Hui Jo Ulfat By Iram Tahir Episode 20

 دروازے کے سامنے والی دیوار کے ساتھ بیڈ لگایا ہوا تھا جبکہ کمرے کے بائیں طرف ایک کھڑکی تھی جس کے آگے خوبصورت سیلف وائٹ رنگ کے پردے تھے ، اور اسکے آگے دو کرسیوں کے درمیان میز سلیقے سے پڑا تھا۔ دائیں طرف ڈریسنگ ٹیبل تھا جسکے ساتھ ڈریسنگ روم اور واش روم کا دروازہ تھا۔ دروازے والی دیوار پر خوبصورت پینٹنگز لگی ہوئی تھیں۔اور اسکے اوپر وال کلاک۔

پورا کمرہ تازہ مہکتے گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ بھینی بھینی یہ خوشبو سانسوں کو معطر کررہی تھی۔ کمرے میں صرف بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ جل رہے تھے جو کہ اک فسوں سا طاری کررہے تھے مگر کمرے کے باسی اس فسوں سے نالاں تھے۔
وہ بیڈ پہ ایک طرف بیٹھی وقت گزاری کے لیے سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں کی چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھی۔ وہ مشرقی لڑکیوں کی طرح اپنے نئے نویلے دولہے کا شدت سے اتنظار کررہی تھی مگر آنے والے خوش کن لمحات کے خیالات سے عاری تھی۔
ردا اپنے نکاح کے جوڑے میں شدید جھنجھلاہٹ کا شکار تھی لیکن اسے اتارنے کا خیال بھی اس نے اپنے آس پاس نہ بھٹکنے دیا کیونکہ ابھی وہ اپنا انتظار رائیگاں نہیں کرنا چاہتی تھی۔
زوار ایک لمبا سانس کھینچ کر دروازہ کھول کر اندر آیا۔ آج اسکے کمرے میں اضافہ ہوا تھا اب یہ اضافہ خوش کن تھا یا درد سر یہ وقت نے طے کرنا تھا۔ اندر آتے ہی اسکی نظر بیڈ پہ بیٹھی اپنی بیوی کی طرف اٹھی تھی۔ بیک وقت نظروں کا زبردست تصادم ہوا تھا ، ردا نے کلک کی آواز سے چونک کر نظریں اوپر اٹھائی تھیں۔
"آپ نے چینج نہیں کیا۔۔۔" زوار نے اندر آتے اسے یونہی بیٹھے دیکھ کر بے ساختہ حیرانی ظاہر کی تھی۔ جس پہ ردا نے اس گھورا تھا۔ زوار اسکے تیور دیکھ کر چلتا ہوا اسکے قریب آکر رکا تھا۔ ردا اسے دیکھ کر ، میدان میں کودی اور اسکے مقابل کھڑی ہوکر ، دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکائے اسکو گھورنے لگی ، جو مسلسل اسکے تیور دیکھ کر بھنوئیں اوپر نیچے کرکے سوالیہ ہوا تھا۔
"آپ نے وعدہ کیا تھا نا کہ کمرے میں جاکر سیلفی لیں گے۔۔۔" وہ ساری شرم بالائے طاق رکھ کر گھور کر مستفسر ہوئی تھی۔
"اس وقت بہت رات ہوگئی ہے۔ کل صبح لے لیں گے۔۔" زوار اسکی بات سن کر تاسف میں سر ہلا کر عام سے لہجے میں بولا تھا۔ اسے لگا پتہ نے اس نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے جو یہ میڈم پہلے ہی دن یوں گھور رہی ہے۔زوار کی باتوں سے ردا کے غصہ کا گراف بڑھتا جارہا تھا ، اور وہ اس بات سے بےخبر اپنا شپ خوابی کا لباس نکالنے کے لیے الماری کی طرف بڑھ چکا تھا۔
"میری مما نے کہا تھا کہ آپ میری ہر بات مانیں گے۔۔۔" ردا اسکی وعدہ خلافی پر تلملا کررہ گئی۔ وہ جو ابھی الماری کے قریب ہی پہنچا تھا اسکی بات سن کر ، پیچھے مڑ کر جھنجھلا کر بولا تھا۔
"بحث کیوں کررہی ہیں آپ کل پکا لے لیں گے۔۔۔" اس کے نزدیک یہ کوئی بحث و مباحثہ والی بات نہ تھی۔
"میں نے نہیں رہنا یہاں۔۔۔" وہ ناراض ہوکر پہلو بدل کر رہ گئی تھی۔
"ردا یہ کیا بچپنا ہے۔۔۔" زوار کو اس وقت نیند کی قلت شدید کِھل رہی تھی۔ وہ کوفت سے بول کر شب خوابی کا لباس نکالنے کا ارادہ ترک کرکے کمرے کے وسط میں آکر رکا تھا۔
"میں نے آپکی وجہ سے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے۔۔۔" وہ منہ بسور کر ، شکوہ کناں نظروں سے دیکھتی بولی تھی۔
"مجھے سخت نیند آئی ہوئی ہے۔۔۔" التجا کی گئی کہ لڑائی کی یہ ٹوکری کل اٹھا لیں گے۔ مگر وہ ردا ہی کیا جو کسی کی بات مان لے۔ اس نے جرح جاری رکھی تھی۔
"پھر پہلے مجھے چھوڑ کر آئیں میرے گھر۔۔۔آپ جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔"
"کیوں بےوجہ کی ضد کررہی ہیں جب کہا ہے کہ صبح لے لیں گے۔۔۔" زوار کا لہجہ بےساختہ سختی کی طرف گیا تھا۔
"صبح یہ والے کپڑے اور ایسا میک اپ تو نہیں کیا ہوگا نا۔۔۔" ردا نے منہ پھلانے میں غبارے کو مات دیتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا تھا۔
"ہمم۔۔۔میرا فون شاید نیچے رہ گیا ہے میں لے کر آتا ہوں۔۔۔" زوار کو اسکی بات ٹھیک لگی تھی اس لیے مزید بحث کو ترک کرکے وہ اپنی جیب میں موبائل کو ٹٹولنے لگا۔ مگر وہ ہاں نہیں تھا۔
"ہائے سچی۔۔۔ آپ بہت اچھے ہیں میں مما کو بتاؤں گی۔۔۔" وہ خوشی سے چہک کر بولی تھی اور شاید زیادہ بول گئی تھی کیونکہ اسکی آواز باہر جاتے زوار کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی جس پہ وہ ایک جست میں پلٹ کر اس تک آیا تھا۔ اور کڑے تیوروں سے استفسار کرنے لگا تھا۔
"ایک منٹ کیا بتاؤ گی۔۔۔"
"یہی کہ آپ اچھے ہیں۔۔۔" ردا نے ناسمجھی میں زوار کو دیکھ کر کہا تھا۔
"خبردار جو کمرے کی ایک بھی بات باہر کی تو۔۔۔" ردا کی بات سن کر اسکا دماغ ایک منٹ میں گھوما تھا۔
"کونسے کمرے کی۔۔۔" وہ ہونقوں کی دیکھتے ہوئے اسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
"اس کمرے کی۔۔۔ یعنی میری اور اپنی بات۔۔۔" زوار نے اب کی بار انگلی اٹھا کر وارن کیا تھا۔ ردا تو اسکی عقل پہ ماتم کیے مستفسر ہوئی تھی۔
"کیوں۔۔۔" مطلب اب اس میں کونسی بات تھی کہ وہ کسی کو نہ بتائے۔
"سیلفی لینی ہے کہ نہیں۔۔۔" زوار اسکے بےتکے سوالوں سے زچ ہوا تھا۔ حیرت انگیز طور پہ اسنے اتنے کم وقت میں ردا کی نفسایت جان لی تھیں کہ اسے چپ کیسے کروانا ہے اور بات کیسے منوانی ہے۔ اسی لیے زوار نے بائیں بھنو اچکا کر پوچھا تھا۔
"لینی ہے نا۔۔۔" وہ منہ بسور کر بولی تھی۔
"تو پھر جیسا کہا ہے ویسا ہی کرو۔۔۔" پھر تنبیہ کی گئی تھی۔
"اچھا اب آپ فون لے بھی آئیں ، میرا میک اپ خراب ہورہا ہے۔۔۔" ردا نے اسکی تنبیہ کو ہوا میں کاغذ کے جہاز کی طرح اڑا کر لٹھ مار لہجے میں کہا تھا۔ زوار اسکو مزید ایک گھوری سے نواز کر پلٹا تھا۔
"اور ہاں ساریہ آپی سے لپ اسٹک بھی لیتے آئیں یہ تو ساری اتر گئی ہے کیک کھاتے ہوئے۔۔۔" ردا نے اسکے پیچھے سے ایک نئی فرمائش کی ہانک لگائی تھی۔
" تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔۔۔" زوار نے پلٹ کر اسکی طرف دیکھ کر اپناسر پیٹا تھا۔ کیونکہ اب اسکے صبر کا پیمانہ چھلکنے لگا تھا۔
"مجھے لگتا ہے تم نے سیلفی نہیں لینی۔۔۔"
"اچھا نہ لائیں۔۔۔کام چور۔۔۔ہنہہ" ردا اپنی فرمائش پہ خود ہی دو حرف بھیج کر مٹھاس بھرے لہجے میں کہہ کر آخر میں منہ میں بڑبڑائی تھی۔
زوار کمرے سے نکل کر سیدھا نیچھے لاؤنج میں آیا تھا۔ جس صوفے پہ وہ بیٹھا تھا اس کے کشن الٹ پلٹ کر فون دیکھنے لگا۔ فون کشن کے نیچھے ہی پڑا تھا۔ وہ فون اٹھا کر کمرے کی طرف بڑھا تھا۔
زوار کے جاتے ہی ردا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکر وہ اپنے آپکو سنورانے لگی تھی آخر کو وہ "شادی وائبز" لینے جارہی تھی۔ اسکا دل خوشی سے اچھل کود کررہا تھا۔
"جلدی آؤ۔۔۔" کمرے میں آتے ہی زوار نے آئینے کے سامنے کھڑی ردا کو عجلت سے کہا تھا۔ کیونکہ وہ جلد از جلد اس کام سے فارغ ہوکر سونا چاہتا تھا۔
"جی۔۔۔" ردا اثبات میں سر ہلاتی زوار کی طرف بڑھنے لگی تھی۔ اسکے قریب آتے ہی زوار فرنٹ کیمرہ کھول کر سیلفی
لینے لگا تھا۔ سادھے سے انداز میں سلیفی لیتے دیکھ کر ردا کو جھنجھلاہٹ ہوئی تھی۔
"اونہوں۔۔۔ صیحیح سے لیں نا۔۔۔ آپکو تو سیلفی بھی نہیں لینی آتی۔۔۔" وہ منہ پھلائے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی تھی۔
"میں ویلا نہیں ہوتا۔۔۔ اور سیلفی اسی طرح لیتے ہیں۔۔۔" زوار اسکی آخر والی بات پہ چڑتا اسکو گھور کر بولتا دوبارہ سے سلیفی لینے لگا تھا مگر ردا نے بروقت لجاہت سے کہا تھا۔
"مم۔۔۔ نہیں کوئی ایفکٹ لگائیں اس میں ، میں اچھی نہیں آرہی۔۔۔" سارا مسئلہ ہی تو اس بات کا تھا۔
کمرے میں روشنی ٹھیک تھی مگر وہ زوار کے سادھا کیمرے سے تصویر بنانے پر اندر تک جلی تھی۔ اب زوار کو کون سمجھاتا کہ لڑکیاں سادھی چیزوں پہ کم ہی راضی ہوتی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے سے قاصر تھے ، مگر اپنی اپنی جگہ دونوں بلکل ٹھیک تھے۔
"کونسا۔۔۔" زوار نے بمشکل اپنے آپکو ریلکس کرکے کہا تھا۔
"ادھر دکھائیں۔۔" وہ اسکی کوشش سے بےخبر اسے مزید تپانے کے لیے تیار تھی۔ زوار نے اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کی طرف فون بڑھایا تھا۔ جسے ردا نے خوشی خوشی سے پکڑ کر جلدی سے ایفیکٹ لگائے اور آنکھیں ٹپٹپا کر واپس زوار کو فون پکڑایا تھا کیونکہ وہ قد میں زوار کے شانوں تک آتی تھی۔ کجاکہ وہ سلیفی لینے کی ضد اسی کے ساتھ لینے کے لیے کررہی تھی ، کیونکہ اسکی دوست علیزے نے اپنی کزن کی شادی پہ دولہا دلہن کو سیلفی لیتے دیکھ کر اسے اسپیشل سلیفی کے بارے میں بتایا تھا ، تب سے ردا نے بھی اپنے دولہے کے ساتھ سیلفی لینے کی تھانی تھی۔
"شکر ہوگیا۔۔۔اب فوراً سے پہلے چینج کریں جاکر۔۔۔" تصویر کھینچ کر زوار نے اپنے بائیں طرف کھڑی بیوی کو دیکھ کر کہا تھا۔ اسکا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ وہ مسکراہتے لبوں اور چمکتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"تصویر تو دیکھائیں۔۔۔"
"وہ صبح دیکھیں گے۔۔۔" زوار نے فون بند کرکے قطعیت سے کہا تھا۔ جس پہ ردا نے منہ کھولنا ہی چاہا تھا کہ زوار نے تیوری چڑھا کر اسے گھورا تھا۔ جس پہ وہ دل مسوس کرکے رہ گئی۔
"اچھا۔۔۔ کپڑے کہاں ہیں۔۔۔"
"چھٹ پہ ہیں۔۔۔ظاہر سی بات ہے الماری میں ہوں گے۔۔۔" زوار اسکے بے تکے سوالوں سے عاجز آچکا تھا۔
"آپ ڈانٹ کیوں رہے ہیں ، پوچھا ہی تھا۔۔۔" ردا میدان میں کود کر گھور کر دوبدو بولی تھی۔
"میں نے بھی بتا دیا ہے اب جائیں۔۔۔" زوار نے مزید بحث و مباحثے کو کھلے دل کے ساتھ دو حرف بھیجے کر کھڑکی کے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھا تھا۔
ردا اسکی بات سن کر سر ہلاتی کمرے میں موجود الماری کی طرف بڑھی تھی ، وہ الماری میں سر دیے اپنے پہننے کے لیے کپڑے ڈھونڈھ رہی تھی مگر جب الماری کی سائید ہی الٹی کھولی ہوں تو کپڑے بیچارے کہاں سے ملتے۔ وہ اپنی ذہانت کا امتحان دیتے ہوئے الماری سے ، زوار کی سائیڈ سے اپنے لیے کپڑے تلاش کررہی تھی۔
"مجھے کپڑے نہیں مل رہے آپ پلیز ساریہ آپی کو بلا دیں۔۔۔" وہ پیچھے مڑ کر جھنجھلائی تھی۔
"یار۔۔۔! آپ نے ٹائم دیکھا ہے۔۔۔" وہ جو پوری طرح فون میں غرق تھا ردا کی آواز سن کر چونکا تھا اور اسکی بات سن کر تلملا کررہ گیا تھا۔ یہ لڑکی اس لیے مقابلے کا امتحان بنی ہوئی تھی جس کے لیے جتنا بھی معلومات عامہ انسان کی پاس ہو وہ کم ہوتا ہے۔
وہ ردا کے چینج کرنے کا انتظار کرنے کے لیے فون لیے بیٹھا تھا مگر ردا کی باتوں سے وہ جھنجھلا کررہ گیا تھا۔ جتنا جلدی وہ سونے کے لیے پرتول رہا تھا ردا اتنی ہی دیر لگا رہی تھی۔
"میں خود ہی جارہی ہوں ایک مجھ سے یہ کپڑے نہیں پہنے جارہے اوپر سے آپ ڈانٹی جارہے ہیں۔۔۔" زوار کی بات سن کر وہ سوں سوں کرتی کمرے سے باہر جانے لگی تھی۔ زوار جلدی سے اٹھ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکی کوشش کو ناکام بنا چکا تھا۔ زوار کے انکار کرنے پہ ردا نے اسے کام چور سمجھتے ہوئے دھمکی دی تھی۔
"چپ کرو۔۔۔جا رہا ہوں۔۔۔" وہ اسے خونخوار نظروں سے گھور کر ساریہ کے کمرے کی طرف گیا تھا۔ اسے یوں رات کے وقت اسے جگانا مناسب نہیں لگ رہا تھا مگر وہ کمرے میں موجود اپنی بیوی کا بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
ساریہ کو اپنے کمرے میں بھیج کر وہ باہر لان میں آیا تھا۔
زوار تقریباً پونے گھنٹے بعد روم میں آیا تھا ، کمرے میں داخل ہوکر اسکی ابتر حالت دیکھ کر اسکی آنکھیں باہر آنے کو بے تاب تھیں ، وہ ایک نفاست پسند انسان تھا اپنے کمرے کا حشر دیکھ کر ایسا تو ہونا تھا۔۔۔
ساریہ نے کمرے میں آکر ردا کو اسکی الماری اور چیزیں دکھائیں اور اس کے لیے آرام دہ لباس نکال کر اسے دیا تھا۔ مزید کسی بھی چیز کا پوچھ کر ساریہ اپنے کمرے میں چلے گئی تھی۔ زوار کی ڈانٹ سے اسکا موڈ خراب ہوچکا تھا۔ پہلے مجھے تصویر نہیں دیکھائی پھر اتنا ڈانٹا بھی ، وہ آ ئینے کے پاس آکر اپنے آپکو بوجھ (جیولری) سے آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔ جیولری اتار کر پھر اس نے ڈوپٹہ اتار کر بیڈ پہ پھیلا کر پھینکا اور سلیپر ڈھونڈنے کے لیئے یہاں وہاں دیکھنے لگی اور نہ ملنے پر غصے سے ایک جوتی یہاں پھینکی اور ایک وہاں ، ادھر سے ابھی وہ مایوس ہو کر بیڈ پہ بیٹھی ہی تھی کہ واش روم کے باہر میٹ پہ جوتے دیکھ کر سکون کی سانس لی اور وہ پہن کر چینج کرنے چلی گئی۔
کپڑے بدل کر وہ نکاح کا سوٹ پکڑ کر باہر آئی تو بیڈ پہ مزید جگہ نہ دیکھ کر اسے کرسی پہ پٹکنے والے انداز میں رکھا اور خود بیڈ پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی ۔
"ہائے آج تو تھک گئی بھئی دلہن بننا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے ، بہت نیند آئی ہے۔۔۔ " وہ بیڈ پر لیٹ کر خود سے باتیں کرتے جلد ہی میٹھی نیند کی وادیوں میں اتر چکی تھی۔
_____________________________________________
چند منت بعد وہ ہوش میں آیا تھا۔ کمرے میں آکر ، دروازہ بند کر کے وہ بیڈ کے قریب آکر اسے دیکھنے لگا ، جو کہ اسکو آفت کی پرکالا سے کم تو ہر گز نہیں لگی اسکو دوسری طرف کروٹ لیئے دیکھ کر زوار نے اسے آواز دی تھی۔
"سنو۔۔ جاگ رہی ہو؟ ہیلو؟؟" دومنت تک اسکے جواب کا انتظار کرکے سرد آہ بھرتے پیچھے ہی ہوا تھا کہ اپنی آفت کی پرکالا بیوی کی جوتی سے لڑکھڑا گیا۔۔ جلدی سے نیچے دیکھا تو میڈم کا کارنامہ دیکھ کر غصہ پی کررہ گیا اور چینج کرنے چلا گیا تھا۔
_____________________________________________
زوار چینج کرکے واپس آیا تو اسے اپنے آپ سے زیادہ مظلوم دینا میں کوئی نہیں لگا جسکی بیوی نے پہلے ہی دن اسکو بیڈ سے بےدخل کر دیا تھا۔
آدھے بیڈ پہ ردا میڈم خود مزے سے سو رہی تھی اور آدھے پہ اپنا ڈوپٹہ پھیلایا ہوا تھا ، کوفت سے بیڈ کی طرف آیا اور کچھ سوچ کر ڈوپٹہ اٹھا کر کرسی پہ رکھا اور نکاح کا سوٹ جو کہ آدھا نیچھے اپنی قسمت کو رو رہا تھا اسے بھی اٹھا کر ٹھیک سے کرسی پہ رکھ کر وہ اپنی سائید پہ آکر لیٹ کر اس انہونی کے بارے میں سوچنے لگا۔۔ یا اللہ یہ تیری کونسی عنایت ہے ۔۔۔پتہ نہیں یہ میڈم اور کونسے کونسے سے کرشمے دکھائے گی آگے چل کر۔۔۔ کیونکہ وہ تو کسی بھی فنکشن سے آکر خود ہی اپنے کپڑے سلیقے سے رکھتا تھااور یہ میڈم اچھی طرح بکھیر کر مزے سے سو رہی تھی۔۔
اسنے ردا کی طرف کروٹ لے کر ایک نظر اسکے چہرہ پہ ڈالی تھی ، وہ سوئی ہوئی بلکل معصوم سی بچی لگ رہی تھی جس کا شرارتوں سے دود دور تک کوئی لینا دینا نہ تھا۔ افلاطون کہیں کی۔۔" دل ہی دل میں سوچتے وہ آنکھیں موند گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Hui Jo Ulfat By Iram Tahir Episode 20


ابھی بمشکل اسکی آنکھ لگی تھی کہ کمرے میں دبی دبی سسکیوں کی وجہ سے اسکی نیند میں خلل ہوا ، گردن اٹھا کر موندی موندی آنکھوں سے اپنے آس پاس نظر گمائی تو پتہ چلا کہ یہ ابھی کچھ دیر پہلے ہونے والی عنائیت ہے جو گھٹنوں میں سر دیے رونے کا شغل فرما رہی ہے۔ وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھا تھا۔
اسے نیند میں نسرین کا ہاتھ پکڑنے کی عادت تھی۔ آج بھی حسبِ عادت وہ نیند میں ہاتھ پکڑ رہی تھی کہ اسکے ہاتھ کچھ نہ آیا ، جسکی وجہ سے وہ اٹھ کر بیٹھی تھی۔ نسرین کی جگہ زوار کو دیکھ کر اسے جی بھر کر رونا آیا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟۔۔۔ کیوں رو رہی ہو۔۔؟" زوار نے ڈرتے ڈرتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر تشویش سے پوچھا تھا۔
"مجھے مما کے پاس جانا ہے۔۔۔!" وہ سر اٹھائے ہچکیوں کے درمیان بولی تھی۔ زوار نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا ، اسکی حیرت میں صدمے کا عنصر تھا۔ اسے لگا پوری کی پوری عمارت اسکے اوپر آن گری ہے۔ یعنی یہ لڑکی اب میری برداشت کا صیحیح امتحان لینے والی ہے۔ زوار نے کڑھ کر سوچا تھا۔
"میں صبح چھوڑ آؤں گا۔۔۔ابھی بہت رات ہے۔۔۔" کچھ دیر توقف کے بعد زوار نے اسے بہلایا تھا۔ حالانکہ اتنی تھکاوٹ کے بعد اپنی نیند خراب ہونے پر وہ پورا سلگ اٹھا تھا۔
"پرومیس کریں۔۔۔" وہ گلابی عارضوں سے آنسو صاف کرتی استفہامیہ نظروں سے گویا ہوئی تھی۔
"ہاں پکا۔۔۔اب سوجاؤ۔۔" زوار سر ہلا کر دوبارہ لیٹ چکا تھا۔
"میں اپنے گفٹ بھی لے کر جاؤں گی۔۔" ردا نے دیدہ دلیری سے کہا تھا۔ وہ ابھی بھی کل سب سے ملنے والے گفٹ بھولی نہ تھی۔زوار اسکے شگوفے پہ صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا۔
ایک تو اسکی نیند خراب کی اور اوپر سے اسکی بےتکی اور بےسروپا باتیں۔ وہ بھسم کردینے والی نظروں سے گھور کر دوسری طرف کروٹ لے گیا۔ کیونکہ اگر وہ کروٹ نہ بدلتا تو عین ممکن تھا کہ تیسری جنگِ عظیم شروع ہوجاتی۔۔۔ جبکہ ردا اپنی تسلی کرکے سونے کے لیے دوبارہ لیٹ چکی تھی۔۔۔
_____________________________________________
سورج کی قرمزی شعائیں کھڑکی سے پلانگ کر کمرے میں آرہی تھیں۔ سورج کی روشنی سے آنکھوں میں چھبن کا احساس ہوا تو زوار مندی مندی آنکھیں کھول کر سامنے گھڑی میں ٹائم دیکھنے لگا جو صبح کے نو بجا رہی تھی۔ وہ کسلمندی سے اٹھ کر بیٹھا تھا اور اپنے پاس سوئی ردا کو دیکھنے لگا جو ہنوز گہری نیند میں سو رہی تھی۔ وہ انگڑائی لے کر بیڈ سے اتر کر فریش ہونے کے ارادے سے کپڑے نکال کر واش روم میں گیا تھا۔
"سنو اٹھ جاؤ ، دس بجنے والے ہیں کب سے اٹھا رہا ہوں۔۔۔" یہ اسنے کوئی تیسری دفعہ ردا کو آواز دی تھی۔ وہ جب سے فریش ہوکر نکلنا تھا تب سے ردا کو آوازیں دے دے کر جگا رہا تھا۔ جس پہ وہ کسمسا کر دوبارہ سو جاتی تھی۔
"اٹھو جلدی ، سب انتظار کررہے ہوں گے نیچے۔۔۔" بالوں کو برش سے سیٹ کیے وہ بیڈ کے قریب آکر ، اسے کندھے سے ہلانے لگا تھا۔ جس پہ ردا نے مندی مندی آنکھیں کھولی تھیں۔ اسکو اٹھتا دیکھ کر زوار پیچھا ہوا تھا۔
"مجھے نیند آئی ہے۔۔۔" وہ بچوں کی طرح کہتی کروٹ لینے لگی تھی کہ زوار نے اسکی بازو پکڑ کر اسے بٹھایا تھا۔
"ناشتہ کرکے سوجانا۔۔۔"
"نہیں مانگوں گی بعد میں ناشتہ پر ابھی سونے دیں۔۔۔" وہ نیند سے بھری لال آنکھوں سے اسے دیکھتے التجا کرنے لگی تھی۔ جبکہ زوار نے بےبسی سے ردا کو دیکھا تھا۔ جو بات کو پتہ نہیں کہاں لے گئی تھی۔ ردا اسکو چپ دیکھ کر دوبارہ سونے کے لیے لیٹ چکی تھی۔ زوار تاسف میں سر ہلاتا نیچے جانے لگا تھا۔ وہ تو رات سے جتنا ردا کے بارے میں سوچ رہا تھا اتنا کڑھ رہا تھا۔
_____________________________________________
وہ نیچے آیا تو ساریہ اور عبیرہ کیچن میں ناشتے کی تیاری کررہی تھیں جبکہ شائستہ لاؤنج میں بیٹھی تسبیح کرہی تھی۔ وہ مسکراتا ہوا شائستہ کے پاس آکر اسکا سر چوم کر ، وہیں بیٹھا تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی انہیں باتیں کرتے ہوئے کہ نسرین ناشتہ لیے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی۔ زوار جلدی سے اٹھ کر اسکے قریب آکر سامان پکڑنے لگا تھا۔ جوکہ نسرین نے بنشکل پکڑا ہوا تھا۔
نسرین اندر آکر خوشی سے سب سے ملی تھی۔ شائستہ نسرین کے آنے پہ خوش تو بہت ہوئی تھی مگر ناشتہ لانے والی بات وہ نسرین سے ناراض ہو رہی تھی۔ جسے نسرین نے باتوں ہی باتوں میں ٹالا تھا۔ زوار بھی انکے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا تھا۔
اصل میں ناشتہ تو ایک بہانہ تھا ردا سے ملنے کا۔ ردا کو رخصت کرکے نسرین ساری رات سو نہیں سکی تھی۔ اس نے کبھی ردا کو اپنی آنکھوں سے دور جو نہیں کیا تھا۔ اور اب اسکی بیٹی اس سے اتنی دور یہاں آگئی تھی۔ اسکی غیر موجودگی کے احساس سے اسکی آنکھ کے کنارے بار بار بھیگ رہے تھے۔ وہ صبح ہوتے ہی ردا سے ملنے کا پروگرام بنانے لگی تھی اور اسے یوں آتے شرم آرہی تھی جسے اسنے رسم کا سہارا لے کر چھپائی تھی۔
"ردا کہاں ہے۔۔" تھوڑی دیر باتیں کرکے بلآخر نسرین نے پوچھ ہی لیا تھا۔
"وہ سو رہی ہے ابھی ، تھکاوٹ بہت زیادہ ہوگئی ہوگی کیونکہ کل بچوں نے گھر آکر بہت رسمیں کی تھیں۔" شائستہ مسکرا کر اسے کل کے بارے میں بتانے لگی تھی اسکی کسی بات میں کوئی طنز اور اعتراض نہیں تھا مگر پھر بھی نسرین نے اسکی بات پہ بمشکل اپنا تھوک نگلا تھا۔ وہ شائستہ کی بات سن کر اپنی اولاد کی عقل پہ ماتم کررہی تھی جو پہلے ہی دن سسرال میں عجیب حرکتیں کرتے پھر رہی تھی۔ نسرین بمشکل مسکرا کر اسکا ساتھ دینے لگی تھی۔
"میں مل لوں اس سے۔۔۔" نسرین شائستگی سے گویا ہوئی تھی۔
"جی جی یہ بھی بھلا پوچھنے کی بات ہے۔۔۔زوار آپ لے جاؤ انکو اپنے کمرے میں۔۔" شائستہ نسرین سے کہہ کر زوار سے مخاطب ہوئی تھی۔ وہ اثبات میں سر ہلا کر کھڑا ہوا تھا۔
"آئیں آنٹی۔۔۔" وہ اسے لیے کمرے میں آیا تھا جہاں ردا اسطبل بھیج کر مزے سے سو رہی تھی۔ نسرین ردا کو یوں سوتا دیکھ کر زوار سے جی بھر شرمندہ ہوئی تھی۔ مگر وہ نسرین کو اندر چھوڑ کر مسکرا کر کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔
وہ جو اسکے سونے سے ، پہلے ہی غصے سے بھری ہوئی تھی ، کرسی پہ پڑے اسکے کپڑے دیکھ کر مزید بگڑ چکی تھی۔
"ردا۔۔۔ردا۔۔۔" نسرین نے اسکو کندھے سے ہلایا تھا جس پر وہ مندی مندی آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی تھی۔
"مما۔۔آپ ، میں نے آپکو بہت مس کیا تھا۔۔۔" نسرین کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چمکی تھیں۔ ردا کی بات سن کر وہ پل بھر میں نرم پڑی تھی۔
"کیسی ہے میری بیٹی۔۔۔" نسرین اسکے پاس بیٹھ کر ، اسکے بال سنوارتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔
"مما میں ٹھیک ہوں۔۔۔"
"ردا میں نے آپکو کیا سمجھایا تھا کہ یہاں وہ نہیں کرنا جو آپ گھر کرتی تھیں۔ اٹھ کیوں نہیں رہی تھی۔۔۔" نسرین اسے پیار سے ڈپٹنے لگی تھی۔
"مما مجھے نیند آرہی تھی۔۔۔" وہ منہ بسور کر بولی تھی۔
"شادی کے بعد صبح جلدی اٹھتے ہیں ، یوں کمرے میں سوتے نہیں رہتے۔ اور کپڑے پھر نہیں سنبھالے تھے نا۔۔۔" نسرین نے کرسی پہ پڑے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔
"مما اتنے اچھے سے تو رکھے ہیں۔۔۔" ردا بمشکل ہی بول پائی تھی۔
"ردا میں آپکی ماں ہوں اور مجھے پتہ ہے یہ آپ نے نہیں رکھے۔۔" نسرین نے اسکے جھوٹ بولنے پر اسے گھورا تھا۔
"اچھا نا کل سے کر لوں گی۔۔۔" وہ لاڈ سے کہتی نسرین کے گلے لگی تھی۔ مقصد بات کا رخ بدلنا تھا۔
"یہ جب اچھا نا ہوتا ہے تب کوئی کام نہیں ہوتا۔۔۔" ردا کے پیچھے ہوتے ہی نسرین گویا ہوئی تھی۔ جس پہ ردا خاموش رہی تھی۔ اسکو تیار ہونے کا کہہ کر نسرین نیچے جانے لگی تھی۔
جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments