Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 21

وہ بیس منٹ کے بعد تیار ہوکر نیچے ناشتے کے میز پہ آچکی تھی۔ وہ نکھری نکھری سی بہت نازک ، معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی۔
ردا کے آتے ہی شائستہ نے ساریہ کو ناشتہ میز پہ لگانے کا کہا تھا جس پہ وہ اور عبیرہ اثبات میں سر ہلاتیں کیچن میں گئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ ناشتے کے لیے میز کے آگے سجی کرسیوں کو سنبھال چکے تھے۔ مختلف لوزامات سے سجی میز دیکھ کر ردا کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ آیج تو اس کے لیے دو دو خوشی کی باتیں تھیں ایک تو یہ کہ آج اسے گھی میں ڈوبا ہوا پراٹھا نہیں کھانا پڑنا تھا اور دوسرا یہ کہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں نسرین اسے ڈانٹے گی بھی نہیں۔ وہ اپنا نئی نویلی دلہن کا عہدہ بھولے بغیر کسی کو کھاتے میں لاتے ، مزے سے میز پہ سجی نہاری کے ڈونگے پہ ہاتھ ڈالے اسے مضبوط گرفت سے پکڑ کر اپنی پلیٹ میں نکالنے لگی تھی۔ باقی سب بھی اپنے اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ زوار گاہے بگاہے کن اکھیوں سے ردا کو دیکھ رہا تھا مگر وہ اسے اگنور لسٹ میں ڈالے اپنے پیٹ کی پوجا میں مصروف رہی تھی۔
ناشتے اچھے ماحول میں کھا کر نسرین کچھ دیر بیٹھ کر جانے کے لیے اجازت مانگنے لگی تھی۔ اسکی اجازت مانگنے کی دیر تھی کہ ردا بھی جانے کے لیے تیار ہوگئی نسرین نے اسے اسے نظروں ہی نظروں میں باز آنے کا مبہم سا اشارہ کیا تھا مگر اب اتنی سی عمر میں وہ بیچاری بھی کیسے آنکھوں کی باتوں کو سمجھتی۔ وہ نسرین کی گھوریوں کو ہلکا لے کر جانے کے لیے بضد تھی۔ ردا کی وجہ سے شائستہ نے مسکرا کر اسے جانے کا کہا تھا۔ جس پہ نسرین راضی ہوتی ردا کو ساتھ لیے جانے لگی تھی کہ زوار نے انہیں خود چھوڑ کر آنے کا کہا ، نسرین نے ایک دو دفعہ ٹالا تھا مگر زوار نہیں مانا اور انکو باہر آنے کا کہتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
ردا خوشی سے چہکتی نسرین کو دو منٹ کہتی اپنے کمرے میں گئی۔ الماری سے نیا پرس نکال کر اسکی اسٹریپ کندھوں پہ ڈالے وہ سہج سہج کر زینے اترتے لاؤنج میں آئی تھی۔ شائستہ ، ساریہ اور عبیرہ سے ملتے وہ نسرین کے ہمراہ باہر جانے لگی تھی۔
زوار نے انکو گھر کے دروازے پہ چھوڑا تھا نسرین نے بہت کہا تھا کہ وہ اندر آئے مگر وہ کسی ضروری بات کا بہانہ بنا گیا تھا۔
گھر آتے ہی ردا نے کل کی ساری باتیں بڑے جوش سے نسرین کو سنائی تھیں۔ وہ ایک ایک بات نسرین کو چہک کر سنا رہی تھی۔ جبکہ اسکے خوشی سے چمکتے چہرے کو دیکھ کر نسرین کو ڈھیروں سکون اپنے اندر اترتے محسوس ہوا وہ زوار سے شادی کے فیصلے کو لے کر مطمئن تھی۔ مسلسل دو گھنٹے اس کی باتیں سن کر نسرین نے اسے ڈپٹ کر چپ کروایا جس پہ ردا شکوہ کناں نظروں سے دیکھنے لگی۔ اسکی پھولا ہوا منہ دیکھ کر نسرین کو اس پہ ڈھیر سارا پیارا آیا جس پہ وہ اسے گلے لگاتی اسکا سر چوم کر اسے دوپہر کا کھانا بنانے کا کہتی کیچن میں جانے لگی ، ردا روٹھے لٹھ مار لہجے میں تھکن کے باعث آرام کرنے کا کہتی اپنے کمرے میں جانے لگی تھی۔
ردا تو جو سوئی شام کے چار بجے جاکر اٹھی نسرین نے اسے ایک دو دفعہ اٹھایا بھی جس پہ وہ کسمسا کر دوبارہ سوجاتی۔ اسے پرسکون نیند لیتے ہوئے نسرین نے اسے سونے دیا اور خود نیچے لاؤنج میں چلی آئی۔ کہنے کو ایک دن بھی ابھی پورا نہیں ہوا تھا مگر وہ ابھی سے اپنے آپکو کو اکیلا اکیلا محسوس کرکے تھکی ، تھکی تھی۔
ردا اٹھ کر نیچے آئی تو نسرین نے اسے کھانا گرم کرکے دیا تھا۔ ابھی وہ کھانا کھاکر فارغ ہی ہوئی تھی کہ نسرین نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر پیار سے سمجھایا تھا۔ اسے ردا کا یوں ضد کرنا مناسب نہیں لگا تھا۔
"ردا ایسے اپنی مرضی سے منہ اٹھا کر گھر نہیں آجاتے۔ اپنے شوہر اور ساس سے پوچھتے ہیں جب وہ اجازت دیں تو تب ہی آتے ہیں۔۔۔"
"مما زوار نے مجھ سے رات کو پرومیس کیا تھا کہ وہ مجھے صبح گھر چھوڑیں گے۔۔۔" وہ سر کو ہلکی سے جنبش دے کر بولی تھی۔
"بیٹا پھر بھی آپکو ایک دفعہ پوچھنا تو چاہیے تھا نا۔۔۔" نسرین نے ہولے سے اسکا ہاتھ دباتے ہوئے کہا تھا۔
"مما یہ تو میری مما کا گھر ہے نا۔۔۔" گویا یاد دہانی کروائی گئی تھی۔ردا کی بات سن کر نسرین نے تاسف میں سر ہلایا۔
"جب آپ یہاں تھیں تب بھی تو میرے سے پوچھ کر گھر سے باہر جاتی تھیں نا۔۔۔" کسی کو اپنی بات پہ قائل کرنے کے قواعدو ضوابط ہوتے ہیں انہیں کو مد نظر رکھتے ہوئے نسرین نے اسے رسان سے سمجھانے لگی تھی۔
"مما آپ تو مجھے جانے بھی نہیں دیتی تھیں۔۔۔ میں نے آپ سے کتنا کہا تھا کہ مجھے علیزے کی برتھڈے پہ اسکے گھر جانا ہے پر آپ نے جانے ہی نہیں دیا۔۔۔" ردا کو بات تو کیا سمجھ میں آتی وہ نسرین کی بات سے ایک نیا پنڈورا باکس کھول چکی تھی۔ نسرین کا دماغ ایک منٹ میں گھوما تھا کتنا وہ پیار سے اسے سمجھا رہی تھی ردا اتنا ہی اسکے صبر کا امتحان لینے میں غلطاں تھی۔
"ردا ہم اس وقت کوئی اور بات کررہے ہیں۔۔۔ آپ نے زوار سے تو کیا اسکی مما سے بھی نہیں پوچھا۔۔۔آئیندہ ایسے نہ ہو۔۔۔" نسرین نے اسکی انوکھی باتوں پہ اپنا ماتھا پیٹا تھا۔
"مما زوار ذرا بھی نہیں اچھے۔۔۔" وہ نسرین کے تنے تیور دیکھ کر منہ بسور کر بولی تھی۔
"کیوں اس نے کونسی گولی مار دی ہے تمہیں۔۔۔" نسرین تو اسکی بات پہ ضبط کرتی سوالیہ تیوری چڑھائے اسے دیکھ کم اور گھور زیادہ رہی تھی۔
"مما وہ میری کوئی بات نہیں مانتے ، رات کو انہوں نے مجھے اتنا تنگ کیا اور ڈانٹا تھا میں نے کچھ کیا بھی نہیں تھا پھر بھی۔" وہ اپنی ماں کو اپنا ہمدرد سمجھے ، منہ پہ پورے دنوں کی مسکینیت طاری کیے بولی تھی۔
"ردا اب تم چپ کر جاؤ ورنہ اب پٹوگی میرے ہاتھوں۔۔۔"
"مم۔۔۔"
"السلام علیکم۔۔۔" ابھی ردا نے مزید گل افشانی کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ایک گھمبیر آواز سماعتوں سے ٹکڑائی جسے سن کر نسرین کو تو خاصی حیرت ہوئی مگر ردا کا ننھا سا ، نازک سا دل حلق میں آگیا تھا۔
وعلیکم السلام آؤ بیٹا۔۔۔" سر کی ہلکی سی جنبش کرکے وہ اندر کی جانب اپنے مضبوط قدم اٹھا رہا تھا۔ زوار کے بیٹھے ہی نسرین نے ردا کو متوجہ کیا جو دم سادھے بیٹھی تھی۔
"ردا جاؤ زوار کے لیے چائے بناؤ۔۔۔"
"نہیں آنٹی چائے پھر کبھی دراصل کل احان جارہا ہے تو آج پھپھو کے گھر دعوت تھی۔ اس لیے میں ردا کو لینے آیا ہوں۔" زوار نے سہولت سے انکار کرنا چاہا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے مگر میں چائے کے بغیر نہیں جانے دوں گی۔ ردا یہ بھی لیتی جاؤ۔۔۔" وہ مسکرا کر زوار کو کہتی ردا کو آنکھیں دکھانے لگی جو خالی برتن وہیں چھوڑے کیچن میں جانے لگی تھی۔
"جی مما۔۔۔"
"شائستہ اور ساریہ کیا کررہی تھیں۔" نسرین نے کچھ لمحے کے توقف سے کہا تھا۔
"مما تو گھر ہیں ، ساریہ اور عبیرہ کو پھپھو کی طرف چھوڑ کر آیا ہوں۔" وہ مسکرا کر جواب دینے لگا تھا۔ کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرکے وہ زوار سے کہتی کیچن میں جانے لگی تھی۔
"میں ردا کو تیار ہونے کا بولتی ہوں۔۔۔"
نسرین نے شادی سے پہلے زبردستی ردا کو چائے بنانا سیکھائی تھی۔ جو وہ رو دھو کر گزارے لائق چائے بنانا سیکھ ہی گئی تھی۔
اسنے کیچن میں جاکر ردا کو جلدی سے تیار ہونے کا کہ اور باقی کا کام خود کرنے لگی۔ ردا منہ کے برے برے زوایے بناتی کیچن سے اپنے کمرے میں گئی اور پندرہ بعد تیار ہوکر نیچے زوار کے پاس لاؤنج میں آئی تھی۔
"تمہیں میں نے منع کیا تھا نا کہ کمرے کی کوئی بھی بات باہر نہیں کرنی۔۔۔" ردا کے بیٹھتے ہی زوار نے اسے دیکھتے ہوئے ، اچھنبے سے دانٹ پیستے ہوئے استفسار کیا تھا۔
"میں نے کونسی کی ہے۔۔۔" وہ ناسمجھی میں بھنوئیں سکیڑ کر سوالیہ ہوئی تھی۔ زوار تو اس کی معصومیت پر عش عش کرتا رہ گیا جو اب بھولا سا منہ بنائے ہوئی تھی۔
"تنگ کرنے والی۔۔۔" وہ اسکی ناسمجھی پہ تلملا کر رہ گیا تھا۔
"ہووووو آپ میری باتیں سن رہے تھے ، کسی کی باتیں سننا بہت بری بات ہوتی ہے۔۔۔" زوار کی بات سن کر ردا کا ہاتھ بےساختہ اپنے کھولے منہ کی طرف بڑھا۔ وہ منہ پہ ہاتھ رکھے ، آخری حد تک آنکھیں کھولے اور پیشانی پہ حیرت کے بل ڈالے بولی تھی۔ زوار تو اس چھوٹے پیکٹ کو دیکھ کر رہ گیا جو بڑی صفائی سے بات کا رخ موڑ چکا تھا۔ ردا اپنی حیرت کا اظہار کرکے آخر میں بڑی بی بنو کی طرح اسکے معلومات عامہ میں اضافہ کرنے لگی تھی۔ جو زوار کو ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
"میں کسی کی نہیں ، تمہاری بات کررہا ہوں۔۔۔" وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔ رات سے اب تک اسکے اور ردا کے درمیان جب بھی کوئی بحث و مباحثہ ہوا تھا وہ اپنی نئی منطق سے بات کا رخ کہاں سے کہاں لے جاتی تھی۔ جس پہ زوار جھنجھلا کر رہ جاتا تھا۔ وہ اپنی سترہ گھنٹے کی شادی شدہ زندگی سے جی بھر کر بدمزہ ہوچکا تھا۔
"تو آپ میری باتیں کیوں سن رہے تھے۔۔۔" ردا نے اسکی جھنجھلاہٹ کو ردی کرتے نئی جرح کی تھی۔
"کیونکہ آجکل میری قسمت کے برے دن چل رہے ہیں۔۔۔" وہ اسکی جرح سے عاجز آتا دانت پیس کر بولا تھا۔
"اللہ آپ بہت بولتے ہیں۔۔۔" ردا نے ناک کے نتھنے پھلائے کر کہا تھا۔
"تم سے تو میں گھر جاکر پوچھوں گا کہ کیوں بات کی ہے۔۔۔" زوار نے اسے دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا۔
"میں بتاؤں گی نہیں۔۔۔" وہ منہ بسور کر بولی تھی۔ اور اندر ہی اندر اپنے آپ کو بات کرنے پہ کوسنے کے ساتھ ساتھ زوار کو بھی کوس رہی تھی کہ اگر وہ بات کر بھی رہی تھی تو زوار نے کیوں سنی تھی۔ اتنی بحث و مباحثے کا مدعا یہ تھا کہ بات کا رخ بدلا جائے مگر زوار بھی شاید ردا کا ساتھ پاکر اس جیسے ہوگیا تھا جو بات کو چھوڑ ہی نہیں رہا تھا۔ زوار نے ردا کے جواب میں اسے زبردستی گھوری سے نوازا مگر نسرین کے آنے کی وجہ سے اسکی مدت کم ہوچکی تھی۔
تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتوں کے دوران چائے سے لطف اندوز ہوکر وہ دونوں گھر کے لیے نکل گئے تھے۔ نسرین نے بےشمار دعائیں انکی پشت پر پڑھ کر پھونکیں تھیں اور انہیں اللہ کے امان میں دیا تھا۔
"ردا گھر جاکر ایسی ویسی کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔" وہ گاڑی روڈ پہ ڈالے ایک نظر ردا کو دیکھ کر نرم لہجے میں کہہ رہا تھا اور وہ جوکہ باہر دیکھنے میں محو تھی اسکی بات پر چونک کر پوری اسکی طرف گھوم کر غصے سے بھنوئیں سکیڑ کر اسے گھورنے لگی تھی۔
"میں نے کیا کہا ہے۔۔" ردا نے پھر سے کیا کیا کی گردان کی تھی۔
"یار تم بہت بحث کرتی ہو۔۔۔ بس میں نے کہہ دیا نا کہ کچھ نہیں بولنا تو بس نہیں بولنا۔ بس تم چپ رہنا کچھ نہ بولنا۔۔۔" زوار اسکی طرف ایک نظر دیکھ کر جھنجھلا کر بولا تھا جو کہ پھر سے جرح کے لیے تیار کھڑی تھی۔ وہ اسکی بات کا برا مانتی ناک منہ چڑھائے ، ناراض ہوکر پہلو بدل کر رہ گئی تھی۔
"ہر کوئی مجھے چپ کرواتا ہے میں اب بولوں گی نہیں۔۔۔ہننہہہہہ۔۔۔۔" وہ دل ہی دل میں جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی تھی۔ گاڑی میں اب مکمل خاموشی تھی۔
مزید پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ گھر پہنچ چکے تھے۔ ردا ہنوز منہ پھلائے گاڑی سے نکل کر اندر جانے لگی تھی زوار بھی اسکی پیچھے ہی تھا۔
گھر میں اس وقت مکمل خاموشی کا راج تھا کیونکہ زوار ساریہ اور عبیرہ دونوں کو ، ردا کو لینے سے پہلے ہی غزالہ کی طرف چھوڑ کر آیا تھا۔ جبکہ شائستہ اپنے کمرے میں آرام کررہی تھی
وہ خاموشی سے منہ غبارے کی طرح پھلائے اپنے کمرے میں جانے لگی تھی ، زوار پانی پینے کے لیے کیچن میں گیا تھا وہ ہر حد تک اپنے کام خود کرنے کی کوشش کرتا تھا ، اس نے کبھی بھی ساریہ یا شائستہ کو اپنے کاموں کے پیچھے نہیں لگایا ہوا تھا۔ وہ پانی پی کر سیدھا شائستہ کے کمرے میں گیا تھا۔ اس پورے اثنا میں وہ اس بات سے بےخبر تھا کہ اسکی ایک دن کی نئی نویلی دلہن اس سے ناراض ہے۔
_____________________________________________
ساریہ اور عبیرہ ابھی لاؤنج میں ہی بیٹھی تھیں کہ احان کسی کام سے باہر جانے کے لیے نیچھے آیا تھا۔ اس بات سے بےخبر کہ نیچھے اسکی منکوحہ صاحبہ آئی ہیں جنہوں نے کل رات سے اپنے شوہر کو سکون سے اگنور لسٹ میں ڈالا ہوا تھا۔ وہ ابھی نیچھے آیا تھا کہ عبیرہ ساریہ سے باتیں کرتی کرتی اسے ایک منٹ کا کہہ کر اپنے کمرے میں گئی تھی۔ ساریہ سر جھٹک کر وہیں بیٹھی اسکا انتظار کرنے لگی تھی۔ غزالہ عصر کی نماز پڑھنے اپنے کمرے میں گئی تھی۔ احان اسے سامنے آکر اسے شکوہ کناں نظروں سے گھورنے لگا تھا۔
کل رات گھر آکر احان نے ساریہ کو کوئی سو فون کیے تھے مگر مجال ہو جو ساریہ نے ایک دفعہ بھی اٹھانے کی زحمت کی ہو۔ وہ ساری رات شدید جھنجھلایا رہا تھا۔
یوں اچانک احان کو اپنے سامنے دیکھ کر ایکدم ساریہ کے چہرے کے رنگ بدلے تھے اسکا چہرہ احان کی شکوہ کنانی کی وجہ سے شرمندگی سے سفید ہوا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ منالے گی مگر اتنی جلدی احان کو سامنے دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھی۔
رات کو اس نے عبیرہ کی وجہ سے احان کی کال نہیں اٹھائی تھیں۔ جب جب احان کی کال آرہی تھی وہ چپ چاپ کبھی عبیرہ کو دیکھتی اور کبھی فون کو۔۔۔ تھک ہار کر اسنے فون بند کرکے سائیڈ پہ رکھا اور عبیرہ کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔
"میں تمہارے لیے ذرا بھی اہم نہیں ہوں نا۔۔۔" وہ خفگی سے مستفسر ہوا تھا۔ اسکی خفگی ، ناراضگی ساریہ کی جان پہ بنی تھی۔
"نہیں وہ۔۔۔"
"کل کتنے فون کیے تھے میں نے مگر مجال ہے جو فون اٹھایا ہو۔" ابھی وہ لڑکھڑاتے زبان کے ساتھ اپنے دفاع میں کچھ بولنے لگی تھی کہ احان نے اسکی بات اچک کر ایک نیا شکوہ کیا تھا۔ جس سے بےساختہ ساریہ کی آنکھوں میں نمی اتری تھی۔
"وہ۔۔۔"
"اب میں نے فون کرنا ہی نہیں ہے۔۔۔" وہ پھر سے بولنے لگی تھی کہ احان نے دوبارہ اسے سخت لہجے میں کہہ کر گویا اپنی طرف سے بات ختم کی تھی۔
"حان۔۔۔" وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے بولی تھی مگر احان ان سنی کرکے باہر کی طرف چلا گیا تھا۔ وہ اسکی پشت دیکھ کر اپنے عارضوں سے آنسو صاف کرنے لگی تھی۔
"کیا ہوا۔۔۔" عبیرہ آتے ہی مستفسر ہوئی تھی۔
"کچھ نہیں۔۔۔ پھپھو کہاں ہیں۔۔۔" وہ زبردستی مسکرا کر بات ٹال گئی تھی۔
"مما آتی ہیں آج اسپیگیٹی بنائیں۔۔۔"
"ہممم چلو بناتے ہیں۔" وہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔
_____________________________________________
"آگئے تم ردا کو لے کر۔۔۔" زوار کو اندر آتے دیکھ کر شائستہ مستفسر ہوئی تھی۔
"جی ابھی آیا ہوں۔" وہ جواب دیتا بیڈ کی دوسری طرف آکر نیم دراز ہو کر آنکھیں موند گیا۔ شائستہ مسکرا کر اسکی کشادہ پیشانی پہ بکھرے بالوں کو نرمی سے اپنے ہاتھ سے پیچھے کرنے لگی۔ زوار نے مسکرا کر شائستہ کا ہاتھ تھام کر اسے لبوں سے لگایا تھا۔
"ردا کہاں ہے۔۔۔" وہ سوالیہ انداز میں بھنوئیں سکیڑ کر گویا ہوئی تھی۔
"کمرے میں گئی ہے شاید۔۔۔آپ کی طبیعت ٹھیک ہے اب۔۔؟ زوار شائستہ کی طرف کروٹ لے کر ردا کا بتاکر اسکی طبیعت کا پوچھنے لگا تھا۔
"ہممم ہاں طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔ جاؤ ردا کو دیکھو کچھ چاہیے نہ ہو اسے ساریہ بھی گھر نہیں ہے۔۔۔" شائستہ نے نرمی سے گویا ہوئی تھی۔
"مما وہ دیکھ لے گی بچی تھوڑی ہے۔۔۔" وہ دائیں آنکھ کھولے جھنجھلا کر بولا تھا۔
"زوار۔۔۔! بات بچی کی نہیں ہے وہ یہاں نئی ہے اسے یہاں چیزوں کا پتہ نہیں ہوگا کہ کہاں کہاں ہیں ، ابھی ٹھیک سے اس نے گھر بھی نہیں دیکھا ہوا جاؤ دیکھو کوئی چیز چاہیے تو بتاؤ اسکو ورنہ گھر دکھاؤ اسے۔۔۔" شائستہ اسکے انداز پہ حیران ہوتی قطعیت سے بولی تھی۔
"مما۔۔۔ اچھا جارہا ہوں۔۔۔ یہ مجھے چین نہیں لینے دے گی۔۔۔" وہ جلے دل کے ساتھ ہامی بھرتا ، آخر میں منہ بڑبڑاتا اٹھا تھا۔
_____________________________________________
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 21
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 21 


وہ کمرے میں آکر پرس بیڈ پر پٹخک کر وہیں پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔ منہ ہنوز پھلایا ہوا تھا اور خواہش یہ تھی کہ اسکا ایک دن کا دولہا اسے پیار سے منائے۔ بیس منٹ گزر چکے تھے اسے یوں ہی بیٹھے مگر اسے کوئی منانے نہیں آیا جس سے اسکی ناراضگی کا گراف بڑھتا جارہا تھا۔
"میں نے اب بولنا ہی نہیں ہے۔۔۔ میری زبان تمہیں قسم ہے جو تم بولی تو میں تو چپ ہی رہوں گی۔۔۔۔ہنہہہ آئے بڑے ڈیریکولا نہ ہوں تو۔۔۔" وہ اپنی زبان سے التجا کر رہی تھی کہ یہ کھجلی سے باز رہے۔ غم و غصے کی حالت میں اسکے دماغ میں جو آرہا تھا وہ نان اسٹاپ بولے جارہی تھی۔ ابھی وہ اپنے جلے دل کے پھپھولے ہی پھوڑ رہی تھی کہ دروازہ کلک کی آواز سے کھلتا جارہا تھے ، وہ دروازے سے نظریں ہٹائے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہستی کو دیکھنے لگی جو کہ سوالیہ انداز میں بھنوئیں سکیڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکی سوالیہ نظروں کے جواب میں ردا خوانخوار نظروں سے اسے گھورنے لگی تھی۔
"کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو ابھی بھی۔۔۔" وہ اسے ہنوز ایسے ہی بیٹھے دیکھ کر متحوش سا سوالیہ ہوا تھا۔ مگر اسکے جواب میں ردا کی زبان اس سے وفاداری نبھاتی ہوئی فلحال چپ رہی۔ اسکا روٹھا روٹھا انداز اور شکوہ کرتی نظریں اسکی ناراضگی کا صاف پتہ دے رہی تھیں جو کہ زوار کی آنکھوں سے مخفی نہ تھا۔
"کہیں چپ رہنے کا روزہ تو نہیں رکھا۔۔۔" وہ اسکے پاس پہنچ کر اسکی طرف جھک کر مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے مستفسر ہوا تھا۔ مگر وہ تاحال چپ رہی تھی آخر کو اسے ڈانٹا جو تھا۔ وہ پھر کوئی جواب نہ پاکر شانے اچکائے ، اسے نظروں کے حصار میں لئیے بیڈ پر نیم دراز ہوا تھا۔ جبکہ وہ کمرے کے وسط میں کھڑی دوبدو اسے نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھی مگر اسکی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ اسکا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ میدان میں اترے۔
"ادھر آؤ۔۔۔" کچھ لمحوں بعد کمرے میں چھائی خاموشی میں زوار کی گھمبیر آواز نے ارتعاش پیدا کیا تھا۔ مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی تھی اورزبان بھی آرام میں تھی۔
"ردا۔۔۔بات کیوں نہیں مانتی ہو آپ۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔" اسکی انداز پہ زوار جھنجھلا کر تھوڑا اونچی آواز میں بولا تھا۔
"میں نہیں آتی۔۔۔" وہ منہ پھلائے ، بھسم کر دینے والی نظروں سے گھور کر جواب دیتی پہلو بدل گئی تھی۔ اسکا کورا جواب سن کر زوار کا دماغ ایک منٹ میں گھوما تھا اور وہ ایک جست میں اسکی طرف بڑھا تھا۔ اسکا دائیاں مخروطی ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیے وہ اسی کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے ہوا تھا۔ زوار کے ہاتھ گرفت نہ سخت تھی اور نہ ہی نرم کہ چھوڑوانے سے چھوٹ جاتی۔ وہ ردا کو لیے کرسی کے سامنے رکھا تھا۔
"بیٹھو یہاں۔۔۔"
"کیا ہے آپکو۔۔۔ اب نہیں بول رہی تو بھی مسئلہ ہے۔ مجھے آپ بہت برے لگتے ہیں میں نے اب کوئی نہیں رہنا آپ کے ساتھ ہر وقت کلاس ٹیچر بنے رہتے ہیں۔" وہ کرسی پہ بیٹھ کر ایک دم پھٹی تھی۔
"اور تم نالائق بچہ۔۔۔" اسکی مثال سن کر تو زوار عش عش کر اٹھا تھا اس لیے مسکراہٹ دبا کر دوبدو بولا تھا۔
"میں آج تک کبھی فیل نہیں ہوئی۔۔۔" فیل ہونے والی بات ردا کے دل پہ ٹھا کرکے لگ چکی تھی اسکے ٹوٹے دل کی کرچیاں اسکے لہجے میں عیاں تھیں۔
"اچھا بھئی نہیں ہوئی ہوگی۔۔۔ اب میری بات سنو۔۔۔" زوار نے بات ختم کرنے والے انداز میں کہا تھا مگر ردا اب اس بات کو ابھی چھوڑنے سے انکاری تھی۔
"میں نہیں سنوں گی۔۔۔" (مجھے نالائق اور فیل کا بھی کہا ہے)
"ردا حد ہوتی ہے کسی چیز کی۔۔۔" زوار اب سچ مچ میں جھنجھلا کر رہ گیا تھا۔ مجال تھا جو یہ لڑکی اسکی بھی سنتی۔۔۔ زوار کے سخت لہجے کی وجہ سے ردا خاموش ہوئی تھی۔
"میں نے آپکو جان بوجھ کر تو نہیں ڈانٹا نہ۔۔۔ جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ کمرے کی بات ، یا میری اور اپنی بات کسی سے نہیں کریں گیں تو کیوں کی۔ اور اگر کر ہی لی تھی تو میں آپ سے پوچھ ہی رہا تھا مگر آپ جھوٹ بول رہی تھیں۔" زوار نے نرم لہجے میں اپنی بات کی وضاحت کے ساتھ ساتھ شکوہ بھی کر دیا تھا۔ وہ اسے نرمی سے اپنی بات سے قائل کرنا چاہتا تھا۔
"آپ نے مجھے اتنا ڈانٹا تھا۔۔۔" اسکے سوال کا جواب ردا کے پاس نہ تھا مگر وہ منہ پھلائے یہ باور کروانا نہ بھولی تھی۔
"اوکے میں مانتا ہوں مگر آپ کے جھوٹ سے مجھے غصہ آیا تھا۔ آئیندہ ایسا نہ ہو۔۔۔" زوار نے مجبوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرکے ، انگلی ہوا میں محلق کر کے اسے وارننگ دی تھی۔ جس کے وہ ایک منٹ میں پرخے اڑا گئی تھی۔
"آپ نے مجھے کار میں بھی ڈانٹا تھا۔۔۔"
"مجھ غریب سے یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے خدارا معاف کردیں۔" ردا کی بات سن کر وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گیا تھا۔
"میں نے جان بوجھ کر نہیں کی تھی قسم سے خود بخود نکلی تھی زبان سے۔" بلآخر اتنے بحث و مباحثے کے بعد وہ مدعے پہ آچکی تھی مگر تاحال اپنی غلطی ماننے سے انکاری تھی۔ابھی بھی قصور تھا تو اسکی زبان کا۔
"جی بلکل آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے بس زبان کی غلطی ہے۔" زوارنے اسکی بات سن کر بھگو کر طنز کیا تھا۔
" کمرے میں کیوں بیٹھی ہیں آپ اب تک۔۔۔" وہ بات بدلتے ہوئے بولا تھا۔
"آپ نے سب سے بولنے سے منع جو کیا تھا۔" وہ اسے دیکھتے ہوئے پھر سے اسے ، اسکی سنگین غلطی کے بارے میں بتانے لگی تھی۔
"آپ پلیز بول لیں۔" زوار نے تاسف میں سر ہلایا تھا۔
"اچھا پھر میں نیچھے جاؤں ساریہ آپی کے پاس۔۔۔" وہ تو خوشی سے ایسی چہکی تھی جیسے زوار کی بہت فرمابنردار ہو۔
"ساریہ اور عبیرہ کو میں پھپھو کی طرف چھوڑ کر آیا تھا۔ گھر میں بس مما میں اور آپ ہیں۔۔۔" وہ اسے کہتا بیڈ کی طرف جاکر نیم دراز ہونے لگا تھا۔
"پھر مجھے بھی انکے گھر چھوڑ آئیں۔" وہ آنکھیں ٹپٹپا کر بولی تھی۔
"رات کو کھانے پہ انکی طرف ہی جانا ہے۔۔۔" زوار نے ایک نظر اسے دیکھ کر کہا تھا۔ جبکہ ردا انکار سن کر اداس ہوکر باہر جانے لگی تھی۔
"اب کہاں جارہی ہیں۔۔۔؟"
"آنی کے پاس۔۔۔" وہ پلٹ کر بولی تھی۔
"کیوں۔۔۔"
"میں بور ہورہی ہوں یہاں۔۔۔" وہ رو دینے کو تھی۔ کب سے تو یہاں اکیلے بیٹھی تھی۔
"ہمم نیچھے رائٹ ہینڈ پہ انکا روم ہے۔۔۔" وہ اسے کمرے کا بتاتا کروٹ لے کر آنکھیں موند گیا تھا۔
ردا سر ہلاتی نیچھے جانے لگی تھی۔
_____________________________________________
احان جب سے اس سے خفا ہوکر باہر گیا تھا ساریہ کی جان پہ بن گئی تھی۔ ہر گزرتا ایک ایک منٹ اسکی تھمتی سانسوں کو مزید بوجھل کررہا تھا وہ بمشکل اپنی گہری سیاہ آنکھوں میں در آنے والے آنسوؤں پر حیا کا بند باندھے ہلکان ہورہی تھی۔ چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ عبیرہ اور غزالہ کا ساتھ دیے رہی تھی۔ مگر دل ہی دل میں جلد از جلد احان کے آنے کا انتظار کررہی تھی۔
غزالہ ، عبیرہ اور ساریہ کیچن میں رات کے کھانے کا اہتمام کررہی تھیں۔
گوکہ آنسو اسکی پلکوں کی بار توڑنے میں ناکام تھے مگر وہ آنکھوں کا رنگ سرخی مائل بخوبی کررہی تھے۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments