Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 2

گاڑی جیسے ہی پورچ میں آکے رکی زوار جو کہ دوبارہ احان کو فون کررہا تھا انہیں دیکھ کر فون جیب میں ڈالے انکی جانب بڑھنے لگا تھا۔
"السلام و علیکم۔۔پھوپھا۔۔۔ " زوار نے آگے بڑھ کر سب سے پہلے ہاشم سے مصافحہ کیا تھا۔
"کیسی ہو ڈول۔۔ "زوار نے عبیرہ کے سر پر ہاتھ رکھتے پوچھا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں زوار بھائی۔۔۔"
زوار پھر غزالہ کی طرف بڑھ گیا تھا۔
"کیسی ہیں پھوپھو جان۔۔ " زوار انکے گلے لگے استفسار کرنے لگا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں میری جان ۔۔۔ بہت خوش بھی آج اگر بھائی زندہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے۔۔۔" بھرائی آواز میں کہا گیا تھا۔
"اندر چلتے ہیں ہم لوگ پہلے ہی دیر سے آئے ہیں۔۔" ہاشم نے دھیمے انداز میں ، غزالہ کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اور ماحول میں چھائی دل کو چیر دینے والی سکوت کو توڑنے کے لیئے کہا تھا۔
بھائیوں کی جان ہوتی ہے بہنوں میں تو پھر ایسے کیسے ممکن تھا کہ اس پر مسرت موقعے پر وہ اپنے جان سے عزیز بھائی کی جدائی میں آبیدہ نہ ہوتی۔
غزالہ نے اثبات میں سر ہلایا اور زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاشم اور عبیرہ کے پیچھے اندر کی جانب بڑھنے لگیں تھیں۔
احان بھی انکے پیچھے آنے لگا تھا۔ زوار ان کے اندر آنے سے پہلے جلدی سے لاؤنج میں داخل ہوا تھا۔
"ماما وہ لوگ آگئے ہیں آپ آجائیں۔۔ " زاور نے شائستہ کو اٹھاتے ہوئے کہا اور انہیں لئیے دروازے تک لے آیا جہاں غزالہ اور اسکی فیملی آج پوری شان و شوکت سے اسکی گڑیا بیانے آئے تھے۔
"السلام و علیکم بھابھی۔۔۔" غزالہ نم آنکھیں لیئے آگے بڑھ کر شائستہ کے گلے لگی تھی۔ سلام دعا کے بعد سب لاؤنج میں براجمان ہوگئے۔ غزالہ ہاشم اور عبیرہ ایک صوفے پہ جبکہ شائستہ انکے ساتھ والے صوفے پہ تھی۔ احان اور زوار دونوں ایک ہی صوفے پہ بیٹھے تھے۔
‏‎"آہاں!!آج تو جناب کے دولہا بننے کی خوشی میں دانت ہی اندر نہیں جا رہے۔" زوار نے احان کے کان میں شرارت سے سرگوشی کی تھی۔
‏‎"میں پہلے کونسا سڑا ہوا پیس ہوں تمھاری طرح۔۔" احان نے
‏‎اسکی طرف دیکھ کر مسکراہٹ دبا کر حساب برابر کیا تھا۔
‏‎"خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔۔۔!! بلاوجہ ہنسنا بھی اچھا نہیں ہوتا۔"زوار نے منہ بنا کر کہا کیونکہ وہ ہر دفعہ اسکے قابو نہیں آتا تھا۔
‏‎"اوہ ہو میری جان کو برا لگ گیا۔" آہان نے اسے مزید سلگایا تھا۔
‏‎"توبہ استغفر اللہ‎ ،،،،، چھچھورے انسان۔۔۔تمھاری جان بننے سے بہتر ہے کہ میں اپنی جان خود لے لوں۔" احان کا نشانہ بلکل ٹھیک لگا زوار تو اسکی بات سن کر بدک ہی پڑا تھا۔ جس پر احان نے کندھے اچھکائے اور دونوں سب کی طرف متوجہ ہوگئے اتنے میں مولوی صاحب کے آتے ہی سب مرد لاونج میں جبکے عورتیں اندر ساریہ کے پاس چلی گیں تھیں۔
‏‎غزالہ اور شائستہ تو ساریہ کو دیکھتے ہی اسکی نظر اتارنے لگیں تھیں۔
‏‎
"ماشاءالله۔۔! میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی۔" غزالہ نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوے پیار سے کہا جبکہ شائستہ تو نم آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھی جا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کب اسکی بیٹی اتنی بڑی ہوگئی اسکو پتا ہی نہیں چلا یہ سوچ کہ اب وہ بس کچھ دن میرے پاس رہے گی اسکا جسم
‏‎لرزا رہی تھی۔
‏‎"ماما۔!" ساریہ نے گیلی آواز میں اسے پکارا اور اپنے بازو پھیلا کر اپنی جانب آنے کو کہا شائستہ نے مسکرا کر اپنی نم آنکھوں کو صاف کیا اور قریب جا کر اسے اپنے آپ میں سمو لیا۔ اسکی عرق آلودہ پیشانی کو ہلکے سے صاف کیا اور وہاں پیار کیا اور آنکھوں کی پتیلیاں اپنے ہاتھوں سے صاف کرکے دوبارہ اپنے ساتھ لگایا تھا۔
‏‎"روتے نہیں ہیں۔۔۔بہت پیارا لگ رہا ہے میرا بچہ آج۔۔اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔" شائستہ نے اسے اپنے لمس سے سمیتٹے ہوئے کہا تھا۔
‏‎"آپی!! پلیز آپ رو نہیں دیکھیں نا آپ اتنی پیاری لگ رہی ہیں ایسے سارا میک اپ خراب ہو جانا۔" عبیرہ جوکہ کب سے سب کو دیکھ رہی تھی آخر میں جھنجھلا کر بولی تھی ، آخر اسے میک اپ کا خراب ہونا کہاں گوارہ تھا اسکی بات پہ کمرے میں چائی اداسی مدھم ہوئی سب نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
‏‎"آپی آپ بہت بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔آپکا میک آپ بہت اچھا ہوا ہے۔" عبیرہ نے صوفے پہ اسکے ساتھ بیٹھ کر اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا سب اسکے انداز پر مسکرانے لگے۔۔اتنے میں زوار اندر آیا تھا۔
‏‎"وہ مولوی صاحب آرہے ہیں۔۔۔" زوار نے ساریہ کو دیکھ کر کہا شائستہ جو کہ ساریہ کے پاس بیٹھی تھی جلدی سے اسکا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی تھی۔
‏‎مولوی صاحب نے اندر آکر نکاح شروع کیا اور ساریہ ،ساریہ حیات سے ساریہ احان بن گئی اپنے کانپتے ہاتھوں سے نکاح نامہ
‏‎پر دستخط کر کے ایک لمحے کے لیے وہ سن ہو گئی تھی۔
‏‎یہ بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ جان چھڑکنے والے ماں باپ سے دوری کی سوچ ہی دل کی دھڑکن کو سست کرنے لگتی ہے۔
‏‎بہن بھائی سے نوک جھوک اور پیار بھرے لمحے جو سانسوں کی غذا کی طرح ہوتے ہیں انکے چھوٹ جانے کی سوچ آنکھیں بھیگانے لگتی ہے۔ جہاں ساری زندگی گزاری ہو وہ جگہ لمحے بھر میں آپ کےلئے پرائی ہو جاتی۔۔جہاں بچپن کی معصوم شرارتیں کی ہوں وہ آنگن پرایا ہو جاتا۔ اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے سختی سے دل اپنی مٹھی میں بھر لیا ہو
‏‎زوار نے نم آنکھوں سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تو ساریہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور زوار جو اسکی ایک طرف بیٹھا تھا اسکے گلے لگ کر رونے لگی تھی۔
‏‎تھوڑی دیر بعد زوار نے اسے الگ کر کے اسکے آنسو خشک کئیے تھے۔
‏‎"بس اب نہیں رونا میری پیاری گڑیا۔۔۔" زوار نے اسے پیار سے پچکارتے کہا اور باہر چلا گیا غزالہ نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگایا اور سختی سے رونے سے منع کیا تھا۔
‏‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏‎احان نے خوشی خوشی دستخط کئے تھے اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ نکاح کے بعد ہر طرف "مبارکباد" کا شور بھرپا ہوا اور سب کا منہ میٹھا کروایا گیا تھا۔
‏‎ کچھ دیر بعد ساریہ کو احان کے پہلو میں بیٹھایا گیا آخر کار وہ لمحہ بھی آ ہی گیا جسکا احان کو بے صبری سے انتظار تھا ساریہ کو ایک نظر دیکھ کر اسکی پلکیں ایک دفعہ بھی جھپکنے سے انکاری ہو گئیں وہ ساری شرم کو بلائے طاق رکھتے ہوے مبہوت سا اسے دیکھے گیا یہ دیکھے بنا کہ کوئی اسکی اس بےشرمی اور ڈھٹائی سے بوکھلا رہا ہے ساریہ ایک دفعہ بھی اپنی پلکوں کی باڑ نا اٹھا پائی تھی۔
اسکی نظروں کی تپش سے ، ‎ساریہ کی ہتھلیاں اور پیشانی عرق آلودہ ہونے لگیں تھیں اور وہ مسلسل اپنی انگلیاں مڑورے جا رہی تھی۔
‏‎احان بار بار اسے دیکھ رہا تھا۔ غزالہ نے احان کو آنکھیں دکھائیں تو احان نے اپنی نظروں کا زاویہ درست کیا ، غزالہ اٹھ کر ساریہ کے ایک طرف بیٹھی اور اسے انگوٹھی پہنانے لگی اور پھر بیشمار دعائیں دی تھیں۔
‏‎کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد ساریہ کو اپنے کمرے میں بھیج دیا گیا تھا۔ جس پر احان اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گیا تھا۔
‏‎ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ احان فون کا بہانہ بنا کر وہاں سے نکل کر اوپر ساریہ کے کمرے کی طرف دیکھنے لگا ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ زوار نے پیچھے سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ابرو اچکا کر دیکھا جس پر اسنے بامشکل اپنا تھوک نگلا تھا۔
‏‎"وہ میں فون سننے آیا تھا۔۔" احان کی حالت دیکھ کر زوار کو بےساختہ ہنسی آئی اور وہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگا جس پر احان نے منہ بنایا تھا۔
‏"‎ہو گیا۔۔۔؟؟؟"
‏‎"کیا۔۔؟" زوار نے معصوم شکل بنا کر پوچھا تھا۔
‏‎"بہت برے انسان ہو تم ،،،،،، یہ نہیں کہ کسی کا بھلا کر دو۔" احان نے معصوم منہ بنا کر شکوہ کیا تھا۔
‏‎"اچھا اور کیا مدد چاھیے اس تازہ ترین دولہے کو۔؟" زوار نے
‏‎ جان بوجھ کر مسکراہٹ دبا کر پوچھا آخر احان پہلی دفعہ اسکے قابو آیا تھا تو پھر زوار کیسے جانے دیتا۔
‏‎"یار رنگ لی تھی وہ دینی تھی۔!" احان نے منہ پھلا کے کن اکھیوں سے دیکھ کر کہا اس کی بات سن کر زوار منہ کھولے اسکی جرات دیکھتا رہ گیا تھا۔
‏‎"یار ،،،، مطلب ،،،، کچھ تو شرم کر میں بھائی ہوں اسکا۔!" حیرت کی بے انتہا زیادتی سے کہا گیا تھا۔
‏‎"ہاں تو میں بھی تو اب اسکا شوہر ہوں۔!" احان نے اچھا خاصا برا مانتے ہوے کہا تھا۔
‏‎"میں نے دوست سمجھ کر تجھے بتایا تھا ،،،،، مجھے پتا تھا تو آگے کونسا میرے کام آیا ہے جو اب آئے گا۔!" احان نے فل ڈرامائی انداز میں کہا تھا۔
‏‎"اچھا چلے جاؤ لیکن یہ میرے ہاتھ دیکھ اور جلدی آجانا۔" زوار اس کی اداکاری پہ داد دے بغیر نا رہ سکا جسنے بڑی تسلی سے اسکی اور اپنی دوستی پہ دو حرف بھیجے تھے۔ زوار نے اسکے سامنے بظاہر ہاتھ جوڑے لیکن لہجہ تنبیہ تھا۔
‏‎"یار تو بہت اچھا ہے قسم سے تیرا جیسا دوست کسی کا نہیں ہونا ،،،،، تو فکر نا کر میں جلدی آجاؤ گا۔" احان اسکے گلے لگ کر اوپر چل پڑا تھا۔ زوار سر جھٹک کر واپس لاونج میں چلا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آتے ہی سحر نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا جس پہ ساریہ نے برے برے منہ بنانے شروع کردیئے تھے۔
"اب میں تمہیں تنگ بھی نہیں کر سکتی۔۔۔ تم تو ابھی سے بدل گئی ہو۔۔۔" سحر نے منہ بسور کر کہا اس سے پہلے کہ ساریہ اسے کوئی جواب دیتی دروازہ نوک ہوا۔۔
"میں دروازہ کھولتی ہوں۔" سحر نے اسے بیٹھنے رہنے کا اشارہ کرکے کہا اور دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر دیکھا کرنٹ کھا کر رہ گئی احان نے منہ پہ انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا سحر نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"وہ ایک منٹ آپ پلیز میری بات سن لیں باہر آکر۔" احان نے سرگوشی کی تھی۔
"جی۔" سحر نے اندر کی طرف جانکا جہاں ساریہ مزے سے اپنی سیاہ گھنی پلکیں جھکا کر غزالہ کی پہنائی ہوئی انگوٹی دیکھ کر دھیمے سے مسکرا رہی تھی۔ سحر ایک نظر اسے دیکھ کر دروازہ بند کرکے باہر آگئی تھی۔
"وہ۔۔۔وہ م میں۔۔ میرا مطلب مجھے ساریہ سے کچھ بات کرنی تھی۔" احان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے پھر ہمت کرکے کہہ ہی دیا تھا۔
"جی اچھا بس دو منٹ۔" مسکراہٹ دبا کر کہا گیا تھا۔
"کیا ہوا کون تھا۔" سحر کے اندر آتے ہی ساریہ نے پوچھا تھا۔
"کچھ نہیں وہ مجھے بھائی کی کال آئی ہے وہ لینے آگئے ہیں تو میں جا رہی ہوں۔"
"اچھا۔۔۔ساریہ نے بوجھل لہجے میں کہا تھا۔ جبکہ سحر بیگ اٹھا کر اس سےمل کر چلی گئی تھی۔ سحر کے جانے کے بعد ساریہ دریسنگ ٹیبل کے قریب آکر رک گئی تھی۔
سحر کے جاتے ہی احان نے دروازے پر کھڑے ہو کر ایک لمبا سانس لے کر خود کو ریلکس کیا اور ہینڈل پہ ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولا تھا۔
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 2
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 2 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


‏‎"آہاں! یہاں تو شرمایا جا رہا ہے بھئی۔" احان نے شوخی سے جملہ اسکی طرف اچھالا تھا۔
‏‎ساریہ دلفریب مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے، چہرے پر خوبصورت حیا کے رنگ بکھیرے ، آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔ احان کی مسکاتی اور پیام بھری نظریں خیالوں ہی خیالوں میں اسکا دل گداز کررہی تھیں۔ ابھی وہ اس لمحے کے حصار میں ہی تھی کہ اسے اپنے عقب سے احان کی شوخی سے بھرپور آواز سنائی دی تھی۔ ساریہ نے جلدی سے دروازے کی اوٹ میں ہوکر اسے دیکھا تو وہ اسے کسی اور ہی دنیا کا باسی لگا تھا۔
‏‎بوسکی کا سوٹ پہنے ، بالوں کو جیل سے ایک خاص انداز میں سیٹ کیے ، بائیں ہاتھ کی کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اور پاؤں میں پہنے لمبی چونچ والے کالے بوٹ ، اسکی شخصیت کو چار چند لگا رہے تھے۔
‏‎اور سب سے خاص اپنی زندگی کی سب سے قیمتی شے کو پالینے کی چمک احان کے چہرے کو جگمگا رہی تھی۔ اسکے خوبصورت چہرے کو مزید خوبصورت بنارہی تھی۔ یہ اپنی محبت کو پالینے کی خوشی تھی یا پھر وہ آج اسکو ہی اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ اسکی نظر اس پر ٹھہر ہی نہ رہی تھی۔ دل نے بے ساختہ ماشاءاللہ کہا تھا۔ ایک منٹ کے آدھے حصے میں اسنے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا تھا۔ احان کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے پلکیں لرز کر جھک گئیں تھیں۔
‏‎کچھ لمحوں کا کمرے میں چھایا سکوت ساریہ کی آواز نے ختم کیا۔
‏‎"آآ۔۔آپ یہاں؟"
‏‎"ہاہا لگتا ہے آج کچھ زیادہ ہی پیارا لگ رہا ہوں میں۔ مجھے دیکھ کر تم سے ٹھیک سے بولا بھی نہیں جا رہا۔" احان نے ساریہ کو چھیڑا تھا۔
‏‎"پلیز آپ یہاں سے چلے جائیں ، کوئی آجائے گا۔" ساریہ مسلسل گھبراهٹ کا شکار ہوکر اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے منمنائی تھی۔
‏‎"لوگ آج پیارے کیا لگ رہے ہیں۔ بات بھی نہیں کر رہے۔" احان نے سنی ان سنی کررے اندر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
‏‎"احان!" ساریہ نے روہانسی صورت بنا کر کہا جو اس کی بات کو ہوا میں اڑا رہا تھا۔ دوسری جانب باہر سب کی موجودگی سے وہ عجب شش و پنج میں مبتلا تھی۔
‏‎"کیا ہو گیا ہے ریلیکس۔ نیچے سب باتوں میں مصروف ہیں ڈئیر لیڈی!" احان قدم بہ قدم اس تک آیا تھا۔
‏‎"پھر بھی۔" ساریہ منمنائی تھی۔
‏‎
"اچھی لگ رہی ہو۔" احان نے اسے میٹھی نظروں سے تکتے درمیان سے بات اچک لی تھی۔ لہجے میں پیار سموئے ، نظروں سے اپنے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے وہ اسے بوکھلائے دے رہا تھا۔
‏‎وہ اسکی گہری بولتی نگاہیں خود پر محسوس کرتے مزید خود میں سمٹتی جارہی تھی اور احان اسکے چہرے پہ اپنی چاہت کے بکھرے حسین رنگ دیکھ کر مزید سرشار ہورہا تھا۔
‏‎"مجھ سے کچھ نہیں کہو گی؟" احان نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا تھا۔ ساریہ تو اپنے آپ پر منوں بوجھ محسوس کررہی تھی۔ کہاں وہ احان سے صرف سلام وغیرہ کرتی تھی اور اب اسکا یہ روپ اسکی جان ہلکان کررہا تھا۔ کچھ اس رشتے میں منسلک ہوکر فطری جھجھک بھی آڑے آرہی تھی۔ احان اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر تھوڑا سنبھلا اور اسکے لیے اپنی قمیض کی جیب سے تحفہ نکالا تھا۔
‏‎"یہ میری طرف سے تمہارے لیے نکاح کا تحفہ۔" احان نے مخملیں ڈبہ کھول کر اسکے سامنے کیا تھا۔
‏‎
"سونے کی سادہ ، لیکن نفاست سے بنی انگوٹھی ، بلاشبہ قابلِ ستائش تھی۔" ساریہ نے ایک نظر اسے دیکھ کر احان کی طرف دیکھا اور اسکی سوالیہ نظروں کو سمجھ گئی تھی۔
‏‎"بہت پیاری ہے۔" ساریہ نے نظریں جھکا کر آہستگی سے کہا تھا۔
‏‎"تو اجازت ہے؟" احان نے ہاتھ آگے بڑھا کر پوچھا تھا۔ ساریہ نے بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ رکھ دیا تھا ۔ احان نے بہت محبت سے اسکا ہاتھ تھامتے بائیں ہاتھ کی دوسری انگلی میں انگوٹھی پہنائی تھی۔
‏‎"تھینکس!" ساریہ سرشاری سے بولی تھی۔
‏‎"ویلکم!" احان تعظیماً جھکا تھا۔
‏I brought it from my first project's money
‏‎ (میں نے یہ اپنے پہلے پروجیکٹ سے ملنے والے پیسوں سے لی تھی۔)
‏‎یہ چیز کسی نعمت سے کم نہیں کہ آپکا شریکِ حیات ، محبت اور چاہت سے آپ پر خرچ کرے۔
‏‎"حان! وہ میرا ہاتھ۔" کچھ لمحوں بعد بھی جب احان نے اسکا ہاتھ تھامے رکھا تو ساریہ نے شرمیلی مسکراہٹ سے کہا تھا۔
‏‎احان نے جان بوجھ کر نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھا تھا۔ لیکن آنکھوں میں شرارت ہنوز برقرار تھی۔
‏‎جو ساریہ سے مخفی نہ رہ سکی۔ اسنے لمحے کی تاخیر کیے بنا ہاتھ واپس پیچھے کیا اور خفگی سے اپنی محبت کو دیکھا تھا۔
‏‎"آپ بہت بے شرم ہو گئے ہیں۔" معصومیت سے کہا گیا تھا۔ جس پر احان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
‏‎"اچھا پلیز! اب جائیں ، کوئی آ جائے گا۔"
‏‎"اف!! اچھا چلا جاتا ہوں۔" احان نے منہ بسور کر کہا اور کمرے سے جاتے جاتے پھر واپس مڑا تھا۔
‏‎"سنو!" ساریہ جو اس خوبصورت اظہار پر اپنی بے ہنگم ڈھرکنوں کو قابو کرنے کی کوشش میں تھی اسکی آواز سے چونکی تھی۔
‏‎"جج جی!" ساریہ ہکلائی تھی۔
‏‎"میری لیڈی کا خیال رکھنا۔ دل موہ لینے والی مسکراہٹ اسکی طرف اچھال کر وہ باہر کی طرف قدم بڑھا گیا تھا۔
جبکہ وہ اسکے یہ انداز دیکھ کر جم سی گئی۔ کہاں وہ سب کے سامنے شرافت کا مظاہرہ کرنے والا اور کہاں اس کے یہ انداز۔
جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments