Hui Jo Ulfay by Iram Tahir Episode 23

رات کے کھانے کے بعد انہیں گھر آتے آتے بارہ بج گئے تھے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے ردا آتے ہی سو گئی تھی۔ زوار شائستہ کو دوائی کھلا کر اپنے کمرے میں آیا تھا۔ جہاں دنیا جہاں سے بیگانگی برتتے اسکی بیوی سوئی ہوئی تھی۔ ردا کو اسی کپڑوں میں دیکھ کر اسنے تاسف میں سر ہلایا اور اپنے شب خوابی کا لباس اٹھا کر واش روم میں گھس گیا۔ کپڑے بدل کر وہ کمرے کی بتی گل کر کے بیڈ کی طرف آیا تھا۔ آج بھی اسے اپنے لیے جگہ تلاش کرنے پڑی رہی تھی کیونکہ حسبِ معمول ردا آج بھی سکون سےٹانگیں پھلائے ہوئی تھی۔ وہ غم و غصے سے ملے جلے تاثرات لے کر آگے بڑھا اور ہولے سے ردا کا کندھا تھام کر اسکی کروٹ دوسری طرف کرنے لگا۔ اسکا کمفرٹر ٹھیک کرکے ،سرد آہ خارج کرکے زوار اپنی طرف لیٹا تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے وہ بھی جلد نیند کی وادی میں اتر چکا تھا۔
____________________________________________
ردا کے جانے کے بعد نسرین کو اپنا گھر خالی خالی لگا تھا۔ وہ ایک ہفتے میں ہی اس بے رونق زندگی سے بیزار ہوچکی تھی۔ بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں جب وہ پاس ہوتی ہیں تو ماں باپ کو انکے اگلے گھر کی فکر گھولتی رہتی ہے پھر جب وہ اپنے گھر چلی جاتی ہیں ، پرائی ہوجاتی ہیں تو ماں باپ کو انکی کمی کھلتی ہے۔
____________________________________________
"مما۔۔۔! ردا بھابھی کتنی اچھی ہیں نا۔۔۔" عبیرہ نے ردا کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اور غزالہ اس وقت لان میں بیٹھی تھیں ، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
"ہاں ماشااللہ۔۔۔" غزالہ نے بھی مسکرا اسکی بات کی تائید کی تھی۔
"احان تو فون ہی نہیں کررہا آجکل۔ جب سے گیا ہے میری دو دفعہ بات ہوئی ہے بس۔۔۔" غزالہ نے چائے کا کپ تھامتے ہوئے کہا تھا۔
"میں نے کل کی تھی بھائی کو کال انکے پیپر ہورہے ہیں فری ہوکر کریں گے۔۔۔" عبیرہ نے اسے کل احان سے ہونے والی بات بتائی تھی۔
"ہممم اچھا۔۔۔ تمہارے بابا آج پتہ نہیں کہاں رہ گئے ہیں۔۔۔"
"آتے ہی ہوں گے۔۔۔"
"چلو تم بیٹھو میں ذرا رات کا کھانا دیکھ لوں۔۔۔" غزالہ چائے کے کپ ٹرے میں رکھ کر ، اس اٹھائے اندر جانے لگی تھی۔ جبکہ عبیرہ سر ہلاتی وہیں بیٹھ کر پڑھنے لگی تھی۔
____________________________________________
آج صبح سے ہی آفس میں بےتحاشہ کام تھا۔ جسکی وجہ وہ تھکاوٹ سے نڈھال ہوچکا تھا۔ مگر علی کی آنے والی کال کی وجہ سے وہ بمشکل اپنی ہمت متجمع کرکے گھر آیا تھا۔
علی اسکا ہم جماعت تھا جس سے اسکی اچھی دوستی تھی۔ اس نے ابھی تین دن پہلے ہی زوار کو فون کرکے اپنی شادی پہ آنے کا کہا تھا۔ جس پہ زوار نے مسکرا کر ہامی بھری تھی۔ تب تو ہامی بھرلی مگر اپنی توپ قسم کی بیوی کی وجہ سے وہ مکمل طور پر اسے بھول چکا تھا۔
انکی شادی کو ہفتہ ہوچکاتھا۔ اس ہفتے میں ردا بیگم نے اپنی ساری اونگیوں بونگیوں سے زوار کو اچھا خاصا زچ کیے رکھا تھا۔ اسکے کچھ بھی کہنے پر وہ اپنی حمایتی شائستہ کو بیچ میں لے آتی جس پہ زوار صبر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ اتنے دنوں میں وہ صد شکر کرتا تھا کہ ردا صبح صبح جلدی نہیں اٹھتی ورنہ تو آفس جانے سے پہلے ہی وہ اسکے دماغ کی دہی کردے۔ اس گھر میں ردا کی زوار کے علاوہ ساریہ اور شائستہ سے خوب بنی تھی۔ وہ ہر وقت انہیں اپنے آپ میں مگن رکھتی تھی۔ اتنے سے دنوں میں ساریہ اور شائستہ کی بے لوث چاہت کی وجہ سے اسے بھی ان سے انسیت ہونے لگی تھی۔ وہ ساریہ کی طرح شائستہ کی دوائی کا خیال رکھنے لگی تھی۔ اب یہ حال تھاکہ وہ دونوں نرس بنی شائستہ کے سر پر کھڑی ہوکر اسے دوائی کھلاتی تھیں۔ ردا کی خوش مزاجی کی وجہ سے ہر وقت انکے گھر خوشیوں سے بھرے قہقہے گونجتے رہتے تھے۔ اس سبکے باوجود جب جب اسے نسرین یاد آتی تھی تو وہ افسردہ ہوجاتی تھی۔ اسکی اداس شکل دیکھ کر ساریہ باقاعدگی سے روز اسکی بات نسرین سے کرواتی تھی۔ نسرین اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک دفعہ اس سے ملنے بھی آئی تھی۔
وہ تھکارا ہارا لاؤنج میں آیا تھا اور وہیں صوفے پہ نیم دراز ہوگیا تھا۔ خلافِ توقع آج گھر میں سکوت چھایا ہوا تھا۔ جس پہ اسکا دھیان کم ہی گیا تھا۔ وہ آنکھیں موندے پیشانی پہ ہاتھ رکھے ہولے ہولے سے دبانے لگا تھا۔ اسکے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔ ابھی وہ ایسے ہی بیٹھا تھا کہ شائستہ لاؤنج میں آئی تھی۔
"کیا ہوئی طبیعت ٹھیک ہے؟" شائستہ کو اسکے یوں بیٹھنے پہ تشویش ہوئی تھی۔
"ہوں۔۔۔بس سر میں درد ہورہاہے" و ہنوز آنکھیں موندے بولا تھا۔
"میں ساریہ کو کہتی ہوں چائے کے ساتھ میڈیسن دے دے۔۔۔" وہ اسکی پیشانی پہ ہاتھ رکھے تشویش سے بولی تھی کیونکہ اسے بخار کا گمان ہوا تھا۔ جبکہ وہ آنکھیں کھولے ایک نظر شائستہ کو دیکھ کر صوفے پہ ہی چٹ دراز ہوا تھا۔
ساریہ اور شائستہ چھت پہ گئی تھیں۔ شائستہ زوار کو ایک نظر دیکھ کر سیڑھیوں کی طرف ہوکر انہیں آواز دینے لگی۔ اور وہ دونوں جو مزے چھت پہ چہل قدمی کررہی تھیں آواز کا گمان ہوتے ہی نیچے آئی تھیں۔ پھر شائستہ کے کہنے پہ ساریہ کیچن میں چائے بنانے چلی گئی تھی۔ جبکہ شائستہ اور ردا لاؤنج میں ہی آگئی تھیں۔
ردا پریشانی سے پیشانی پہ شکنیں ڈالے زوار کو دیکھ رہی تھی جو آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔
"آنٹی ہم انکو ہسپتال لے جائیں۔۔۔" ردا نے پریشان نگاہیں شائستہ کی طرف گمائی تھیں۔ اس کے لہجے میں پریشانی کا عنصر واضع تھا۔
ردا کی بات سن کر زوار کے کان بھی کھڑے ہوئے تھے جانے اب یہ میڈیم کیا بم پھینک دے۔
ویسے جسکی ایسی بیوی ہو وہ ہسپتال میں نہ جائے ایسا کیسے ممکن ہے۔ وہ دل ہی دل میں اسکو سلواتیں سنانے لگا تھا۔
"کیوں۔۔۔" شائستہ نے ناسمجھی میں ردا کی طرف دیکھا تھا۔
"آنٹی انکے سر میں بہت درد ہوتی ہے۔ پتہ ہے جب بھی میں کوئی بات کرتی ہوں مجھے یہی کہتے ہیں کہ چپ کرجاؤ میرے سر میں درد ہورہی ہے۔" وہ پریشانی سے گویا ہوئی تھی۔ جبکہ اسکی بات سن کر زوار کا دل چاہا اسکا گلا دبا دے جس نے بےتکی باتوں میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔
"ساریہ چائے اور میڈیسن لے آؤ۔" وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔ اسکی بات سن کر ردا نے پریشان منہ بنا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔ جبکہ شائستہ جو کہ ردا کی بات پہ حیران تھیں جلدی سے باہر آئی تھی۔ وہ زوار کو تاسف سے دیکھنے لگی تھی۔ ردا کے ساتھ اسکا کھیچا کھیچا رویہ شائستہ سے مخفی نہ تھا۔
اگلے چند منٹوں میں ساریہ چائے کا کپ لئیے لاؤنج میں آئی تھی۔ اس نے چائے زوار کی طرف بڑھائی تھی۔ وہ تینوں نفوس فرصت سے اسکے تھکے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھے۔ مزید ردا کی کوئی گل افشانی کے ڈر سے زوار نے جلدی سے چائے ختم کی اور اپنے کمرے میں آرام کرنے چلا گیا تھا۔
____________________________________________
Hui Jo Ulfay by Iram Tahir Episode 23


تقریباً آٹھ بجے کے قریب وہ اٹھا تھا۔ اب وہ قدرے بہتر محسوس کررہا تھا۔ بھرپور انگڑائی لے کر وہ بیڈ سے اتر کر ، پیروں میں چپل اڑیس کر نیچھے جانے لگا تھا تاکہ ردا کو تیار ہونے کا کہے۔ ابھی وہ کمرے سے باہر نکلا ہی تھا کہ ردا ساریہ کے کمرے سے باہر آتی دکھائی دی تھی۔
"سنو۔۔" اس نے بالوں کو ہاتھ سے سنوارتے ہوئے ردا کو آواز دی تھی۔ وہ اپنے پیچھے سے آواز سن کر پلٹی تھی۔
"ہاں جی۔۔" وہ نازک مزاجی سے بولی تھی۔
"تیار ہو جاؤ میرے دوست کی مہندی ہے وہاں جانا ہے۔۔۔" وہ سنجیدہ چہرہ لیے بولا تھا۔ جبکہ اس بات سن کر ردا کی تو باچھیں کھل گئی تھیں خوشی سے اسکا ننھا سا دل اٹکیلیاں کررہا تھا۔
"ہائے سچی۔۔۔" اسی خوشی کا اظہار وہ زوار سے بھی کرگئی تھی۔
"نو بجے جانا ہے جلدی سے تیار ہو۔۔۔" زوار نے اسکی بات یکسر نظر انداز کی تھی۔ لیکن ردا کی خوشی میں ذرا برابر بھی فرق نہ آیا تھا۔ وہ گردن ہلاتی نیچے جانے لگی جب زوار نے اسے ٹوکا تھا۔
"کہاں جارہی ہیں ، میں نے تیار ہونے کا کہا ہے۔"
"ساریہ آپی کو بتانے جارہی ہوں۔۔۔"
"انکو میں بتادوں گا ، آپ جاکر ریڈی ہوں۔۔۔" زوار نے اسکی بات درمیان میں کاٹی تھی جس پہ ردا نے منہ پھلا کر اسکو دیکھا تھا۔
"مجھے یہ بھی پوچھنا تھا کہ میں کیا پہنوں۔۔۔"
"اچھا۔" اس نے گہری سانس باہر انڈھیلی تھی۔ جبکہ وہ اجازت ملتے جلدی سے نیچے لپکی تھی۔ زوار تو اسکی بے وجہ کی خوشی دیکھ کر تاسف میں سر ہلاتا نیچے آیا تھا۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments