Danista Chup by Iram Tahir Episode 3

DANISTA CHUP BY IRAM TAHIR 

EPISODE 3

وہ ابھی کار کے پاس پہنچی ہی تھی کہ جمال صاحب گھر کے اندر داخل ہوئے تھے۔ انکے پاس آنے تک میسم بھی باہر آچکا تھا۔ 


"السلام علیکم تایا ابو۔" بیا کے سلام پر انہوں نے اسکے سر پہ پیار دیا تھا۔ ان سے مل کر وہ جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ گئے تھے۔ انہیں یوں ایک ساتھ دیکھ کر جمال صاحب بہت خوش تھے۔ وہ مسکرا کر اندر بڑھ گئے تھے۔ 


بیا منہ بنائے باہر دیکھ رہی تھی کہ گاڑی کو ہسپتال سے مخلتف راستے پہ محسوس کرتے وہ چونک کر اپنا رخ بدل کر میسم کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔ جو بمشکل سنجیدگی قائم کیے بھرپور توجہ سے گاڑی چلارہا تھا۔ تین چار منٹ اسکے منہ کے زاویے دیکھنے کے بعد بلآخر وہ بول ہی پڑی تھی۔ 


"یہ راستے ہسپتال کی طرف نہیں جاتا۔" اس نے گویا اسکی یاداشت کے لیے بولا تھا مگر میسم کے جواب نے اسے پتنگے لگا دیے تھے۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسکا سر ہی پھاڑ ڈالے۔ 


"ہمم ، یہ راستہ ریسٹورنٹ کی طرف جاتا ہے۔" 


"مطلب؟" بیا نے تپ کر اسے دیکھا تھا۔ جو میسنا بنا ہوا تھا۔ 


"میرا بی پی لو ہورہا ہے۔ ایویں گاڑی کہیں لگ لگا ہی نہ جائے اس لیے سوچا پہلے کچھ کھا لوں۔" منہ لٹکائے انتہائی معصومیت سے بولتا میسم اسے زہر لگا تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی احتجاج کرتی میسم ایک ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی روک چکا تھا۔ لیکن اسکو اترتے نہ دیکھ کر وہ اسکی طرف متوجہ ہوا تھا۔ 


"چلو ، اترو نہ۔" 


"شکریہ ،،، مگر مجھے بی پی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔" بیا نے بھی بھرپور گولا باری کی تھی۔ جس پہ میسم نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔ 


"کیسی ڈاکٹر ہو ایک انسان کا بی پی لو ہو رہا ہے اور تم اس پہ طنز کرہی ہو۔" میسم نے منہ بنا کر شکوہ کیا تھا۔ جس پہ بیا نے تنک کر اسے دیکھا تھا۔ اور اگلے ہی لمحے اپنا سب سامان ہاتھ میں لیے وہ گاڑی سے اترنے کے لیے تیار تھی۔ 


اسکو گاڑی سے اترتا دیکھ کر میسم خود بھی باہر آیا تھا۔ مگر اسے سڑک پہ چلتے دیکھ کر وہ ایک جست میں اس تک پہنچا تھا۔ 


"میں خود ہی ہسپتال چلی جاؤں گی۔" بیا اسے بتا کر آگے بڑھنے لگی تھی کہ میسم نے ایک گھوری کے ساتھ اسکا دایاں بازو آہنی گرفت میں لے کر اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا۔ 


"صرف بیس منٹ کی بات ہے ، ناشتے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی۔ پرومیس ناشتے کے بعد میں پکا ہسپتال چھوڑ دوں گا۔" میسم نے التجائیہ لہجے میں کہا تھا۔ آس پاس عجیب سی نظروں سے خائف ہوتی وہ مجبوراً اس کے ساتھ اندر بڑھ گئی تھی۔ جس پہ میسم نے دل ہی دل میں خود کو داد دی تھی۔ وہ دونوں آگے پیچھے اندر آئے تھے۔ 


"بیا کیا لوگی تم۔" اسے منہ بنا کر بیٹھے دیکھ کر میسم نے مینیو پڑھتے پوچھا تھا۔ مگر اسکے جواب نے تو کانوں سے دھواں ہی نکال کر رکھ دیا تھا۔ 


"تم چپ کرکے اپنا ناشتہ کرلو ورنہ  مجھے بی پی ہائی کرنے کے ان گنت طریقے آتے ہیں۔ پھر تمہیں پتہ بھی چل جائے گا کہ میں کیسی ڈاکٹر ہوں۔" اسکی بات سن کر میسم نے ڈارھی کھجا کر ویٹر کو دیکھا تھا جو مشکل سے مسکراہٹ دبا رہا تھا۔ 


اسکو ہنوز نظر انداز کرتے دیکھ کر میسم نے جلدی سے آڈر دے کر بیا کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ 


"اتنا غصہ کیوں کررہی ہو؟ تم نے بھی تو رات کو جان بوجھ کر میسج کا رپلائے نہیں دیا دیکھو میں نے غصہ کیا؟ نہیں نا ، الٹا میں تمہیں خود لفٹ دے رہا ہوں۔" میسم نے منہ بسور کر اسے دیکھتے کہا تھا۔ اسکی بات سن کر بیا کی تو آنکھیں ہی کھلی کھلی رہ گئی تھیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میسم ایسے بدلہ لے گا۔ 



وہ ابھی لاؤنج میں داخل ہی ہوا تھا کہ دادو نے زور سے شکوہ اسکے منہ پہ مارا تھا۔ جس پہ وہ توبہ توبہ کرتا انکے پاس آیا تھا۔ 


"فون پہ روز کہتا تھا کہ دادو اب بس مجھے آنے دو پاکستان پھر دیکھنا روز دبایا کروں گا ، خوب خدمت کروں گا۔ اور کل سے اپنی جوروں کا دم چھلا بنا ہوا ہے۔ خدمت تو کیا کرنی۔ تم تو سلام دعا سے بھی گئے ہو میاں۔" دادو تو جو شروع ہوئیں بس رک ہی نہیں رہی تھیں۔ 


"ہاں تو سارا قصور ہی آپکی پوتی صاحبہ کا ہے۔ پوچھیں آج اس سے کیوں اس نے مجھ معصوم کو دم چھلا بنایا ہوا ہے۔" میسم نے منہ بسورنے کا ناکام ناٹک کیا تھا۔ مگر دادی نے خوب کان کھینچے تھے۔ 


"وہ بھی تمہاری طرح گھنی میسنی ہے۔" میسم کا تو دادی کی باتیں سن کر ہنس ہنس کر برا حال تھا۔ 


"اچھا نا یار آپکو اس سے بھی اچھی جگہ دنر کرواؤں گا آج۔ اور طبیعت سب سیٹ ہے؟" میسم نے نہ ختم ہونے والے شکوؤں سے محفوظ ہوتے کہا تھا۔ 


"کیوں اب کونسی فرمائشی رہتی ہے۔" دادی نے خشمگیں نظروں سے گھورتے اس سے پوچھا تھا۔ جس پہ میسم نے بتیسی دکھاتے ، آنکھیں مٹکا کر اپنی عرضی پیش کی تھی۔ 


"گھر میں کوئی گرینڈ فنکشن ہونا چاہیے۔" دادی نے اسے گھور کر جھنڈی دکھائی تھی۔ 


"میاں پہلے دفتر تو جانے لگو ، شادی کی پہلے ہی فکر پڑ گئ ہے۔" 


"دادو میں نے سوچ لیا ہے میں اب انشااللہ ہنی مون کے بعد ہی آفس جاؤں گا۔" میسم نے چوڑے ہوتے اچھی پھینکی تھی۔ جس پہ لاؤنج میں آتی زارا بیگم بھی حیران ہوئی تھیں۔ 


"لو بیٹا تم نے تب بھی کیوں جانے کی زحمت کرنی ہے۔" دادی نے بگھو کر طنز کیا تھا۔ 


"اماں جمال بھی آج ناشتے پہ کہہ رہے تھے۔"


"کیا ۔۔۔" ابھی زارا بیگم بول ہی رہی تھیں کہ میسم جلدی سے بولا تھا۔ جس پہ دادی اور زارا نے اسے بیک وقت گھور کر دیکھا تھا۔ 


"وہ ،،،" میسم سر کھجا کر رہ گیا تھا۔ 


"ہاں بس اب اس جمے کو ولیمہ کرلیتے ہیں۔" دادی نے بھی جمال کی بات پہ رضامندی ظاہر کرکے گویا میسم کو خوش کردیا تھا۔ اس دل تو بنگڑے ڈالنے کا کررہا تھا مگر مجبور اسے شریفوں کی طرح بیٹھنا پڑا تھا۔ 



آج کا دن بیا کے لیے بہت مصروف دن تھا۔ جب سے میسم اسے چھوڑ کر گیا تھا تب سے ہی وہ آن ڈیوٹی تھی۔ چھ بجے کے قریب وہ کیفے پہ چائے پینے کے لیے گئی تھی۔ جب فون اسکرول کرتے میسم کا میسج آیا تھا۔ 


"میں آٹھ بجے لینے آؤں گا۔" بیا کو اسکے مسیج سے میسم کی صبح والی حرکت یاد آئی تھی۔ اور اب اسکی باری تھی بدلہ لینے کی۔ اور اس کے دماغ نے جلدی سے پلان بنایا تھا۔ وہ ایک بار پھر اسکا مسیج سین نہیں کرچکی تھی۔ 


آٹھ بجنے سے بیس منٹ پہلے ہی وہ آٹو سے گھر کے لیے روانہ ہوگئی تھی۔ اس بات سے وہ میسم کو اچھی طرح بتانا چاہتی تھی کہ وہ کسی بھی مشروط ملاقات کی قائل نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ آٹھ بجنے سے پانچ منٹ پہلے ہسپتال کے باہر تھا۔ 


مسلسل پچھلے پندرہ منٹ سے وہ بیا کا نمبر ملا رہا تھا مگر وہ تھی کہ اٹھا ہی نہیں رہی تھی۔ اب تو اسے بھی غصہ آنے لگا تھا۔ مگر خود پہ کنٹرول کرتے وہ گاڑی سے نکل کر ریسپشن پہ آیا تھا۔


"ڈاکٹر ابیہہ کہاں ہوتی ہیں؟" 


"میسم۔۔۔" میسم اپنے نام کی پکار پہ حیرت سے پیچھے مڑا تھا۔ جہاں سحرش کھڑی تھی۔ سحرش صرف بیا کی دوست نہیں تھی وہ انکی ہمسائی بھی تھی۔ سو میسم بھی اسے جانتا تھا۔ 


"اوہ آپ ، السلام علیکم۔" 


"وعلیکم السلام۔ تم بیا کا پوچھ رہے تھے۔" وہ اب ریسپشن سے دور چلنے لگے تھے۔ 


"جی میں نے کتنی دفعہ فون بھی کیا تھا مگر وہ اٹھا نہیں رہی۔" 


"شاید راستے میں اسے پتہ نہیں چلا ہو۔" سحرش نے گویا اسکے سر پہ دھماکا کیا تھا۔ جس پہ وہ حیران ہوکر اسے دیکھ رہا تھا۔ اور یہاں سحرش کو سمجھ آگئی تھی کہ بیا گھر جلدی کیوں جانا چاہتی تھی۔ 


"وہ تو آدھے گھنٹے پہلے گھر کے لیے نکل گئی تھی۔ دراصل آج کافی ٹف ڈیوٹی تھی۔" سحرش نے بات بناتے بولا تھا۔ مگر میسم کو کافی برا محسوس ہوا تھا۔


"آپ ، آپ نے اگر اکیلے جانا ہے تو میں آپکو چھوڑ دیتا ہوں۔" میسم نے اسے آفر کی تھی۔ 


"اوکے " سحرش اسکے ساتھ گھر آگئی تھی۔ اور اسکے بار بار اصرار کرنے پہ ہی اسے مجبوراً اندر آنا پڑا۔ سحرش اسے ڈرائنگ روم میں بیٹھا کر خود کچن میں آئی تھی۔


اسکے لیے ریفرشمنٹ کا کہہ کر وہ ثمینہ کے ہمراہ ڈرائنگ روم میں آئی تھی۔ وہ بھی میسم سے مل کر بہت خوش ہوئی تھیں۔ وہ افرا کا ہم عمر ہی تھا۔ افرا جو ابھی اپنی دوست کی برتھ ڈے پارٹی سے واپس آرہی تھی وہ میسم کو داخلی دروازے پہ ثمینہ اور سحرش سے ملتے دیکھ کر کافی حیران اور خوش ہوئی تھی۔ جلدی سے ایک ہاتھ بالوں میں پھیر کر وہ انہیں سیٹ کرتی انکے قریب آئی تھی مگر تب تک میسم اجازت لیے آگے بڑھ گیا تھا۔ اسکے قریب سے گزرتے وہ تو کب سے رسمی سا مسکرا کر آگے نکل گیا تھا۔ مگر افرا کو ابھی بھی اسکی خوشبو اپنے اردگرد محسوس ہورہی تھی۔ اور اسی وجہ سے اسکی نیند آنکھوں سے دور تھی۔ 


Danista Chup by Iram Tahir Episode 3

Danista Chup by Iram Tahir Episode 3



رات کے کھانے کے بعد بھی بیا گدے سے سینگ کی طرح غائب ہوئی تھی۔ میسم کا غصہ اور خفگی اب کافی حد تک ختم ہوں گئی تھی۔ گیارہ بجے کے قریب وہ فریش ہوکر آج مسیج کی بجائے بیا کو کال کررہا تھا۔ جسے دیکھ کر بیا کا غصے سے برا حال تھا۔ تیسری بار کال آنے پہ وہ اسے صفائی سے بلاک کرچکی تھی۔ مگر شاید وہ میسم کو نہیں جانتی تھی۔ 


بلاک والی فیلنگز کے آتے ہی میسم نے سڑ کر فون کو دیکھا اور اسے بیڈ پہ پھینک کر شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر برش سے بال بنانے لگا۔ بال بناتے بناتے اسکے ذہن میں ایک شرارت سوجھی تھی۔ جس پہ وہ کھل کر مسکراتا۔ جلدی سے برش واپس رکھتا فون اور گاڑی کی چابی اٹھاتا بالوں کو ہاتھ سے سنوارتا دادی کے کمرے میں آیا تھا۔ جہاں بیا اور دادی راز و نیاز کررہی تھیں۔ میسم نے جاتے ساتھ ہی بیا کے سر پر بم پھینکا تھا۔ جس پہ وہ ہونک بنی اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔ میسم اسکی سوچ سے بھی زیادہ تیز نکلا تھا۔ 


"کیا یار ابھی بھی ریڈی نہیں ہوئی ہو۔ جب میں نے کہا تھا کہ دادو سے میں پرمیشن لے لوں گا تو  کم از کم تم تب تک ریڈی تو ہوجاتی۔" بیا کو شاک دے کر وہ دادی کی طرف متوجہ ہوا تھا جو بھنوئیں اٹھا کر اسے گھور کر ماجرہ پوچھ رہی تھیں۔ 


"دادو وہ بیا کو گول گپے کھانے ہیں۔ میں نے تو اتنا سمجھایا تھا کہ دادو کو بھلا برا کیوں لگے گا۔ وہ تو ہمیں ایسے دیکھ دیکھ کر اور خوش ہوتی ہیں۔ ہیں نا دادو۔" میسم نے شرمانے کی بھرپور اداکاری کرتے نیا شوشا چھوڑا تھا۔ جسے بیا کے لیے ہضم کرنا تو مشکل تھا ہی دادی بھی اسکی معاملہ فہمی پہ داد دیے بغیر نہ رہ سکیں۔ 


"مجھے تو اب سمجھ آئی ہے یہ اچھا کھانے کے پیچھے کیا اسکیم تھی تمہاری۔" بیا جو کب سے دادی کو آڈر کرنے پہ راضی کررہی تھی ۔ دادی کی کڑی سے کڑی ملانے پہ جل کر خاک ہوئی تھی۔ اسکا تو دل کررہا تھا میسم کا سر ہی پھاڑ دے۔ وہ جب سے آیا تھا نت نئے طریقوں سے اسے زچ کررہا تھا۔ 


دادی کی بات سن کر ایک لمحے کو تو میسم کا بھی دل چاہا تھا کہ زور سے قہقہہ لگائے مگر وہ میسنا بن کر مسکراہٹ دبا گیا تھا۔ 


"دادو۔" بیا نے اتنے عرصے میں شاک سے بس ایک ہی لفظ بولا تھا۔ 


"تم دونوں ہی مسینے ہو۔" دادی نے اچھی طرح بھی لا پا کے اسکے ہاتھ میں دی تھی۔ جس پہ اسکے غصے کا گراف ہی بڑھتا جارہا تھا۔ 


"اب یہ زیادہ ہورہا ہے۔ اور مجھے کوئی گول گپے نہیں کھانے۔" بیا سختی سے کہتی لیٹنے کے لیے پرتولنے لگی تھی۔ جس پہ میسم جلدی سے بولا تھا۔ 


"بس آپکے میسنی کہنے کی وجہ سے انکار کردیا ہے اس نے۔" دادی نے تپ کر دونوں کو دیکھا تھا۔ جو فلم پہ فلم چلا رہے تھے۔ 


"پانچ منٹ ہیں تم دونوں کے پاس اس کمرے سے چلے جاؤ ورنہ پھر خیر مناؤں۔" دادی نے دونوں کو وارننگ دی تھی۔ بیا نے احتجاج کرنا چاہا تھا مگر دادی نے اسے ایک زور دار گھوری ماری تھی جس پہ وہ روتی پیٹتی اٹھ کر شال لینے لگی تھی۔ جبکہ مسیم فلائنگ کس دادی کے سپرد کرکے فوراً کمرے سے بھاگا تھا۔ تاکہ انکے اعتاب کا شکار نہ ہوسکے۔ 


دو منٹ کے بعد ہی وہ منہ پھلا کر باہر آئی تھی۔ اور گاڑی کا دروازہ زور سے بند کرکے احتجاج ریکاڈ کرا چکی تھی مگر اگلا بندہ کافی ڈھیٹ معلوم ہوا تھا۔ گھر سے نکلتے ہی وہ ایکدم پھٹ پڑی تھی۔ 


"تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو۔ میں تمہیں خواب میں بھی کوئی فرمائش نہ کروں اور تم۔۔۔۔!" 


"تو مجھے جھوٹ بھولنے پہ بھی تم نے ہی مجبور کیا ہے۔ نہ کرتی بلاک۔" میسم نے سارا کا سارا ملبہ اس پہ گرایا تھا اور لگے ہاتھوں سادہ سا مشورہ بھی دے ڈالا تھا۔ جو بیا کا میٹر شارٹ کرگیا تھا۔ 


"تم پہلے گاڑی گھر کی طرف موڑوں اور یہ تو تم اب بھول جاؤ کہ میں تمہیں ان بلاک کروں گی۔" 


"کوئی بات نہیں میں خود کوئی جگاڑ لگا لوں گا۔" میسم نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا تھا۔


"میسم ۔۔۔!" بیا نے زچ ہوکر کہا تھا۔ مگر اپنا نام سن کر مسیم سے بےساختہ بریک لگ گئی تھی۔ اور وہ فرصت سے بیا کو دیکھنے لگا تھا۔ جس پہ وہ چڑ کر رہ گئی تھی۔ 


"میں لاسٹ وارننگ دے رہی ہوں۔" 


"پہلے مجھے بات کرنی ہے۔!" میسم نے گاڑی سائیڈ پہ روکتے کہا تھا۔ بیا نے گہری سانس بھر کر خود کو اس لمحے کے لیے تیار کرلیا تھا۔ 


جاری ہے۔


 

Post a Comment

0 Comments