Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 18

دن تیز رفتاری سے گزر رہے تھے اور بلآخر وہ دن بھی آنے والا تھا جس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا۔ کل ردا اور زوار کا نکاح ہونا تھا۔ اللہ کے کرم سے ہر چیز اچھے انداز سے ہوچکی تھی۔ نسرین نے ردا کو اسکی پسند کی شاپنگ کروائی تھی۔ جس پر وہ بہت خوش تھی۔
رات کا سرمئی آنچل چمکتے تاروں کی جھلملاہٹ سے معمور تھا۔ ردا ابھی پارلر والی سے مہندی لگوا کر فارغ ہوئی تھی اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر نیم دراز اپنی مہندی کو دیکھ دیکھ کر خوشی ہورہی تھی۔ نسرین سب کام ختم کرکے اسکے کمرے میں آئی تھی۔ آج اسکا ارادہ ردا سے باتیں کرنے کا تھا۔ اس خوشی کے موقع پر وہ تیمور کو شدت سے یاد کررہی تھی۔ کئی دفعہ اسکی آنکھوں کے کنارے بھی بھیگے تھے جنہیں وہ جلدی سے ردا سے چھپا کر صاف کرگئی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ ردا اداس ہو۔
"دیکھاؤ مہندی۔۔۔" نسرین اسکے پاس بیٹھ کر مسکرا کر گویا ہوئی تھی۔ جس پہ ردا نے خوشی سے چہکتے ہوئے اپنے ہاتھ آگے کیے تھے۔ اس نے پارلر والی سے خوب بھر بھر کر مہندی لگوائی تھی۔ انٹرنیٹ سے پیارے پیارے مہندی کے نقش نکال کے اسنے پارلر والی کو سختی سے کہا تھا کہ مہندی اسی طرح لگانی ہے۔ پارلر والی تو اس لڑکی کی خوشی دیکھ کر حیران تھی۔ بھلا اتنی سی بچی ہے اور شادی سے اتنا خوش۔
"مما دیکھیں کتنی پیاری لگائی ہے۔" ردا نے مسکرا کر نسرین کو دیکھا تھا۔ اسکا چہرہ اندرونی خوشی سے دھمک رہا تھا۔ نسرین کی آنکھوں کے کنارے بےساختہ بھیگے تھے۔ اس کے آنسو دیکھ کر ردا کی آنکھیں بھی نمکین پانیوں سے بھری تھیں۔ وہ دونوں بازو کھول کر نسرین سے لپٹ کر رونے لگی تھی۔ جس پر نسرین نے دل ہی دل میں اپنے آپکو ڈپٹا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ ردا روئے۔ بمشکل اپنے آنسو اپنے اندر اتارتے اس نے ردا کی کمر سہلائی اور پیچھے ہوکر نفی میں سر ہلاکر اسکے آنسو اپنی پوروں پہ چنے تھے۔
"بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی کی مہندی۔۔۔ اللہ کرے میری بیٹی کا نصیب بہت اچھا ہو اور وہ ہمیشہ ایسے ہنستی مسکراتی رہے۔" نسرین نے اسے دعا دی تھی۔ جس پر وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی تھی۔
"ردا میں ابھی تمہاری شادی نہیں کرنا چاہتی تھی مگر زوار کے گھر والوں کی مجبوری کی وجہ سے کررہی ہوں۔ بیٹا اس گھر کو اپنا گھر سمجھو گی اور ان لوگوں کو اپنا مانوں گی تو انکی کوئی بھی بات بری نہیں لگے گی۔ ہر کسی سے اچھے اخلاق سے بات کرنا ، اپنی کسی بھی بات سے کسی کی دل آزاری نہ کرنا۔ زوار کی مما کو اپنی مما سمجھو گی تو انکی ڈانٹ ڈپٹ بھی بری نہیں لگے گی۔ جسطرح میری ڈانٹ میں بھی آپکی بھلائی ہوتی ہے اسطرح انکی بات میں بھی کوئی نہ کوئی بھلائی ہوگی تو کوشش کرنا انکی بات میں چھپی بھلائی پر غور کرنا اور اپنی اصلاح کرنا۔
میری جان گھر رشتوں سے بنتے ہیں اور رشتے پیار ، محبت اور عزت و احترام سے بنتے ہیں۔ کوشش کرنا ہر رشتہ کو اسکی اصل عزت و احترام دینا۔ انسان کی خوشی آس پاس کے لوگوں سے منسوب ہوتی ہے۔ وہ خوش ہوتے ہیں تو انسان خودبخود خوش ہوجاتا ہے اور وہ ناخوش ہوں تو انسان بھی خوش نہیں رہ پاتا۔
اور مجھے پتہ ہے میری بیٹی انکے ساتھ بہت اچھے سے رہے گی اور کبھی کوئی ایسی بات یا حرکت نہیں کرے گی جس سے انکو تکلیف ہوگی۔" نسرین نے اسکے رسان سے کہتے سمجھایا اور آخر میں اسکی حوصلہ افزائی کی تھی۔
ایک ماں اپنی بیٹی کی شادی سے پہلے یہی سب اسے سیکھاتی ہے۔ یہ باتیں اسکے ننھے ذہن میں پیار سے سینچتی ہے۔ اس سب کے باوجود جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے یہ دستور بن چکا ہے کہ لڑکیاں اپنے ماں باپ ، بہن بھائی اور گھر بار چھوڑ کر آئیں تو وہ سسرال میں بھی خود ہی سیٹل ہوں وہ ہی اپنے اندر لچک پیدا کریں اگر وہ گھر بسانا چاہتی ہیں تو ، سسرال والوں کی سب توقعات اسی سے ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ جو لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ کر آتی ہے آپکے بیٹے اور آپکے گھر کو مکمل کرنے کے لیے وہ اتنا تو ڈیزور کرتی ہوتی ہے کہ اسے کچھ اسپیس دی جائے۔ مگر ہمیں عادت ہوچکی ہے کہ جو کام پیار محبت سے ہونے والا ہوتا ہے ہم وہ بھی رعب و دبدبے سے کرنا چاہتے ہیں۔
اس زمانے میں بھی کچھ گھرانے ایسے ہیں جہاں وہ اسپیس دیتے ہیں کچھ خود لچک پیدا کرتے ہیں اور کچھ لڑکی کرتی ہے ، تو پھر وہ گھر ایک خوشحال گھرانے کی طرح ابھرتا ہے جس کا ستارہ خوشگوار رویوں کی وجہ سے چمکتا ہے۔
زندگی میں اچھے برے لوگ سبھی ملتے ہیں بس ہمیں اپنے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ سب سے بری مات ہم کسی کو اپنے اخلاق کے ذریعے ہی دے سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"جی مما۔۔۔" ردا نے بات کو سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"نیند آئی ہے۔۔۔" نسرین نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے استفسار کیا تھا۔
نہیں مما۔۔۔ لیکن پاپا بہت یاد آرہے ہیں۔۔۔" ردا کی آواز رند گئی تھی۔
"میری جان۔۔۔ آپ انکے لیے دعا کیا کرو۔۔۔" نسرین نے اسکے آنسو صاف کرتے نفی میں سر ہلایا تھا۔ وہ آنسو پیتی خاموشی سے نسرین کے کندھے پہ سر ٹکائے آنکھیں موند گئی تھی۔
____________________________________________
آف وائٹ رنگ کا کرتا پاجامہ پہنے وہ شیشے کے سامنے کھڑا ہوکر ، ایک نظر اپنے عکس کو دیکھ کر ، قمیض کے بٹن بند کررہا تھا۔ بلآخر وہ دن آن پہنچا تھا۔ آج اسکا نکاح تھا اور وہ نکاح کے لیے تیار ہورہا تھا۔ فوجی کٹ بال ، نفاست سے تراشی داڑھی اسکے روشن چہرے پہ خوب جچ رہی تھی۔ ہاتھ بڑھا کر اسنے برش اٹھا کر بالوں میں پھیرا تھا۔
ایک گہری سانس لے کر اسنے کمرے میں موجود مہکتے گلاب کے پھولوں کی خوشبو کو اپنے اندر اتارا تھا۔ جس سے اسکی بے چینی تھوڑی زائل ہوئی تھی۔ وہ اس شادی سے خوش نہیں تھا بس شائستہ کی وجہ سے مانا تھا۔
اپنے آپکا آخری جائزہ لے کر وہ موبائل اور گاڑی کی چابی بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے اٹھا کر ، اپنی سحر انگیز شخصیت کے ساتھ نیچھے جانے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا تھا بلاشبہ وہ نک سک سا تیار ہوکر خوبرو لگ رہا تھا جو کسی کی بھی دل کی ڈھرکنوں کو اتھل پتھل کرسکتا تھا۔
"ماشااللہ۔۔۔" شائستہ نے اسے دیکھ کر بےساختہ کہا تھا۔ وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلاتا شائستہ کے گلے لگا تھا۔ شائستہ کے خوشی سے سرشار چہرے کو دیکھ کر وہ پرسکون ہوا تھا۔ سب تیاری ہوچکی تھی بس غزالہ کے آنے کا انتظار تھا۔
ساریہ آج احان کو زیر کرنے کےلیے سب ہتھیاروں سے لیس تھی۔ اس نے اپنے نکاح والا سوٹ پہنا تھا جو کہ احان کو دلی پسند تھا۔ اکثر وہ جب بھی بات کرتا تھا تو اس سوٹ میں اسکی دل کھول کر تعریف کرتا تھا۔ اس لیے ساریہ نے سوچا کہ وہی سوٹ پہنا جائے۔ آخر اسے بھی احان کو سرپرائز دینا تھا۔
"وللہ۔۔۔ ماشااللہ ، ماشااللہ زاری بھائی آپ بہت بہت پیارے لگ رہے ہیں۔" ساریہ جیسے ہی لاؤنج میں آئی تھی زوار کو دیکھ کر وہ خوشی سے اسکے پاس آکر اسکی بازو پکڑے چہک کے بولی تھی۔ اسکے انداز پر شائستہ اور زوار مسکرا کر رہ گئے۔
"پتہ نہیں تمہاری پھپھو کہاں رہ گئی ہے۔۔۔" شائستہ نے بیٹھے بیٹھے کہا تھا۔
"بھئی اسکے لاڈلے بھتیجے کی شادی تھی تو تیاری میں وقت تو لگے گا نا۔" احان نے اندر آتے شریر لہجے میں شائستہ کے سوال کا جواب دیا تھا۔ جس پہ سب مسکرا اسے دیکھنے لگے تھے۔ غزالہ نے ہولے سے اسکے شانے پہ چٹ لگائی تھی۔
سب خوشی خوشی ردا کے گھر کے لیے نکل چکے تھے۔
____________________________________________
زوار کی پسند کا سوٹ پہنے اور ہلکا ہلکا میک اپ کیے وہ بلکل معصوم سی پری لگ رہی تھی۔ وہ تو آئینے میں خود کو دیکھ دیکھ کر خود ہی شرمائی جارہی تھی۔ شرم کے مارے آنکھیں خود ہی جھکی جا رہی تھیں۔ نسرین باہر تیاریوں میں لگی ہوئی تھی۔ شکر تھا کہ سب خیر خیرت سے ہو چکا تھا۔ وہ سب کام نبٹا کر ردا کو ایک نظر دیکھنے آئی تھی۔ اندر آکر اسے اسے یوں تیار دیکھ کر وہ بےساختہ دل ہی دل میں اسکی نظر اتارنی لگی تھی۔بھیگی آنکھوں سے اسکی پیشانی پہ پیار کرکے نسرین نے اسے گلے لگایا تھا۔
"ماشااللہ میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے بلکل پری۔۔۔" نسرین نے مسکرا ردا سے کہا تھا جس پر وہ شرما کر نظریں نیچی کرچکی تھی۔ عین اسی وقت بشرا نے آکر بتایا تھا کہ زوار کے گھر والے آچکے ہیں تو نسرین خوشی سے اٹھ کر باہر جانے لگی تھی کہ ردا میڈم بھی انکی تقلید میں چلنے لگی تھیں۔ نسرین نے پیچھے مڑ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
"میں بھی باہر جا رہی ہوں۔۔۔" ردا نے گویا اطلاع دی تھی۔ جس پہ نسرین نے اسے حیرانی سے دیکھا تھا۔
کیوں۔۔۔"
"مجھے بھی تو آنٹی ،پھپھو اور ساریہ آپی سے ملنا ہے۔" ردا نے منہ بسور کر نسرین کو گویا یاد دلایا تھا۔
"ردا تم دلہن ہو۔۔۔" نسرین نے اسکی معلومات عامہ میں اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
"تو مما میں اب ان سے بھی نہ ملوں۔۔۔" وہ لٹھ مار لہجے میں بول کر نسرین کو حیرت زدہ کرچکی تھی۔
"پاگل دلنہیں اندر بیٹھتی ہیں جب تک انکو باہر نہیں لے کے جاتے۔" نسرین نے پیار سے اسے ڈپٹا تھا۔ مگر اس پہ اثر ہونے کی امکانات صفر تھے۔
"تو مما آپ مجھے باہر لے جائیں نا۔۔۔"
"ردا چپ کرکے صوفے پہ بیٹھو پاگل کہیں کی۔۔۔" نسرین نے اسے گھور کر کہا تھا جو باہر جانے پہ تلی ہوئی تھی۔
"مما پلیز مجھے بھی باہر جانا ہے۔۔۔" وہ بچوں کی طرح ضد کرنے لگی تھی۔ بچے بھی تو ایسےہی ہوتے ہیں جس بات پہ سختی سے منع کرتے ہیں وہی کرتے ہیں۔
"ردا چپ کرو۔۔۔" نسرین اسے ڈپٹ کر باہر چلی گئی تھی کیونکہ اسن مہمانوں کو بھی دیکھنا تھا۔
"میں نے نہیں کرنی اب شادی۔۔۔" وہ منہ پھلا کر صوفے پہ بیٹھی تھی۔ اب اسکا موڈ آف ہوچکا تھا۔
_____________________________________________
سلام کے بعد سب نے پہلے نکاح کا فیصلہ کیا۔ نسرین ساری عورتوں کو لیے ردا کے کمرے میں آگئی۔ اور مرد مولوی صاحب سمیت لاؤنج میں بیٹھے تھے۔
روٹھی روٹھی ردا کو دیکھ کر سب خوشی سے اسے ملے تھے۔ سب نے اسکی بہت تعریف کی تھی جس سے اسکا موڈ تھوڑا ٹھیک ہوا تھا ، وہ تعریف پہ شرمائی جارہی تھی۔ کچھ دیر بعد ہاشم اور مولوی صاحب اندر آئے ردا کو صوفے پہ بیٹھایا گیا تھا۔ ایک طرف مولوی صاحب بیٹھے تھے تو دوسری طرف نسرین بیٹھی تھی۔ مولوی صاحب نے نکاح شروع کیا اور اسکی رائے لی تھی۔ جس پہ ردا نے بچوں کی طرح منہ اٹھا کر بغیر شرمائے اقرار کیا تھا۔ ردا کی اس حرکت پر نسرین اپنا ماتھا پیٹ کررہ گئی تھی۔ اس نے باقی دونوں دفعہ بھی اسی انداز میں جواب دیا تھا۔ نسرین جو کہ پہلی بار ردا کے اسطرح بولنے پر اسکی بازو ہلکے سے دبا کر دھیمے لہجے میں بولنے کا اشارہ کررہی تھی خاموش ہوکررہ گئی کیونکہ ردا نے اسے قطعی نظرانداز کیا تھا۔
زوار کے دستخط کرتے ہی دعا کے بعد "مبارک باد" کی گونج ہوئی تھی۔ سب بہت خوش تھے۔ ساریہ اور عبیرہ ردا کو چھیڑ رہی تھیں جس پہ وہ شرما کم اور دلچسپی زیادہ دکھا رہی تھی۔

Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 18
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 18 

کھانے کے کچھ دیر بعد ساریہ اور عبیرہ ردا کو اپنے ساتھ لیے لاؤنج میں آئیں اور اسے زوار کے ساتھ بٹھایا تھا۔ وہ پہلے پہل تو اتنے لوگوں کے درمیان تھوڑا جھجھکی تھی مگر سب کے پیار و توجہ کی وجہ سے وہ نارمل ہوچکی تھی۔ زوار نے ایک نظر اپنے پاس بیٹھی نئی نویلی دلہن کو دیکھا تھا جو کہ بلکل معصوم پری لگ رہی تھی۔ بلاشبہ یہ سوٹ اس پہ خوب جچ رہا تھا۔
"اگر ایسے ہی رہے تو ہے تو پیاری۔۔۔" ردا کے کم بولنے اور زیادہ مسکرانے کو دیکھ کر زوار نے دل میں سوچا تھا۔ اور یہ بس سوچ ہی ہوسکتی تھی۔ کیونکہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔
"سیلفی تو لیں۔۔۔" سب کو باتوں میں مگن دیکھ کر ردا نے زوار کی طرف جھک کر کہا تھا۔ زوار تو حیرت سے اس دلہن کو دیکھ کررہ گیا تھا جو کہ سب کی موجودگی کو فراموش کیے ہوئے تھی۔
"کمرے میں جاکر لیں گے۔۔۔" مسلسل اسکی نظریں اتنے لوگوں کی موجودگی میں خود پہ جمے دیکھ کر ، اس نے ٹالا تھا۔
"پکا۔۔۔" جتنا وہ سب کے سامنے بات کرنے سے گریز کررہا تھا ردا اتنے ہی سوال اس سے کررہی تھی۔ ابھی بھی وہ استفہامیہ نظریں اس پہ جمائے ہوئی تھی۔
"جی۔۔۔اب کوئی بات نہیں۔۔۔" زوار نے بمشکل مسکرا کر اسے بہلایا تھا۔
"بات بھی کمرے میں جاکر کرنی ہے۔۔۔؟" ردا نے شاید قسم کھا رکھی تھی کہ اس نے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔ جانے انجانے وہ زوار کی حالت سے محفوظ ہورہی تھی۔ اپنی طرف سے اس نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے تھے۔ جس پہ زوار نے اسے گھوری سے نوازا اور اب کی بار کوئی جواب نہ دیا کیونکہ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کی ذہانت کا ابھی چند منٹوں میں ہی معترف ہوچکا تھا جو جواب میں سے بھی سوال نکالنے کا فن جانتی تھی۔

جارہی ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments