Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 1

"ردا! میرے بچے!! یہ بالوں کا آپ نے کیا گھونسلہ بنایا لیا ہے؟" نسرین ، ردا کے سر کی زبردستی مالش کرتے ہوئے مسلسل کوئی نہ کوئی بات کہہ رہی تھیں۔
‏‎"اف ماما! آپ بہت ظالم ہیں۔ ایک تو آپ زبردستی مجھے ہر وقت پڑھنے کو کہتی رہتی ہیں اور اب آپ کو یہ بھی تشویش ہے کہ میرے بالوں کی نشوونما بھی ٹھیک ہو اور یہ پیارے بھی ہوں۔" ردا نے منہ بسور کر ہمیشہ اپنی زبان پہ رہنے والا شکوہ کیا۔ وہ شروع سے ہی ایسی تھی۔ پڑھائی کے نام سے تو اسکو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوتی تھیں۔
‏‎ ہر معمولی بات پر چھٹی کرنے کی ضد کرنا تو اسکے لیے معمول کی بات تھی۔ اس سب میں تیمور بھی کہیں نہ کہیں شامل تھا۔
‏‎ردا نسرین اور تیمور کی شادی کے چھ سال بعد پیدا ہوئی تھی۔
‏‎تیمور نے اسکے ناز نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن اس درمیان نسرین نے ایک اچھی ماں ہونے کا فرض بخوبی ادا تھا۔ وہ ردا سے پیار کرتی تھیں۔
‏‎نسرین اور تیمور کے لیے ردا کسی قیمتی اثاثے سے کم نہیں تھی۔ لیکن نسرین اولاد کو بے جا ضدی بنانے کی بھی قائل نہیں تھی۔ اس لیے وہ ردا کی اچھی تربیت کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہی۔ یہ الگ بات تھی کہ اسکی تیمور اور ردا کے سامنے کبھی کبھار ہی چلتی تھی۔
‏‎فقط ردا کے معاملے میں نسرین اور تیمور کے سوچنے کا انداز مختلف تھا اور انکی پوری شادی شدہ زندگی میں جب بھی بحث ہوئی بس ایک ردا کے معاملے پر ہوئی تھی۔
‏‎ردا اپنی بات منوانے کے لیے بچپنے میں اپنے آنسو یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ نقلی آنسو نکال کر تیمور کو اچھا خاصا جذباتی کر دیتی تھی اور تیمور اس سے وعدے وعید کرنے کے بعد نسرین کی لمبی نصیحتوں کی فہرست سنتے اور نسرین کی گھوریاں بہت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے۔ لاڈلی و اکلوتی بیٹی کا جو معاملہ تھا۔
‏‎"ہائے میرے اللہ! مجھے سمجھ نہیں آتی۔ اس لڑکی کے لیے ہر مسئلے کا حل پڑھائی ختم کرنے میں ہی کیوں ہوتا ہے؟" نسرین نے باقاعدہ رونے والے انداز میں کہا تھا۔ اپنی شاہکار اولاد کے خیالات جان کر نسرین بیگم کی آنکھوں سے فقط آنسو گرنا رہ گئے تھے۔
‏‎"پتہ نہیں ردا تم کس پہ ر چلی گئی ہو بیٹا! میری تو سمجھ سے باہر ہے۔" نسرین بیگم اپنا سر تھام چکی تھیں۔
‏‎"ماما آپکو نہیں پتا؟ لیکن مجھے پتا ہے۔" ردا نے جھٹ فخریہ علان کیا تھا۔
‏‎"بابا کہتے تھے کہ میرا اس لیے پڑھنے کا دل نہیں کرتا کیونکہ سٹوڈنٹ لائف میں آپ بھی دل لگا کر نہیں پڑھتی تھیں۔" ردا نے آنکھیں گھماتے ہوئے جواب دیا تھا۔
‏‎"اللہ! توبہ، میری جان! آپکی ماما کے حالات اتنے برے نہیں تھے کہ پاس بھی بمشکل ہوا جائے۔" نسرین تو اسکی بات سن کر آگ بگولا ہی ہوگئیں۔
‏‎ کہاں وہ اپنی کلاس کی ہمیشہ ٹاپر رہیں تھیں اور کہاں انکی اولاد انہیں یہ سب کہہ رہی تھی۔
‏‎"ماما اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔ پاس تو ہوجاتی ہوں میں بھی۔ کبھی آپکی یہ انسلٹ تو نہیں کروائی کہ نسرین کی بیٹی فیل ہوگئی ہے۔" ردا کے لیے پاس ہونے والی بات ہمیشہ بری لگنے والی باتوں میں سب سے اولین تھی۔
‏‎"ہاں جی! میں یہ کیسے بھول گئی کہ میری یہ بیٹی ہر سال پاس ہوکر مجھ پہ یہ احسان کرتی ہے۔" نسرین نے اسے تاسف سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
‏‎"ماما اب آپ ایسے تو نہ کہیں۔ میں نے یہ کب کہا ہے کہ میں احسان کرتی ہوں، میری کوئی غلطی نہیں ہے بس میرا دل پڑھائی میں نہیں لگتا۔" ردا نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا۔
ردا کی باتیں سن کر نسرین اپنا سر پکڑ کر رہ گئیں۔
‏‎"اچھا چلو اب تھوڑا سا پڑھ لو ، تب تک میں کھانا بنا لوں۔ نسرین نے اسکے بال باندھتے ہوئے کہا تھا۔
‏‎جس پر ردا نے منہ کھولنا ہی چاہا تھا کہ نسرین کی زبردست گھوری کو دیکھتے ہوئے اس نے پڑھنے میں ہی عافیت جانی تھی۔
‏‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏‎"مما آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں؟ آپ ادھر آئیں میرے ساتھ ، یہاں بیٹھیں۔ انشااللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ،،،،،،،،، میں دیکھ رہا ہوں نا سب۔" زوار نے شائستہ کو لاؤنج میں پڑے صوفے پر بٹھا کر خود پنجوں کے بل انکے سامنے بیٹھ کر انکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر یقین دلانے کی کوشش کی۔ اسکی تسلی پر انہوں نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔
‏‎ ماں باپ اولاد کے معاملے میں خود کو کتنا ہی مضبوط کر لیں۔ وقت آنے پر بغیر پروں کے پرندوں کی مانند ہوجاتے ہیں۔
‏‎ خود کتنے ہی مشکل وقت اور حالات سے گزرے ہوں مگر اولاد کے لیے ہمیشہ نرم و گداز بستر ہی چاہتے ہیں۔
‏‎لیکن نصیب پہ آکر سب والدین بے بس ہوجاتے ہیں۔ ہزاروں اندیشوں اور وسوسوں میں گھرے رہتے۔ انکا مقصدِ حیات صرف اولاد کی خوشی سے لے کر انکے چین و سکون کے گرد ہی گھومتا ہے۔
‏‎"آپ! پلیز یہاں بیٹھیں۔ میں احان کو فون کرکے پوچھتا ہوں کہ انہوں نے کب تک آنا ہے؟" زوار نے شائستہ کو تھوڑا ریلیکس ہوتے دیکھ کر کہا اور خود فون ملاتے ہوئے باہر لان کی طرف چلاگیا تھا۔
‏‎بیل جارہی تھی۔دوسری بیل پہ فون اٹھا لیا گیا تھا۔
‏‎"شکر ہے تم نے فون تو اٹھایا۔ ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا اب تم سے یہ بھی نہیں ہوگا۔" زوار نے چبا چبا کر کہا تھا۔
‏‎"ہاہاہا یار! کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنے تپے بیٹھے ہو؟"
‏‎احان کا نارمل انداز اسکو مزید بھڑکانے کےلیے کافی تھا۔
‏‎"ایک منٹ ، تُو ہوش میں تو ہے؟ ٹائم دیکھ کیا ہوگیا ہے؟ کب تک آنا ہے تم لوگوں نے؟"
‏‎"ہائے یار!! مت پوچھ ، قسم لے لے۔ مجھے تیار ہوئے تین گھنٹے ہوگئے ہیں۔ لیکن باقی سب کی تیاری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
‏‎مجھے تو لگا تھا۔ مجھے تیار دیکھ کر سب جلدی کریں گے مگر یہاں تو یہ بھی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اب تُو ہی بتا میں کسی کو کیا کہوں کہ ہیلو! پلیز!! جلدی سے سب تیار ہوجائیں، اور چلنے کی تیاری کریں کہ مجھ سے اب انتظار نہیں ہورہا۔" احان نے اچھا خاصا بد مزہ ہوکر کہا۔ پہلے ہی وہ انتظار کی کوفت اٹھا رہا تھا۔
‏‎"ہاہاہا اچھا اچھا رو تو نا۔ لیکن پھر بھی جلدی آنے کی کوشش کرو ، مما پریشان ہورہی ہیں۔"
‏‎"یار تو کہتا ہے تو میں خود ہی آجاتا ہوں۔ گھر والے آتے رہیں گے۔ ویسے بھی نکاح تو میرا ہی ہے۔ تو باقی سب لیٹ بھی ہو جائیں تو ، خیر ہے۔" احان نے شوخی سے کہا تھا۔
‏‎"تُو نا میری بات سن ، زیادہ پھیل مت اور گھر والوں کے ساتھ ہی آ۔"
‏‎"یار میں تو آنٹی کی وجہ سے کہہ رہا تھا۔ باقی تیری مرضی ہے بھئی۔" احان نے کام بنتا نہ دیکھ کر بات ہی پلٹ دی تھی۔
‏‎"ہاں جی! جی بالکل!! آپ درست فرما رہے ہیں۔ اب جلدی سے تشریف لائیں۔"
‏‎"ہاہا اوکے۔" احان نے فون بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
‏‎"انکو تو میں دیکھتا ہوں۔ حد ہوگئی ہے تیاری کی بھی۔" احان منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا زینہ چڑھ کر عبیرہ کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
‏‎"اور کتنی تیاری ہے آپکی؟ جو رہ گئی ہے؟ زوار کا مسلسل فون آرہا ہے۔ ممانی پریشان ہورہی ہیں۔" احان نے اندر آتے خفگی سے کہا تھا۔ جنکی تیاری ہی ختم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔
‏‎"احان بھائی! بس ہم تیار ہیں۔ مما بس کمرے تک آپی کے لیے رنگ نکالنے گئی ہیں۔" عبیرہ نے میک اپ کو فائنل ٹچ دیتے ہوئے کہا تھا۔
‏‎"شکر ہے آپ لوگوں کی تیاری مکمل ہوئی۔ ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا، شاید آپ سب کو آج بھول گیا ہے کہ آج آپکی ذاتی اولاد کا نکاح ہے۔ احان نے منہ بسورا تھا۔ جتنا اسے وہاں پہنچنے کی جلدی تھی ، گھر والے مزید اسکا صبر آزما رہے تھے۔
‏‎"اسکو دیکھیں ، مجھے تو لگتا ہے اسکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے کہ جیسے نکاح آج نہیں سال بعد ہے ، خدانخواستہ۔" عبیرہ جو شیشے کے آگے سے ہٹنے سے انکاری تھی۔ اسکو دیکھتے ہوئے احان نے ہاشم صاحب سے کہا تھا۔ ہاشم صاحب مسکراتے ہوئے باہر چل دیئے۔
‏‎"توبہ ہے حان بھائی! کبھی تو صبر کر لیا کریں۔ میرے بے صبرے بھائی! بھئی میرے اکلوتے بھائی کا نکاح ہے آج۔ مجھےصحیح سے تیار تو ہونے دیں۔" عبیرہ نے پیچھے مڑ کر لاڈ سے کہا تھا۔
‏‎"میری پیاری بہنا! فی الحال تو تم مجھے کسی ظالم سماج سے کم نہیں لگ رہیں۔ جو نکاح ہی نہیں ہونے دینا چاہتا۔" احان نے مصنوعی آہ بھری تھی۔
‏‎
"تیار ہونے میں وقت تو لگتا ہے نا۔" عبیرہ نے بھی چہکتے ہوئے کہا تھا۔
‏‎"ہاں تم ہو جاؤ صحیح سے تیار ، تب تک میری ساری تیاری بھاڑ میں چل بسے گی اور اسکی خیر ہے۔ کیونکہ میرا تو بس نکاح ہے۔ فنکشن میں سینٹر آف اٹڑیکشن تو تم لوگ ہی ہو۔" احان نے جل کر کہا تھا ،،،،،،‎ کیونکہ عبیرہ ہنوز بال بنانے میں مصروف تھی۔
‏‎"مما دیکھ لیں انہیں۔ میرے پیچھے ہی کیوں پڑگئے ہیں۔" عبیرہ نے اندر آتی غزالہ سے منہ بنا کر شکوہ کیا تھا۔
‏‎"کم از کم آج تو تم دونوں سکون سے رہ لو۔ اور حان آپ نیچے چلو ، ہم آرہے ہیں۔" غزالہ نے احان کے کچھ بولنے سے قبل ہی اسکو نیچے جانے کا حکم صادر کردیا تھا۔
‏‎"مما پلیز! یوں تیار ہوکر گھر میں ہی گول گول گھوم کر بس ہوگئی ہے میری۔ اب چلیں بھی ، ورنہ میں خود جارہا ہوں۔" احان نے خفگی سے کہا تھا۔
‏‎
ہاہ! کیوں ہماری سبکی کروانے پہ تلے ہوئے ہو؟ سب کہیں گے کیسا بےشرم دولہا ہے۔" عبیرہ نے جھٹ اسکا بازو پکڑ کر شوخی سے کہا تھا۔ کیونکہ وہ احان کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر آخرکار اب اپنی تیاری سے مطمئن ہو ہی گئی تھی۔ اسی کیے کسی قدر شوخی سے بولی تھی۔
‏‎"خبردار جو یہ حرکت کی۔ غزالہ نے فوراً احان کو آنکھیں دکھائیں تھیں۔ کیونکہ احان انتظار سے جس قدر عاجز ہوچکا تھا۔ اس سے کوئی بعید بھی نہ تھی۔
‏‎"اب چلیں نا بھائی! ہم لیٹ ہورہے ہیں۔" عبیرہ جلدی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی۔ پیچھے پیچھے غزالہ بھی آگئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 1
Download Hui Jo Ulfat by Iram Tahir



"ویسے!!!بھائی کی چوائس اچھی ہے۔" سحر نے آئینے میں مسکرا کے، ایک نظر ساریہ کو دیکھ کر کہا جس پہ وہ جھینپ گئی تھی ۔ سحر کی تعریف سے وہ اچھا خاصا بلش ہوئی تھی۔ اسکا یوں شرمانا سحر کو بہت اچھا لگ رہا تھا جس پر اسکا دل مزید اسکو تنگ کرنے پر آمادہ ہو رہا تھا۔
وہ ساریہ کی خوشی میں بہت خوش تھی اور اسکی آئندہ خوشیوں سے بھرپور اور غموں سے پاک زندگی کی دعاگو بھی۔۔۔
آف وائٹ کا نفیس سا کُرتا اور پاجامہ پہنے ساتھ آف وائٹ ہی ڈوپٹہ ‎اوڑھے جس پہ ہلکے گولڈن رنگ کی کیرن لگی ہوئی تھی، ہلکا ہلکا سا میک، اپ پیچ رنگ کی لپ سٹک لگائے ساریہ کا چہرہ دھمک رہا تھا
‏‎"اب دیکھو نا کتنا خوبصورت جوڑا گفت کیا ہے تمہیں۔" سحر نے اسکو تنگ کرنے کے لئیے کہا تھا جس پہ ساریہ نے منہ بنا کے اسکی طرف دیکھا جس نے بڑی خوشدلی سے صرف جوڑے کی تعریف کی تھی۔
‏‎"میں نے کہا بھی تھا کہ اچھا سا تیار کرنا"
‏‎"اففف!! توبہ ہے ایک نظر دیکھو تو لو پھر کچھ کہنا۔"سحر نے اپنا سر پیٹ کر ساریہ کو گھور کر دیکھا جو مجال ہے کبھی پہلی دفعہ ہی کوئی مذاق سمجھ جاۓ۔
‏‎"تم خود ہی تو کہہ رہی تھی کہ جوڑا زیادہ پیارا لگ رہا ہے۔"
‏‎ساریہ نے سحر کے پیچھے ہوتے ہی آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھا اور پھر سحر سے گویا ہوئی تھی۔
‏‎"جی بلکل مجھے معاف کر دیں میں نے آپ سے مذاق کرنے کی جسارت کر لی۔"سحر نے جل بن کر کہا تھا۔
‏‎"کیا ہے یار!!کبھی تو مذاق سمجھ لیا کرو۔" سحر نے منہ بسورا تھا۔
‏‎"اوہ اچھا،،،،، بہت بری ہو تم ،،،،، اسکی آخری بات سے پوری بات کو سمجھ میں آتے ہی ساریہ نے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا تھا۔
‏‎"میں تو آنٹی کو کہتی ہوں ابھی بھی ٹائم ہے سوچ لیں ایک بار پھر۔"
‏‎"کیا۔۔۔؟؟ساریہ متجسس ہوئی تھی۔
‏‎"یہی کہ تمہیں پہلے اچھے سے بڑا کر لیں پھر ہی تمھاری شادی کریں۔۔۔" سحر نے بظاہر فکر کرنے والے انداز میں مسکراہٹ دبا کر کہا تھا ابھی ساریہ اسے کچھ کہتی باہر سے " آگئے" کا شور برپا ہوا تھا۔ جسے سن کر ساریہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی اور وہ گھبراهٹ میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں چٹکھانے لگی تھی۔
‏‎ سحر نے اسکی غیر ہوتی حالت دیکھ کر اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئیے
‏‎"ریلکس!!!یار کچھ نہیں ہوتا گھبراؤ نہیں سب انشااللہ اچھا ہوگا۔۔۔بہت پیاری لگ رہی ہو میں بس تمہیں تنگ کر رہی تھی"
‏‎دوست ایسے ہی ہوتے ہیں بھلے مذاق بنانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن وقت آنے پر چٹانوں جیسی طاقت لئیے ساتھ کھڑے رهتے ہیں۔
‏‎کبھی کبھی لفظ وہ تاثیر نہیں چھوڑتے جو آپکا ساتھ کھڑے رہنے والا انداز دوسرے کی ہمت بنائے رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے

جاری ہے۔

Post a Comment

0 Comments