Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 19

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ سب ردا کو دعاؤں کے سائے تلے رخصت کروا کر اپنے گھر لائے تھے جہاں سب نے اسکا گرمجوشی سے استقبال کیا تھا۔
ردا کو رخصت کرتے ہوئے نسرین آبدیدہ ہوگئی تھی۔ وہ اسکی اکلوتی اولاد کے ساتھ ساتھ اسکی ہر وقت کی ساتھی تھی۔ اسکی زندگی کا محور تھی۔ نسرین کا سارا دن اسی کے پیچھے بھاگتے ہوئے گزرتا تھا۔ اس نے بمشکل اپنے بوجھل دل کو سنبھالتے ہوئے اپنی عزیز ازجان بیٹی کو اپنی قیمتی دعاؤں کے سنگ رخصت کیا تھا۔ نسرین کو روتا دیکھ کر ردا بھی اپنے آپکو رونے سے باز نہ رکھ سکی تھی۔ شائستہ اور غزالہ کے سنبھالنے اور چپ کروانے پہ بھی وہ بمشکل چپ ہوئی تھی۔
کسی بھی لڑکی کے لیے یہ بہت مشکل وقت ہوتا۔ جہاں اپنوں کو چھوڑ کر جانے سے دل بوجھل ہوتا ہے وہیں آنے والے وقت کا خیال انکو مضطرب کیے ہوتا ہے۔ لیکن زندگی کے دوسرے مرحلوں کی طرح اسے یہ بھی سر کرنا ہوتا ہے۔
ردا کے اندر آتے ہی احان نے پارٹی پوپر پھوڑا تھا جس سے رنگ برنگی دھنک بکھری تھی ، ساریہ اور عبیرہ دونوں نے تازہ ، مہکتے گلاب کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے اپنے گھر میں آئے نئے مہمان کا استقبال کیا تھا۔ ردا تو اتنی بھر پور ایٹنشن پر خوشی سے نہال تھی۔ اندرونی خوشی سے اسکا چہرہ دمک رہا تھا جس سے اسکی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگ رہے تھے۔ بھرپور استقبال کے بعد وہ لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ زوار کے چہرے پر مبہم سی مسکراہٹ رقصاں تھیں۔ جو اپنے آس پاس سب کو خوش دیکھ کر آئی تھی۔
"بھائی اب جو جو ہم نے رسمیں کرنی ہیں وہ ہم کریں گے اور آپ کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔" ساریہ نے انگلی اٹھا کر لاڈ سے کہا تھا۔ اس کے انداز پر سب ہنسے تھے۔
"ہاں بھئی اب میری بیٹی اتنا تو حق رکھتی ہے۔۔۔" غزالہ نے مسکرا کر اسکا ساتھ دیتے ہوئے کہا تھا۔ شائستہ تو اپنے بیٹے اور بہو کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔ آج اسکی دلی مراد بھر آئی تھی۔
"شکریہ پھپھو جان۔۔۔" ساریہ ممنون ہوئی تھی۔
"یہ جان مجھے کہا ہے نا۔۔۔" موقع سے فائدہ کیسے اٹھانا ہوتا ہے یہ کوئی احان سے سیکھتا۔ وہ جو کال سن کر دوبارہ واپس آیا تھا ، ساریہ کی بات سن کر اسکے قریب سے گزرتے ہوئے سرگوشیانہ انداز میں کہتا آگے بڑھ کر ، فاتحانہ مسکراہٹ لبوں پہ سجا کر ، غزالہ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اتنے لوگوں کی موجود میں ساریہ اسے ٹھیک سے گھور بھی نہ سکی۔
"اچھا بھئی کر لو جو آپ لوگوں نے رسم کرنی ہے۔۔۔" زوار نے ہار مانتے ہوئے کہا تھا۔ ساریہ اور عبیرہ دونوں جو ردا کے ایک طرف کھڑی تھیں ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر چہکی تھیں۔
"ردا میں اب تمہیں بھابھی بولو گی۔۔۔" ساریہ نے ردا کو بھی گفتگو میں شامل کرنے کے لیے بہت پیار اور چاہت سے کہا تھا۔
"پر کیوں ہم تو دوست ہیں نا۔۔۔" وہ اپنا نئی نویلی دلہن کا عہدہ بھولے شکوہ کناں ہوئی تھی۔ باقی سب تو اسکے معصوم سے شکوے پہ ہنسے تھے مگر زوار نے اسکی انوکھی منتکوں پہ اپنا ماتھا پیٹا تھا۔
"ہاں مگر اب آپکی اسکے بھائی کے ساتھ شادی ہوگئی ہے نا تو اس لیے اب آپ اسکی بھابھی ہوگی۔" غزالہ نے ہنستے ہوئے اسے پیار سے سمجھایا تھا۔ جس پہ ردا ابھی بھی منہ پھلائے ہوئی تھی کہ۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی ہم تو پہلے سے دوست تھے نا۔
"میں بھی ساریہ آپی کو بھابھی کہتی ہوں جب سے انکا نکاح احان بھائی سے ہوا ہے۔" عبیرہ نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ عبیرہ کی بات سن کی ساریہ کی نظر بےساختہ احان کی طرف اٹھی تھی اور وہ تو شاید موقع کی تلاش میں تھا ، ساریہ کے دیکھتے ہی اس نے مسکرا کر بائیں آنکھ کا کونا دبایا تھا۔ ساریہ نے ہڑبڑا کر اپنی نظروں کا زوایہ بدلا اور دل ہی دل میں اپنے آپکو ملامت کرنے لگی تھی۔
"اچھا۔۔۔"
"شروع نہیں کررہے رسم۔۔۔" ردا کے منہ کے زوایے ابھی بھی نہیں بدلے تھے جسے زوار نے اچھی طرح نوٹ کیا تھا۔ اس لیے ردا کے بولنے سے پہلے ہی زوار نے اسکی بات کاٹی تھی۔
"بڑی جلدی ہے جناب کو۔۔۔" احان جو کہ زوار کے ایک طرف پڑے صوفے پہ براجمان تھا ، اسکی طرف جھک کر شریر لہجے میں بولا تھا۔
"جی میری آکسیجن کمرے میں ہی تو پڑی ہے وہیں جاکر ہی تو مجھے سانس آنی ہے۔۔۔" زوار نے احان کو گھور کر دانت پیس کر کہا تھا۔
"واہ جناب ابھی تو ملے تین گھنٹے بھی نہیں ہوئے اور آپ یوں کسی کے رنگ میں رنگ چکے ہیں۔" احان نے آنکھیں سکوڑ کر داد دینے والے انداز میں کہا تھا۔ جس پر زوار نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
"بھئی پہلے منہ تو میٹھا کرواؤ سب کا۔۔۔" سب کو اپنی اپنی باتوں میں مگن دیکھ کر شائستہ نے ساریہ کو کہا تھا۔
"اوہ۔۔۔! جی مما میں ابھی لائی کیک۔۔۔" ساریہ گردن ہلاتی اٹھ کر کیچن میں جانے لگی تھی۔ اور ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ پلیٹ لے کر واپس لاؤنج میں آئی تھی اور اسے عین ردا اور زوار کے سامنے رکھا تھا۔
"بھئی مجھے تو مٹھائی کھانی ہے۔۔۔" خوبصورت چاکلیٹ کیک سے سجی پلیٹ دیکھ کر مٹھائی کے شوقین زوار نے احتجاجاً کہا تھا۔ اس کے نزدیک یہ سب رسمیں صرف وقت کا ضیاع تھیں مگر اپنی ماں اور بہن کے چہرے کی خوشی دیکھ کر وہ نہ صرف ان رسموں کے لیے بیٹھا تھا بلکہ آج وہ اپنی طبیعت کے خلاف سب سے مزاح بھی کررہا تھا۔ ابھی بھی مٹھائی کی پلیٹ دیکھ کر وہ جان بوجھ کر احتجاج کرنے لگاتھا۔ زوار کے احتجاج پر ردا نے منہ بنا کر اپنے نئے نویلے دولہے کو دیکھا تھا۔ جسکو اس معصوم کی ہر بات سے اعتراض تھا۔
"بڑے میاں۔۔! ابھی تو شادی کا لڈو کھلایا ہے۔۔۔" احان نے شوخی سے زوار کو دیکھتے ہوئے ،شریر لہجے میں کہا تھا۔ جس سے زوار نے اسے گھورا تھا۔ مگر وہ باز آنے والوں میں سے کہاں تھا۔ احان کی بات پر سب نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔ ردا تو ہونقوں کی طرح سب کو دیکھ رہی تھی کیونکہ یہ بات اسکے سر کے اوپر سے گزری تھی۔
"تو چھوٹے میاں اس میں اتنا جلنے کی کیا بات ہے۔۔۔" زوار نے مسکراہٹ دبا کر ، پریشانی اور حیرت سے پیشانی میں بل ڈالتے پوچھا تھا۔ سب انکی نوک جھوک سے خوش ہوکر مسکرا رہے تھے۔ احان نے منہ بنا کر زوار کی طرف دیکھا تھا۔
"ظاہر سی بات ہے شادی کا لڈو انہوں نے جو کھانا تھا۔۔۔" عبیرہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ جس پر سب کے خفیف سے قہقہے گونجے تھے۔
"ل لو۔۔۔اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔۔۔" وہ برا مناتا بےربط سا بولا تھا۔ ساریہ تو اس گفتگو سے اپنے آپ میں سمٹی تھی۔ چہرہ الگ گلکنار ہواتھا۔
"بیٹا ردا کو مٹھائی نہیں پسند اس لیے کیک منگوایا تھا۔" مسلسل باتوں میں مگن دیکھ کر شائستہ نے کیک کی جانب توجہ مرکوز کروائی تھی۔
"واہ۔۔۔ یعنی میرے لڈو کو لڈو نہیں پسند۔۔۔ " زوار نے کیک کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا تھا۔
"چلیں کیک ہی کھلا دیں۔۔۔" زوار مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا تھا۔
"اونہوں۔۔۔! بھائی کیک ایسے نہیں کھانا۔ چونکہ آپکی پیاری سی ، معصوم سی بیوی کو کیک بہت پسند ہے تو ہم نے سوچا کہ ہم کھیر چٹائی کی رسم کی جگہ کیک چٹائی رسم کریں گے۔" ساریہ نے باقاعدہ رسموں کا آغاز کرتے ہوئے مسکرا کر زوار کو پہلی رسم کے بارے میں بتایا تھا۔ جس پہ عبیرہ نے ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ یہ سب رسمیں ساریہ نے اپنی سہلیوں سے پوچھی تھیں۔ ساریہ کی بات سن کر زوار نے تیوری چڑھا کر ساریہ کو دیکھا تھا پھر نظریں گما کر شائستہ اور غزالہ کی طرف دیکھا تھا۔ زوار کے دیکھتے ہی انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے تھے گویا وہ کچھ نہیں کرسکتیں۔
"ہممم۔۔۔ اچھا۔۔۔۔" زوار نے مجبوراً ہامی بھری تھی۔
"تو اب میں بتاتی ہوں کہ کرنا کیا ہے۔۔۔ پہلے ہم ردا بھابھی کے ہاتھ پر کیک رکھیں گے جو کہ آپکو بنا ہاتھ لگائے کھانا ہوگا۔ اور اور اس دوران میں اور عبیرہ ردا بھابھی کا ہاتھ کھینچیں گے مطلب آپکو کھانے نہیں دیں گے۔۔۔" ساریہ نے رسم بتائی تھی۔ پوری رسم سن کر تو زوار کا منہ بن گیا تھا۔
"بھئی یہ کیا رسم ہے۔۔۔"
"بھائی آپ نے کہا تھا آپ کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔" ساریہ نے خفگی سے زوار کو اسکی بات کی یاد دہانی کروائی تھی۔ مگر زوار ہنوز ایسے ہی منہ بنا کر سب کو دیکھ رہا تھا مگر آج کوئی اس پہ رحم نہیں کررہا تھا۔ ردا تو سب کے ساتھ مل کر مسکرا رہی تھی۔
"او یار کرلو میں ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔" زوار کی شکل دیکھ کر احان نے اسکا ساتھ دینے کا اقرار کیا تھا۔
"پتہ نہیں کیا کیا کروانا ہے آج تم لوگوں نے۔۔۔" زوار نے بچوں کی طرح منہ پھلا کر شکوہ کیا تھا۔
"بھابھی آپ نے ابھی اپنے شوہر کا ساتھ نہیں دینا ابھی آپ نے اپنی بہنوں کا ساتھ دینا ہے۔" ساریہ نے انگلی اٹھا کر ردا سے کہا تھا جس پر ردا نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ شائستہ اور غزالہ بچوں کو یوں خوش دیکھ کر خوش ہورہی تھیں۔
"یہ لیں اب ہم شروع کرتے ہیں۔۔۔" ساریہ نے کیک کا ایک ٹکڑا نکالتے ہوئے ردا کی ہتھیلی پر رکھا تھا۔ اور پھر ردا اور زوار کو آمنے سامنے بیٹھا کر ، ساریہ اور عبیرہ ردا کے ساتھ بیٹھ گئیں اور احان زوار کے ساتھ۔ شائستہ اور غزالہ بھی اب سامنے بیٹھیں دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں۔
رسم شروع ہو چکی تھی۔ ردا کی جس ہتھیلی پہ کیک تھا ساریہ اور عبیرہ نے اسے تھام رکھا تھا۔ پہلی بار جب زوار نے ہاتھ پیچھے کرکے کھانے کے لیے منہ آگے کیا تھا تو ساریہ اور عبیرہ نے عین اسی وقت ردا کا ہاتھ کھینچ کر پیچھے کیا تھا۔ زوار برا منہ بنا کر ، خالی منہ لے کر پیچھے ہوئے تھا۔ جس پر ردا کھکھلا کر ہنسی تھی۔
دوسری دفعہ زوار خوب چوکنا ہوکر آگے ہوا تھا مگر پھر پچھلی بار کی طرح ساریہ اور عبیرہ نے ردا کی ہتھیلی پیچھے کرلی تھی اور زوار پھر منہ بنا کر پیچھے ہوا تھا۔ البتہ لڑکیاں کھکھلا کر ہنس رہی تھیں۔ زوار کی شکل دیکھ کر شائستہ اور غزالہ کی بھی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ احان نے بمشکل اپنی مسکراہٹ کو دبایا ہوا تھا کیونکہ وہ زوار کے ساتھ تھا۔
مسلسل پانچ دفعہ ناکام ہوکر زوار نے منہ بنا کر احان کی طرف دیکھا کہ یہ کیسا ساتھ دے رہے ہو۔ احان نے کچھ سوچتے ہوئے اسے ایک دفعہ مزید کھانے کے لیے اشارہ کیا۔
جوں ہی زوار کھانے کے لئے آگے ہوا ، ساریہ کے اوپر دیکھتے ہی احان نے فلائنگ کس اسے پاس کی۔ یہ کام احان نے بلکل ٹھیک وقت پہ کیا تھا کیونکہ ابھی سب زوار کے منہ اور ردا کی ہتھیلی کی طرف متوجہ تھے۔ احان کی اس حرکت سے ساریہ کا بیلنس خراب ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے زوار کیک کا ٹکڑا منہ میں لیے پیچھے ہوا تھا۔ ساریہ نے احان سے نظر ہٹا کر نیچھے دیکھا مگر یہ کیا وہاں ہتھیلی تو خالی تھی۔ ساریہ نے نظر اٹھا کر سب کی طرف دیکھا تو وہ ہنس رہے تھے اور زوار بڑے مزے سے کیک کھا رہا تھا۔ ساریہ نے شکوہ کناں نظروں سے احان کو دیکھا تھا۔ ردا الگ منہ پھلائے کر کیک کھاتے زوار کو خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی۔ عبیرہ بھی خفگی سے احان اور زوار کو دیکھ رہی تھی۔
"اب ہماری باری۔۔۔" احان کو یہ نئی رسم بہت پسند آئی تھی۔ اس لیے اس نے خود ہی کیک کا پیس کاٹ کر زوار کی ہتھیلی ہی رکھا تھا۔ زوار کو بھی اب مزے آنے لگا تھا اس لیے اس نے بھی اپنی ہتھیلی ردا کے سامنے کی۔
رسم پھر سے شروع ہوچکی تھی۔ ردا نے بھی زوار کی طرح بہت کوشش کی تھی کھانے کی مگر بےسود۔ مسلسل چھے بار ناکامی کے بعد وہ رودینے کو تھی۔ شائستہ اور غزالہ بھی اسکا اترا چہرہ دیکھا تھا۔ عبیرہ اور ساریہ الگ زچ ہوگئی تھیں بس زوار اور احان ہی مسکرا کر مزہ کررہے تھے۔
"بس کرو زوار۔۔۔ چلو ردا کو خود کھلا دو۔۔۔" شائستہ نے ردا کی اتری شکل دیکھتے ہوئے زوار کو ڈپٹا تھا۔ جس پہ زوار نے بھی ہامی بھرتے ہوئے کیک کو پیس ردا کو کھلایا تھا۔ کیونکہ وہ خود بھی اب تھک چکا تھا۔ ساریہ کا منہ ابھی بھی بنا ہوا تھا۔احان نے بعد میں اس سے سوری کرنے کا سوچا تھا۔ ردا کے کیک کھانے کے بعد ساریہ نے سب کو کیک سرو کیا تھا۔
کچھ دیر بعد ساریہ اور عبیرہ بھی ٹھیک ہو چکی تھیں۔ اسکے بعد انہوں نے ردا کی ہتھیلی پہ سکہ رکھ کر مٹھی بنائی تھی اور زوار کو مٹھی کھولنے کا کہا تھا۔ ردا نے زور سے مٹھی بنائی تھی اب اسے ہر حال میں جیتنا تھا۔ زوار نے دو تین دفعہ کھولنے کی کوشش کی تھی مگر ردا نے اسکی کوشش کو ناکام بنایا تھا۔ اب کی بار زوار نے زور سے مٹھی کھولنے کی کوشش تھی جس پہ ردا نے جان بوجھ کر رونے والی شکل بنا لی اور زوار نے خود ہی ہار مان لی تھی۔ زوار کے ہار مانتے ہی ردا ، ساریہ اور عبیرہ نے چہک کر ہاتھ پہ ہاتھ مارا تھا۔ ردا کو ہنستے دیکھ کر زوار کی تو حیرت سے آنکھیں کھل گئی تھیں کہ یہ اسنے ڈرامہ کیا تھا۔ زوار کی شکل دیکھ کر سب کے خفیف قہقہے گونجے تھے۔
"مما وہ جو دولہا کا بھائی رسم کرتا ہے اسے کیا کہتے ہیں۔۔۔" احان نے غزالہ کو مخاطب کرکے پوچھا تھا جبکہ سب احان کی بات کی وجہ سے اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
"گود بیٹھائی کہتے ہیں اسے۔۔۔" غزالہ نے ناسمجھی میں اسے دیکھ کر بتایا تھا۔
"بھئی اب یہ رسم میں کروں گا ، آخر کو میں زوار کو بھائی ہوں۔۔۔" احان نے مزے سے کہا تھا۔ جس پر زوار نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
"ہاں بھئی ضرور کرو۔۔۔" شائستہ نے ہنستے ہوئے احان کو کہا تھا۔ ردا کو تو رسم کی ہی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ البتہ باقی سب رسم کرنے پر راضی تھے۔
"تو چونکہ میں بڑا ہوں تو بھابھی میں آپکا گھٹنہ پکڑوں گا۔۔۔" احان نے ردا کے ایک طرف بیٹھتے ہوئے کہہ کر رسم شروع کی اور ردا کے گھٹنے پہ ہاتھ رکھا۔ ردا پریشانی اور حیرت سے پیشانی پہ بل ڈالے سب کو دیکھ رہی تھی کہ اب کیا کرے۔
"بھئی ہوگئی رسم تو اب بس کرو۔۔۔" زوار نے ہنستے ہوئے کہا تھا کیونکہ ردا کے منہ کے زوایے اب سنجیدہ ہوتے جارہے تھے۔
"او ہیلو جناب یہ رسم ایسے ختم نہیں ہوتی۔۔۔ ممانی بتائیں اپنے بیٹے کو۔۔۔" زوار کی بات سن کر احان نے اسے گھور کر شائستہ کو کہا تھا۔
"زوار بھابھی دیور کو نیگ دیتی ہے تو تب ہی رسم ختم ہوتی ہے۔۔۔" شائستہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے زوار کو بتایا تھا۔ جس پہ زوار نے منہ بنا کر آنکھیں ٹپٹپاتے احان کو گھورا تھا۔
"تو دے نہ بھابھی۔۔۔" زوار نے سب کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
"بھائی بھابھی نے آپ سے لے کر دینے ہیں۔۔۔" ساریہ نے اسکی عقل پہ ماتم کرکے کہا تھا۔ زوار تو اپنی قسمت کو رو رہا تھا جب اسنے رسموں کے لیے ہامی بھری تھی۔ نیگ پہ کافی بحث و تکرار کے بعد زوار بلآخر مان ہی گیا تھا نیگ دینے کے لیے اور احان نے بھی ڈھیٹ بن کر نیگ لے کر چھوڑا تھا۔
باتوں ہی باتوں میں رات کے بارہ بج چکے تھے۔ احان کی رسم کے بعد شائستہ نے ساریہ اور عبیرہ کو ردا کو اسکے کمرے میں چھوڑنے کا کہا تھا۔ کیونکہ وہ واقعی یوں بیٹھ بیٹھ کر اکتا چکی تھی۔ ساریہ اور عبیرہ دونوں سر ہلاتی ردا کو اسکے کمرے میں چھوڑنے کے لیے چکی گئیں۔ ردا کو بیڈ پہ بیٹھا کر وہ باہر آگئی تھیں تاکہ آخری مشہورِ زمانہ رسم کرسکیں۔
ردا کے جاتے ہی غزالہ نے احان کو واپسی کا کہا تھا۔ جس پہ احان سر اثبات میں سر ہلا کر جانے کے لیے اٹھا تھا۔ شائستہ نے اسے رات رکنے کا بہت کہا تھا مگر وہ پھر کسی دن پہ ٹال کر چلی گئی تھی۔ مگر عبیرہ نے آج یہیں رکنا تھا۔
زوار نے شائستہ کو اسکے کمرے میں چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف رخ کیا تو ساریہ اور عبیرہ کو اپنے کمرے کے دروازے پر پہرہ دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ زوار کو آتا دیکھ کر وہ دونوں آنکھیں ٹپٹپا کر اسے دیکھنے لگیں تھیں۔ زوار نے بھنوئیں اوپر نیچے کرکے کیا کیا سوال کیا تھا۔
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 19
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 19 


"بھائی جب تک آپ ہمیں نیگ نہیں دیں گے آپ کا کمرے میں جانا ممنوع ہے۔۔۔" ساریہ نے گویا اسکے سر پر بم پھوڑا تھا۔
"یہ ممنوع کس نے کیا ہے۔" اس نے تیوری چڑھائے پوچھا تھا۔
"آپکی بہنوں نے۔۔۔" عبیرہ نے گردن اکڑا کر کہا تھا۔
"تم لوگوں نے میری شادی کا منصوبہ بنایا تھا کہ مجھے غریب کرنے کا۔۔۔" زوار روٹھے لٹھ مار لہجے میں بولا تھا ابھی تو اسے احان کا نیگ نہیں بھولا تھا۔
"بھائی۔۔۔ یہ بہنوں کا حق ہوتا ہے۔ آپ دے دیتے تو ہم نے آپکو اتنی دعائیں دینے تھیں۔" ساریہ اپنی شکل پہ مسکینیت طاری کیے ڈرامائی انداز میں گویا ہوئی تھی۔
"بس بس۔۔۔ ڈرامے۔۔۔ یہ لو۔۔۔"
اب جاؤں۔۔۔" زوار نے تاسف میں سر ہلا کر اپنا والٹ نکال کر انہیں نیگ دیا تھا۔ اور ساتھ ساتھ اجازت بھی طلب کی تھی۔
"جی جی۔۔۔۔مگر۔۔۔" ساریہ نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی تھی۔
"مگر۔۔۔" اس نے اچھنبے سے پوچھا تھا۔ وہ نیند سے بےحال ہوا ہوا تھا۔
"منہ ٹھیک کرکے جائیے گا۔۔۔" وہ دونوں ہنس کر کہتی بھاگی تھیں۔
"کوئی حال نہیں ہے۔۔۔" زوار منہ میں بڑبڑاتا ، ہینڈل پہ ہاتھ رکھے دروازے کھولنے لگا تھا۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments