Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 24

زوار اسے تیار ہونے کا کہہ کر ، آدھے گھنٹے کے بعد شائستہ کے پاس سے اٹھ کر کمرے میں آیا ، تو وہ تا ہنوز اسی حلیے میں کھڑی تھی۔ زوار نے ان دونوں کو گھور کر جلدی کا کہا تھا جو الماری میں سر دئیے جانے کیا تلاشنے میں محو تھیں۔ دونوں نے پورا آدھا گھنٹہ لگا کر مہندی پہ پہننے کے لیے کپڑے چنے تھے۔
ساریہ نے جلدی سے کپڑے پکڑے اور اسے اپنے ساتھ لیے اپنے کمرے میں آگئی۔ آدھے گھنٹے میں اس نے ردا کو تیار کیا تھا۔ بس جیولری پہننی باقی تھی جو وہ جلدی جلدی میں کمرے سے اٹھانا بھول گئی تھیں۔ ساریہ نے اسے تیار کرکے کمرے میں جاکر جیولری پہننے کا کہا اور خود شائستہ کو ایک نظر دیکھنے کے لیے نیچھے آگئی۔
وہ سہج سہج کر چلتی اپنے کمرے میں آئی تھی جہاں زوار سنجیدگی سے اپنے بال بنا رہا تھا۔ اس نے وائٹ رنگ کی شکوار قمیض زیب تن کی ہوئی تھی۔ وہ نک سک سا تیار تھا۔ ردا دروازے کی اوٹ سے ایک نظر اسے دیکھ کر ڈریسنگ کے قریب آکر رکی تھی۔ زوار نے بال بنا کر ایک نظر اسکی طرف دیکھا تھا۔
مہندی کے فنکشن کی مطابقت سے اس نے گھٹنوں تک آتی اورنج رنک کی قمیض جس پہ گولڈن رنگ کی ہلکی ہلکی کڑھائی کا جال تھا ، ساتھ پلپ کلر کا شرار پہنا تھا۔ لیمن کلر کا جالی کا ڈوپٹہ جس کے کناروں پہ کرن لگی تھی ، کندھے پہ ڈالا ہوا تھا۔ ہلکے ہلکے میک اپ میں اسکی دودھیا رنگت خوب چمک رہی تھی اس پہ اسکا نازک سا انداز۔
زوار نے غیر ارادی طور پر فرصت سے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔ بلاشبہ وہ نازک سی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔ ردا کی کھٹ پٹ سے وہ ہوش میں آیا تھا۔ وہ جھرجھری لے کر برش ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھ کر کمرے میں موجود کرسی پہ بیٹھا تھا۔ جبکہ ردا کے لیے اب میچنگ جیولری سیلکٹ کرنا ایک محاذ تھا۔
وہ بار بار ایک ایک کرکے بندہ نکالتی اور اسے کانوں میں پہن کر دیکھتی۔ پھر پسند نہ آنے پر برا منہ بنا کر اسے اتار کر دوسرا پہن کر دیکھتی۔ زوار پیچھے بیٹھا شیشے سے اسکی ساری کاروائی دیکھ رہا تھا۔
"اور کتنی دیر لگنی ہے۔" وہ انتظار سے جھنجھلا کر کوفت سے بولا تھا۔ ردا نے منہ پھلا کر آئینے سے اسکی طرف دیکھا تھا۔
"تھوڑی سی بس۔" وہ مصروف انداز میں کہہ کر پھر نیچھے جھک گئی تھی۔
"دماغ ٹھیک ہے۔ مہندی آج رات کی ہے۔" مزید انتظار کا سن کر وہ تپ کر بولا تھا۔ ردا جو پہلے ہی بندے سیلکٹ نہ ہونے پہ جھنجھلائی ہوئی تھی اسکی بات سن کر منہ پھلا کر بولی تھی۔
"میں نے نہیں جانا۔"
"کیوں۔" زوار نے ناسمجھی میں بھنوئیں سکیڑیں تھیں۔ اندر سے اسکا دل کررہا تھا کہ وہ اسے دو لگا کر پوچھے جو اتنی دیر سے خوامخواہ انتظار کروایا ہے تب نہیں بتا سکتی تھی۔
"ایک میرے پاس کوئی پیارے سے اس ڈریس کے ساتھ کے بندے نہیں ہیں اوپر سے آپ ڈانٹی جارہے ہیں۔" وہ رونی شکل بنا کر بنا رکے سارے الزام اسکے کھاتے میں لکھ رہی تھی۔
"جتنی دیر آپ کررہی ہیں اس پہ کیا انعام دوں پھر۔" اسکی بات سن کر زوار نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔ جس سے ردا کا موڈ اور خراب ہوا تھا۔
"بس پھر میں نے نہیں جانا۔" وہ بضد ہوئی تھی۔ زوار نے بےبسی سے اسکی طرف دیکھا تھا جس نے صبر کے گھونٹ بھرنا اسکے نصیب میں لکھ دیا تھا۔ وہ اسے گھور کر گہری سانس خارج کرکے کرسی سے اٹھ کر ڈریسنگ کی طرف آیا تھا۔ ردا کن اکھیوں سے اسے دیکھنے لگی تھی۔ وہ باکس کھولے ایک ایک کرکے بندے دیکھ رہا تھا۔ اور دل ہی دل میں اپنی بیوی کو سلواتیں سنا رہا تھا۔ لو جی اب یہ کرنا باقی تھا میرا۔
دو تین بندے دیکھ کر وہ بلآخر اسکے ابھی کے لیے پہننے والوں کا انتخاب کرچکا تھا۔ وہ بندے تھامے اسکی طرف آیا تھا۔
"یہ لوپہنو۔" زوار نے بندے ہتھیلی پہ رکھ کر ، اپنی ہتھیلی آگے کی تھی۔
"میں نے نہیں جانا۔" وہ بھر ضدی ہوئی تھی۔
"ردا۔۔۔! ایک تو دیر ہورہی ہے اوپر سے آپ میرے دماغ کا رائیتہ بنا رہی ہو۔" زوار جھنجھلا اٹھا تھا ، اسنے ردا کو گھور کر اسکا ہاتھ پکڑا اور ہتھیلی پہ بندے پتخکے تھے۔
"جھوٹ۔۔۔! مجھے نہیں آتا رائیتہ بنانا۔" وہ مٹھی بند کرتی ، خفگی سے بولی تھی۔ زوار نے گھور کر اسکی طرف دیکھا تھا۔
"حالانکہ مجھے لگتا ہے آپکو بس یہی کام آتا ہے۔ یہ پہن کے نیچے آؤ۔" وہ اسے تاسف سے دیکھتا نیچے آنے کا کہہ کر پلٹا تھا۔
"چین کی ہک کون بند کرے گا۔" اسکو جاتے دیکھ کر ردا نے جھنجھلا کر پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔ جس پہ زوار مٹھیاں بھینچ کر پلٹا تھا۔ جھنجھلاہٹ سے اسکا برا حال تھا۔
"یااللہ مدد۔" وہ منہ میں بڑبڑاتا اسکی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ اور ایک نظر اس توپ کو گھور کر چین اس کے ہاتھ سے لے کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آیا تھا۔ ردا منہ بگاڑ کر اسکی پشت کو کھا جانے والی نظروں سے گھور کر اسکے سامنے آئی تھی۔ وہ چین اسکے گلے میں ڈالتا ہک بند کرنے لگا جو آج اسے ردا کا ہمسایہ لگا تھا۔ کیونکہ جتنا زوار اسکو بند کرنے کے جتن کررہا تھا اتنا ہی وہ تنگ کررہا تھا۔
"اففو کیا کررہے ہیں ، ہٹیں میں تھک گئی ہوں۔" مسلسل اسکی کوششوں سے زچ ہوکر ردا نے گہری سانس لے کر اسکے ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹھائے تھے۔
"ردا تمیز سے کھڑی رہو۔" وہ اسے وہیں سختی سے پکڑ کر آنکھیں دکھاتے ہوئے بولا تھا۔ جبکہ وہ منہ بسور کر سیدھی کھڑی اسکی کروائی دیکھنے لگی تھی۔ بلآخر وہ بند ہو چکا تھا۔ زوار شکر کا کلمہ پڑھ کر پیچھے ہوکر اپنے کپڑے ٹھیک کرتے بولا تھا۔
"چلو اب۔"
"اچھا۔" وہ بگڑے موڈ کے ساتھ گویا ہوئی تھی۔
وہ دونوں آگے پیچھے زینے اتر کر لاؤنج میں آئے تھے۔ شائستہ ان دونوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں انکی نظر اتارنے لگی تھی۔ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر ساریہ کی آنکھیں بھی خوشی سے چمکیں تھیں۔ انکی دعائیں لے کر وہ گاڑی میں بیٹھ کر علی کی طرف جانے لگے تھے۔ سارا راستہ ردا خاموش ہی بیٹھی تھی۔
زوار کو تو اسکا یوں خاموش رہنا کھل رہا تھا۔ اللہ خیر کرے پتہ نہیں اپنی فراٹے بھرتی زبان کو اتنا سکون کیوں دیا جارہا ہے۔
بیس منٹ تک وہ علی کے گھر کے سامنے تھے۔ زوار نے گاڑی ایک خالی جگہ پہ روک کر فون نکال کر علی کو ملایا تھا۔ علی کو اس نے اپنے آنے کا بتایا تھا کہ وہ انہیں لینے باہر آنے کا کہتا فون بند گرگیا تھا۔ فون جیب میں رکھتے اس نے ایک نظر اپنی روٹھی بیوی کو دیکھا تھا۔ جو اسے بھرپور نظرانداز کیے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی۔ زوار اسکو دیکھ کر مسکراہٹ دبا کر رہ گیا جس میں ناراض رہنے کی بہت زیادہ سکت تھی۔ اتنے میں اسے علی سامنے سے آتا دکھائی دیا تھا۔ وہ مسکرا کر باہر نکل کر علی سے بگلگیر ہوا تھا۔ اسے اکیلا باہر نکلتا دیکھ کر ورطہ حیرت سے ردا کا منہ وا ہوا تھا۔
وہ علی کو ایک منٹ کا کہہ کر اسکی طرف آیا اور دروازہ کھول کر اسے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ ردا خفگی سے اس کی طرف دیکھ کر باہر نکلی تھی۔ زوار اسے اپنے ساتھ لیے علی کی تقلید میں چل رہا تھا۔ اندر آتے ہی سب کی نگاہیں اپنے اوپر اٹھتی محسوس کرکے ردا زوار کے قریب ہوئی تھی۔ وہ گھبرا کر دونوں ہاتھوں سے اسکی دائیں بازو کے گرد حصار بنا گئی تھی۔ ردا کی اس حرکت پہ زوار نے بےساختہ اسے دیکھا تھا جو گھبرائی ہوئی نظر آرہی تھی۔
"ریلکس اندر بھابھی اور علی کی بہنیں ہیں۔" وہ اسکے بائیں کان کی طرف جھک کر خلافِ معمول نرم و ملائم لہجے میں گویا تھا۔ ردا کے دیکھنے پہ اسنے ردا کو آنکھوں سے ریلکس ہونے کا کہا تھا۔ جس وہ اثبات میں سر ہلاتی اسے مطمئن کرنی لگی تھی۔
"آئیں بھابھی۔" وہ چلتے ہوئے داخلی دروازے پہ پہنچے تھے۔ جب علی نے مسکرا ردا سے کہا تھا۔ اسنے ایک نظر زوار کو دیکھا تو وہ سر کو جنبش دیتے اسے جانے کا کہہ رہا تھا۔ وہ سر ہلاتی آگے بڑھی تھی کہ کچھ یاد آنے پر وہ سرعت سے پلٹی تھی۔ اسکے پلٹنے پہ زوار اور علی دونوں اسے دیکھنے لگے تھے۔
"آپ کہاں جارہے ہیں۔؟" وہ زوار تک آتی ، چہرے پہ حد درجہ معصومیت سجائے مستفسر ہوئی تھی۔
"میں باہر لان میں ہی ہوں۔" زوار نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔
"پھر مجھے بھی وہیں جانا ہے۔" وہ بچکانہ انداز میں بولی تھی۔ جس پہ زوار تاسف سے ایک نظر اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"میں آتا ہوں۔" علی دونوں کو بات کرتا دیکھ کر بولا تھا۔
"ابھی فنکشن شروع نہیں ہوا جب ہوگا تب آ جانا نا۔" زوار نے اسکے گھبرائے انداز کو مدنظر رکھ کر دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
"مجھے نہیں جانا ، مجھے ڈر لگ رہا ہے۔" وہ رونی شکل بنائے کھڑی تھی۔ زوار نے اسکی بات سن کر ماتھا پیٹا تھا۔ مطلب حد ہے اتنے لوگوں میں بھی ڈر لگنا ہے۔
"سب اندر ہیں ، فلحال اندر جاؤ پھر تھوڑی دیر تک میں بلا لوں گا۔" زوار نے بمشکل ضبط کرتے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا تھا۔
"پکا۔" وہ امید بھری نگاہوں سے مستفسر ہوئی تھی۔
"ہممم۔۔۔" زوار نے مسکرا کر گردن کو اثبات میں جنبش دی تھی۔ اس نے ادھر ادھر علی کو تلاش کیا ، نظر آنے پر زوار نے اسے اس طرف آنے کا کہا تھا۔ علی کے آتے ہی ردا اسکے ساتھ اندر گئی تھی۔ سب بہت خوشدلی سے اس کے ساتھ ملے تھے۔ علی کی دونوں بہنیں اسکے ارد گرد ہی رہ رہی تھیں وہ جو اندر آنے سے پہلے گھبرائی ہوئی تھی اب قدرے سنبھل چکی تھی اور انکی باتوں کا جواب بھی دینے لگی تھی۔
زوار نے وہیں کھڑے رہ کر علی کا انتظار کیا تھا۔ اسکے آتے ہی وہ دونوں لان میں آئے جہاں تقریب کی تیاری کی گئی تھی۔
_____________________________________________
ردا اور زوار کے جاتے ہی ساریہ نے شائستہ کو دوائی دی اور جلدی سے کیچن سمیٹا تھا۔ وہ جلد از جلد کام نبٹا کر احان سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس دن گھر آنے کے بعد ساری رات احان نے اسے فون بند نہیں کرنے دیا تھا۔ وہ کبھی نیند میں جھولتی اور کبھی آنکھیں کھولے اسکا ساتھ دے رہی تھی۔
وہ کیچن کا پھیلاوا سمیٹ کر کمرے میں آکر فون تھامے کشمکش میں تھی کہ کیا کرے۔ کیونکہ جس دن سے احان گیا تھا اس نے بس ایک دفعہ اپنے خیر خیرت سے پہنچے کا مسیج کیا تھا مگر پھر وہ غائب ہی ہوگیا تھا۔ وہ فون تھامے احان کا نمبر نکالے سوچ رہی تھی کہ کیا کرے۔ بلآخر وہ چیٹ کھول کر ٹائپ کرنے لگی تھی۔
تیری خوشبو کا پتہ کرتی ہے
مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے
دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی ہے
(پروین شاکر)
وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی دھڑکنوں کے امین سے اعتراف کرکے ، لب کاٹٹے ، بولتی آنکھوں سے اسکے جواب کی منتظر تھی۔ ایک منٹ ،دو منٹ انتظار طویل ہورہا تھا جس کے ساتھ ساریہ کی دھڑکنوں کا شور بھی بڑھتا جارہا تھا۔ پانچ منٹ تک وہ فون تھامے مسلسل انتظار کی سولی پہ لٹکی تھی مگر جواب ندارد۔ وہ بجھے دل کے ساتھ فون کو ایک نظر دیکھ کر ، اسے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتی ، عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے واش روم گئی تھی۔
_____________________________________________

Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 24


مہندی کا فنکشن لیٹ شروع ہوا تھا۔ وہ ایک گھنٹے کے بعد علی کی بہن کے ساتھ باہر آئی تھی۔ باہر آتے ہی اس نے چاروں اطراف دیوانہ وار نظریں گمائیں تھیں مگر زوار اسے نظر نہیں آیا تھا جس کی وجہ سے اسکی پیشانی ہر پریشانی سے بل آئے تھے۔ علی کی بہن جو کب سے باہر آکر علی کو فون ملا رہی تھی بلآخر فون ملتے ہی اسے ردا کا بتانے لگی تھی۔ علی زوار کو بھیجنے کا کہہ کر فون رکھ چکا تھا۔
دور سے زوار کو آتا دیکھ کر وہ خود بھی اسکی طرف قدم بڑھانے لگی تھی۔
"کدھر چلے گئے تھے آپ۔" وہ قریب آتے ہی لاڈ سے شکوہ کناں ہوئی تھی۔ زوار تو آج اس کے بیوی جیسے رنگ دھنگ دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"ادھر ہی تھا ، آؤ۔" وہ نرم لہجے میں کہتا مزید بحث کو طول نہ دینے کی غرض سے اسے اپنے ساتھ آنے کا کہنے لگا تھا۔
وہ اسے اپنے ساتھ لیے لان کی بائیں طرف آیا تھا۔ ٹیبل پہ اسے بٹھائے وہ اسکے سامنے بیٹھا تھا۔ زوار نے سامنے بیٹھ کر غور سے اسکا خفا خفا سا روپ دیکھا تھا۔
"کیا ہوا ہے ، اندر سب سے ملی نہیں تھی۔" وہ اسکا بگڑا موڈ دیکھ کر نرم لہجے میں مستفسر ہوا تھا۔
"ملی تھی۔" وہ ہنوز منہ بسورے ہوئی تھی۔
"پھر موڈ کیوں بنا ہوا ہے۔" وہ آنکھیں سکیڑے ردا کو دیکھ کر مستفسر ہوا تھا۔
"بھوک لگی ہے۔" آخرکار اسنے بلی تھیلے سے نکالی تھی۔ وہ رونی شکل بنا کر بولی تھی۔ جبکہ اس بات سن کر زوار ادھر ادھر دیکھ کر اسے ڈپٹ کر بولا تھا۔
"شش ، گندی بچی۔۔۔" زوار کی ڈانٹ سے اسنے منہ اور بگاڑا تھا۔
"اچھا یہ لو فون تصویریں لے لو۔" زوار نے ایک نظر اسکا بگڑا چہرہ دیکھ کر اپنا فون نکال کر اسکے سامنے کرتے ہوئے کہا تھا۔
"آپ کھینچیں۔" وہ لاڈ سے اسے حکم صادر کیے سیٹ ہو کر بیٹھی تھی۔ جبکہ زوار اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔ دو تین اسکی تصویریں لے کر زوار نے اسے فون پکڑیا تھا کہ وہ دیکھ لے۔ اتنی انجان جگہ میں سوائے ردا کے اور کوئی نہیں تھا جس سے وہ باتیں کرتا۔ علی اور اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ وہ بیٹھک لگا چکا تھا۔ وہ کھکھلا کر ہنستی ، اپنی تصویرں دیکھ رہی تھی اور گاہے بگاہے زوار کو بھی دکھا رہی تھی۔
کھانے کے بعد بلآخر رسم شروع ہوچکی تھی۔ وہ ردا کو لیے وہیں بیٹھا تھا۔ زوار اپنا فون نکال کر اسے چیک کر رہا تھا۔
"وہاں کیا ہورہا ہے؟" ردا ناسمجھی میں بھنوئیں سکیڑ کر مستفسر ہوئی تھی۔ زوار جو کہ ردا کے سامنے بیٹھا تھا اسکی بات سن کر گردن موڑ کر اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھنے لگا۔ جہاں علی ایک گھٹنہ پہ بیٹھ کر ، ایشال کا ہاتھ تھامے کچھ کہہ رہا تھا ، جسکی وجہ سے شرم کے مارے اسکا برا حال تھا۔ وہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں محفوظ ہورہی تھی۔ علی کے سوال کے بدلے اسنے سر جھکا کر گردن اثبات میں ہلائی تھی جس پہ علی سرشار سا چہرہ لئیے اٹھ کر اسکا ہاتھ تھامے مدھم دھن میں ہلکے ہلکے اسٹیپ لے رہا تھا۔ وہ گاہے بگاہے ایشال کے کانوں میں امرت گھول رہا تھا جس سے اسکے چہرے پہ گلال بکھر رہا تھا۔
ایک نظر وہاں دیکھ کر زوار نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو اب اس منظر سے نگاہیں ہٹا کر اسکے وجیہہ چہرے پہ مرکوز کیے ہوئی تھی۔ اس نے تاحال بھنوئیں سوالیہ انداز میں سکیڑے ہوئی تھی۔ جبکہ زوار نے اس کے سوال پہ اپنا ماتھا پیٹا تھا۔ اب اسے کیا بتائے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
"علی پرپوز کررہا ہے۔" وہ منہ کے زوایے بدل کر جزبز ہوکر بولا تھا۔
"اچھا۔" وہ کچھ سمجھ کر بولی تھی۔
"پر آپ نے تو ہماری شادی پہ مجھے ایسے پرپوز نہیں کیا تھا۔" اس نے منہ بسور کر شکوہ کیا تھا۔ جو زوار کو مشکل ہی ہضم ہوا تھا۔ چلو جی یہ کسر باقی تھی۔ اسنے تنک کر سوچا تھا۔
"میرا خیال ہے گھر چلتے ہیں کافی لیٹ ہوگیا ہے۔" زوار نے اسکا شکوہ یکسر نظر انداز کیا تھا۔ وہ ایک نظر گھڑی پہ ڈالے کھڑا ہوا تھا۔ ردا کو غصہ تو بہت آیا تھا کہ زوار نے اسکے سوال کا جواب نہیں دیا مگر اسکے اٹھنے کی وجہ سے مجبوراً اسے بھی اٹھنا پڑا تھا۔ وہ منہ پھلائے اسکی تقلید میں چل رہی تھی۔
_____________________________________________
رات کی تاریکی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ۔ لیمپ کی پیلی روشنی سے کمرہ جگمگا رہا تھا۔ وہ کھڑکی سے تھوڑا آگے اسٹڈی ٹیبل کی کرسی پہ بیٹھ کر ، بڑے انہماک سے اپنی کل کی اسائمنٹ بنا رہا تھا۔ پیپرز کی وجہ سے آج کل اسے کی مصروفیات بڑھ چکی تھیں جسکی وجہ سے وہ پاکستان میں بھی کم ہی رابطہ رکھے ہوا تھا۔ رات کے تقریباً بارہ بجے وہ اپنا کام مکمل کرکے ، انگڑائی لے کر اٹھا تھا۔ پانچ منٹ کے اندر اپنا پھیلاوا سمیٹ کر وہ جلدی سے اپنے نرم و گداز بستر میں گھسا تھا۔
آلارم لگانے کی غرض سے اسنے لیٹے لیٹے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا فون اٹھایا تھا۔ فون پہ بےتحاشہ نوٹیفیکیشن دیکھ کر اس نے تیوری چڑھا کر دیکھا تھا۔ ابھی نیند کے باعث وہ انہیں صبح دینے کا ارادہ کرنے ہی لگا تھا کہ ساریہ کا چمکتا نام دیکھ کر وہ ٹھٹھکا تھا۔
احان نے جلدی سے اسکا مسیج کھولا تھا۔ ساریہ کا مسیج دیکھ کر اسکی نیند بھک سے اڑی تھی۔ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رینگی تھی۔ وہ بار بار زیر لب اسکا مسیج پڑھ کر سرشار ہورہا تھا۔ مسکاتی آنکھوں کے ساتھ وہ ساریہ کا نمبر ملانے لگا تھا۔ مسلسل بیل جارہی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی۔ دو دفعہ کال کر احان کو اسکے سونے کا گمان ہوا تھا۔
"آج کل پیپرز ہورہے ہیں اس لیے تھوڑا مصروف ہوں فری ہوکر بات کروں گا۔
"تجھے روز دیکھوں قریب سے"
"میرے شوق بھی ہیں عجیب سے"
"میرے ہر درد کی دوا ہو تم"
"مجھے کیا غرض پھر طبیب سے"
گڈ نائٹ میری جان۔" وہ بات نہ ہونے پہ اداسی سے پیام بھرا پیغام بھیج کر فون بند کرتا آنکھیں موند گیا تھا۔
_____________________________________________
علی سے مل کر وہ گھر کے لیے نکل گئے تھے۔ زوار سنجیدگی سے گاڑی چلا رہا تھا۔ ردا منہ پھلائے اسکو ہی دیکھ رہی تھی۔
"مجھے نہیں پتہ مجھے بھی پرپوز کریں۔" گاڑی میں چھائی سکوت کو ردا کے شکوے نے چیرا تھا۔ اسکی بات سن کر زوار نے اپنا سر پیٹا تھا۔ جو اس بات کے پیچھے ہی پڑ گئی تھی۔
"میرے سر میں درد ہو رہی ہے چپ کرجاؤ۔" وہ ایک نظر اسے دیکھ کر جان چڑوانے والے انداز میں بولا تھا۔ جس پہ ردا پیچ و تاب کھاتی خفگی سے پہلو بدل کر شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔ اسکے بعد گاڑی میں مکمل سکوت چھا گیا تھا۔
گاڑی زن کرکے گھر کے اندر داخل ہوئی تھی۔ ردا منہ پھلا کر کار سے نکل کر اندر جانے لگی تھی۔ زوار بھی تاسف میں سر ہلا کر اسکے پیچھے آیا تھا۔ ساریہ جو پانی لینے کیچن میں جارہی تھی ردا اور زوار کو دیکھ کر رک گئی تھی۔ زوار ایک نظر مسکرا کر اسے دیکھتا شائستہ کو دیکھنے گیا تھا۔ وہ چاہے کتنا بھی تھکا ہو کتنی بھی دیر سے آئے اسکے معاملے میں غفلت نہیں برتتا تھا۔
زوار کے جاتے ہی وہ کیچن میں گئی تھی۔ ردا منہ پھلائے ساریہ کے پاس ہی آئی تھی تاکہ پیٹ میں بنے لاوے کو باہر کا راستہ دکھا سکے۔
"کیا ہوا۔" اسکے پھولے ہوئے گال دیکھ کر ساریہ جگ پکڑتے ہوئے مسکرا کر بولی تھی۔
"زوار مجھے پرپوز نہیں کررہا۔" وہ منہ بسور کر دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی تھی۔ جبکہ اسکے شکوہ پہ ساریہ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔
"کیوں۔" وہ مصنوعی افسردگی سے بولی تھی۔ حالانکہ ردا کے اس سنگین مسئلے پہ اسکی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
"پتہ نہیں ، میں نے کہا بھی تھا پھر بھی نہیں کیا۔" وہ رسان سے اپنے سنگین مسئلے کو بیان کررہی تھی۔
"ہممم۔ بھائی کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔" ساریہ نے برملہ اسکی حمایت کی تھی۔
"ہاں نا۔ میں نہیں بولوں گی اب ، جب تک وہ مجھے پرپوز نہیں کرتے۔" ردا ساریہ سے راضی ہوتی اپنے اگلے منصوبے بتانے لگی تھی۔
"اچھا یہ چھوڑو ویسے آج تم پیاری بہت لگ رہی ہو بلکل ڈول سی۔" ساریہ نے جگ شیلف پہ رکھتے ، اسکے غصے سے سرخ ہوتے گال پیار سے کھینچے تھے۔
"شکریہ آپی ، آپکو پتہ ہے میری تصویریں بہت اچھی آئی ہیں ، میں اب آپ سے ہی میک اپ کروایا کروں گی۔" وہ ایک منٹ سے اپناپہلا دکھ بھول کر خوشی سے چہکی تھی۔
"شکریہ ، مجھے بھی تصویریں دیکھانا بھائی سے فون لے کر۔" وہ اس خوشی دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
"ہاں جی ضرور۔"
"چلو اب سو جاؤ ورنہ بھائی ڈانٹیں گے۔" وہ جگ پکڑتے ہوئے بولی تھی۔ ردا بھی اسکے ساتھ کیچن سے نکلی تھی۔ اوپر جانے سے پہلے اس نے ساریہ سے پوچھا تھا۔
"آنٹی سوگئی ہیں؟"
"ہاں شاید ، بھائی وہیں گئے ہیں۔"
"اچھا میں بھی مل کے آتی ہوں۔" زوار کا سن کر اسے لگا شاید شائستہ جاگ رہی ہو۔
"ہممم۔" ساریہ مسکرا کر اسے دیکھتی اپنے کمرے میں گئی تھی۔
_____________________________________________
وہ کمرے میں آکر جگ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر بتی گل کرکے بستر پر آئی تھی۔ احان کے مسیج نہ آنے پہ وہ حیران تھی۔ مضطرابی سے اسنے فون دوبارہ چیک کرنے کے لیے اٹھایا تھا۔ اسکرین پر اسکا چمکتا نام دیکھ کر وہ خوشی سے اٹھ بیٹھی تھی۔ مگر اسکی دو کالز دیکھ کر ، وہ نہ اٹھانے پہ افسردہ ہوئی تھی۔ احان کے آف لائن ہونے کی وجہ سے اسنے کال بیک بھی نہ کی تھی۔
جو اداسی احان سے بات نہ کرنے سے ہوئی تھی وہ اسکا پیام بھرا پیغام پڑھ کر معدوم ہوئی تھی۔ وہ مسکراتے لبوں اور مسکاتی آنکھوں سے بار بارپیام بھرا پیغام پڑھ کر ان لفظوں کی تاثیر اپنے اندر انڈھیل رہی تھی۔
_____________________________________________
ردا سر ہلاتی دھیرے سے شائستہ کے کمرے میں آئی تھی۔ ہلکی سی آہٹ سے ، زوار جو کہ شائستہ کے سامنے بیٹھا تھا پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا تھا۔ اسے اندر آتا دیکھ کر وہ دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی لبوں پہ رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرنے لگا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ شائستہ کی نیند میں خلل ہو۔ ردا گردن ہلاتی ویسے ہی انگلی لبوں پہ رکھ کر خاموش سے اسکے قریب آئی تھی۔ وہ ایک نظر شائستہ کو دیکھ کر پلٹنے لگی تھی جب زوار نے اپنا فون اور کار کی چابی اسکے ہاتھ میں دی تھی۔ وہ زوار کا اشارہ سمجھتی دبے قدموں سے پلٹ کر باہر گئی تھی۔
فون ہاتھ میں پکڑ کر تو وہ ہواؤں میں اڑنے لگی تھی۔ وہ جلدی سے کمرے میں آکر فون کو آن کرنے لگی تھی مگر بدقسمتی سے وہاں پاسورڈ نامی بلا نے اسکا استقبال کیا تھا۔ پاسورڈ کا دیکھ کر اسکی ساری خوشی غائب ہوئی تھی۔ چند پل غصے سے فون کو گھور کر وہ اپنی سوچ کے دائرے کار کے مطابق پاسورڈ لگانے لگی تھی۔ مگر ہر بار ان کارکٹ آرہا تھا۔ پانچ بار لگا کر جب فون پہ پاسورڈ لگ رہا تھا تو گھبراہٹ سے اسکی ہتھیلیاں اور پیشانی بھیگی تھی۔ زور سے دھڑکتے دل اور کانپتے وجود کے ساتھ وہ بید کی پائنٹی پہ بیٹھی تھی۔ مزید چھیڑ چھاڑ سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تھا ، ڈر کے مارے اسکے ہاتھ ٹھنڈے ہوئے تھے۔ زوار کا غصہ سے بھرا چہرے نظروں کے سامنے گھوما تو دماغ سائیں سائیں کرنے لگا تھا۔
زوار کتنی دیر شائستہ کو سوئے ہوئے دیکھتا رہا تھا۔ ہر رات کی طرح وہ بمشکل اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا تھا۔ ڈاکٹر کے جملوں کی بازگشت ابھی بھی اسکے کانوں میں گونجتی تھی۔ جو اسکی آنکھوں کے کنارے بھگا دیتی تھی۔
وہ فون کا بیڑا غرق کرکے اسے چھپانے کے لیے اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر خلافِ معمول اپنے کپڑے بدلنے لگی تھی۔ ابھی وہ کپڑے بدل کر ، فریش ہوکر باہر آئی ہی تھی کہ زوار کمرے میں آیا تھا۔ اسکے بدلے کپڑے دیکھ کر زوار نے بےساختہ شکر کیا تھا۔ جبکہ زوار کو اپنے سامنے دیکھ کر اسکے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔ وہ نظریں چراتے بیڈ پر اپنی سائیڈ پہ لیٹ کر کروٹ لے گئی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ اپنی سلامتی کے لیے ورد کرتی جارہی تھی۔ زوار آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھ کر شب خوابی کا لباس تھامے واش روم میں گیا تھا۔
وہ فریش ہوکر بتی گل کرکے اپنی سائیڈ پہ آکر نیم دراز ہوا تھا۔ اسکے لیٹنے پہ ردا نے شکر کیا تھا کہ وہ فون کے بارے میں بھول گیا تھا۔ مگر ہائے رے اسکی قسمت۔
وہ آلارم لگانے کی غرض سے اٹھا تھا۔
"ردا میرا فون کہاں ہے۔" وہ کہنی کے بل اونچا ہوکر ، اسکی طرف کروٹ لے کر گویا ہوا تھا۔ ردا نے اسکی بات سن کر بمشکل تھوک نگلا تھا۔
"مجھے نہیں پتہ۔" وہ بمشکل بولی تھی۔ اس وقت کوئی مناسب بہانہ بھی اسکے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ جبکہ اس بات سن کر زوار کو گمان ہوا کہ شاید وہ نیند میں ہے۔
"کیا کہہ رہی ہو ، نیند میں ہو۔" وہ اسکا کندھا ہولے سے ہلا کر مستفسر ہوا تھا۔
"ہوں۔" وہ سختی سے آنکھیں میچے نیند بھری آواز میں ہنکاری تھی۔ اب کی بار زوار نے اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا ردا کو اس سب کے لیے تیار نہ تھی مزاحمت بھی نہ کرپائی۔
"میرا فون کہاں ہے۔" وہ پیشانی پہ شکنیں ڈالے مستفسر ہوا تھا۔
"بلی لے گئی ہے۔" اچانک اسکے دماغ میں جھماکا ہوا تھا۔
"ہیں۔" زوار ورطہ حیرت سے اٹھ بیٹھا تھا۔ اسکا انداز دیکھ کر ردا مزید گھبرائی تھی۔
"کیوں میرا مطلب ، اس نے کیا کرنا تھا۔ اور جب لے کر گئی تھی تب کہاں تھیں آپ۔" ردا کی مسلسل خاموشی کے بدلے زوار کی حیرت میں غوطہ زن ہوتی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکڑائی تھی۔
"اس نے واٹس ایپ چیک کرنی تھی۔" وہ اٹھ کر اسکے مقابل بیٹھی تھی۔ اسکی یہ بات کرنے کی دیر تھی کہ زوار کو سمجھ آگئی کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ ضرور اس توپ نے کوئی کارنامہ سر کیا ہوگا۔
"فون کہاں ہے۔" اسکے ہیلے بہانے سن کر وہ سختی سے گویا ہوا تھا۔ ردا کی آنکھیں بےساختہ نمکین پانی سے بھری تھیں وہ معصومیت کا اعلیٰ شاہکار بنی بولی تھی۔
"وہاں ہے۔" اسنے اپنے تکیے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
زوار نے جھنجھلا کر اسکی طرف دیکھ کر ، تکیے کے نیچے سے فون نکالا تھا۔ لیمپ کی روشنی میں اسکو اچھی طرح گما کر ہر طرف سے اسکا جائزہ لے کر زوار نے چڑ کر رداکی طرف دیکھا تھا جو ناجانے رات کے اس پہر وہ کیا کرنا چاہتی تھی۔
"مجھے تصویریں دیکھنی تھیں۔" وہ مسلسل اسکو اپنی طرف دیکھتا پاکر منمنائی تھی۔ زوار نے گہری سانس لے کر فون آن کیا تھا جو بلکل ٹھیک ہوگیا تھا۔ ردا نے جب آخری دفعہ پاسورڈ لگایا تھا تو ٹائمر کی وجہ سے پاسورڈ نہ لگنے پر وہ حواس باختہ ہوگئی تھی۔
فون کو صیحیح سلامت دیکھ کر اسے ردا کا رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کیونکہ وہ رونے کے دہانے پہ کھڑی تھی۔
"کیا کیا تھا فون کو۔" زوار نے عام سے لہجے میں پوچھا تھا۔ یہ پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ بلند آوازمیں کب سے دبائی ہوئی ہچکی لے کر روتے ہوئے بولی تھی۔
"پاسورڈ لگا رہی تھی۔" زوار کو دو منٹ میں اسکی بات سمجھ میں آئی تھی۔
"ایسی شرارتوں سے کب باز آئیں گئیں آپ۔" وہ تھکن سے چور آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے مستفسر ہوا تھا۔ اسکی باتیں سن کر ردا کے رونے میں مزید شدت آئی تھی۔
"چپ کرکے سوجائیں۔" وہ اسکے آنسو صاف کرتا ڈپٹ کر بولا تھا۔ چونکہ آج اسکی غلطی پکڑی گئی تھی تو وہ شریفوں کے طرح بات مانتی لیٹ کر کروٹ بدل گئی تھی۔ آج پہلی زوار کو وہ معصوم لگی تھی۔ وہ اسکی پشت دیکھ کر اپنی سائیڈ پہ آکر لیٹا تھا۔

جاری ہے 

Post a Comment

0 Comments