساریہ تو اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
وہ کمرے میں آکر غصے سے یہاں وہاں ٹہل رہا تھا۔ جنتا وہ غصے کو دبا رہا تھا اتنا وہ مزید ابل رہا تھا۔ اسکا ارادہ ردا کے دماغ کو ٹھکانے لگا تھا۔
"مجھے ذرا یہ بتانا میں نے کب تمہیں ساری رات جگا کر بیٹھایا ہے۔" اسکو اندر آتا دیکھ کر وہ مرچیں چباتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
"وہ۔۔۔" ردا ابھی منمنائی ہی تھی کہ زوار نے کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے اسکی بات کاٹی تھی۔
"نہیں مجھے بتاؤ تو ذرا کہ کب میں نے سوتے ہوئے تمہیں ٹانگ ماری ہو یا پھر بیڈ سے نیچھے دھکا دیا ہو؟ سارے بیڈ پر خود کوہ کاف کی شہزادی بنی لیٹی ہوتی ہو۔ اور میں جو کنارے پر ٹکا ہوتا ہوں وہ سونے نہیں دیتا۔
میرا کیا دماغ خراب ہے جو تمہیں جگاؤں اور اپنا میٹر شارٹ کرواؤں میں تو الٹا خوش ہو رہا ہوتا ہوں کہ تمہاری زبان شریف آرام فرما رہی ہے۔" شادی کے بعد سے اسکا غصہ جو اندر ادھر ادھر سر مار کر باہر کے راستے کا متلاشی تھا بلآخر آج ابل کر باہر آرہا تھا۔
"ٹانگ یا دھکا نہیں دیتے مگر ڈانٹتے تو ہیں وہ بھی اتنی زور کا۔" وہ منہ بسور کر بولتی ہوئی بیڈ کی طرف بڑھی تھی۔
"صبح اسکول جانا ہے تمہیں۔" زوار قطعیت سے کہتے ہوئے بیڈ کی طرف گیا تھا۔
"مجھے نہیں جانا۔" زوار کی بات اپنی سماعتوں سے ٹکڑاتے ہی وہ جھٹکے سے پلٹی تھی۔
"مجھے بھیجنا بھی آتا ہے اور اب میں تمہیں بھیج کر بھی دکھاؤں گا۔ لائٹ بند کرو۔" وہ تیز نظروں سے اپنی بیوی کو گھورتا ، تیکہ درست کرتے ہوئے بولا تھا۔
"میں نے نہیں کرنی کل بھی میں نے کی تھی۔" وہ ناک چڑائے بولتی ہوئی بیڈ پر نیم دراز ہوئی تھی۔ زوار تو اسکے صاف جواب پر مزید سلگ اٹھا تھا۔
"تمہارے اسی شاندار حافظے کی وجہ سے میں تمہاری ذہانت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔"
____________________________________________
زوار نے ایک دن کی خصوصی رعایت کے بعد اسکا اسکول جانا لازم بنا دیا تھا۔ جس پہ ردا نے کافی منہ بنایا اور ناراضگی دکھائی لیکن زوار نے اسکی ایک نہیں سنی اس معاملے میں گھر والے بھی اسکے ساتھ تھے تو ردا بیچاری کی ایک نہیں چلی اور وہ جس کی پڑھائی سے جان جاتی تھی اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پہ صبر کے گھونٹ لے کر رہ گئی۔۔۔
روز زوار کے لیۓ اسے جگانا تیسری جنگِ عظیم لڑنے کے برابر تھا ہر روز اسکی ایک ہی ضد ہوتی مگر چونکہ اسے بھی چن کر شوہر ملا تھا تو آخر میں بیچاری کو ناچارہ اسکول جانا ہی پڑتا تھا۔ آج بھی زوار اسے جگا رہا تھا۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہو رہی تھی۔ روز وہ اسے رات کو جلدی سونے کا کہتا تھا مگر ردا کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی تھی۔
"ردا اٹھ جاؤ پھر تم نے ناشتے پر بھی اور تیار ہونے میں بھی وقت لگانا ہوتا ہے۔۔۔"
ردا اسکے ہلانے پر کسمسا کر دوسری طرف کروٹ لے کر پھر سو گئی جس پر زوار نے اپنا سر پیٹ لیا تھا۔ اب کی بار اسنے زور سے پکڑ کر اسے بیٹھایا تھا۔
"کیا ہے آپ کو کیوں میری نیند کے دشمن بن گئے ہیں۔۔۔ پتا نہیں وہ کون سے شوہر ہوتے جو کہتے ہیں کہ اب شادی ہو گئی ہے اب کیا کرنا ہے پڑھ کر۔" ردا سختی سے جھنجھلا اٹھی تھی۔
" یار تم روز ایک ہی بات کیوں کرتی ہو۔۔۔" زوار نے اسکے پاس بیٹھ کر بےبسی سے پوچھا تھا۔
"بہت برے ہیں آپ۔۔۔" ردا نے ناچارہ اٹھنا ہی ٹھیک جانا تھا۔
"اسی لیۓ تو کہ رہا ہوں کہ پڑھ کے مجھے اچھا کر دو۔۔۔" زوار نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا اور وہ نیند میں ڈھولتی پاؤں میں سلیپر پہن کر واش روم میں گھسی تھی۔
جب وہ ریڈی ہو کر باہر آی تو زوار اپنا لپ ٹاپ بیگ میں ڈال رہا تھا۔ وہ چلتی ہوئی اسکے پاس آئی تو زوار نے ایک نظر اسکو دیکھ کر پوچھا تھا۔
"کیا ہوا۔۔۔؟"
"آج پلیز آپ لینے آجانا واپسی پر۔۔۔" وہ بگڑے منہ سے فرمائشی پروگرام کا آغاز کر چکی تھی۔
"ٹھیک ہے میں فری ہوا تو آ جاؤں گا۔۔۔فلحال جلدی کرو میں لیٹ ہو رہا۔۔۔" وہ عجلت میں کہتا تیار ہونے لگا تھا۔ جبکہ وہ آئینے میں اپنا عکس یونیفارم میں دیکھ کر سرد آہ بھرتی نیچے آئی تھی۔

جاری ہے۔  

Post a Comment

0 Comments