Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 3

صبح کا دلفیرب منظر، آنکھوں کو تقویت بخشنے والا نظارہ ، کانوں میں رس گھولتی پرندوں کی چہچہاہٹ، فضا میں چھائی پھولوں کی مسحورکن مہک جو نتھنوں سے ٹکڑا کر لبوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ بکھیرے ہوئے تھی۔ سرد ہوا کے جھونکے جو ہر سوں اپنے پر پھیلائے ہوئے تھا اپنے آپ میں مکمل ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھے۔اس مکمل اور پرکشش تصویر کا حصہ بنے ، اللہ کی حمدوثنا دل و دماغ پر غیر معمولی سکوت طاری کیے ہوئے تھا۔
نسرین بیگم نماز پڑھ کر باہر لان میں بیٹھ کرتسبیح کرکے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئیں۔ ناشتے سے پہلے ردا کو اٹھانے کی غرض سے اسکے کمرے کی جانب رخ کیا تھا۔
سورج کی بےتاب کرنیں جو چھن چھن کر کھڑکی کی توسط سے کمرے میں داخل ہورہی تھیں اندر سوئے وجود کو نہ جھنجھور سکیں شاید وہ وجود اس توجہ کا طلب گار نہیں تھا یا پھر اپنی فطرت سے مجبور۔
"ردا اٹھو بچے صبح ہو گئی ہے" کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے اسے آواز دی تھی۔
"کیا ٹائم ہوا ہے؟" ایک نظر موندی موندی آنکھوں سے پاس کھڑی امی کو دیکھ کر سوال کیا گیا تھا۔
"ساڑھے سات ہوگئے ہیں۔۔چلو اٹھو شاباش پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔" نسرین مسکرا کر کہتی بکھرا کمرے سمیٹنے لگی تھی۔
"ماما !! آج سنڈے ہے پلیز آج تو سونے دیں روز جگا دیتی ہیں۔۔" وہ منہ بسور کر کہتی دوسری طرف کروٹ لے گئی تھی۔
"اور کتنا سونا ہے آپ نے میری جان۔۔ رات میں بھی تو جلدی سو گئں تھیں آپ۔۔"
"ماما اللہ اللہ کر کے تو سنڈے آتا ہے۔ پلیز مجھے اور سونا ہے۔۔" بند آنکھوں سے جواب دیا گیا۔ نسرین اپنا سر نفی میں ہلا کر چلی گئیں تھیں۔
__________________________________________

Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 3
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 3 


احان اور ساریہ کے نکاح کو ہفتہ ہوچکا تھا۔ احان پڑھائی کی غرض سے ملک سے باہر جارہا تھا اس سے پہلے اپنی دیرینہ خوائش کی تکمیل کے لیئے وہ گھر والوں کو اعتماد میں لے کر اپنی دلی خوائش عیاں کرکے انکی مرضی کا طلبگار تھا۔ بڑوں کی رضامندی سے اس کی مسافت کو منزل تک پہنچنے کی نوید ملی تھی۔
وہ رات میں ہی اپنا سامان باندھ چکا تھا صبح ایک بار پھر سرسری سی نظر ڈال کر فریش ہوکر نیچے ناشتے کے میز پر آیا تھا۔ جہاں غزالہ ہاشم اور عبیرہ پہلے سے موجود تھے۔
"السلام علیکم!!" غزالہ کے سر پر بوسہ دے کر اپنی کرسی کھسکا کر براجمان ہوتے ہوئے شائستگی سے کہا گیا تھا۔
"وعلیکم السلام برخودار۔" ہاشم نے خوشگوار لہجے میں کہا تھا۔
"بھائی میں آپکو بہت مس کروں گی۔" عبیرہ نے پاس بیٹھے بھائی کو لاڈ سے کہا تھا۔
"ہاں ہاں پتہ ہے تم نے تو مس کرنا ہی ہے آخر کو اب تمہیں ڈرائیور کی سہولیات جو مہیا نہیں ہوں گی۔ " اسکو چڑانے کے لیئے احان نے مسکراہٹ دبا کر کہا تھا۔
"آپ مجھے ایسا سمجھتے۔۔ جائیں میں نہیں بولوں گی اب آپ سے۔" آنکھوں اور لہجے میں خفگی سموئے جواب آیا تھا۔
"بری بات ہے حان ،،،،، کیوں تنگ کرتے ہو بھئی میری چھوٹی سی جان کو۔" ہاشم اسکے پھولے ہوئے منہ کو دیکھ کر گویا ہوئے تھے۔
"بابا میں تو بس ایسے ہی کہہ رہا تھا" احان نے عبیرہ کی ناک پیار سے دباتے ہوئے کہا آخر اسے کہاں عادت تھی اپنی جان سے عزیز بہن کو ناراض کرنے کی۔ بقول اسکے اسے ڈھیر سارے بہن بھائی چاہیے تھے وہ خوائش تو پوری نہ ہوئی لیکن اسنے عبیرہ کے سارے لاڈ نخرے جی جان سے اٹھائے یہی وجہ تھی جو اسکی سکول کے کسی بھی بچے سے کوئی خاص دوستی نہیں تھی اسے صرف اپنے حان بھائی چاہیے ہوتا تھا جو ناصرف اسکی باتیں غور سے سنتا تھا بلکہ اکثر اوقات اسکے ساتھ مل کر اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی کرتا، عبیرہ کا لوگوں کے گھروں کی بیل بجا کر بھاگنا پسندیدہ مشغلہ تھا کافی دفعہ جب وہ احان سے ناراض ہوتی تو احان اسے آئس کریم کھلا کر بہلاتا لیکن واپسی پہ وہ یہ حرکت کروانا نہ بھولتی ساتھ دھمکی بھی دیتی "حان بھائی اگر آپ نہیں کرو گے تو میں بولوں گی نہیں" احان کو ناچارہ اسکی بات ماننی پڑتی تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے اب ناشتہ شروع کرو۔ "
"ماما مجھے پراٹھا دیں۔۔ سچ میں یہ زبردست سا ناشتہ میں بہت مس کرنے والا ہوں۔ ،،،، ماما آپ بھی ساتھ چلیں نا ، کتنا اچھا ہوگا"۔ احان نے روہانسی شکل بنا کر کہا تھا۔
"محترم یہ بہت ہی برا خیال ہے آپکا لہذا اس سوچ سے گریز فرمائیں اور یار پراٹھوں کا اب کونسا مسئلہ ہے مارکیٹ سے مل تو جاتے ہیں بصد شوق سے کھاؤ اور جی بھر کر کھاؤ " ہاشم تو احان کے بھٹکے ہوئے خیالات جو وہ گوشوار کررہا تھا سن کر بدک ہی پڑے تھے اور زبردست گھوری کے ساتھ مشورہ دے ڈالا تھا۔
"جی بابا پر وہ ماں کے ہاتھ کے تو نہیں ہوں گے نا۔۔"
"کیا ہوگیا ناشتہ کرنے دیں اسے۔۔ حان ٹھیک سے کھاؤ"۔ بحث کو طول پکڑتے دیکھ کر غزالہ نے خلل ڈالا ، کچھ دیر میں ہی تو انہیں نکلنا تھا ائیر پورٹ کے لیئے جسے سب فراموش کرکے بیٹھے تھے۔
"ماما پلیز اب یہ نہیں کہنا آپ کہ میں کمزور ہوگیا ہوں بھلا بھلا۔"
"ہاں اسکی نظر بس تمہاری طرف آتے ہی کمزور ہوجاتی ایک ہم ہیں زور یہ مصنوعی چیزیں کھاتے۔" اپنے آگے دلیہ دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری گئی تھی۔
"اچھے خاصے پراٹھے کھائے اور کھلائے گئے ہیں آپکو اب تو بس کریں۔"
ہلکے پلکے ماحول میں ناشتہ کیا گیا پھر وہ احان کو ائیرپورٹ پر چھوڑنے کے لیئے نکل گے تھے۔ زوار لوگوں نے یہیں ملنے آنا تھا۔
احان بے صبری سے جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں سے وہاں بمشکل اپنے تاثرات پر قابو پاتے چکر کاٹ رہا تھا جب اسے زاور دور سے آتا دکھائی دیا وہ ایک ہی جست میں ان کی طرف بڑھا تھا۔
"یہ محترم تو اچھا نام روشن کروائے گا۔ مان لیں یہ میرے سے آگے ہی جائے گا۔" احان کی جلد بازی غزالہ اور ہاشم سے مخفی نہیں تھی جسے دیکھ کر ہاشم نے غزالہ کے قریب ہوکر سرگوشی کی جسکا جواب اسے تیز گھوری میں ملا تھا۔
پھپھو سے سلام دعا اور پیار لے کر احان زوار کو ساتھ لیے آگے بڑھنے لگا اور گاہے بگاہے خفگی بھری نظریں اپنی دشمنِ جان پہ دوڑائیں۔ جسنے اپنے انتظار میں اسے اچھا گھولا تھا۔
"کہاں رہ گئے تھے آپ لوگ کب سے انتظار کر رہے تھے ۔"
"مامی بس وہ راستے میں ٹریفک جام تھا"
"شکر ہے وقت سے آگئے ہو ورنہ ان محترم کو تو لگ رہا تھا کہ آج اپنی "پھپھو جان "سے ملاقات کیے بغیر ہی چلا جائے گا۔" ہاشم نے احان کی نگاہوں کی سمت میں دیکھتے ہوئے لطیف سا طنز کیا تھا۔ جس پر احان صرف دیکھنے پر ہی اکتفا کر پایا۔
احان کی بار بار بھٹکتی مسکاتی نگاہوں سے ساریہ کے گال یخ لخت دھک اٹھے۔ وہ زیر لب مسکراہتے ہوئے اسکی شرم وحیا پر مبنی گھبراہٹ سے محفوظ ہورہا تھا۔
سب کی موجودگی کے باعث براہ راست اپنے جزبات کی عکاسی نہ ہونے پر وہ دل مسوس کر کے رہ گیا اور فلائٹ کا اعلان ہوتے ہی بھاری دل کے ساتھ سب سے مل کے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا ایک نئے عہد ، نئی سوچ وولولہ لیے۔
____________________________________________
بیدار ہونے کے بعد بھی وہ اسی طرح کسلمندی کے ساتھ دیوار کو تکتی رہی جس پر لگی وال کلاک دن کے دس بجا رہے تھے وہ بےزاری سے اٹھ بیٹھی اور بھر پور انگڑائی لے کر بستر کو بمشکل خیر آباد کہتے فریش ہوکر کیچن میں آئی جہاں نسرین بیگم سبزی کاٹ رہیں تھیں
"صبح بخیر مما " گلے میں بازو حائل کرکے لاڈ سے کہا گیا تھا۔
"ہوگئی نیند پوری میرے بچے کی " نسرین بیگم نے ردا محترمہ کو شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
"تھوڑی ہوئی ہے ابھی "۔ شاید شرمندگی سے بغیر تعلق کے وہ دنیا میں قیام پذیر تھی۔
"اف تمہارا تو کوئی حال نہیں۔۔ بیٹھو میں ناشتہ بناتی ہوں۔ "
"جی۔۔ لیکن پلیز مما مجھے کوئی تیل میں نہائے ہوئے پراٹھے نہیں کھانے۔" منہ کے برے برے نقشے بنا کر کہا تھا۔
"خبردار جو نہ کھانے کی بات کی تو روز دیر کی رت لگا کر بھاگ جاتی ہو آج تو کم از کم ڈھنگ کا ناشتہ کرو اب میں کچھ نہ سنوں" فوراً آنکھیں دکھائی گئیں تھیں۔
نسرین بیگم نے ردا کو ناشتہ دے کر کیچن سمیٹ کر ایک دفعہ بشرا کو دیکھنے کا ارادہ کیا تھا۔
"ردا بیٹا ناشتہ کرکے یہاں سے برتن اٹھا دینا میں ذرا بشرا کو دیکھ لوں اسنے مشین لگائی ہے"
"ہائے مما میں پہلے ہی تھکی ہوئی ہوں" بیزاریت پوری طرح غالب تھی۔
"اللہ ابھی تو اٹھی ہو اور تھک بھی گئی ہو" نسرین تو سر تھام کر رہ گئی۔
"تو ٹھیک ہے میری جان آپ یہ کرو کہ سو جاؤ مارکیٹ میں خود ہی ہو آؤں گی آخر میری بیٹی تو تھکی ہوئی ہے"
"وہ۔۔ وہ۔۔ مما آپکو پتہ نہیں ہے مجھے وہ یونیفارم لینا ہے ، کتنا ضروری ہے، میں کب سے آپ سے کہا ہوا تھا۔۔ آپ وہ کرلیں میں تب تک ناشتہ کرکے برتن رکھ لوں پھر چلیں گے۔۔۔ " باہر جانے کی بات سے آنکھیں چمک اٹھیں تھیں۔
____________________________________________
‏‎ردا نسرین اور تیمور کی ایک ہی اولاد تھی جسے انہوں نے بے حد لاڈ پیار سے پالا تھا۔ تیمور کا اپنا ایک ڈپارٹمینٹل اسٹور تھا اور نسرین ہاؤس وائف تھی۔
انکی زندگی بہت خوش حال چل رہی تھی تینوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے اور گھر امن کا گہوارہ لگتا تھا جہاں ہر سو خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔
‏‎لیکن یہ خوشیاں روٹھ گئیں جب اچانک تیمور کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اِس دُنیا سے رحلت فرما گئے اور یوں غم کے بادل اِس امن کے گہوارے کو اپنی لپیٹ میں لے گئے اور پیچھے بچے دو نفوس اپنی ساتھ ہونے والی اِس انہونی کو بہت مشکل اور جبر کے ساتھ برداشت کرپائے۔
‏‎ردا دو مہینے تک سخت بیمار رہی لیکن ہونی کو کون تال سکتا ہے نسرین نے بہت ہمت اور صبر سے کام لیتے ہوئے اپنی اولاد کو سنبھالا جو کے اب اُس کے جینے کی وجہ تھی۔ کیونکہ تیمور جیسے شریک حیات کے بعد اسے زندگی ایک گھنی دھوپ کی طرح لگنے لگ گئی تھی۔
‏‎تیمور اچھا باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھا شوہر تھا جس نے نا صرف اپنی محبت سے بلکہ عزت سے نسرین کو دُنیا کی خوش قسمت ترین عورت بنایا تھا۔
‏‎ردا تیمور کی کاپی تھی وہی موٹی موٹی خوبصورت آنکھیں پتلی نازک سی ناک عنابی لب جب کے گنگھرالے بھورے کمر تک آتے بال نسرین جیسے تھے۔
_________________________________
معاویہ ملک مقابلے کا امتحان پاس کر کے اپنی رضامندی اور دلی آعمادگی سے پولیس کے شعبے میں شامل ہوا تھا۔ بہت کم ہی عرصے میں اپنے آپ منوایا اپنی قابلیت اور خدادا صلاحیت سے۔
کامیابی کے لیئے لگن کا جذبہ وہ واحد عنصر ہے جسے کوئی بےساکی سے غرض نہیں ہوتی وہ اپنے آپ میں مکمل ہوتا۔
معاویہ کو اللہ نے دو خوبصورت بچوں سے نوازا تھا حیات اور غزالہ۔ حیات ملک غزالہ سے پانچ برس بڑے تھے۔ معاویہ نے ان دونوں کی اچھی پروان کے لیئے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ غرض وہ نہ صرف اپنی قوم و ملک کا ہیرو تھا بلکہ اپنی متاع جان کا بھی ہیرو تھا۔
اس نے دونوں بچوں کی اعلٰی تعلیم پر توجہ کے ساتھ ساتھ انکی اصلی بنیادیں بھی مضبوط کیں تاکہ وہ اگر زندگی کے کسی بھی مقام پر لڑکھڑا بھی جاہیں تو اپنی ذات کو سمیٹنے کا فن جانتے ہوں۔ کھوکھلی بنیادیں اکثر و بیشتر عمارت کو ریت کی مانند کردیتی ہیں۔
حیات ملک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینجر تھے۔ اسکی شادی اپنی یونیورسٹی کی کلاس فیلو سے ہوئی تھی۔ اسکی تین اولادیں زوار ساریہ اور ابراھیم تھیں۔ ویسے تو سب بچے ہی اسکے لیئے برابر تھے لیکن ابرھیم میں تو اسکی جان بستی تھی۔
ان کے ہوتے ہوئے انکی زندگی بہت پرسکون گزر رہی تھی لیکن حیات اور ابراھیم جب ایک دفعہ رات گئے پارٹی سے گھر لوٹ رہے تھے تو شدید اکسیڈنٹ کا شکار ہوگئے۔ اور جان کی بازی ہار گئے تھے۔
اس اذیت ناک حادثے کے بعد زندگی نے انکے اہلِ خانہ کو تصویر کا دوسرا رخ دیکھایا۔زندگی کے اس کٹھن سفر میں بیشمار ذات کو چھلنی کرنے والے کانٹے تھے لیکن شائستہ نے غم سے بوجھل دل کے ساتھ اپنی ذات کی ٹوٹی ہوئی کرچیاں سمیٹیں اپنی اولاد کےلیئے اور انہیں ماں باپ دونوں بن کے پالا تھا۔
زوار اور ساریہ دونوں ٹوئنز تھے انکی عمر آٹھ سال تھی جب حیات خان کی زندگی نے اسے مات دے دی۔ زوار نے دن رات ایک کر کے محنت اور لگن کے ساتھ پڑھائی کی جسکی وجہ سے اسے انتھک محنت سے پڑھائی کے دوران ہی ایک بہت اچھی سے فرم میں نوکری مل گئی تھی۔
غزالہ کی شادی اپنے خالہ زاد کزن ہاشم سے ہوئی اسکے دو بچے احان اور عبیرہ تھے ۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments