Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 22

ردا اور شائستہ بڑی دیر باتوں میں مگن رہیں تھیں۔ دونوں نے مل کر خوب گپ شپ لگائی تھی۔ ردا کی باتوں سے شائستہ سارے وقت مسکراتی رہی تھی۔ وہ اسے یوں اپنے گھر زوار کے حوالے سے دیکھ کر بہت خوش ہورہی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ بار بار دل ہی دل میں اسکی نظر اتار رہی تھی۔
شام کا ملجا سا اندھیرا چھا رہا تھا۔ جو کہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔
ردا کے جاتے ہی زوار نے کچھ دیر ٹی وی دیکھا پھر نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں کی وجہ سے وہ آنکھیں موندے سونے لگا تھا۔
دور سے آتی اذانوں نے اسکی نیند میں خلل ڈالا تھا جس کے باعث وہ آنکھیں ملتا اٹھ بیٹھا تھا۔ گھڑی پہ ٹائم دیکھا تو وہ سات بجا رہی تھی۔ وہ نماز کی نیت سے وضو کرنے واش میں گیا تھا۔
وہ مسجد میں جانے سے پہلے شائستہ کے کمرے کا رخ کئیے اندر داخل ہوا تھا۔ جہاں شائستہ اور ردا بڑے مزے سے باتوں میں مگن تھیں۔
"آپ لوگ تیار ہوجائیں میں نماز پڑھ کر آتا ہوں تو چلتے ہیں۔۔۔" وہ عجلت میں بولا تھا۔ ردا کی اسکی طرف پشت تھی۔
"اچھا چلو ٹھیک ہے۔۔۔" شائستہ کی بات سنتے ہی وہ ٹوپی ٹھیک کرتا کمرے سے باہر نکلا تھا۔
"چلو تم تیار ہو جاؤ باقی باتیں کل کریں گے۔" زوار کے جاتے ہی شائستہ نے مسکرا کر ردا کو کہا تھا۔
"آنی آپ بہت اچھی ہیں۔ آپ کو میں بولتی ہوئی بری نہیں لگتی ورنہ ہر کوئی مجھے چپ کرواتا ہے۔" ردا نے خوشی سے چہکتے ہوئے اپنے دل میں اچھل کود کرتی ہوئی بات کی تھی۔
"ہا۔۔۔! اتنا اچھا تو بولتی ہے میری بیٹی۔۔۔" شائستہ نے ہنستے ہوئے حیرانگی میں بھنوئیں سکیڑیں تھیں۔
"ہیں نا۔۔۔" ردا نے تائید چاہی تھی۔
"ہاں جی۔۔۔چلو تیار ہوتے ہیں ورنہ دیر ہوجائے گی۔" شائستہ نے ہنستے ہوئے اقرار کیا تھا۔
"جی اچھا۔۔۔" وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے میں جانے لگی۔ اسکے جاتے ہی شائستہ خود بھی نماز پڑھ کر تیار ہونے کا سوچنے لگی تھی۔
_____________________________________________
"کونسا پہنو۔۔۔ممم یہ ٹھیک ہے۔۔۔" وہ دس منٹ سے الماری کے سامنے کھڑی کپڑوں کی جانچ پرتال میں مصروف تھی۔ بلآخر پیلے ، سفید اور سیاہ رنگ کے امتزاج کا ایک جوڑا اسے پسند آیا تھا۔ قیمض پرنٹٹد تھی اور گلے پہ ہلکی ہلکی مشینی کڑھائی ہوئی ، ہوئی تھی جبکہ ساتھ سفید پاجامہ تھا اور شفون کا پرنٹڈ ڈوپٹہ تھا۔
وہ جوڑا پکڑے جلدی سے فریش ہونے کی غرض سے واش روم میں گھسی تھی۔ تقریباً دس منٹ میں وہ فریش ہوکر باہر نکل کر آئینے کے سامنے کھڑی اپنی موہنی شکل کو مزید سنوارنے لگی تھی۔ آنکھوں میں کاجل لگائے ، پلکوں کو مسکارے سے سجائے وہ لپ اسٹک لگانی نہ بولی تھی۔ ابھی وہ لپ اسٹک لگاکر ہٹی ہی تھی کہ زوار سر سے ٹوپی اتارتا اندر داخل ہوا۔ ردا ایک نظر اسے دیکھ کر دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئی تھی۔
زوار نے الماری سے کپڑے نکالے اور فریش ہونے چلا گیا تھا۔
ردا ایک ہاتھ میں برش تھامے اور دوسرے سے آگے کے تھوڑے بال پکڑے شدید جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔ کب سے وہ اپنے گنگھرالے بالوں کو سلجھانے میں لگی تھی مگر بال تھے کہ بن کے ہی نہیں دے رہے تھے۔ ہمیشہ کہیں بھی جانے سے پہلے نسرین اسکے بال بناتی تھی۔
زوار فریش ہوکر باہر نکلا تو وہ رونی شکل بنا کر آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ جس سے زوار کی پیشانی پہ بےساختہ بل پڑے تھے۔۔۔
"اور کتنا ٹائم لگے گا مما نیچھے ریڈی ہیں۔۔۔"
"میرے سے بال نہیں بن رہے۔" وہ رو دینے کو تھی۔
"چلو جی اب نئی مصیبت۔۔۔۔" اسکی بات سن کر زوار نے تشویش میں بھنوئیں سکیڑ کر ، افسوس میں سر ہلایا تھا۔
"یہ نہیں بن رہے تو میرا کیا قصور ہے۔۔۔؟" زوار کی بات سن کر وہ خفگی سے بولی تھی۔
"تو بناؤ نا۔۔۔ جیسے پہلے بناتی تھی ویسے بنا لو۔۔۔۔" زوار نے گویا یہ مشورہ دے کر اس پر احسان کیا تھا۔ مگر اسے نہیں پتہ تھا کہ اسکی نئی نویلی دلہن کے غموں کی لسٹ بہت طویل ہے۔
"میں نے کبھی بھی نہیں بنائے مما بناتی تھیں۔۔۔"
"آپ کوئی کام خود کرتی ہو۔۔۔" زوار نے جھنجھلا کر اسکی طرف دیکھا تھا جو منہ پھلائے یکے بعد دیگرے اپنے مسائل بتا رہی تھی۔
زوار کے یہ بولنے کی دیر تھی کہ اسنے ہر وقت اپنی زبان پہ رہنے ولا شکوہ کیا تھا۔
"میں نہیں بولتی آپ سے ، گندے نہ ہوں تو۔۔۔" وہ ناراض ہوکر پہلو بدل کر رہ گئی تھی کہ اگر اس سے بال نہیں بن رہے تو اس میں بھلا اسکا کیا قصور تھا۔
"گندی بچی تو آپ ہیں ، نا تو چپ کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی کام۔۔۔" زوار تو اسکی بات پر غصے سے تلملا کر رہ گیا تھا جس پر وہ برجستگی سے ردا کی طرف دیکھ کر بولنے لگا تھا۔
زوار کی باتیں تو تیر کی طرح اسکے دل پہ لگی تھیں۔ اسکا دل ایکدم ڈوب کے ابھرا تھا ، نمکین پانی آنکھوں میں جمع ہونے لگا تھا۔ ایسے وقت میں اسے اپنے نئے نئے حمایتی کی یاد آئی اور وہ عارضوں سے آنسو صاف کرتی نیچھے گئی تھی۔ ردا کی اس حرکت کا تو زوار کے اچھوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔
"آنی۔۔۔" وہ روتی ہوئی نیچھے شائستہ کے کمرے میں آئی تھی۔ جو کہ بلکل تیار تھی اور کمرے سے باہر آنے لگی تھی۔ مگر ردا کو روتے دیکھ کر وہ ایکدم پریشان ہوئی تھی۔
"کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو۔۔۔"
"مجھے زوار نے ڈانٹا ہے۔۔۔" ردا نے ساری شرم و حیا کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ، منہ پھاڑ کر شکایت لگائی تھی۔
"اچھا چلو چپ کرو آتا ہے تو میں اسکے کان کھینچتی ہوں۔" شائستہ نے نرمی سے اسکے آنسو صاف کرکے اسے پیار سے پچکارا تھا۔ شکایت لگا کر اسکے دل میں بھی ٹھنڈ پڑ چکی تھی یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے۔
"میرے سے بال نہیں بن رہے۔۔۔" وہ منہ پھلائے بولی تھی۔ اسکے انداز پر شائستہ بےساختہ مسکرائی تھی۔
"اچھا لاؤ برش میں چٹیا کر دوں۔۔۔" شائستہ اسے کہتی بیڈ کی ایک طرف بیٹھ گئی۔
"اچھا۔۔۔" ردا اپنے مسئلے کا حل دیکھ کر مسرور ہوئی تھی اور ڈریسنگ سے برش اٹھا کر شائستہ کے آگے بیٹھی تھی۔
_____________________________________________
ردا کے جاتے ہی زوار نے حقیقتاً اپنا ماتھا پیٹا تھا۔ تاسف میں سر ہلاتے اور اپنے آپ سے اظہارِ افسوس کرتے وہ اپنی بقیہ تیاری مکمل کرنے لگا تھا۔
"آپ لوگوں کی تیاری آج ختم ہوگی۔۔۔؟" اندر داخل ہوتے ہی زوار نے میٹھے لہجے میں طنز کیا تھا۔
"وہ تو ہوگئی ہے ذرا یہ بتاؤ تم نے ردا کو کیوں ڈانٹا ہے۔۔۔؟" شائستہ ردا کی چٹیا باندھ کر اسکی طرف دیکھ کر دو دو ہاتھ کرنے لگی تھی۔ ردا تو زوار کو دیکھ کر کڑوامنہ بنا کر پہلو بدل گئی تھی۔
"میں نے اسے کوئی نہیں ڈانٹا۔۔۔ یہ دیکھیں احان کی کال آرہی ہے۔۔۔" زوار نے نفی کے ساتھ ساتھ فون سامنے کیا تھا جہاں احان کالنگ چمک رہا تھا۔
"اچھا چلو۔۔۔" کال دیکھ کر شائستہ نے آکر اس معاملے پہ بات کرنے کا سوچتے ہوئے کہا تھا۔ شائستہ کی بات سن کر ردا نے خفگی سے زوار کو دیکھا تھا۔
"یہ باز نہیں آئے گی۔۔۔" وہ جواباً ردا کو گھور کر ، منہ میں بڑبڑاتا باہر نکلا تھا۔
_____________________________________________
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 22
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 22


پچھلے آدھے گھنٹے سے احان لاؤنج میں بیٹھا تھا۔ساریہ کا دھیان بار بار بھٹک کر اسکی طرف جارہا تھا وہ جھنجھلا کر فیصلہ کرچکی تھی کہ وہ ابھی کیسے بھی کرکے احان سے بات کرے گی۔ یہ سوچ کر اس نے بوجھل سانس باہر انڈھیل کر خود کو ریلکس کیا اور اب پوری توجہ سے غزالہ کی مدد کروانے لگی تھی۔ اس نے احان کے لیے اسپیشل اسپیگیٹی بھی بنانے کا سوچا تھا۔
کافی دیر ٹی وی کے آگے بےمقصد بیٹھ کر وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگا تھا۔ اسے کمرے میں جاتا دیکھ کر ساریہ کا دل یک لخت زور سے ڈھرکا تھا اور خوف سے اسکا دماغ احان کے پیچھے جانے سے انکار کرنے لگا۔ وہ لب کاٹتے سوچ میں غوطہ زن تھی کہ اب کیا کرے۔
"ساریہ۔۔۔! اسے اپنے قریب سے غزالہ کی آواز اپنی سماعتوں سے ٹکڑاتے ہوئے محسوس ہوئی تھی۔
"ج جی پھپھو۔۔۔" وہ چونک کر اپنی سوچ سے نکلی تھی۔
"بیٹا پلیز جاؤ احان کا کرتا استری اسٹینڈ پر پڑی ہے وہ پریس کردو وہ جاتے ہوئے مجھے دے کر گیا تھا مگر مجھے یاد بھول گیا تھا۔۔۔" غزالہ نے ایک نظر اسکی طرف دیکھتے ہوئے خود کو ملامت کرتے ہوئے کہا تھا۔
"اچھا پھپھو میں کر دیتی ہوں۔۔۔" وہ دل ہی دل میں غزالہ کی ممنون ہوئی تھی اور کیچن سے باہر نکل کر کرتا اچھے سے پریس کرکے وہ اپنے من من کے ہوتے قدموں کے ساتھ اوپر جانے لگی۔ وہ اپنے آپ کو ریلکس کرنے میں بارہا ناکام ہورہی تھی۔ ایسی ناراضگی احان نے پہلے کبھی دیکھائی جو نہیں تھی۔
ساریہ دروازے پہ کھڑی لمبی سانس اندر کھینچ کر ، کانپتے ہاتھوں کے ساتھ دستک دینے لگی۔ اس کا دل زور زور سے دھک دھک کی تال میل کررہا تھا۔
ڈری ڈری دستک دیکھ کر احان کے چہرے پہ بےساختہ مسکراہٹ آئی تھی۔ وہ لاؤنج میں بیٹھا کن اکھیوں سے ساریہ کی مضطرابی دیکھ چکا تھا۔
احان نے کپڑے پکڑنے کے لیے ہاتھ باہر نکالا۔۔۔ ساریہ کی آنکھیں ڈبڈبائی تھیں۔ مگر مزید احان کو ناراض نہ کرنے کی سوچ نے اسکی ساری ہمت متجمع کی۔ ساریہ نے کپڑے ہاتھ میں دینے کی بجائے ہلکا سا زور لگا کر دروازہ کھولا تھا۔ احان جو کہ اس کی توقع نہیں کررہا تھا ایک دم سیدھا ہوا تھا۔ساریہ کو اندر آتے دیکھ کر اس نے جلدی سے اپنی مسکراہٹ سمیٹی تھی۔۔۔
"شکریہ آپ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گی۔۔۔۔" اسے سے کرتا پکڑ کر احان نے چہرے پہ سنجیدگی طاری کرکے بھگو کر طنز کیا اور کرتا تھامے پلٹ کر بیڈ کی طرف آیا تھا۔ اسکی بات سے ساریہ کا دل ڈوبا تھا۔ مگر اس نے سوچ لیا تھا جہاں اتنی ہمت کی ہے وہاں تھوڑی اور سہی۔
"حان۔۔۔! آپ میری بات تو سنیں۔۔۔! ساریہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اس تک آکر ہولے سے اسکا بازو تھام کر ، اسکا رخ اپنی طرف کرکے منمنائی تھی۔
"کیا سنوں۔۔۔ آپ سنتی ہیں۔۔۔" احان نے نرمی سے اپنا بازو اسکی گرفت سے نکالا تھا۔
"حان۔۔۔! بیوی کی بھی تو سنتے ہیں کبھی کبھی۔۔۔۔" احان کا انداز دیکھ کر وہ روہانسی ہوئی تھی۔
"میں نے اب تک بیوی کی ہی سنی ہے۔ یہ الگ بات ہے بیوی کو ہی شوہر کا خیال نہیں ہے۔۔۔" وہ خفگی سے کہتا ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گیا تھا کیونکہ ساریہ کا منہ دیکھ کر اسے اپنی ہنسی روکنے میں بہت دقت آرہی تھی۔ باہر جانے سے پہلے ساریہ سے شکوے شکایت کا اظہار کرکے اسکا دماغ ٹھنڈا ہو چکا تھا مگر اسے یوں ساریہ کو تنگ کرنے میں مزہ آرہا تھا۔ ایسے موقع بھی تو کم آتے تھے جب وہ بلکل اسکی طرح اسکے پیچھے پیچھے ہوتی تھی۔
"آپ پلیز ایسے تو نہ کہیں۔۔۔" ساریہ دوبارہ اسکے پیچھے آئی تھی۔ اسکے لہجے میں بلا کی شرمندگی تھی۔
"تو کیسے کہوں۔۔۔" احان نے ایک نظر آئینے میں آتے دونوں کے عکس کو دیکھ کر کہا تھا۔
"کل رات جب آپ فون کررہے تھے تو عبیرہ تھی ساتھ میں اسکے سامنے آپ سے کیسے بات کرتی۔۔۔" ساریہ ایک نظر اسکی طرف دیکھ کر نادم ہوتے گویا ہوئی تھی۔
"ایک مسیج تو کرسکتی تھیں نا۔۔۔ مگر پرواہ ہو تو نا۔۔۔" احان روٹھے لٹھ مار لہجے میں کہتا پہلو بدل گیا تھا۔
"ہم دونوں باتیں کررہی تھیں میں اسکے سامنے کیسے کرتی۔۔۔ اب آپ مجھے تنگ کررہے ہیں۔۔۔" اتنی وضاحت کی بعد بھی احان کی خفگی کو دیکھ کر ساریہ نے روہانسی ہوتے کہا تھا۔
"بےفکر رہیں اب تنگ نہیں کرتا۔۔۔" احان نے اسکی بات میں سے بات نکال کر گویا اسکی پریشانی بڑھائی تھی۔
"حان کیا ہوگیا ہے آپکو۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ سچ میں سوری میں کل رات سے گلٹی فیل کررہی ہوں۔۔۔" احان کی بات سن کر اسنے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا ، اسکا ضبط آنسوؤں پہ ٹوٹا تھا ، آنسو لکیروں کی شکل میں عارضوں پہ پھسلے تھے۔ اسکے آنسو دیکھ کر وہ ایکدم نرم ہوا تھا۔
ایسے کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی محبت کے آنسو بےمول ہونے دیتا۔
"آنسو صاف کریں۔۔۔" احان نے اسکے شانوں سے پکڑ کر اسے سامنے کیا تھا جو شاید اسکی طرح محبت کی رمز پہچان چکی تھی ، یہ وحی اسکے دل کی پاک سرزمین پہ اتر چکی تھی۔ وہ محرم کی محبت پاکر سرشار تھی اس لیے اسکی ذرا سی بےرخی بھی دل و جان پہ کھل رہی تھی۔
احان کی نرم روئی لہجے میں کی گئی ہدایت پہ وہ نفی میں سر ہلاتی ، آنکھوں پہ پلکوں کی باڑ گرائے بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔
"ساریہ۔۔۔! اب کے احان کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ سامنے کھڑی آنکھوں میں آنسو لئیے ، لڑکی اسکی محبت ، اسکی متاع جان تھی تو وہ کیسے اسکے آنسو برداشت کر سکتا تھا۔ اسکے یہ آنسو احان کو اپنے دل پہ گرتے محسوس ہوئے تھے۔ جس سے اسکا ضبط ٹوٹا اور وہ ڈپٹ کر بولا تھا۔
"سوری۔۔۔" وہ احان کے حصار کی چادر میں زور سے آنکھیں میچھ کر بولی تھی۔
"اچھا اوکے۔۔۔" احان اسکے شانے ہولے سے دبا کر ، وہ ساریہ کے آنسو اپنی مضبوط انگلیوں کی پوروں پہ چنتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
"آپ ابھی بھی خفا ہیں نا۔۔۔؟" وہ سوالیہ نگاہیں اپنے محرم پہ مرکوز کیے مستفسر ہوئے تھی۔
"نہیں۔۔۔! خفا نہیں تھا بس غصہ تھا مجھے تمہیں اس سوٹ میں دیکھنا تھا۔" وہ اسکی طرف جھک کر معصوم منہ بنائے بولا تھا۔
"آپ نے دیکھا تو تھا۔۔۔" ساریہ اسکی لو دیتی نظروں سے خائف ہوتی کچھ دیر توقف کے بعد بولی تھی۔
"مائے دئیر وائف اسے دیکھنا نہیں کہتے۔۔۔ میں نے آپکو فرصت سے دیکھنا تھا ویڈیو کال کرکے۔" وہ اپنی ازلی ٹون میں واپس آچکا تھا۔ اور دھیرے سے اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔
"سوری سریسلی عبیرہ کے سامنے مجھے عجیب لگ رہا تھا۔۔۔" وہ اسکے سینے سے سر اٹھائے معصومیت سے بول کر اسکے دل کی تہہ و بالا ہلا چکی تھی۔
"اچھا نا اوکے۔۔۔موڈ تو ٹھیک کرو ، پہلی بار ہمارے بیڈ روم میں آئی ہو۔۔۔" اسکی موہنی صورت دیکھ کر احان نے شوخی سے کہا تھا۔
"وہ۔۔۔ وہ میں جاؤں۔۔۔" احان کی بات سن کر وہ سٹپٹا کر اسکے حصار سے نکلتی عجلت میں بولی تھی۔
"بتا رہی ہو یا پوچھ رہی ہو۔۔۔؟" احان نے ناسمجھی میں بھنوئیں سکیڑ کر پوچھا تھا۔ ساریہ کی شرم و حیا پہ مبنی گھبراہٹ دیکھ کر وہ اسکی حالت سے محفوظ ہورہا تھا۔
"آپ بتا دیں ورنہ پھر آپ خفا ہوجاتے ہیں۔۔۔" وہ منہ بسور کر شکوہ کیا گیا تھا۔
"نا جاؤ نا۔۔۔" احان نے نرمی سے اسکا دائیں ہاتھ تھاما تھا۔
"جا تو آپ رہے ہیں۔۔۔" ساریہ بےساختہ بولی تھی۔ جبکہ اسکی بات سن کر احان نے ہولے سے اسکا ہاتھ دبا کر اسکے اپنے ساتھ کا یقین دلایا تھا۔
"پہلے بھی کہا تھا اب پھر کہہ رہا ہوں ، واپس آنے کے لیے۔۔۔۔"
"احان۔۔۔" باہر سے آتی آواز نے انکی نظروں کا تسلسل توڑا تھا اور وہ چونک کر ایک نظر دروازے کی طرف دیکھ کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے۔
"ج جی بابا آیا۔۔۔" وہ بمشکل ہکلاتے ہوئے بولا تھا۔ وہ شرم و حیا سے محفوظ ہورہا تھا۔
"جی۔۔۔" تھوڑا سا دروازہ کھول کر ، احان سعادت مندی سے گویا ہوا تھا۔
"یہ تمہاری ٹکٹس اور کچھ اہم کاغذات۔۔۔۔" ہاشم نے سب اسکی طرف بڑھایا تھا۔
"شکریہ بابا۔۔۔" وہ ممنون ہوا تھا۔
"موسٹ ویلکم مائی دئیر سن۔۔۔ ان مزاکرات سے فارغ ہوکر ٹائم سے نیچے آجانا۔۔۔" ہاشم آنکھیں گول گول گما کر پلٹ گیا تھا پیچھے احان سر کھجا کر رہ گیا تھا۔
"کیا ہوا ایسے کیوں گھور رہی ہو۔۔۔؟" ہاشم کی بات ساریہ کی سماعتوں سے ٹکڑائی تو وہ شرم سے پانی پانی ہوئی تھی۔ اس لیے احان کے اندر آتے ہی وہ اسے گھورنے لگی تھی۔
"پتہ نہیں انکل میرے بارے کیا سوچتے ہوں گے۔۔۔ سب آپکی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔" ساریہ نے روہانسی ہوکر کہا تھا۔
"اب یہ غلط بات ہے آج آپ خود آئی تھیں۔۔۔" احان نے برا مناتے اسے یاد دہانی کروائی تھی۔
"ویری فنی۔۔۔" ساریہ جھنجھلا کر بولی تھی اور احان کا جواب سننے سے پہلے ہی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کیونکہ اسکے نزدیک ساتی غلطی باتونی احان کی تھی کو اسے ہر وت باتوں میں لگا دیتا تھا۔
"اف ظالم کی یہ ادائیں۔۔۔ہائے اب میرا وہاں کیسے گزرا ہوگا۔" احان دل تھامے دلکشی سے بولا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔ 

Post a Comment

0 Comments