Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 17

زندگی معمول سے تھوڑا ہٹ چکی تھی۔ دونوں طرف شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ ہر کوئی خوشی خوشی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ ساریہ نے اچانک سن کر شور تو بہت مچایا تھا مگر اسکے لیے اکیلا احان ہی کافی تھا۔ وہ شادی سے خوش تھی مگر اسکو اتنی جلدی شادی کرنے کی تک سمجھ نہیں آرہی تھی۔ بقول اسکے ، اسکے ڈھیر سارے ارمان تھے جسے اسے پورا کرنا تھا۔ اور خوب دل کھول کر شاپنگ بھی کرنا تھی لیکن یوں اچانک شادی اور وہ بھی اس قدر سادگی سے ، اسے کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہورہی تھی۔
"مما ، پھپھو اتنی جلدی کیا ہے بھئی۔۔۔ میں نے اتنا کچھ سوچا ہوا تھا زاری بھائی کی شادی کے لیے ، ایک تو آپ اتنی جلدی میں شادی کررہے ہیں اوپر سے آپکے بیٹے نے سادگی کا بھی شوشا چھوڑا ہوا ہے۔ بھئی میرا ایک ہی تو بھائی ہے۔۔۔" غزالہ ، عبیرہ ، ساریہ شائستہ کے کمرے میں بیٹھی تھیں اور زیرِ بحث زوار کی شادی تھی۔ ساریہ نے روہانسی ہوکر کہا تھا۔ اس بات سے بے خبر کے پیچھے احان دروازے میں کھڑا اسکی باتیں سن رہا تھا۔
"محترمہ شوہر بھی ایک ہی ہے۔۔۔" احان منہ میں بڑبڑاتے اندر آیا تھا۔ شائستہ سے سلام لے کر وہ بھی غزالہ کی ساتھ صوفے پہ بیٹھ گیا تھا جبکہ شائستہ بیڈ کی ایک طرف بیٹھی اور دوسری طرف ساریہ۔
"تھوڑا آگے کرلیں پلیز نا۔۔۔! احان کی وجہ سے وہ ہولے سے منمنائی تھی۔
"بیٹا ایسے اچھا نہیں لگتا ردا کی امی کو بھی کہہ دیا ہے۔۔" شائستہ نے ہر دفعہ کہنے والی بات پھر سے کہی تھی۔ جس پر ساریہ نے روہانسی ہوکر غزالہ کو دیکھا تھا جو اسکی باتوں پہ دھیمے سے مسکرا رہی تھیں۔
"آپ سب اچھا نہیں کررہے۔" غزالہ کی بھی رضامندی دیکھ کر وہ منہ بسور کر بولی تھی۔ احان سب کی موجودگی کو فراموش کیے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے میں مگن تھا۔ شائستہ نے اسے لاکھ سمجھایا تھا مگر وہ بضد تھی کہ شادی تھوڑا آگے کی جائے۔
"بھئی میری بیٹی جیسا چاہے گی ویسی شادی ہوگی۔ ادھر آؤمیرے پاس۔۔۔ تم کل چلنا میرے ساتھ ہم شاپنگ کریں گے اور جو بھی رسمیں تمہیں کرنا ہیں وہ تم کرلینا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔" غزالہ نے پیار سے بول کر اسے اپنے طرف آنے کا اشارہ کیا تھا۔ شائستہ نےساریہ کو دیکھ کر تاسف میں سر ہلایا تھا۔ سچ تھا کہ وہ بھی اتنی جلدی شادی پر حیران ہوئی تھی مگر جب سے وہ ہاسپٹل سے آئی تھی اسے اندر ہی اندر اپنی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس لیے وہ جلد شادی پر رضامند تھی۔
"جی پھپھو۔۔۔" وہ منہ پھلائے چھوٹی سی ، معصوم سی کوئی بچی لگ رہی تھی۔ وہ اٹھ کر غزالہ کی دوسری طرف آکر بیٹھی تھی۔
"السلام علیکم۔۔۔" زوار گھر آیا تو خالی لاؤنج دیکھ کر وہ سیدھا شائستہ کے کمرے میں آیا تھا۔ سب کو ایک ساتھ بیٹھا دیکھ کر وہ اندر تک خوش ہوا تھا۔
"وعلیکم سلام جیتے رہو۔۔۔" غزالہ نے پیار سے اسکے سلام کے جواب میں کہا تھا۔ زوار کے آتے ہی ردا اٹھ کر بیڈ پہ عبیرہ کے پاس آگئی تھی۔
"کیا باتیں ہورہی ہیں۔" ساریہ کی چھوڑی ہوئی نشست کو سنبھالتے ہوئے وہ سوالیہ ہوا تھا۔
"آپ جناب کی شادی زیرِ بحث ہے۔" احان شریر لہجے میں گویا ہوا تھا۔ جس پہ زوار سرد آہ خارج کرکے رہ گیا۔ کیونکہ یہ اب روز کا معمول بن چکا تھا۔
"بھائی آپ اچھا نہیں کررہے۔۔۔" ساریہ نے روز کہنے والی بات پھر کہی تھی۔
"کیوں اب میں نے کیا کردیا۔۔۔"
"اتنی جلدی شادی کیوں کررہے ہیں۔۔" وہ روہانسی ہوئی تھی کیونکہ بقول اسکے کوئی اسکی سن نہیں رہا تھا۔
"چلو۔۔! پھپھو دیکھ رہی ہیں آپ ، کل مما اور اسے اعتراض تھا کہ میں شادی کیوں نہیں کررہا اب جب کررہا ہوں تو بھی اعتراض ہے۔۔" زوار نے بھرپور مسکینیت طاری کیے غزالہ کو دیکھ کر کہا تھا۔
"بھئی سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ مجھے دیکھ کر تمہارے دل کے ارمان بھی جاگ اٹھے ہیں۔" اس پہلے کہ غزالہ کچھ کہتی احان نے زوار کو دیکھ کر مزے سے کہا تھا۔
"ویری فنی۔۔۔" زوار نے منہ بگاڑا تھا۔
"سڑیل انسان۔۔۔" احان نے دوبدو جوب دیا تھا۔
"جاؤ بھائی کے لیے چائے لے کر آؤ۔۔۔" شائستہ نے ساریہ سے کہا تھا۔وہ سر ہلاتی چائے کے برتن اٹھا کر باہر جانے لگی تھی۔
"زوار بھائی آپ سے تو احان بھائی اچھے ہیں جب انکی نکاح کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی تو انہوں نے ٹریٹ دی تھی اور آپ کنجوس مکھی چوس بنے ہوئے ہیں۔۔۔" ساریہ کے جاتے ہی عبیرہ نے اپنا مقدمہ لگایا تھا۔ غزالہ اور شائستہ دونوں اسے دیکھ کر سر پکڑ کر رہ گیں۔ دو لڑکیاں تھیں اور دونوں کے ہی الگ الگ مسئلے تھے۔ احان نے اپنی تعریف پر گردن اکڑا کر زوار کو دیکھا تھا۔
"اچھا کیا کھانا اس مکھی کنجوس سے۔۔" احان کو گھور کر اسنے عبیرہ سے پوچھا تھا۔
"کھانا گھر کھانا ہے۔۔۔" ابھی عبیرہ نے منہ کھولا ہی تھا کہ غزالہ نے اسے ٹوکا تھا۔ جس پر وہ منہ بنا کر غزالہ کو دیکھنے لگی تھی۔
"چلیں پھر آئس کریم۔۔۔" عبیرہ نے چہکتے ہوئے کہا تھا۔
"اچھا چلو کھانے کے بعد چلتے ہیں۔۔۔ میں فریش ہوکر آتا ہوں۔۔۔" زوار نے ہامی بھرتے ہوا کہا اور فریش ہونے چلا گیا۔ شائستہ اور غزالہ دونوں باتوں میں مصروف ہوگئی تھیں جبکہ عبیرہ انکے پاس ہی بیٹھی تھی۔ سب کو باتوں میں مگن دیکھ کر احان دانستہ فون پہ مصروف ہوکر کمرے سے باہر آیا تھا۔
_____________________________________________
"میں نہیں بولتی آپ سے۔۔۔" ساریہ کیچن میں چائے کے خالی برتن رکھنے آئی ہی تھی کہ اپنے پیچھے قدموں کی چاپ کی وجہ سے دروازے کی اوٹ میں دیکھا ، احان مسکاتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ ساریہ نے خفگی سے کہہ کر اپنا رخ سینک کی طرف کیا تھا۔
"تم پہلے بھی کب بولتی ہو۔۔۔" احان نے اندر آتے شریر لہجے میں کہا تھا۔ وہ چلتا ہوا اسکے پاس آرکا تھا۔ ساریہ نے دانستہ اپنے آپ کو مصروف رکھا تھا۔ احان نے اسکی طرف جھک کر بھنوئیں اچکائیں تھیں۔
"حان آپ کبھی میرا ساتھ نہیں دیتے۔۔۔" بےساختہ اسکی زبان سے شکوہ نکلا تھا۔
"ہیں۔۔! یہ کب ہوا۔۔۔ میری بیگم نے میرا ساتھ مانگا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔" احان نے مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے اپنی حیرانی ظاہر کی تھی۔
"حان جائیں آپ ، ہر وقت مذاق کرتے رہتے ہیں آپ۔۔۔" وہ برا مناتی دو قدم کا فاصلہ بڑھا گئی تھی۔
"اچھا۔۔۔اچھا پیاری سی بیگم بتاؤ کیوں غبارے کی طرح پھولی ہوئی ہو۔۔۔؟" احان کو اسے تنگ کرنے میں الگ ہی مزہ آتا تھا۔ ابھی بھی اس نے شریر لہجے میں پوچھ کر گویا غلطی کی تھی۔
"میں نے نہیں بتانا۔۔۔اور اب میں آپکو بلاک بھی کروں گی۔۔۔" وہ احان کی مسکراہٹ سے چڑی تھی۔ ایک تو وہ اتنے سنگین مسئلے میں گری تھی اور یہاں احان کو مستی سوجھ رہی تھی۔
"ہیں۔۔اللہ۔۔۔! اگر بیویاں بھی بلاک ماریں گیں تو ہم بچارے شوہر کیا کریں گے۔۔۔تھوڑا سا رحم کریں عالی جناب بندے کے دن پردیس میں پہلے ہی بڑی مشکل سے کٹتے ہیں۔۔۔"
احان کا دل اسکی خطرناک دھمکی پر دہلا تھا۔ وہ معصوم شکل بنا کر دہائی دینے لگا تھا۔
"یارا تم کیوں فکر کرتی ہو میں ہوں نا ، میں کرواؤں گا شاپنگ آپکو۔۔۔" احان اسکے دونوں کندھوں پہ اپنی بازوؤں کو رکھ کر اسکی خفگی بھری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
"حان مگر اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔۔" اسکی سوئی ابھی بھی اس بات پر اٹکی تھی۔ احان سرد آہ خارج کرکے پیچھے ہوا تھا۔ وہ اس جلدی کے پیچھے چھپی وجہ اسے بتانا نہیں چاہتا تھا۔
"اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے جاناں۔۔۔ شاپنگ کے علاوہ بھی کوئی مسئلہ۔۔۔؟" احان بات کا رخ بدلتے ہوئے سوالیہ ہوا تھا۔ کچھ دیر یونہی ساریہ کو دیکھ کر وہ کیچن سے جانے لگا تھا۔ ابھی وہ دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ ساریہ کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔اسکی آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔
"آپ سنڈے کو چلے جائیں گے۔۔؟"
"واپس آنے کے لیے۔۔۔" احان واپس اسکے قریب آکر مستحکم لہجے میں بولا تھا۔ ساریہ کے آنسو بغاوت کرتے پلکوں کی باڑ توڑ کر اسکے رخساروں پر پھسلے تھے۔
"اب آپ مجھے مشکل میں ڈال رہی ہیں۔۔۔" احان اسکی آنسو اپنی پوروں سے چنتا گویا ہوا تھا۔ مگر دل ہی دل میں وہ اپنے اللہ کا شکر گزار تھا کہ ساریہ بھی اسے اسکی طرح چاہنے لگی ہے یعنی یہ لگن ، یہ محبت اب یکطرفہ نہیں رہی۔
"سوری۔۔۔" ساریہ نے سر جھکا کرکہا تھا وہ احان کی محبت بھری نگاہوں کی تاب نہیں لا پارہی تھی۔
"آہاں نو سوری۔۔۔سے تھری میجیکل ورڈز۔۔۔" احان نے گہری دلچسپی سے اسے گلال چہرے کو دیکھ کر فرمائش کی تھی۔ ساریہ کا چہرہ شرم سے مزید سرخ ہوا تھا۔ ایک گہری خاموشی کے بعد ساریہ نے اپنی جھکی پلکں اٹھا کر احان کو دیکھا تھا جو کہ استفہامیہ نگاہیں اسکے چہرے پہ بڑی دل جمی سے مرکوز کیے ہوا تھا۔
"حان۔۔۔" وہ جھکی پلکوں سے کہتی غیرمحسوس انداز سے دوقدم کا فاصلہ بڑھا گئی تھی۔
"جی حان کی جان۔۔۔" احان جی جان سے ہمہ تن گوش ہوا تھا۔
"وہ۔۔۔" وہ نچلا لب دبا کر کہتی مزید پیچھے ہوئی تھی۔
"وہ کیا۔۔۔"
"وہ۔۔۔
آئی ہیٹ یو۔۔۔" ساریہ جلدی دے کہتی باہر بھاگی تھی۔ احان تو ہونقوں کی طرح اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"ہائے یہ لڑکی نہیں مانے گی۔۔۔۔" وہ سخت بدمزہ ہوتے منہ میں بڑبڑایا تھا۔
_____________________________________________
نسرین کے تو اتنی جلدی شادی پر ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے مگر زوار اور شائستہ نے اسے سختی سے دھمکی دی تھی کہ وہ جہیز نہیں لینا چاہتے اس لیے نسرین ایسا کچھ نہ کرے۔ نسرین پہلے تو مان نہیں رہی تھی ظاہر سی بات تھی ماں تھی خالی ہاتھ تو بیٹی کو رخصت نہیں کرسکتی تھی کیونکہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات سینچی گئی ہے کہ لڑکی سسرال میں تبھی خوش ہوتی ہے جب وہ جہیز کے نام پہ ڈھیروں چیزیں لے کے آئے۔ دنیاداری کی وجہ سے ماں باپ بھی اپنی بیٹی کی خوشی کو جہیز سے منسوب کرتے ہیں۔ اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بساط سے زیادہ دے سکیں تاکہ انکی اولاد کو کسی کی باتیں نہ سننی پڑیں۔
آجکل لوگوں نے نئی اسکیم بنا لی ہے۔ وہ بظاہر تو جہیز کو لعنت گردانتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر وہ دل ہی دل میں یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ بہو جہیز میں زیادہ سے زیادہ چیزیں لائے۔
جہیز کو لعنت گرداننے والے سبق آموز واقعات صرف سننے کی حد تک ٹھیک رہ گئے ہیں۔ ورنہ اس پہ عمل کرنا ہماری صبروہمت سے مشروط ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 17
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 17  


جہیز کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو نسرین کو سر کرنا تھا وہ ردا کو شادی کا بتانا تھا۔ نسرین کا خیال تھا کہ ردا خوب ہنگامہ مچائے گی۔ اتنی جلدی شادی پہ گھر میں کہرام مچا دے گی۔۔۔ مگر ردا نے ہمیشہ نسرین کو حیران و پریشان کرنے والے رسم کو برقرار رکھا تھا۔
نسرین نے جب بمشکل ردا سے جلد شادی کی بات کی تو وہ عام لڑکیوں کی طرح شرمانے لگی تھی۔ نسرین کو لگا شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے کیونکہ اسکی اپنی بیٹی تو یہ سب نہیں کرسکتی۔ ردا نے شرما کر دونوں ہاتھوں میں منہ چھپایا تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ اسکی جلد شادی ہونے والی ہے۔ جہاں نسرین کو ردا کا یہ ردعمل خوابناک لگ رہا تھا وہیں ردا کو نسرین کی باتیں خواب لگ رہی تھیں۔۔۔
نسرین نے دوبارہ پھر سے اسے پوچھا تو ردا نے بھرپور انداز میں شرما کر ڈوپٹہ کا کونہ منہ میں دبا کر مشرقی لڑکیوں والا جواب دیا تھا۔۔۔ "جیسے آپکو ٹھیک لگے۔۔" نسرین نے حیرت سے ردا کی طرف دیکھا تھا اور اسے تشویش ہوئی تھی کہ شاید ردا نیند میں ہے یا پھر اسکی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔ کیونکہ ابھی کل کی ہی تو بات ہے اس نے ردا کو ایموشنل کرکے منایا تھا۔
نسرین نے دل ہی دل میں خیال کیا کہ اگر ردا نیند میں ہے یا پھر اسکی طبیعت بھی خراب ہے تو اچھا ہی ہے کم از کم اسے اس بات پر بحث تو نہیں کرنی پڑ رہی۔
ردا کی رضا مندی کے بعد نسرین نے باقاعدہ شادی کی تیاریوں کا آغاز کیا۔ گوکہ شادی سادگی سے ہونا طے پائی تھی مگر سب اپنے ارمانوں کا احساس کرنا نہ بھولے تھے۔
کل شام ہی شائستہ نے نسرین کو فون کرکے آج ردا کو تیار رہنے کا کہا تھا تاکہ وہ آج زوار اور ساریہ کے ساتھ جاکر نکاح والا سوٹ اور دیگر چیزیں خرید سکے۔ نسرین نے جب اس بات کا ذکر ردا سے کیا تو وہ خوشی سے نہال ہو گئی تھی۔
"ردا زیادہ بولنا نہیں ہے۔۔۔۔اور وہ جو چیز لینے کو بولیں وہی لینا۔۔۔" ابھی وہ جی بھر کر خوش بھی نہ ہوئی تھی کہ نسرین نے ایک نیا بم اسکے سر پھوڑا تھا۔ نسرین کی بات سن کر وہ کڑھ کر رہ گئی تھی۔
"چلو اگر انہوں نے اپنی مرضی سے ہی لینا ہے تو پھر مجھے کیوں لے کے جا رہے۔۔۔" ردا خفگی سے کہتی احتجاجاً نسرین کے پاس سے اٹھی تھی۔
"لے کے جارہے ہیں تو مطلب تم اپنی من مانی کرو گی۔۔" نسرین نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
"مما اپنی من مانی تو نہیں کریں۔۔۔ بھئی میری شادی ہے ، سوٹ بھی مجھے پہننا ہے تو پھر میں اپنی مرضی بھی نہ کرو۔۔۔" ردا دوبارہ صوفے پہ نسرین کے پاس بیٹھ کر روہانسی ہوئی تھی۔
"میری جان سسرال کے سامنے یوں مرضیاں نہیں کرتے۔۔۔ میں آپکو آپکی مرضی کے ڈریس دلواؤں گی آپ یہ ان کی مرضی سے لے لو۔۔۔" نسرین نے اسکے بال کان کے پیچھے اڑیستے ہوئے ، پیار سے پچکارا تھا۔
"مما شادی پہ تو وہی پہننا ہے نا۔۔۔" وہ منہ بسور کر بولی تھی۔ جو نسرین کو تپانے کے لیے کافی تھی۔
"ردا کبھی ایک دفعہ کا کہا بھی مان جایا کرو۔۔۔ کہا ہے نا میں نے کہ اپنی مرضی سے لے لینا ڈریس۔۔۔" نسرین جھنجھلا کر بولی تھی۔ کیونکہ اس بےوقت بحث سے وہ ٹائم ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"مما آپ نے تب بھی نہیں لینے دینا۔۔۔ آپ وہی اول جلول لے کے دے دیں گیں۔۔۔" ردا ناراض ہوکر پہلو بدل کر رہ گئی تھی۔ وہ تو شادی کے لیے اس لیے خوش تھی کیونکہ اب سب اسکی مرضی سے ہوگا مگر یہاں تو اسے ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔
"تم نے بات ماننی ہے یا پھر میں انکو فون کرکے شاپنگ کا منع کروں۔۔۔" نسرین نے گویا اب اسے دھمکی دی تھی۔
"مما۔۔۔ اچھا نہیں لیتی۔۔۔ ایک تو دولہا آپکی مرضی کا ہے ، اب سوٹ سسرال کی مرضی کا لے لوں۔۔۔ اور پھر ، میں چپ بھی رہو بولوں بھی نا۔۔۔" وہ روٹھے لٹھ مار لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
"میں فون ہی کرتی ہوں۔۔۔"
"اچھا۔۔! نہ سوٹ اپنی پسند کا لوں گی اور نہ ہی بولوں گی۔۔۔" ردا نے منہ بسور کر جلدی سے بولی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ مرضی کا سوٹ لینے کے ساتھ ساتھ وہ باہر جانے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
"جاؤ جاکر تیار ہو۔۔۔"
"اور ڈھنگ کے کپڑے پہنوں۔۔۔
"وہی پہنوں گی۔۔۔" ابھی نسرین بول رہی تھی کہ ردا نے اسکی بات کاٹ کر منہ بنا کر بولی تھی کیونکہ جب سے یہ زوار نامی انسان اسکی زندگی میں آیا تھا تب سے وہ یہ جملہ سن سن کر جھنجھلا کر رہ گئی تھی۔
"یااللہ اس لڑکی کو تھوڑی عقل دے دے اس نے تو مجھے پریشان کیے ہوا ہے۔" نسرین ردا کو کمرے میں جاتا دیکھ کر پریشانی سے بولی تھی۔
_____________________________________________
ردا کے تیار ہوتے ہی زوار اور ساریہ اسے لینے آگئے تھے۔ ردا پرنٹڈ گرین کلر کا کرتا ، سفید رنگ کا پاجامہ اور ساتھ سفید رنگ کا ڈوپٹہ اچھے سے سر پہ لیے بہت معصوم ، بہت پیاری لگ رہی تھی۔ زوار کا انداز آج بھی سرسری سا تھا۔
وہ پچھلے دو گھنٹوں سے مال میں گھوم رہے تھے۔ مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لیں۔ کبھی ایک دکان تو کبھی دوسری وہ برے طرح تھک چکے تھے مگر ابھی تک کچھ نہیں لیا تھا۔
ردا ساریہ سے دوستی کی وجہ سے انکے ساتھ اچھے سے گل مل گئی تھی۔ البتہ زوار کا سنجیدھا منہ اسے سڑا ہوا لگ رہا تھا جس کی وجہ سے ردا نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
مسلسل تین چار دکانوں میں جاکر بھی انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔
"کیا کررہے ہو تم لوگ۔۔۔ ایسے تو رات ہوجانی ہے۔۔۔ اب چپ کرکے میرے پیچھے آؤ۔۔۔میں اب اپنی مرضی سے لیتا ہوں۔۔۔" چوتھی دکان سے باہر نکلتے ہوئے زوار نے جھنجھلا کر بولا تھا۔ اور انہیں لیے آگے چلنے لگا تھا۔ ردا اور ساریہ چپ چاپ اسکی تقلید میں چلنے لگیں تھیں۔ کیونکہ اب وہ دونوں بھی تنگ آچکی تھیں۔
"چلو۔۔۔! یہ سڑا ہوا انسان کیا لے گا ، جس کپڑے کو ہاتھ لگائے گا وہ تو اندر تک جل کے رہ جائے گا۔" ردا نے اسکی تقلید میں چلتے ہوئے اسکی شکل دیکھ کر سوچا تھا۔
"یہ دیکھو۔۔۔ جب تک میں اور دیکھتا ہوں۔۔۔" تین چار سوٹ ساریہ کے ہاتھ میں تھما کر زوار آگے چلا گیا تھا۔ اسکا انداز بےحد سنجیدہ تھا۔
"تمہیں کوئی پسند آیا ہے۔۔۔" کپڑوں کو الٹ پلٹ کرکے دیکھتے ہوئے ساریہ سوالیہ ہوئی تھی۔
"آپ بتادیں مجھے پتہ نہیں لگ رہا۔۔۔" ردا نے نسرین کی وجہ سے بمشکل کہا تھا کیونکہ وائٹ کلر کا سوٹ اسے بہت پسند آیا تھا۔ جس کی قمیض پر ہلکے گولڈن رنگ کی گلے اور آستینوں پر کڑھائی ہوئی تھی۔ بوٹ شیپ گلا بہت ہی نفاست سے بنا ہوا تھا۔ جبکہ ٹراوزر سادہ سا وائٹ رنگ کا ہی تھا اور ڈوپٹہ سرخ رنگ کا تھا جس کے کناروں پر گولڈن رنگ کی ہلکی ہلکی کڑھائی ہوئی تھی۔ ابھی وہ کپڑوں کو ٹٹول ہی رہی تھیں کہ زوار پھر آن دھمکا تھا۔
"ہوگیا سلیکٹ۔۔؟" وہ استفہامیہ نظروں سے ساریہ کو دیکھنے لگا تھا۔ پیلے رنگ کی ٹی شرٹ نیلی جینز پہ پہنے ، وہ حد درجہ وجیہہ لگ رہا تھا۔
"نہیں۔۔۔ وہ بھائی۔۔۔" ساریہ ابھی منمنائی ہی تھی کہ زوار نے تاسف میں سر ہلایا تھا۔
"ارادہ ہے لینے کا۔۔۔ آپ یہ ٹرائے کرکے آئیں۔۔۔" زوار نے ساریہ کے ہاتھ سے وہ وائٹ ڈریس لے کر ردا کی طرف کیا تھا۔
"جی میں۔۔۔" ردا نے ہونقوں کی طرح زوار کو دیکھا تھا۔
"جی بلکل آپ ہی۔۔۔" زوار نے زبردستی مسکرا کر کہا تھا۔
"اچھا۔۔۔" ردا اس سے ڈریس لیتی ٹرائے روم میں جانے لگی تھی۔
"جاؤ تم دونوں میں یہیں ہوں۔۔۔" زوار نے ساریہ کو اسکے پیچھے بھیجا تھا۔
"ٹھیک ہے بھائی۔۔۔" ساریہ نے باہر آتے ہی کہا تھا جس پر زوار نے دل ہی دل میں شکر کیا تھا۔
"ہمم چلو۔۔۔" وہ انہیں ساتھ لیے کاؤنٹر پر آیا ، حساب برابر کرکے وہ دوسری چیزوں کے لیے نکل پڑے تھے۔
شام کے ساتھ بجے جاکر وہ شاپنگ سے فارغ ہوئے تھے۔ پھر فوڈ کورٹ سے کھانا کھا کر وہ آٹھ بجے گھر کے لیے نکلے تھے۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments