Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 16

"ردا میری جان۔۔" وہ ابھی لاؤنج میں داخل ہوئی ہی تھی کہ نسرین نے اسے پیار سے بلایا تھا۔ وہ صبح سے ہی پریشان تھی کیونکہ ردا ایک نوالہ نہیں کھا کرگئی تھی۔
"میں آپکی جان نہیں ہوں۔۔" وہ بیگ صوفے پر پٹخ کر برا منہ بناتے بولی تھی۔
"اچھا آؤ کھانا کھاؤ پھر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔" نسرین کو اسکے بھوکے رہنے سے پریشانی ہورہی تھی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے ، مجھےنہیں کھانا۔۔" ردا بمشکل انکار کرتی اپنے کمرے میں جانے لگی تھی۔
"پھر کب کھانا ہے۔۔" نسرین تو سر پکڑ کر رہ گئی تھی۔
"جب آپ آنٹی کو فون کرکے کہیں گیں کہ آپ انکی بیٹے سے میری منگنی نہیں کریں گے۔" ردا نے سادہ سا حل بتایا تھا۔
"ردا کیا ہوگیا تمہیں۔۔ کیوں تنگ کررہی ہو۔" نسرین اس کی باتوں سے تنگ آچکی تھی۔
"ماما میں آپکو بتا رہی ہوں میں کبھی بھی اس انکل جیسے زوار سے منگنی نہیں کروں گی۔" ردا نے پھر اپنا مقدمہ لگایا تھا۔
"کیوں کیا برائی ہے اس میں۔۔۔" نسرین نے تیوری چڑھا کے استفسار کیا تھا۔
"مجھے نہیں پسند وہ ، یہ کافی نہیں ہے۔۔۔" ردانے عام سے لہجے میں کہا جو کہ نسرین کو تپانے کے لیے کافی تھا۔
"آج اپنی زبان سے یہ بات نکال لی ہے آئندہ میں یہ بات نہ سنوں۔ آئی سمجھ۔۔۔" نسرین نے قطیعت سے کہا تھا۔ وہ ردا کی اس خوامخواہ کی ضد سے عاجز آچکی تھی۔
"آپ اچھا نہیں کررہی ہیں میں بتارہی ہوں۔۔" ردا نے اپنے ہتھیار (آنسو) نکال کر ایموشنل بلیک میل کرتے ہوئے کہا اور پیر پٹختی کمرے میں چلی گئی تھی۔
"اللہ اس لڑکی نے اب میرے سے مار کھانی ہے کیونکہ ایسے تو اسکے چھوٹے سے دماغ میں میری بات نہیں بیٹھے گی۔" نسرین بڑبڑا کر رہ گئی تھی۔
_____________________________________________
"زوار تمہاری پھپھو کا فون آیا تھا وہ کہہ رہی تھی کہ کل ردا کے گھر جانا ہے۔" زوار ابھی آفس سے آکر فریش ہوکے شائستہ کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ شائستہ نے اسے غزالہ کے فون کے بارے میں بتایا تھا۔
"جی اچھا۔۔۔"
"تم چلو گے ہمارے ساتھ۔۔؟"
"آپ بھی جائیں گی۔۔؟" زوار نے متحیر آنکھوں سے شائستہ کو دیکھا تھا۔
"ظاہر سی بات ہے۔۔" شائستہ نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر تاسف میں سر ہلایا تھا۔
"مما آپ کی طبیعت نہیں ٹھیک پھپھو اور ساریہ چلی جائیں گیں۔۔" زوار نے سہولت سے کہا تھا۔
"کیسی باتیں کرتے ہو ، ایسے تمہاری پھپھو اکیلے جائیں گیں۔۔۔! کچھ نہیں ہوا میری طبیعت کو میں ٹھیک ہوں۔" شائستہ کو اسکی بات ذرا برابر اچھی نہیں لگی تھی۔
"مما میں انکو چھوڑ آؤں گا اور آپ نہیں جائیں گی آپ آرام کریں گیں۔ ورنہ میں کسی کو بھی نہیں جانے دوں گا ۔۔۔" اب کی بار زوار نے دھمکی دی تھی۔
"زوار یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔تم بہت ضدی ہو گئے ہو۔"
"مما میں نے کب ضد کی ہے۔۔" زوار نے بھرپور مسکینیت طاری کی تھی۔
"بس اب معصوم نہ بنو۔۔۔ ٹھیک ہے چھوڑ آنا اپنی پھپھو کو۔۔" شائستہ نے ہنستے ہوئے ہولے سے اسکے شانے پر چٹ رسید کی تھی۔
"جو حکم ۔۔۔" وہ سر کو خم دیتا شائستہ کے گود میں سر رکھ گیا تھا۔
_____________________________________________
‏‎"یا اللہ کیا ہے مما کو۔۔! کیوں نہیں میری بات سن رہیں۔۔۔!
کیا کروں میں۔۔۔اگر سچ میں مما نے۔۔۔نہیں نہیں وہ مان
‏‎جائیں گیئں میری بات۔
ہائے کاش میری کوئی بہن ہوتی تو میں اسکی کروا دیتی وہ بھی کیا یاد کرتی۔۔۔" ردا کمرے میں آکے بھوکے پیٹ جلے پیر کی بلی کی طرح چکر کاٹ رہی تھی۔ کبھی کیا سوچتی تو کبھی کیا۔ وہ تو کسی طور ماننے والی نہیں تھی۔
وہ جو اپنی بات منوانے کے لیۓ بھوک ہڑتال کا سوچ کر بیٹھی تھی۔ ‎چند گھنٹوں بعد نسرین کی جانب سے مثبت ردعمل نہ آنے اور اپنا کام بنتے نا دیکھ کر وہ نڈھال ہو کے بیڈ کی سائیڈ پہ بیٹھ گئی تھی۔
‏‎"ہائے اللہ‎ اتنا ظلم مجھ بیچاری پر ۔۔۔
‏‎اللہ ‎تو دیکھ رہا ہے نا کہ کیسے مجھ پہ ظلم ہو رہا ہے ۔۔ہائے مجھے تو لگتا ہے اس چکر میں میرے پیٹ کے آدھے کیڑے مر گئے
ہیں۔میرے بیچارے کیڑے۔۔یا اللہ
‏‎جو زندہ ہیں انھیں بچا لے وہ خودکشی سے نہ مر جایں
‏‎اور یہ ذرا مما کو تو دیکھو۔۔ ذرا جو فکر ہو کہ میں کھانا نہیں کہ رہی۔۔۔" بھوک اسکے پیٹ کو نچورنے لگی تھی۔
‏‎"چھوڑ دیتی ہوں کھانا نہ کھانے والی بات۔۔۔کھانے کے بعد ناراض ہو جاؤں گی ۔۔ہاں یہ ٹھیک ہے چلو بھئی جلدی سے نیچے چلتی ہوں ۔۔۔" وہ دائیں گال پہ انگلی رکھ کر سوچنے لگی تھی کہ اب کیا کرے۔ فوراً ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔ اس پر عمل کرتی وہ سیلپر پاؤں میں اڑیستے نیچے جانے لگی تھی۔
‏‎
نسرین جو کہ ردا کے منصوبے سے واقف تھیں اسی لئے اسکو کھانے کے لیۓ نہیں بلانے آئی کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ وہ خود ہی آجائے گی لیکن انہوں نے خود بھی کھانا نہیں کھایا آخر ماں تھیں اور اپنی اکلوتی اولاد کے بغیر کیسے کھاتیں جن میں اسکی جان بستی تھی۔
‏‎بعض دفعہ ماں باپ اپنے بچوں کی بھلائی کیلئے اولاد پہ سختی کرتے ہیں۔ لیکن اولاد اسے نہیں سمجھ پاتی۔
‏‎"مما کھانا دے دیں ۔۔۔" ردا نے منہ بسور کر لٹھ مارلہجے میں کہا تھا۔
‏‎
"میرے بچے کو بھوک لگی ہے۔۔میں اپنی جان کے لیۓ ابھی کھانا لاتی ہوں۔۔۔" نسرین نے دل ہی دل میں شکر کیا تھا۔
‏‎"بس کر دیں مما اگر آپ میرے سے اتنا پیار کرتیں تو اتنی دیر سے مجھے بھوکا نہیں چھوڑتیں۔۔۔" ردا نے خفگی سے کہا تھا۔
‏‎"میری جان آپ کیوں ضد کر رہی ہو کیا آپ کو اپنی ماما پہ یقین نہیں ہے بیٹا میں آپ کی بھلے کے لیۓ کہہ رہی ہوں اگر نہیں تو تو نہ سہی۔۔۔میں کھانا لاتی ہوں بیٹھو۔۔۔" نسرین نے ایموشنل ٹریپ کیا تھا۔ وہ خفگی سے کہتی کیچن میں جانے لگی تھی۔
‏‎
"مما میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا۔۔ آپ پلیز ایسے تو نہ کریں۔۔۔آپ ناراض تو نہ ہوں۔۔" ردا اسکے پیچھے کچن میں گئی تھی۔
‏"‎چھوڑو تمہیں کونسی فکر ہے ماں کی۔۔۔" نسرین نے دیکھا کہ یہ ایموشنل بلیک میل ہو سکتی ہے تو فوراً اداس لہجے میں کہتی کھانا گرم کرنے لگی تھی۔
‏‎
"مما ایسے تو نہ کہیں مجھے فکر نہیں ہے آپ کو پتا ہے جب آپ ناراض ہوتی ہیں تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا ۔۔۔"
"آؤ بیٹھو کھانا کھاؤ۔۔" نسرین نے ٹیبل پہ کھانا رکھتے کہا تھا۔
"مما۔۔۔" نسرین کو ناراض دیکھ کر اسکی جان مٹھی میں آئی تھی۔
"ردا میں نے تمہارے بھلے کے لیے ہی کیا ہے سب۔ تمہارے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے ، مجھے بتاؤ میں اکیلی عورت کیا کرسکتی ہوں۔ میں کیسے تمہارا رشتہ ڈھونڈو گی کس سے جا کر کہوں کی کہ اسکی چھان بین کرے۔ کسی سے نہیں نا۔
تو پھر میں گھر آئے اس اچھے رشتے کو کیسے انکار کروں جو بنا کسی تگ ودو کے اللہ نے دیا ہے۔ دنیا بڑی ظالم ہے یتیموں کا حق چھین لیتی ہے۔ میں تمہاری ماں ہوں تمہاری حق تلفی برداشت نہیں کرسکتی اس لیے محفوظ ہاتھوں کی پناہوں میں تمہیں دینا چاہتی ہوں۔" نسرین نے اسے اپنے جزبات بتائے تھے کہ وہ کن مشکلات میں گری ہوئی ہے۔ آنسو خود بخود اسکی آنکھوں سے چھلک کر اسکے گالوں پہ پھسلے تھے۔ وہ سچ ہی تو کہ رہی تھی کہ وہ اس حساس معاملے میں کس پر اعتبار کرے گی۔ لوگ تو کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ دکھاتے کچھ ہیں اور نکلتا کچھ اور ہے۔
"مما سوری۔۔! آپ جو کہیں میں ویسا ہی کروں گی پکا وعدہ پلیز آپ ناراض اور رو نہیں۔۔" ردا اسکے قریب آکر اسکے آنسو صاف کرتے نرم روئی جیسے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
"مما کی جان۔۔۔ دیکھنا آپ کتنا خوش رہو گی وہ آپ کو بہت خوش رکھے گا انشااللہ ۔۔۔" نسرین نے خوشی سے اسے گلے لگایا تھا۔ وہ اپنے رب کی شکرگزار تھی جس نے زوار کی صورت میں اسکی دلی مراد پوری کی تھی۔ ماں باپ کو بس اولاد کی خوشی ، سکون و آرام سے غرض ہوتا ہے۔ انکی نظر میں اچھا رشتہ وہ ہوتا ہے جس میں انکی اولاد کا سکون پوشیدہ ہوتا ہے۔_____________________________________________
"غزالہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔۔" شائستہ نے غزالہ کی بات سن کر حیرانگی سے کہا تھا۔ اس وقت زوار ، احان اور غزالہ شائستہ کے کمرے میں بیٹھے زوار اور ردا کے نکاح کے متعلق بات کر رہے تھے۔
"بھابھی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ اب آپ کب تک میرے بھتیجے کو کنوراہ رکھیں گیں۔۔" غزالہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ وہ اس بات کی تاثیر کو کم کرنا چاہتی تھی۔
"تمہارا بھتیجا رشتے کے لیے تو مان نہیں رہا تھا شادی کے لیے کیسے مانے گا۔" شائستہ نے خفگی سے زوار کو دیکھا تھا چاہتی تو وہ بھی یہی تھی مگر پھر ردا کی پڑھائی کی خاطر اس نے اہنی اس خواہش کو دبا لیا تھا۔
"میں اسکے کان کھینچ کے سیدھا کروں گی۔ اب بھلا بڑھاپے میں شادی کرنی ہے۔" غزالہ نے زوار کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ زوار بیچارہ معصوم منہ بنا کر اپنی ماں اور پھپھو کو دیکھ کر رہ گیا احان تو اس کی شکل دیکھ کر خوب ہنسا تھا۔
"غزالہ نسرین نہیں مانے گی۔ وہ تو پہلے ہی بہت مشکل سے رشتے کے لیے مانی تھی اسکی بیٹی چھوٹی ہے۔" شائستہ نے پھر سے بات شروع کرتے ہوئے کہا تھا۔
"بھابھی آپ فکر کیوں کررہی ہیں میں کرلوں گی بات اس سے۔ آپ بتائیں آپکو تو کوئی اعتراض نہیں ہے بہو کو لانے میں۔"
"نہیں مجھے کیوں ہوگا۔ مگر اتنی جلدی بھی کس بات کی ہے۔" شائستہ کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر اتنی جلدی کس بات کی ہے۔
"بھابھی کوئی جلدی نہیں ہے آپ بس جلدی سے ٹھیک ہوں اور شادی کریں اپنے بیٹے کی۔ ساریہ کی رخصتی انشااللہ احان کے واپس آتے ہی ہوگی۔" غزالہ کی بات پر احان نے سرد آہ خارج کی تھی۔
"انشااللہ۔ کب جانا ہے تم نے نسرین کی طرف۔۔؟"
"کل انشااللہ۔۔۔"
"اچھا میں بھی چلو گی ساتھ۔" شائستہ پرسوچ لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
"مما آپ تھک جائیں گیں اور خوامخواہ طبیعت خراب ہوگی۔ پھپھو چلی جائیں گیں۔" زوار نے گفتگو میں حصہ لیا تھا۔
"بھابھی میں چلی جاؤں گی۔ آپ فکر نہ کریں۔"
شائستہ مان تو گئی تھی مگر ایک نئے سوال نے اسکے ذہن میں جنم لے لیا تھا کہ آخر اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ اور زوار کیسے مان گیا وہ بھی شادی کے لیے کل تک تو وہ رشتے کے لیے نہیں مان رہا تھا۔
_____________________________________________
ابھی کچھ دیر پہلے ہی شائستہ کا فون آیا تھا اور اس نے نسرین کو غزالہ کے شام میں آنے کی اطلاع دی تھی۔ نسرین نے انہیں تو کچھ نہیں کہا مگر اتنے کم وقت میں سب کیسے ہوگا یہ سوچ کے اس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔
ردا اسکول سے آچکی تھی اور کھانا کھاکر اپنے کمرے میں آرام کرنے کی غرض سے گئی تھی۔ جب سے ردا نے نسرین کو ہاں کہی تھی وہ تو اسکے صدقے واری ہوئے جارہی تھی۔ وہ بہت خوش تھی۔
"ردا۔۔۔ ردا۔۔۔!" فون بند کرتے ہی نسرین نے اسے آوازیں دیں تھیں۔
"جی۔۔۔"
"نیچے آؤ۔۔۔"
"آئی۔۔۔" وہ جھنجھلا کر کہتی اٹھ کر نیچے آنے لگی تھی۔
"جی۔۔"
"وہ زوار کی پھپھو آرہی ہیں شام کو ، تو اچھے سے تیار ہونا۔۔۔" ابھی وہ کیچن میں داخل ہوئی تھی کہ نسرین کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ زوار کا نام سن کر اسکا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔ اس نے نسرین کو ہاں تو کہہ دی تھی مگر زوار سے بے نام دشمنی ابھی بھی اپنی جگہ پر تھی۔
"میں تھکی ہوئی ہوں۔۔۔" ردا جھنجھلا کر بولی تھی۔
"ردا خامخواہ کی بحث کیوں کرتی ہو۔" نسرین فریج سے منہ نکال کر اسے دیکھ کر مستفسر ہوئی تھی۔
"مما میں ابھی اسکول سے آئی ہوں۔"
"تمہیں میں سونے کا بھی نہیں کہہ سکتی کیونکہ تم تو گھوڑوں کا اصطبل بیچ کر سوتی ہو پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتی۔۔۔" نسرین نے تاسف میں سر ہلاتے فریج بند کی تھی۔ اور چل کر ڈائننگ ٹیبل کے قریب آرکی تھی۔
"مما۔۔۔" ردا ناراض ہوکر پہلو بدل کر رہ گئی۔
"جاکر رسٹ کرو اور مجھے پانچ بجے تیار ملو اور ڈھنگ کے کپڑے پہننا۔۔۔" نسرین نے گویا اس پہ احسان کیا تھا۔
"اور کچھ۔۔"
"نہیں تم یہی کرلو میرے سر پر احسان ہوگا۔"
"ہننہہ زوار مرار کا بچہ گندا انکل۔۔۔" وہ پیر پٹختی کیچن سے نکلی تھی۔
_____________________________________________
نسرین نے سب سے پہلے جو چیزیں باہر سے لانی تھیں انکی لست بنا کر چوکی دار کو مارکیٹ بھیجا تھا۔ پھر جلدی جلدی کھانے کی تیار کرنے لگی۔ سات بجے وہ تقریباً سب کام کرچکی تھی۔ ردا بمشکل چھے بجے اٹھی تھی وہ بھی مسلسل نسرین کے جگانے پر۔ وہ آنسو پیتی اٹھ کر کیچن میں نسرین کے پاس آئی تھی۔ کھانا تو وہ تقریباً تیار کر چکی تھی بس برتن نکالنے والے رہ گئے تھے۔ ردا برے برے منہ بناتے نسرین کی ہدایات پہ عمل کرنے لگی تھی۔ پھر سات بجے کے قریب نسرین نے اسے کمرے میں بھیجا تھا کہ وہ تیار ہوجائے۔
ردا شکر ادا کرتی کمرے میں آئی اور دھڑام سے بیڈ پر گری تھی۔
کچھ دیر یونہی لیٹ کر وہ ناچارہ اٹھ کر تیار ہونے لگی تھی۔
نسرین کیچن سے مطمئن ہوکے جلدی سے اپنے کمرے میں تیار ہونے گئی اور پندرہ منٹ میں وہ تیار ہوکر پھر کیچن میں آئی تھی۔
تقریباً آٹھ بجے کے قریب دروازے پہ بیل بجی تھی۔ وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھی تھی۔
"السلام علیکم۔۔۔" نسرین نے پہل کی تھی۔
"وعلیکم سلام۔۔۔ میں زوار کی پھپھو۔۔۔" غزالہ مسکرا کہتی اندر داخل ہوئی۔ پیچھے احان اور زوار بھی۔ احان غزالہ کو زوار کی طرف چھوڑنے آیا تھا جب زوار کے بے حد اصرار پر وہ بھی انکے ساتھ آگیا تھا۔
"بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔۔" نسرین مسکرا کر کہتی اندر آنے کا اشارہ کرنے لگی تھی۔
"شکریہ۔۔"
"یہ میرا بیٹا احان ہے ساریہ کا شوہر۔۔۔" لاؤنج میں داخل ہوتے ہی غزالہ نے احان کا تعارف کروایا تھا۔ ساریہ کے شوہر کہلانے پر وہ پھولے نہ سما رہا تھا۔
"اچھا۔۔۔ کیسے ہو بیٹا۔۔"
"جی آنٹی اللہ کا شکر۔۔۔"
"آپ کیسے ہو۔۔۔" نسرین اب زوار سے گویا ہوئی تھی۔
"میں ٹھیک۔۔۔" زوار نے مسکرا کر کہا تھا۔
نسرین انہیں لیے ڈرائنگ روم میں آئی اور انہیں وہاں بیٹھا کر ایکسکیوز کرتی باہر آئی تاکہ چائے اور دیگر لوزامات لے کر آسکے۔
"یہ کالا رنگ کیوں پہنا ہے۔۔؟" نسرین ابھی ٹرالی کا آخری دفعہ جائزہ لے رہی تھی کہ ردا کالا سوٹ پہنے اندر آئی۔
کالا سوٹ اسکی دودھیا سفید رنگت پہ خوب جچ رہا تھا گھنگرالے بال ہلکے سے کیچر میں مقید تھے۔ میک اپ کے نام پر وہ صرف ہلکی سی بی بی کریم لگائے ہوئے تھی۔ وہ نکھری نکھری سی بہت دلکش لگ رہی تھی۔ مگر نسرین تو کالا سوٹ دیکھ کر سر پکڑ کر رہ گئی۔
"کیوں کہ میں اداس ہوں۔۔" وہ لٹھ مار لہجے میں کہتی برنر کی طرف بڑھ گئی تھی۔
"تمہیں تو میں بعد میں دیکھتی ہوں۔۔۔" نسرین اسے غصے سے کہتی ٹرالی لیے کیچن سے جانے لگی۔ ردا نے جھنجھلا کر اپنی ماں کو دیکھا تھا جسے اب سادہ شلوار قمیض پر بھی اعتراض ہو رہا تھا۔ وہ سر جھٹک کر باہر لان میں جانے لگی تھی۔
_____________________________________________
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 16
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 16 


ڈرائنگ روم میں ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ زوار کا فون بجا تھا جسے وہ سننے کے لیے باہر آیا تھا۔ابھی وہ کال سن کر پیچھے مڑا ہی تھا کہ ردا کو اپنے سامنے کھڑے پایا تھا۔
"آپ کیوں آئے ہیں یہاں۔۔۔؟" وہ ماتھے پہ بل ڈالے بھسم کر جانے والی نظروں سے گھورتی سوالیہ ہوئی تھی۔
"بہت دن سے میری کسی نے عزت افزائی نہیں کی تھی وہی کروانے آیا ہوں۔۔۔" زوار نے دانت پیس کر کہا تھا۔ وہ تو ردا کے تیور دیکھ کر اندر تک بھنا کر رہ گیا تھا۔ پتا نہیں ردا کے سامنے اسے کیا ہوتا تھا کہ وہ بلکل اسی کے انداز میں دوبدو جواب دیتا تھا۔
"مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔" پتہ نہیں اطلاع تھی یا فرمائش تھی۔
"مجھے بھی نہیں کرنی۔۔۔" زوار بھی ناک چڑھائے میدان میں عود آیا تھا۔
"تو آپ اپنی مما کو کہیں نا کہ آپکو مجھ سے شادی نہیں کرنی۔" ردا نے آنکھیں ٹپٹپا کر گوہرِ نایاب جیسا مشورہ دیا تھا۔
"آپ اپنی مما کو کہہ دو۔۔۔" زوار نے دوبدو جواب دیا تھا۔ وہ تو مانوں اس کے ساتھ مقابلے پہ اتر آیا تھا۔
"میری مما بہت ڈانٹتی ہیں۔۔۔۔" ردا نے منہ بسورتے کہا تھا۔ اپنی طرف سے اسنے صاف ہری جھنڈی دیکھائی تھی کہ میں کچھ نہیں کرسکتی آپ ہی کرو ، ورنہ جینا حرام تو میں ویسے ہی آپکا کردوں گی اس لیے پہلے ہی ہاتھ پاؤں مار لو۔ گویا ڈوبتے کو تنکا فراہم کیا گیا۔
"آپ کو دیکھ کر میری مما کو دنیا کی کوئی لڑکی ، لڑکی نہیں لگ رہی سو وہ تو نہیں مانیں گیں۔" (بندوق تو میرے سر پہ تانی گئی تھی) زوار ہاتھ جھاڑتے ، اندر کی طرف قدم بڑھانے لگا تھا۔
"سڑو کھڑوس۔۔۔ہنہہ" ردا اسکی پشت کو گھور کر غصے سے منہ میں بڑبڑائی اور اسکے پیچھے اندر آنے لگی تھی۔
"کہاں تھی تم۔۔؟" ابھی وہ کیچن میں آئی تھی کہ نسرین ہلکی آواز میں مستفسر ہوئی تھی۔
"یہیں تھی۔۔"
"ڈوپٹہ ٹھیک کرو اور چلو اندر۔۔"
"جی۔۔" وہ منہ بنا کر کہتی نسرین کی تقلید میں چلنے لگی تھی۔
"میری بیٹی ردا۔" اندر آتے نسرین نے تعارف کروایا تھا۔
"ماشااللہ بہت پیاری بیٹی ہے۔۔۔" غزالہ نے اس اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔ احان اور زوار غزالہ کے دائیں جانب بیٹھے تھے۔
"ادھر آؤ میرے پاس۔۔۔" ردا غزالہ کے بائیں طرف بیٹھی تھی۔
"کیسی ہو آپ۔۔" غزالہ کو ردا بہت پسند آئی تھی۔
"جی میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں۔۔" ردا نے نرم روئی لہجے میں کہا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں اور آپ سے مل کر خوش بھی۔" غزالہ نے مسکرا کر کہا تھا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرکے کھانے کا کہا گیا۔ خوشگوار ماحول میں کھانا کھا کر سب بیٹھے تھے کہ غزالہ نے ردا کو اپنی عبیرہ اور ساریہ کی طرف سے تحائف دیے تھے۔ ردا تو اتنی ساری چیزیں دیکھ کر کھل اٹھی تھی۔ اس کا دل خوشی سے اچھل کود کررہا تھا۔ اب اسے اپنا شادی سے انکار کرنا ایک قسم کی بیوقوفی لگا تھا۔
کچھ دیر بات چیت کے بعد غزالہ نے ہلکی آواز میں نسرین سے کہا تھا۔
"مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"
"ردا آپ یہ سب اپنے روم میں لے جاؤ۔۔"
"جی مما۔۔۔" ردا گردن ہلاتی اپنے کمرے میں جانے لگی تھی۔
غزالہ نے آنکھوں سے احان اور زوار کو اشارہ کیا تو وہ بھی باہر لان کی طرف چلے گئے تھے۔
"جی کہیں۔۔۔"
"زوار کی امی کو برین ٹیومر ہے۔۔" غزالہ نے بڑے تحمل انداز اپنایا ہواتھا۔
"اللہ۔۔۔" نسرین صدمے میں بولی تھی۔
"اللہ آپ سب کو صبر دے۔۔" نسرین کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس سچویشن میں کیا کہے۔
"آمین۔۔۔وہ بات دراصل یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ زوار اور ردا کی ڈئیرکٹ شادی کردیں تاکہ شائستہ بھی زوار کی خوشی دیکھ سکے۔" غزالہ مدبرانہ انداز میں گویا تھی۔
"میں آپکی بات سمجھ رہی ہوں۔مگر ردا ابھی بہت چھوٹی ہے۔" نسرین نے نرم لہجے میں ڈھکے چھپے لفظوں میں انکار کیا تھا۔
"میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں مگر ہماری مجبوری ہے۔۔۔"
"ردا کی پڑھائی بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔"
"آپ اس بات کی فکر نہ کریں زوار بہت سمجھدار بچہ ہے وہ پڑھا لے گا ردا کو۔۔۔
اصل میں میرے بھائی کی ڈیٹھ بہت چھوٹی عمر میں ہوگئی۔ اور اب شائستہ بھی بیمار ہے میں بس یہ چاہتی ہوں چلو کم از کم شائستہ تو میرے بھتیجے کی خوشی دیکھ لے۔ آپ فکر نہ کریں آپکی بیٹی بہت خوش رہے گی انشااللہ۔" غزالہ ٹہرے انداز میں اپنا موقف بیان کرنے لگی تھی۔
"آمین۔۔۔ جیسا آپکومناسب لگے۔" نسرین نے بوجھل دل کے ساتھ ہامی بھری تھی۔ اب رشتہ کیا تھا تو ان لوگوں کی ماننی بھی پڑی تھی مجبوری ہی ایسی تھی۔
"شکریہ آپ نے میری بات رکھی۔ اس جمعے کے بعد نکاح رکھ لیتے ہیں اور ساتھ رخصتی بھی۔" غزالہ نے ہتھیلی پہ سرسوں جمائی تھی۔
"اتنی جلدی۔۔۔" نسرین کو تو اچھو لگا تھا۔
"احان نے واپس جانا ہے تو اس لیے اس کے ہوتے ہوئے زوار کی شادی چاہتے ہیں۔"
"مگر یہ بہت جلدی ہے اتنے دنوں میں تو تیاری نہیں ہوگی۔"
"ہمیں جہیز نہیں چاہیے۔"
"پھر بھی ماں باپ۔۔۔"
"نسرین ہمیں جہیز بلکل نہیں چاہیے اللہ کا کرم ہے زوار اچھا کماتا ہے اللہ اس کے کام میں مزید برکت ڈالے۔" ابھی نسرین بول ہی رہی تھی کہ غزالہ نے فوراً اس کی بات کاٹی تھی۔
"آمین۔۔" نسرین نے صدقِ دل سے دعا کی تھی۔
"اپنی بیٹی کو اپنی دعاؤں کے سائے میں رخصت کرنا ، ہمارے لیے ردا ہی کافی ہے۔۔۔" غزالہ نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر یقین دہانی کروائی تھی۔ جواباً نسرین نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔
کچھ دیر مزید رک کر زوار وغیرہ تو اپنے گھر کے لیے نکل گئے مگر پیچھے نسرین پریشان ہوکر رہ گئی۔
_____________________________________________
ردا تو اپنے گفٹ دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔
غزالہ نے اسے پیسے دیے تھے ، ساریہ نے اس کے لیے چوکلیٹ کا بڑا پیکٹ اور عبیرہ نے اسٹڈی ٹیبل کا ایک شو پیس بھیجا تھا۔
وہ اسکول اپنی دوستوں کے لیے بھی چوکلیٹ لے کر گئی تھی۔ اور خوب ڈھیر ساری شوخیاں مار کر علیزے کا دل بھی خراب کیا تھا۔ وہ جو کل اسے بڑی عمر کے بندے سے شادی کے نقصانات بتارہی تھی اب اتنے گفٹ دیکھ کر جلن محسوس کرنے لگی تھی۔

جاری ہے۔۔۔ 

Post a Comment

0 Comments