Hui Jo Ulfat By Iram Tahir LAST EPISODE

"میں نے سنا ہے کہ ردا کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔" علینہ (دوست) کی امی نے تجسس سے پوچھا تھا۔
"نہیں ، نہیں اسکا ٹرانسفر ہوگیا ہے۔" اسکی بات سے نسرین کے دل میں پھانس سی چھبی تھی۔ وہ بوجھل دل کو سنبھالتے ہوئے بمشکل بولی تھی۔
"اچھا،،، چلو ایسا ہی ہو۔ ورنہ وہ اپنی بشریٰ ہے نہ وہ بتا رہی تھی کہ ردا کا شوہر تو اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ویسے نسرین تم نے بہت بڑی زیادتی کی تھی ردا کے ساتھ ، بچی تھی وہ اور تم نے ذرا بھی اس پر رحم نہیں کیا۔ بھئی شوہر کو تو بیوی چاہیے ہوتی ہے وہ کہاں دیکھتے ہیں کہ شادی کس عمر کی لڑکی سے ہورہی ہے۔" مسرت تو جو شروع ہوئی تھی رک ہی نہیں رہی تھی۔ یہ جانے بغیر کے اسکی باتیں کس بےدردی سے کسی کے دل کو چیر رہی تھیں۔ نسرین جو پہلے ہی اس ملال ، الم میں گھل رہی تھی مسرت کی باتیں سن کر بمشکل اپنی آنسوؤں کو تھپک کر اپنے اندر اتار رہی تھی۔
اس بات کی بازگشت ہماری سماعتوں سے ٹکڑاتی رہتی ہے کہ بچپن کے رشتے یا چھوٹی عمر کی شادیاں چلتی نہیں ہیں۔ یا بچپن میں بڑوں کے بنائے گئے رشتوں سے سوائے دکھ ، اذیت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ، زبردستی مسلط کیے ہوئے رشتے پائیدار نہیں ہوتے۔ مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ جو دکھ ، جو تکلیف ، جو اذیت ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ہو وہ ہونی ہوتی ہے۔ اگر اللہ نہ چاہتا تو کسی کی کیا مجال کے وہ کوئی فیصلہ کرجائے۔ اگر اللہ نہ چاہتا کہ ہماری نسبت کسی سے ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔؟ بے شک کچھ نہیں۔
دعائیں بےشک تقدیریں بدلتی ہیں مگر اٹل فیصلہ تو اللہ رب العزت کا ہوتا ہے۔ وہ جو ہماری شے رگ سے زیادہ قریب ہے، وہ جو ایک انسان کو ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔ اگر وہ یہ دکھ ، یہ اذیت ہمارے نصیب میں لکھ دے تو اس میں بھی ہماری بہتری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
المیہ یہ نہیں ہے کہ ہم جزباتی ہوکر بچپن میں رشتے کرجاتے ہیں المیہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ اللہ کی چاہ سے اسکے لکھے کے مطابق ہوا ہے۔ اگر وہ نا چاہتا تو یہ کبھی ممکن ہی نہ ہوتا۔
ہم محدود قوتی صلاحتیوں کے باعث زندگی کی ردھم میں ارتعاش پیدا کرجاتے ہیں۔ پھر جب وقت ڈھال بننے کا ہوتا ہے ہم تب الزام تراشی کے چنگل سے نکل نہیں پاتے ، اور جب ہم آزمائش سے نکل آتے ہیں تو ناکامی یا جیت کی صورت میں ایک کسک رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ ذہنی کمزوری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
ایسی اور اس جیسی ہی تکلیف دہ باتیں سن سن کر اسکی شخصیت سے معصومیت کا عنصر دھیرے دھیرے زائل ہوا تھا۔
بعض دفعہ ضروری نہیں ہوتا کہ سمجھداری کا تعلق ہماری عمر سے ہو ، سمجھداری اور سوجھ بوجھ ہمارے زندگی میں ہمارے ساتھ ہونے والے تجربات کا ایک خلاصہ ہوتی ہے۔
بےشک آس پاس کے لوگ معنی نہ رکھتے ہوں ہمارے لیے مگر دل کے ایک گوشے میں انکی یہ دو دھاری تلوار جیسی باتیں ضرب لگا جاتی ہیں۔ جس سے تنفس بگڑتا ہے۔ وہ تو بات کرجاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ سامنے والے کے لیے اگلا سانس کس قدر تکلیف دہ ، اذیت دہ کرچکے ہیں۔
"انکی ہمدردی تب کہاں ہوتی ہے جب ہم اذیت کے سب سے اونچے مرحلے پر اپنی بکھری ، ٹوٹی ذات کے ساتھ ساکن ہوتی سانسوں کو بمشکل روانا کرتے ہیں۔؟ تب کہاں ہوتے ہیں جب رات کے کسی پہر درد کی ایک بےرحم لہر اٹھ کر دماغ تک رسائی کرتی ہے اور پھر ہماری آنکھیں برس کر اپنا بوجھل دل ہلکا کرتی ہیں۔ تب کہاں ہوتی ہے ہمدردی جب شدید تناؤ کے باوجود بھی ہم اپنی آنکھوں کے آنسو تھپک جاتے ہیں۔؟"
گزرے دنوں کے واقعات اسکی آنکھوں کے گرد گھومے تھے۔ وہ آدھے چاند کی پوری رات میں نظریں افق پر ستاروں کے جھرمٹ میں چمکتے چاند کو دیکھ کر اپنے اندر جنم لینے والے سوالات اس سے کررہی تھی۔ آج بھی بن موسم برسات ہوئی تھی۔ اسکو واقعی نہیں پتا تھا کہ زوار سے اسکے رشتے کا حوالہ کس قدر اہم ہے۔ مگر لوگوں کی عجیب باتوں سے ماں کو رنجیدہ ہوتے دیکھ کر وہ جاننے لگی تھی کہ کچھ خاص تھا اس رشتے میں ، کچھ الگ جو اب نہیں رہا۔ اسکی معصومیت ، نسرین کے بےوقت کے آنسو دیکھ کر کم ہورہی تھی۔ وہ جیسی بھی تھی ، مگر دل تو رکھتی تھی جس میں اسکی ماں بستی تھی تو ایسے کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے ہی دل کے دوسرے گوشے کی تکلیف کو محسوس نہ کرپاتی۔؟
زوار کی باتوں سے آج پھر وہ ڈری تھی۔ مسئلہ انا کا نہیں تھا ، انا تو اسکی تربیت میں ہی نہیں تھی۔ مسئلہ بے اعتباری ، بے یقینی تھی جو رشتوں میں آجائے تو وہ بوجھ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتے۔ اور بے اعتباری ، بے یقینی ہوتی بھی کیوں نا۔ وہ بھی تو بغیر اعتماد میں لیے بیچ راستے میں اپنا اور اسکا رشتہ فراموش کرکے چلا گیا تھا۔
بے مول ہونے کا خیال توابھی تک اسکےننھے دماغ تک رسائی ہی نہیں کرسکا تھا۔ بےسکونی تو بس ماں کے آنسو کی وجہ سے تھی۔ جسے وہ شدت سے محسوس کرتی تھی۔
وہ کرب سے آنکھیں بند کرتی ، گہری سانس اپنے اندر انڈھیل کر ، اندر کی کھولن کو باہر نکال رہی تھی تا کہ کچھ بہتری محسوس ہو۔
___________________________________________
ردا کے لہجے میں چھپی افسردگی ، اداسی وہ محسوس کرچکا تھا۔ کتنی عجیب بات تھی رشتہ اب بھی وہی تھا لوگ اب بھی وہی تھے مگر احساسات کیا بدلے ایک دوسرے کے لیے محسوسات بھی بدل گئے تھے۔ اسکی لہجے میں کوئی طنز نہ تھا۔ کوئی الزام نہ تھا۔ تھی تو بس افسردگی ، اداسی۔
"وہ واقعی معصوم ہے۔" وہ منہ میں بڑبڑاتا ، دھمیے سے مسکرایا تھا۔ اسکا دل بھی اب اس بات کی گواہی دینے لگا تھا کہ کچھ تھا اس میں جو سمندر پار بیٹھے بھی اسکا دل اپنی بیوی کے نام سے ڈھڑکا تھا۔
"شاید اس سے بڑھ کر میں اپنی زندگی میں کوئی بڑی غلطی نہیں کرسکتا۔ میں نے اسے ناپسند کیا کیونکہ میرے ہی اپنے گھر والوں نے اسے میرے سر پر مسلط کیا تھا۔
مجھے لگتا ہے یہ مرد کا سب سے نچلے طبقے سے تعلق ظاہر کرتا ہے۔ جب وہ اپنی کسی نااہلی یا کسی بھی مجبوری کی وجہ سے گھر والوں کی بات تو مان لیتا ہے اور انکی نظروں میں تابعداری کا ٹھپا بھی لگوا لیتا ہے مگر بند کمرے میں اپنی بیوی کو وہ مقام ، وہ عزت نہیں دیتا جس کی وہ حقدار ہوتی ہے۔
ٹھیک ہے مجھے انسیت نہیں تھی مگر وہ قابلِ عزت توتھی ہی۔ مجھے یوں جاکر اپنے اور اسکے رشتے کا تماشہ نہیں لگانا چاہیے تھا۔
کاش کہ مجھے آنے میں دیر نہ ہوئی ہو۔ میں اپنے پورے ہوش وحواس میں اپنے آپ سے عہد کرتا ہوں کہ میرے عمل سے جو افسردگی جو اداسی اسکی شخصیت میں آئی ہے وہ میں سمیٹ لوں گا۔" وہ ڈائری کے صفحہ قرطاس پر اپنے خیلات لکھ رہا تھا۔ ردا سے مل کر اسے بات کرکے وہ بےسکون ہوا تھا۔ اور سامع چاہتا تھا جس سے بات کرسکے اس لیے وہ پن اور ڈائری ہاتھ میں لے چکا تھا۔
"پتہ نہیں کب میرا بونگا دل ، اپنی بونگی سی بیوی پر آگیا تھا۔ آجاؤ واپس میں چاہتا تمہارے ہاتھوں تنگ ہونا۔" وہ لکھتے لکھتے مسکرا سوچنے لگا تھا۔
_________________________________
"حان آپ اتنے بےشرم کیوں ہیں۔؟ مجھے تو یقین نہیں ہوتا کہ آپ ایسے ہیں۔" وہ احان کے کمرے میں آتے ہی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی خفگی سے بولی تھی۔ کل عبیرہ کی مہندی تھی اور ابھی لاؤنج میں احان نے سب کے سامنے اکیلے ولیمے کی بجائے تمام رسموں کے ساتھ اپنی اور ساریہ کی شادی کرنے کا شوشا چھوڑا تھا۔ جس پر ساریہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئی تھی۔ ولیمہ ہو تو رہا تھا مگر اسے چین نہیں تھا۔ وہ شرم و حیا کے مارے نامحسوس انداز میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی تھی۔ احان کی بات سے اسکا چہرہ حیا کی لالی سے سرخ ہوا تھا۔
"یار سب کی طرح میرے بھی ننھے خواب تھے کہ میں اپنی شادی پہ یہ کروں گا ، وہ کروں گا۔" وہ اسکے قریب رکھتے ہوئے معصوم منہ بنا کر بولا تھا۔ جس پر ساریہ کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلی تھیں کہ شادی کے ایک سال بھی اس موصوف کے ارمان ویسے کے ویسے تھے۔
"ولیمہ ہو تو رہا تھا ، ہو تو جانے تھے آپکے ننھے ننھے خواب اور ارمان پورے۔" اس نے گویا احان کے حافظے میں اضافہ کرنے کے لیے بولا تھا۔
"تم ذرا بھی اچھی بیوی نہیں ہو۔" وہ اسکی ناک پر اپنی انگلی سے ضرب لگاتا ، برا مناتے ہوئے بولا تھا۔ جو اس کے ارمانوں کو سمجھ نہیں رہی تھی۔
"پھر بھی گزرا کرلیں اس بیوی کے ساتھ ، کیونکہ بڑے ارمانوں کے ساتھ اس گزارے لائق بیوی کے ساتھ آپ کی شادی ہورہی ہے۔" وہ تاسف میں سر ہلاتی بول کر ڈریسنگ ٹیبل کے پھیلاوے کو سمیٹنے لگی تھی۔
"شادی تو کرنی تھی نا۔" وہ پرسکون انداز میں شانے اچکا کر گویا ہوا تھا۔
"حان آپ تب کہاں تھے جب اللہ تعالیٰ عقل سے نواز رہے تھے۔" وہ پیچھے مڑ کر سنجیدگی سے مستفسر ہوئی تھی۔
"گیا تو میں عقل لینے ہی تھا۔ مگر راستے میں تم عقل لے کر واپس آرہی تھی تو تمہیں دیکھنے لگ گیا تھا۔" وہ اسکا شرم سے جھنجھلایا ہوا منہ دیکھ کر ، مسکراہٹ دبا کر بولا تھا۔
"ناٹ اگین۔ اتنا رومینس۔ ،،،،، اف۔!" وہ اسکی آنکھوں سے نکلتی پیام دیتی شعاؤں سے نظریں چراتے بولی تھی۔
"وہ اس لیے وائفی کہ میں نہیں چاہتا کہ تم باقی بیویوں کی طرح یہ شکوہ کرو کہ میرے شوہر مجھ سے پیار نہیں کرتے۔" وہ اسکی بائیں کان کی طرف جھک کر پھونک مارتا شوخی سے بولا تھا۔
"آپ کاکچھ نہیں ہوسکتا ، میں سونے لگی ہوں کل بہت کام ہیں۔" وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے آنکھیں دکھاتی اسکو اپنے نازک ہاتھوں سے پیچھے کرنے لگی تھی۔
"کام تو ہیں ہی کل مہندی بھی ہے ہماری۔ میں پہلے بتا رہا ہوں میں پوری پوری رسمیں کروں گا۔ اس لیے کل یہ خوبصورت آمکھیں مجھے گھورنے کی بجائے ، پیار کا پیغام دیں۔" احان نے اسکی کلائی پکڑ کر اسکو پیار بھری تنبیہ کی تھی۔
"اوہ سہی۔! جب شادی کی ساری رسمیں کرنی ہیں تو کیوں نہ باقاعدہ اسکا آغاز آج اور ابھی سے کیا جائے۔؟" وہ بغیر کلائی چھڑوائے کچھ سوچ کر بولی تھی۔
"اچھا وہ کیسے۔۔۔؟" احان متجسس ہوا تھا۔ جس سے اسکی گرفت ڈھیلی پڑی تھی۔
"ہممم۔ وہ ایسے میرے بےتحاشا ارمانوں والے ہبی۔! کہ سب کی طرح ہم آج سے پردہ شروع کرتے ہیں جب تک ہماری شادی نہیں ہوجاتی۔ واؤ کتنا چارمنگ ہے نہ یہ خیال۔؟" ساریہ نے اپنی آنکھیں گول گول گھمائی تھیں۔
"بہت ہی فلوپ خیال ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے پردہ کرنے کی۔ مانا کہ شادی ہورہی ہے مگر ہماری شادی بھی تو ہوچکی ہے۔" احان سخت بدمزہ ہوتے اسے گھور کر بولا تھا۔
"دئیر ہبی۔! میں اب آپکو کل مہندی پر ملوں گی۔" وہ ایک ادا سے کہتی آگے بڑھ گئی تھی۔ جبکہ احان تو اسکا منہ دیکھتا رہ گیا تھا۔
"ساری۔! یار یہ کیا بات ہوئی۔" وہ اسکی پشت دیکھ کر جھنجھلا کر بولا تھا۔
"گڈ نائٹ ہنی۔!" وہ بغیر رخ موڑے ، ہنستے ہوئے بول کر کمرے سے نکل چکی تھی۔
"ہو۔! ان ارمانوں نے ہبی سے ہنی کردیا۔ بہت تیز ہے یہ میں ایوں اسکو شریف لے رہا تھا۔ ہائے اب یہ کل کب ہوگی۔؟" احان نے بند دروازے کو دیکھ کر دہائی دی تھی۔
_____________________________________________
وہ پلم رنگ کے شرارے، پر سبز رنگ کی کرینکل پیور بندی کی شرٹ پہنے اور ساتھ پیلے رنگ کا جالی دار ڈوپٹہ کندھے پر ڈالے ، ہلکا ہلکا سا میک اپ کیے بہت پیاری لگ رہی تھی۔ مگر شیشے میں ایک دفعہ اپنا عکس دیکھ کر بھی اسکے اندر کی اداسی کم نہیں ہوئی تھی۔ آج اسکا دل کسی بھی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔
"تیار ہوگئی ہو۔؟" نسرین نے اندر آتے اس سے پوچھا تھا۔ مگر ردا اسے کہیں اور ہی لگی تھی۔ وہ صبح سے اسکا عجیب سا انداز دیکھ رہی تھی۔ جس پر اسے تشویش ہورہی تھی۔
"کیا ہوا ہے طبیعت نہیں ٹھیک۔؟" نسرین نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی تھی۔
"ہوں۔ ہاں۔۔ ،،،،، نہیں ٹھیک ہے۔ میں تیار ہوں چلیں۔؟" وہ چونک کر بولی تھی۔
"بہت پیاری لگ رہی ہے۔،،، میری گڑیا۔" نسرین نے پیار سے اسکا گال ہلکا سا کھینچا تھا۔ جس پر وہ مسکرائی تھی۔
"آپ تیار ہیں۔؟"
"ہممم میں بھی تیار ہوں چلتے ہیں تم آجاؤ۔" نسرین اسکا گال تھپتھپا کر باہر نکلی تھی۔
"ہیلو۔" وہ ابھی سرجھٹک کر شیشے میں اپنا عکس دیکھنے لگی تھی جب بیڈ پر پڑا اسکا فون چنگاڑا تھا۔ وہ چلتے ہوئے بیڈ کے قریب آکر فون دیکھنے لگی تھی جس پر زوار کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ وہ بےدلی سے اٹھا گئی تھی۔
"تیار ہو۔؟" وہ گھڑی کلائی میں باندھتا ، فون کو کان اور کندھے میں پھنسائے ، نرمی سے بولا تھا۔
"جی۔؟" ردا نے حیرت سے پوچھا تھا۔
"اچھا چلو میں آتا ہوں دس منٹ تک ، میں رنگ کروں گا تو باہر آجانا۔" وہ گاڑی کی چابی اٹھاتے عجلت میں بولا تھا۔ جبکہ اسکی بات تو ردا کے سر سے اوپر گئی تھی۔
"کہاں آئیں گے آپ۔؟" وہ ناسمجھی میں مستفسر ہوئی تھی۔
"تمہارے گھر۔! پھپھو کی طرف نہیں جانا۔" زوار گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اسکی بات سن کر حیران ہوتے رکا تھا۔ اسے لگا شاید وہ لوگ شادی پر نہ آئیں۔
"جی جانا ہے۔"
"تو بس ٹھیک ہے میں رنگ کروں گا تو آجانا تم اور آنٹی باہر۔" وہ اسکی بات سن کر پرسکون ہوتا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔
ردا تو فون کی بند ہوتی اسکرین کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔ اسے ابھی بھی زوار کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ وہ سر جھٹک کر نیچے آئی تھی۔
"آجاؤ۔" نسرین نے اسے آتے ہوئے کہا تھا۔
"مما وہ ، وہ زوار کا فون آیا تھا۔"
"خیریت۔؟" نسرین نے حیرت سے ردا کو دیکھا تھا۔
"وہ کہہ رہے ہیں کہ فون کرینگے تو باہر آجانا میں اور آپ۔" وہ عام سے انداز میں بولی تھی۔ جبکہ اسکی بات سن کر نسرین آسودگی سے مسکرائی تھی۔ وہ دل سے خوش ہوئی تھی۔
_____________________________________________
دس منٹ تک وہ انکے گھر کے باہر تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھا ہی انکا انتظارکررہا تھا جب اسے نسرین اور ردا باہر آتے دیکھائی دیے تھے۔
ردا کے سجے سنورے روپ کو دیکھ کر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔ وہ بنا پلکیں جھپکائے ، مبہوت سا اسے دیکھے گیا تھا۔ دل تھا کہ یہ لمحہ یہیں رک جائے اور وہ جی بھر کر اپنی آنکھوں کی تشنگی کو سیراب کرتا رہے۔
انکے قریب آتے ہی زوار کا طلسم ٹوٹا تھا اور وہ جلدی سے باہر نکلا تھا۔ نسرین سے سلام کرکے اسکے لیے دروازہ کھولا تھا جبکہ ردا خود ہی پیچھے کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بےنام سی اداسی نے اسے گھیرا ہوا تھا۔ وہ ان لمحوں کو جس طرح مزے سے گزرنا چاہتی تھی ویسے نہیں گزار پا رہی تھی۔ ساریہ اور عبیرہ کے ساتھ اسے نے ڈھیر سارے منصوبے بنائے تھے۔ مگر اب اسکا دل کسی بھی چیز کو کرنے کا نہیں کررہا تھا۔
زوار اپنی طرف بیٹھ کر ، گاڑی چلانی شروع کرچکا تھا۔ وہ نسرین کے ساتھ باتوں کے درمیان گاہے بگاہے باہر والے شیشے سے پیچھے بیٹھی اپنی گم صم بیوی پر ایک نظر ڈال رہا تھا۔ اسکی یہ خاموشی ، یہ اداسی زوار کو بھلی نہیں محسوس ہورہی تھی۔
_____________________________________________
دونوں دلہنیں پیلے رنگ کا لہنگا ، چولی پہنے سادگی میں ہی غضب ڈھارہی تھیں۔ کلائیوں میں بھر بھر کر مہندی کی مناسبت سے چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں ، کلیوں سے بنے زیور پہنے وہ عجیب دلنشین روپ لیے ہوئے تھیں۔
احان نے سارے دن بھرپور کوشش کی وہ ساریہ کو دیکھ سکے ، بہانے بہانے سے اسے کمرے میں بلا رہا تھا مگر ساریہ بھی اپنے نام کی ایک تھی وہ ایک دفعہ بھی احان کے سامنے نہیں گئی تھی۔ جس پر احان دل مسوس کرکے رہ گیا تھا۔
_____________________________________________
مہندی کی تقریب شروع ہوچکی تھی۔ لان میں ہی تقریب کی تیاری کی گئی تھی۔ ایک صوفے پر عبیرہ اور زین بیٹھے تھے جبکہ دوسرے صوفے پر احان اور ساریہ بیٹھے تھے۔
زین کی بھٹکتی مسکاتی نگاہوں سے عبیرہ گھبرا گھبرا کر اپنے آپ میں سمیٹ رہی تھی۔ گھبراہٹ کے مارے اسکی ہتھیلیاں بھیگی تھیں۔ جبکہ دوسرے صوفے کا حال کچھ مختلف تھا۔ احان کی شوخیوں پر ساریہ اسے گھور گھور کر دیکھ رہی تھی مگر وہ باز نہیں آرہا تھا۔
یہاں آکر ردا کا موڈ کچھ بہتر ہوچکا تھا۔ جسے دیکھ کر زوار نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ ہر طرف گہما گہمی لگی ہوئی تھی۔ نسرین غزالہ اور اسکی فیملی کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ ردا کبھی اسٹیج پر عبیرہ اور ساریہ کے ساتھ بیٹھ جاتی تو کبھی انکی کزنز کے ساتھ ہلا گلا کررہی تھی۔
"آجاؤ زوار۔! رسم نہیں کرنی۔؟" رسم شروع ہوچکی تھی۔ سب نے رسم کرلی تھی جب غزالہ نے زوار سے پوچھا تھا۔
"پھپھو کرنی ہے میں تو اپنی بیوی کو ڈھونڈھ رہا ہوں۔" وہ غزالہ کو ایک نظر دیکھ کر کہتا ادھر ادھر دیکھنے لگا تھا۔ کافی دیر سے ردا اسے نظر نہیں آرہی تھی۔
"لو بھئی آگئی۔" ابھی وہ دیکھ کی رہا تھا کہ غزالہ کے کہنے پر اسنے سامنے دیکھا تھا جہاں وہ عبیرہ کے دوست کے ساتھ چلتی ہوئی اسٹیج کی طرف آرہی تھی۔
"چلیں رسم کرتے ہیں۔ پریٹی ڈارلنگ۔" وہ اسکے قریب آکر بولتا ہوا آخر میں شوخ سرگوشیانہ انداز میں بولا تھا۔ جس پر ردا نے اسے ایک تند نظر سے نوازا تھا۔
وہ صوفے پہ بیٹھ کر رسم کررہے تھے۔ زوار نے آج حساب برابر کرنے کا سوچ رکھا تھا۔ جس کے چکر میں اس نے احان کو میٹھائی کے چار لڈو کھلائے تھے۔ اور پھر بھر بھر کر اسکے خوبصورت بالوں میں تیل لگا رہا تھا۔
"زوار عقل کو ہاتھ مار بس کر۔" احان اسکے مزید تیل لگانے پر روہانسا ہوا تھا۔
"کیوں میری دفعہ تو بڑے پر پرزے نکلے تھے۔" وہ ایک دفعہ پھر اسکے سر پر تیل لگاتا ہوا دانت پیس کر بولا تھا۔
"بس کر یار۔" وہ پھر رونی شکل بنا کر بولا تھا۔ پر زوار نہیں باز آیا تھا۔
"بھابھی۔۔۔!" احان نے ردا کو۔ ھی گھسیتا تھا جو ساریہ کے ساتھ مل کر باتیں کرنا شروع ہوگئی تھی۔
"کوئی بھابھی وابھی نہیں ہے۔! میری بیوی میری سائیڈ پر ہے۔" زوار نے اسے گھور کر کہا تھا۔ جبکہ احان ابھی بھی ملتجی نگاہوں سے ردا کو دیکھ رہا تھا۔
"احان بھائی آپ نے مجھے بھی تو اتنا تنگ کیا تھا۔" وہ معصوم منہ بنا کر ہری جھنڈی دیکھا گئی تھی۔
"بہت برے ہو تم لوگ۔" زوار کے ایک دفعہ پھر تیل لگانے پر وہ تلملا کر رہ گیا تھا۔ زوار کو پتہ تھا اسے تیل سے سخت چڑ تھی۔
مہندی کے ختم ہوتے ہی وہ تینوں عبیرہ کے کمرے میں آگئی تھیں۔ جب عبیرہ نے ردا کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"ہائے ردا۔! تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔"
"آج تو میرا بھائی گیا کام سے۔" ساریہ نے بھی آنکھ دبا کر شوخی سے کہا تھا۔ جس پر وہ سٹپٹا گئی تھی۔
"جی نہیں ، ماشاءاللہ تم لوگ زیادہ پیارے لگ رہے ہو۔"
"رہنے دو ساریہ آپی آپ بتاؤ زوار بھائی کبھی یوں کرتے تھے رسمیں۔" عبیرہ نے اسے مزید چھیڑا تھا۔
"ہاں ویسے کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ آج تو میرا بھائی بھی بیوی بیوی کررہا تھا۔" ساریہ نے مسکراہٹ دبا کر عبیرہ کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ جبکہ ردا تو انکی باتوں سے محفوظ ہوئی تھی۔ کیونکہ ساری تقریب میں اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
"پوچھیں اس سے کونسا منتر پڑھ کر پھونکا ہے۔" عبیرہ نے شکی آنکھوں سے اسے دیکھ کر ساریہ کو کہا تھا۔
"کیوں آپکو بھی اپنے "ان" پر پھونکنا ہے۔؟" ساریہ نے آنکھیں ٹپٹپا کر پوچھا تھا۔ جس پر عبیرہ شرما کر رہ گئی تھی۔ جبکہ ردا تو اسکی بات پر خوب ہنسی تھی۔
"وہ ، و و وہ میں تو ویسے کہہ رہی تھی۔"
"ردا پلیز آج نہ جانا ، ساریہ آپی بھی آج یہیں ہیں میرے پاس۔" عبیرہ نے متانت سے کہا تھا۔
"اچھا۔"
"ہممم ، میں کپڑے بدل لوں پھر آتی ہوں۔"
"ردا ،،،، بھائی نے تم سے بات کی۔؟" عبیرہ کے جاتے ہی ساریہ نے ردا سے پوچھا تھا۔ جس پر وہ ناسمجھی میں اسے دیکھنے لگی تھی۔
"کون سی بات۔"
"یہی کہ وہ اپنے اور تمہارے رشتے کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔" ساریہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا تھا۔
"جی کی ہے۔" وہ دھیمے انداز میں بولی تھی۔
"تو تم نے کیا جواب دیا۔؟"
"کچھ بھی نہیں۔" ردا نے مبہم گوئی کی تھی۔
"کیوں۔؟" ساریہ نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر نہایت نرمی سے پوچھا تھا۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ،،، میں مما کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ اگر وہ پھر چلے گئے تو۔" اس نے سادگی سے اپنے خدشے ساریہ کو بتائے تھے۔
"ادھر دیکھو۔! تمہاری بات ، پریشانی سب ٹھیک ہے میری جان ، مگر ایک دفعہ بات تو کرو بھائی سے ، انہیں بتاؤ کہ آپ یہ سوچتی ہو۔ شادی پسند کی ہو یا گھر والوں کی مرضی سے ہو اختلاف ہر جگہ ہوجاتا ہے ، کیونکہ دو مختلف ذہن ہوتے ہیں اور ہر کسی کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ مگر بات چیت کرکے ہم اگلے بندے کو اپنی بات بتا سکتے ہیں۔
میرا بھائی ہے اس لیے نہیں کہہ رہی کہ موقع دو ،،،، ہم سب نے انکی اندر تبدیلی محسوس کی ہے۔ تم بھائی سے بات کرو ، مجھے پوری امید ہے بےیقینی کے بادل چھٹیں گے تو تمہیں بھی انکی تبدیلی نہ صرف دیکھے گی بلکہ محسوس بھی ہوگی۔" وہ دھیمے انداز میں بولی تھی۔
"جی۔" ردا نے ساریہ کی بات سن کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"ہممم میری پیاری بھابھی۔ اللہ کرے آپ دونوں ہمیشہ خوش رہیں ایک ساتھ۔" وہ خوش ہوتے اسکے گلے لگا کر چہکی تھی۔
____________________________________________
"ردا سے بات ہوئی۔؟" زوار ابھی لاؤنج میں آیا ہی تھا جب نسرین نے اس سے پوچھا تھا۔ ابھی لاؤنج میں کوئی تھی۔
"جی آنٹی کی تھی۔ میں نے اسے خود ہی سوچنے کا کہا ہے۔" وہ ٹھہرے انداز میں بولا تھا۔
"اچھا ٹھیک۔" اب نسرین کو سمجھ آگئی تھی کہ ردا کیوں گم صم ہے۔
___________________________________________
اتنی تھکاوٹ کے بعد بھی وہ رات کو بستر پر لیٹ کر ردا سے چھپ کر اسکی بنائی ہوئی تصویریں دیکھ رہا تھامسکراہٹ اسکے لبوں سے ہٹنے سے انکاری تھی۔ پوری تقریب میں زوار نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھا تھا۔ ابھی وہ تصویریں دیکھ رہا تھا جب ساریہ کا مسیج آیا تھا۔
"بھائی میں نے بات کی تھی ردا سے۔ وہ بےیقینی کی کیفیت میں ہے آپ نرمی سے بات کریں گے تو وہ مان جائے گی انشااللہ۔"
آج صبح ہی اس نے ساریہ کو ردا سے بات کرنے کا کہا تھا۔ وہ مسیج پڑھ کے فون بند کرکے اس بات کا اطمینان ہونے کے بعد کہ اسکے لوٹ آنے میں دیر نہیں ہوئی ، آسودگی سے آنکھیں موند گیا تھا۔
____________________________________________
نئی صبح کا سورج طلوع ہوچکا تھا۔ سارا دن بھاگم بھاگ میں گزرا تھا۔ مگر سب کی خوشی دیدنی تھی۔
ساریہ سکین رنگ کی بھاری کامدار مکیسی پہنے ہوئے تھی ، دراز بالوں کا ایک طرف مانگ نکال کر جوڑا بنایا ہوا تھا اور آگے کے کچھ بالوں کو ہلکا ہلکا کرل کیا ہوا تھا ، پنوں کی مدد سے بھاری کامدار ڈوپٹہ کو سر پر ٹکایا ہوا تھا۔ جدید میک اپ نے اسکے حسن کو مزید تراشا تھا۔ وہ بلاشبہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔ اسکے ساتھ بیٹھی عبیرہ بھی آج الگ ہی روپ لیے ہوئے تھی۔ گہرے سرخ رنگ کا لہنگا پہنے جس پر زنک اور سرخ رنگ کے امتزاج کے ساتھ کڑھائی ہوئی تھی۔ وہ تیار ہوکر ایک الوہی روپ لیے ہوئی تھی۔
بارات کے آتے ہی نکاح ہوا تھا۔ مبارک باد کے شور کے بعد عبیرہ کو زین کے پہلو میں بیٹھایا گیا تھا۔ وہ کالے رنگ کی شیروانی زیب تن کیے بہت جازب لگ رہا تھا۔
احان تو سہج سہج کر چلتی دلکش روپ لیے ساریہ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ وہ بنا شرم کیے بغیر ہلکیں جھپکائے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے گیا تھا۔ ساریہ نے اسے پہلو میں بیٹھتے ہی اسے ایک زبردست گھوری سے نوازا تھا۔ جس پر وہ جی جان سے مسکرایا تھا۔
تمام رسموں کے بعد بلآخر رخصتی کا وقت بھی آن پہنچا تھا۔ سب نے اپنی قیمتی دعاؤں تلے نم آنکھوں سے اسے رخصت کیا تھا۔ ہاشم اور احان سے ملتے ہوئی وہ اپنا ضبط کھو کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
_____________________________________________
"وہ آنٹی ردا نے میرے سے بات کرنی ہے ، میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں۔؟" وہ ہال سے آکر ابھی لاؤنج میں بیٹھے جب زوار نے نسرین سے اجازت مانگی تھی۔ ساریہ کے ساتھ بیٹھی ردا تو اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔
"میں نے۔؟" اس کے تاثرات دیکھ کر سب دبے دبے انداز میں مسکرائے تھے۔
"ہاں ہاں ،،، لے جاؤ۔" نسرین نے زوار کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"چلیں۔؟" زوار جو کہ ردا کے پاس ہی بیٹھا تھا اسکی کلائی پکڑ کر بولا تھا۔ جس پر ردا تلملا کر رہ گئی تھئ۔ وہ پیر پٹختی اس کے چلی تھی۔ اور باہر آتے ہی دوسرے ہاتھ سے اس نے زوار کے ہاتھ پر زور دار چٹکی بھری تھی۔
"آئی۔۔۔۔!" اس اچانک حملے پر وہ تڑپ اٹا تھا۔
"یہ کیا تھا۔" وہ اسکو نظر انداز کرتے کڑے تیور لیے سوالیہ ہوئی تھی۔
"بیٹھو بتاتا ہوں۔" وہ ہاتھ کی پشت سہلاتا گاڑی کی طرف اشارہ کرتے بولا تھا۔
"میں نے نہیں بیٹھنا۔" وہ کورا انکار کرگئی تھی۔
"چلو میں بیٹھا دیتا ہوں اپنی چھوٹی سی بیوی کو۔" وہ مسکراہٹ دبا کر اپنے کندھے سے اسکے کندھے کو چھوتے شوخی سے بولا تھا۔
"میں چھوٹی نہیں ہوں۔" وہ جھنجھلا کر بولتی آگے بڑھی تھی۔ زوار مسکراہٹ دبا کر اسکے پیچھے آیا تھا۔
_____________________________________________
"چلو احان ساریہ کو کمرے میں لے جاؤ ، تھک گئی ہوگی۔" غزالہ نے ساریہ کو بے آرام ہوتے دیکھ کر کہا تھا۔
"جی ماما۔ چلیں۔" احان اثبات میں سر ہلاتا ساریہ کو لے کر اپنے کمرے میں چلاگیا تھا۔ جبکہ غزالہ نے نسرین کو واپس گھر جانے سے روک دیا تھا۔
وہ احان کا ہاتھ تھامے اپنے کمرے میں آئی تھی۔ آج وہ کمرہ تھوڑا بدلا بدلا سا تھا۔ پورے کمرے میں مہکتے گلاب کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ بیڈ کے دونوں طرف ، ڈریسنگ ٹیبل اور صوفے کے آگے پڑے ٹیبل پر گلاب کے پھولوں کے گلدستے رکھے ہوئے تھے۔ کمرے میں صرف لیمپ کی روشنی تھی جو ماحول کو مزید خوابناک بنا رہی تھی۔ وہ گلاب کی مہک سانسوں میں اتارتی چھوٹے چھوٹے قدم لیتی کمرے کے وسط میں آئی تھی۔ اس کے چہرے پر پھیلے سکون کو دیکھ کر احان مسکرایا تھا۔
"یار۔! میں کیا کہوں۔" وہ نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑے شیشے کے سامنے لے جا کر رکا تھا۔ اپنا اور ساریہ کا مکمل ہوتا عکس دیکھ کر وہ اسے پیار سے بولا تھا۔
"مطلب۔؟" ساریہ نے خم دار گھنیری پلکوں کی جھالڑ کو اٹھا کر شیشے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھ کر ناسمجھی سے پوچھا تھا۔ بلیک رنگ کا تھری پیس پہنے وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔ اسے ایک بار دیکھ کر ساریہ کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں۔
"تم اتنی پیاری لگ رہی ہو مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کہوں۔۔" وہ اسکا ہاتھ تھامتے آئینے میں دیکھتے ہوئے محبت سے بولا تھا۔
"چلو جی آج جب بولنے کا دن ہے تو جناب کو سمجھ ہی نہیں آرہی۔" وہ مصنوعی خفگی سے بولی تھی۔
"تم بہت حسین ہو۔ بہت زیادہ۔" وہ جذبات کی شدت سے گھمبیر ہوتے لہجے میں بولا تھا۔ اس کے لہجے کی حدت سے ساریہ کے گال حیا سے تپ اٹھے تھے۔ دل کی دھڑکنوں میں بھونچال برپا ہوا تھا۔ احان مسلسل محبت بھری نظروں سے اسے دیکھے جارہا تھا۔
"آپکی منہ دیکھائی۔" وہ ڈائمنڈ کی چین اسکے سامنے کرتا چاہت سے بولا تھا۔
"مگر حان مجھے منہ دیکھائی میں کچھ اور بھی چاہیے۔" وہ مسکرا کر ایک نظر چین کو دیکھ کر لاڈ سے بولی تھی۔
"کیا۔؟" اور وہ صدا کا محب ، محبتوں میں لاڈ اٹھانا جانتا تھا۔
"آپکی امامت میں ، دو شکرانے کے نفل اللہ کی بارگاہ میں ادا کرنا چاہتی ہوں۔" وہ احان کی آنکھوں میں دیکھتے مان سے بولی تھی۔ اس کی بات پر احان نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا۔
Hui Jo Ulfat By Iram Tahir LAST EPISODE
Hui Jo Ulfat By Iram Tahir LAST EPISODE 
پورے راستے وہ منہ پھلائے بیٹھی رہی تھی۔ اسکے پھولے ہوئے گلابی گال دیکھ کر زوار نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔ مہرون رنگ کے پاجامے پر اسکن رنگ کی گھٹنوں تک آتی فراق پہنے ، معمول سے تھوڑا زیادہ میک اپ کیے وہ اسے دلکش ، دلنشین لگ رہی تھی۔ موٹی موٹی آنکھوں پر گہری خم دار پلکیں اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔
وہ ایک سنسان سڑک پر گاڑی روک کر مسکرا کر باہر نکلا تھا۔ اسکے باہر نکلتے ہی ردا نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا تھا۔ مگر منہ ہنوز پھلایا ہوا تھا۔ زوار اسکی طرف آکر مسکراہٹ دباتے دروازہ کھول کر ، اسے آنکھوں سے باہر آنے کا اشارہ کرنے لگا تھا۔ جس پر وہ اسے دانستہ نظرانداز کرکے سامنے دیکھنے لگی تھی۔
"مجھے بات کرنی ہے۔" زوار نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"مجھے نہیں کرنی۔" وہ ہنوز سامنے دیکھ رہی تھی۔ اسکے خفا سے جملے پر زوار کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
"کوئی بات نہیں ، میں پھر بھی کروں گا۔" زوار نے ڈھٹائی سے کہا کر اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔ جس پر ردا اسے گھور کر رہ گئی۔
وہ اسے لے کر گاڑی کے قریب ہی کھڑا ہوکر فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جس پر ردا نے جھنجھلا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔
"کیا سوچا پھر میری بیوی نے۔" وہ دونوں بازو سینے پر لپیٹ کر جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے استفسار کرنے لگا تھا۔
"میں سوچنے میں وقت لگاتی ہوں۔" وہ اس کی نظروں سے خائف ہوتی بولی تھی۔
"آخری کب تک میری گڈ لکس سے انکاری رہو گی۔" وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ، مسکاتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ، بھنوئیں سوالیہ انداز میں اچکائے ، شوخی سے بولا تھا۔
کالے رنگ کا ٹو پیس پہنے ، بالوں کو مخصوص انداز میں سیٹ کیے ، خوبصورتی سے تراشی ہوئی داڑھی کے ساتھ وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔ اس پر سجی سنوری اپنی بیوی کو سامنے دیکھ کر چہرے پر آتے بےتحاشا خوشیوں کے رنگ اسے مزید جازب بنا رہے تھے۔
"پہلے گڈ لکس تو لے آئیں۔" وہ ہوا کے دوش پر اڑتے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی منہ بگاڑ کر بولی تھی۔ ہوا میں لہراتا اسکا آنچل ، اٹکیلیاں کرتے اسکے دراز بال اور سجا سنوارا روپ زوار کو بہت دلفریب لگ رہا تھا جو اسے مزید شرارتوں پر اکسا رہا تھا۔
"اچھا وہ تو آجائیں گیں ،،، پہلے بتاؤں نا کیا سوچا میری ڈارلنگ نے۔" زوار نے پھر سے پوچھا تھا۔ اب کی بار ردا سنجیدہ ہوئی تھی۔
"میں نے کچھ نہیں سوچا ، جو مما کہیں گیں میں وہی کروں گی۔" اب کی بار اس کے لہجے میں خفگی کے عنصر کی بجائے سنجیدگی تھی۔ جسے زوار نے بخوبی محسوس کیا تھا۔
"اور اگر وہ کہیں کے واپس میرے پاس آجاؤ تو۔؟" زوار نے سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ کر ، نرمی سے پوچھا تھا۔ مقصد مرضی جاننا تھا۔ اب کی بار وہ اپنا رشتہ بغیر کسی دباؤ کے باہمی دلی رضامندی سے شروع کرنا چاہتا تھا۔
"مما میری وجہ سے بہت پریشان رہتی ہیں۔" گزرے لمحوں کی تلخ یادیں اسکے دماغ میں گھومی تھیں جس کی وجہ سے اسکی آواز رند گئی تھی۔ اسکی آواز کے گیلے ہوتے ہی زوار تڑپا تھا۔ اور جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لے کر اسے سمیٹ گیا تھا۔ اسکی اتنی اپنائیت پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
ہمارا دل بھی عجیب شے ہے۔ بعض دفعہ جن سے ہمیں زخم ملتے ہیں وہ انہی کے ہاتھوں سے مسیحائی چاہتا ہے۔ انکی مرہم کے لیے ہمکتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ رستے ہوئے زخموں کو وہ خود صاف کرکے مرہم کی مستقل پٹی لگاتا رہے۔
زوار نے مسلسل اسکی کمر سہلا کر اسے چپ کروایا تھا۔ مگر اندر ہی اندر سے وہ ندامت کے احساس سے اسے سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا۔ کیا تھی وہ لڑکی اور کیا بن گئی تھی۔؟ ایک غلط فیصلے نے اسکی ذات کو کس قدر متاثر کیا تھا۔
"چلو نہ گھر۔" تھوڑی دیر بعد جب وہ آنسو صاف کرتی پیچھے ہٹی تھی ، تب زوار نے نرم نگاہوں سے اسکی نم متورم آنکھوں میں دیکھ کر نرمی گرفت سے اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لے کر متانت سے کہا تھا۔
"کونسے گھر۔" وہ سوں سوں کرتی ناسمجھی سے سوالیہ ہوئی تھی۔
"اپنے گھر یار۔! جہاں پہلے رہتے تھے۔" وہ نفی میں سر ہلاتا اپنی انگلیوں کی پوروں سے اسکے آنسو صاف کرتا ، لہجے میں محبت سموئے بولا تھا۔
"میں نے نہیں جانا۔" وہ اپنے مرمری ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو پیچھے کرتی اپنے ازلی انداز میں بولی تھی۔ جس سے زوار کے چہرے پر مسکراہٹ رینگی تھی۔
"کیوں۔؟" وہ معصوم بنا تھا۔
"کیونکہ ہماری شادی نہیں ہوئی۔" وہ ناک سکیڑے نےا عذر لائی تھی۔ جس پر زوار کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلی تھیں۔
"ہوئی تو ہے شادی۔"
"شادی ویسے نہیں ہوتی۔۔۔! ،،،،، جیسے عبیرہ ساریہ آپی اور احان بھائی کی ہوئی ہے ویسے ہوتی ہے شادی۔" وہ منہ بسورے بڑے پتے کی بات بتا رہی تھی۔
"اچھا اگر میں تم سے ویسے شادی کروں تو کرو گی مجھ سے شادی۔" اسکے شادی کے شوق کو دیکھ کر زوار نے اسے پچکارا تھا۔
"نہیں۔"
"کیوں۔ اب تو کررہا ہوں شادی بھی۔" زوار نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
"آپ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پھر سب کہتے ہیں کہ مجھے شوہر رکھنا نہیں آیا۔" وہ یلکدم ہی اداس ہوئی تھی۔
"کون کہتا ہے۔؟" ردا کی بات سے زوار کا دل کٹا تھا۔
"سب کہتے ہیں۔ پھر مما پریشان ہوتی ہیں۔ اس لئے اب میں نے شادی نہیں کرنی۔" وہ آج مثالوں کے ساتھ بات کررہی تھی۔
"بیوی تو مجھے بھی رکھنی نہیں آئی تھی۔" زوار کو اس کھلی فضا میں بھی یلکدم بوجھل پن محسوس ہوا تھا۔
"میں نے یہ سب اتنی دفعہ بتایا تھا سب کو مگر کوئی بھی نہیں مانتا تھا۔" وہ اداسی سے کہتی پہلو بدل گئی تھی۔
"ادھر میری آنکھوں میں دیکھو۔" وہ کندھوں سے اسے پکڑ کر ، اسکا رخ اپنی طرف موڑ کر جزبات سے گھمبیر ہوتے لہجے میں گویا ہوا تھا۔ آنکھوں میں چاہت کے ٹھاتے مارتے سمندر کا عکس منکعس تھا۔ لہجے میں محبت ، چاہت ، اپنائیت کی شاشنی تھی۔ اسکی آنکھیں ، اسکا انداز اس کی سچائی بخوبی بیان کررہا تھا۔
"میں نے نہیں دیکھنا ،،،،،،،، اتنی موٹی آنکھیں ہیں آپکی۔" وہ دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اسکے ہاتھوں کے بنے حصار کو توڑتے ہوئے روٹھے لٹھ مار لہجے میں بولی تھی۔
"ردا۔۔۔! تم نا ایسا کرو ایک دو کتابیں لکھ لو کہ شوہر کے رومانوی موڈ کا ستیا ناس مار کر اسکو تباہ و برباد کیسے کرنا ہے۔" وہ اسکی بات سن کر سخت بدمزہ ہوا تھا۔ ادھر شاعروں نے موٹے نینوں کو استعمال کر کر کے اسے گھسا دیا تھا اور ایک وہ تھی جسے یہ بڑے سے نشیلے نین ایک آنکھ نہیں بھارہے تھے۔ وہ جو بمشکل سے اسے اصل بات پر لے کر آرہا تھا اسکی بےسروپا باتیں سن کر کلس کر رہ گیا تھا۔
"چلو جی پہلے پڑھاتے رہتے تھے اب واپس آگئے ہیں تو کتابیں لکھوائیں گے۔؟" وہ زوار کا جھنجھلایا ہوا منہ دیکھ کر رونی شکل بنا کر برجستگی سے بولی تھی مبادا وہ اصل میں لکھوانے ہی نہ بیٹھا دے۔
"اچھا یار نہ لکھنا کتابیں ، مگر میری بات تو سن لوں۔" وہ روہانسا ہوا تھا۔
"میں نے نہیں سننی سر کی بھی سنوں اور اب آپکی بھی سنوں۔" ردا خفگی سے کہتی پہلو بدل گئی تھی۔ زوار تو اس کی حرکتیں دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"یار ایک بات تو سن ہی سکتی ہو۔" وہ اسکا رخ اپنی طرف کرکے بچوں کی طرح بولا تھا۔ جس پر ردا نے اسے دیکھ کر گویا احسان کرنے والے انداز میں کہا تھا۔
"اچھا۔! بس ایک بات۔"
"میری آنکھوں میں دیکھو۔" زوار نے پھر سے بات وہیں سے شروع کی تھی۔ ردا اسکا کہا مان کر بقول اس کے اسکی موٹی آنکھوں میں دیکھنے لگی تھی۔ جس سے نظروں کا تصادم ہوا تھا۔ کہیں انجانیت تھی تو کہیں اپنائیت۔ اس لمحے میں رقم عجیب سی پرسکون کیفیت نے ان کو جکڑ لیا تھا۔
"بس ہوگئی بات ختم۔" چند لمحے زوار کی آنکھوں میں دیکھ کر وہ پیچھے ہوئی تھی۔
"نہیں ہوئی اور چپ کرکے سنو اب۔" پھر سے سلسلہ ٹوٹنے پر زوار نے اسے گھور کر ڈپٹا تھا۔ مگر اب اس ڈپٹ میں پیار تھا ، مان تھا۔
"تمہیں پتا ہے ہمارے رشتے میں سب سے زیادہ خوبصورت چیز کیا ہے۔ مجھے بھی نہیں پتا تھی۔ اب پتا چلی ہے۔
تمہاری یہ معصومیت ہی ہمارے رشتے کی خوبصورتی ہے۔ وعدہ کرتا ہوں اب کبھی ناشکرا نہیں ہوں گا۔ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ بس مجھے اس خوبصورتی کے ساتھ رہنے دو ، اسے بھرپور انداز میں جینے دو۔ میرا پاگل دل نہیں لگتا اب اپنی اس معصوم سی بیوی کے بغیر۔" وہ اسکو کندھوں سے پکڑکر اسکی جھیل سی آنکھوں میں استحقاق سے جھانکتے ہوئے موہوم سی آنچ لہجے میں سمو کر بولا تھا ، آخر میں اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا کر ، آسودگی سے آنکھیں موند کے وہ سرگوشیانہ انداز میں اپنی چاہت کے اعتراف کا میٹھا رس اسکی سماعتوں میں گھول رہا تھا۔
وہ اسکے الفاظ ، حرکت اور انداز پر متحیر ہوتی پیچھے ہوئی تھی۔ اسکی آنکھوں سے نکلتی محبت کی نرم کرنیں اسکے ننھے دل کی دھڑکنوں کو بڑھا رہی تھی۔ اس فسوس خیز ماحول میں جہاں وہ دونوں اکیلے تھے اور اسکا محرم اسے فرصت سے دیکھ رہا تھا ، ایک بوجھ سا اسکے نازک وجود پر بڑھا رہا تھا۔
"زوار۔" وہ بےچینی سے بولی تھی۔ زوار جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکے بدلتے تاثرات دیکھ کر وہ چونکا تھا۔
"کیا ہوا ہے۔؟"
"مجھے لگتا ہے ، مجھے ہارٹ اٹیک ہورہا ہے۔" وہ دل پر ہاتھ رکھ کر ، اسکی بےہنگم ہوتی دھڑکنوں کو قابو کررہی تھی۔
"ہیں۔" زوار نے حیرت و پریشانی سے اپنی بیوی کو دیکھا تھا۔
"ہاں ،،،، ہائے میں مرجاؤں گی۔" وہ رو دینے کو تھی۔
"کچھ نہیں ہوتا ، گہرے گہرے سانس لو،،، میں پانی لاتا ہوں۔" وہ عجلت میں کہتا واپس کار کی طرف بھاگا تھا۔
"یہ لو پانی پیو۔" وہ پانی کی بوٹل ہاتھ میں لیے ، اسے نیچھے بیٹھاتے ہوئے بولا تھا۔ ردا نے ایک گھونٹ پی کر ہی منہ پیچھے کیا تھا۔ اب اسے کچھ بہتر محسوس ہوا تھا۔
"کیا ہوا تھا۔" زوار نے بوٹل بند کرتے ، اسے دیکھتے ہوئے تشویش سے پوچھا تھا۔
"سب آپ کی وجہ سے ہوا تھا۔" وہ گہرے سانس لیتے بولی تھی۔
"میری۔۔۔! میں نے کیا کیا ہے۔؟" ردا کی بات سن کر زوار کی آنکھیں تحیر سے پھیلی تھیں۔
"آپ ویسے کیوں دیکھ رہے تھے۔" اسکا اشارہ ابھی کچھ دیر پہلے والے واقعے پر تھا۔
"بیوی یار۔! میں پیار سے دیکھ رہا تھا۔" اسکی بات سن کر زوار کو سمجھ آچکی تھی کہ وہ اس کی نظروں سے گھبرا گئی تھی۔ جس پر وہ اپنا سر پیٹ کر ، روہانسی شکل بنا کر بولا تھا۔ جبکہ ردا ہنوز اسے خفگی سے دیکھ رہی تھی۔
"مجھے پیار ہوگیا ہے اپنی بیوی سے۔" وہ مسکراتے ہوئے جان لیوا انداز میں بولا تھا۔ جس پر ردا سٹپٹپا کر رہ گئی تھی۔
"مجھے نہیں پتہ مجھے گھر جانا ہے ، آپ گندی باتیں کررہے ہیں۔" وہ لجاحت سے کہتی اٹھ کر کار کی طرف بڑھی تھی۔
"بہت ظالم ہو تم۔" زوار نے ہنستے ہوئے ، ہانک لگائی تھی۔
_____________________________________________
وہ اب گاڑی چلاتے ہوئے اسے میٹھی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا۔ جس سے ردا کو سخت چڑ ہورہی تھی۔ اسکو کہیں اور جاتے دیکھ کر ردا سوالیہ ہوئی تھی۔
"کہاں جارہے ہیں ہم۔؟"
"پھپھو کے گھر تو سب سو گئے ہوں گے۔ اس لیے اپنے گھر چلتے ہیں۔" وہ ایک نظر مسکرا کر اسے دیکھتے ، بتانے لگا تھا۔ جس پر ردا اسے گھورنے لگی تھی۔ مگر وہ انجان بنا گاڑی گھر کے اندر کرچکا تھا۔
"چلیں پریٹی ڈارلنگ۔" وہ اسکے تاثرات سے محفوظ ہوتا مستفسر ہوا تھا۔
"مجھے نہیں جانا یہاں۔" وہ سامنے دیکھتے بولی تھی۔
"اوہ۔! یعنی آج رات ہم گاڑی میں گزاریں گے۔ بہت رومینٹک ہو تم۔" زوار مسکراہٹ دبا کر بولا تھا۔ ردا ایک تیز نظر اس پر ڈال کر تن فن کرتی گاڑی سے باہر نکلی تھی۔ زوار بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتا اسکے پیچھے آیا تھا۔ وہ ان خوش کن لمحوں کو جی بھر کر جی رہا تھا۔
زوار کے دروازہ کھولتے ہی وہ اندر آئے تھے۔ ردا بنا اسے یکھے سیدھا اپنے کمرے میں گئی تھی۔ زوار اسکی پشت کو دیکھتا کچن میں گیا تھا۔
وہ یہ تو جانتی تھی کہ اسکی ماں کیا چاہتی ہے مگر وہ اتنی آسانی سے زوار کو معاف نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے اس کو زچ کرنے کے نت نئے منصوبے بنانے لگی تھی۔
اسے پتہ تھا کہ زوار کو بکھرا کمرہ نہیں پسند ، اس لیے وہ ایک جوتی اتار کر ایک کونے میں پھینک کر دوسری ، دوسرے کونے میں پھینک کر اپنی جیولری اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر پٹخنے لگی تھی۔
اچھی طرح گند پھیلا کر وہ ایک مطمئن نظر کمرے پر ڈال کر ، بیڈ پر انہی کپڑوں سمیٹ بیٹھی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور کاروائی کرتی زوار پانی کی بوٹل اور گلاس سلیقے سے ٹرے میں رکھے اندر آیا تھا۔ کمرے کو پرانے انداز میں بکھرے دیکھ کر وہ مسکرایا تھا۔ وہ چلتا ہوا بیڈ کے قریب آیا تھا۔ ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے وہ ردا کے پہلو میں بیٹھا تھا۔
اس کے بیٹھنے پر ردا منہ بناتے مزید فاصلہ بڑھا گئی تھی۔ جس پر زوار نے ناسمجھی میں اسے دیکھا تھا۔
"کیا ہوا۔"
"مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔" وہ روٹھے لہجے میں انکاری ہوئی تھی۔
"کیوں۔" وہ روٹھی روٹھی سی اسکے دل میں اتر رہی تھی۔
"کیونکہ آپ نے مجھے ابھی تک سوری نہیں کہا۔" وہ منہ کا زوایہ بگاڑ کر بولی تھی۔
"اچھا۔! سوری۔" وہ اسکی طرف جھک کر دھیمے انداز میں بولا تھا۔
"نہیں۔ کوئی سوری نہیں۔! سوری ایسے نہیں ہوتی ،،، یہ تو میں نے آپکو یاد دلایا۔" وہ نفی میں سر ہلاتی اس کے چودہ طبق روشن کر گئی تھی۔
"اس پر بھی سوری۔"
"مجھے اتنا ڈانٹا تھا آپ نے۔" وہ گزرے دنوں کی دشمنی کو بھی لے لر میدان میں عود آئی تھی۔
"سوری آئندہ پیار سے سمجھاؤ گا۔"
"مجھے چھوڑ کر گئے تھے آپ۔" وہ لاڈ سے کہتی اسے بار بار مسکرانے پر مجبور کررہی تھی۔
"اس کے لیے بھی سوری۔ آئی پرومیس اب نہیں جاؤں گا۔"
"میں اتنا روئی تھی۔"
"سوری اب پکا نہیں رونے دوں گا۔" وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا تھا۔
"کان پکڑئیں۔" وہ منہ پھلا کر انوکھی فرمائش کررہی تھی۔ جس پر زوار بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔ پھر ناچارہ پکڑ ہی گیا تھا۔
"سوری نا۔"
"ایک ہاتھ سے کان پکڑیں دوسرے سے سلیفی بھی لیں۔" وہ پوری طرح پھیل کر بولی تھی۔ زوار تو بےچارگی سے اپنی بیوی کو دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"اچھا۔" وہ اسکے کہے کے مطابق کرتا ہوا سیلفی لینے لگا تھا۔ اسکو یوں دیکھ کر ردا نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی دبائی تھی۔
"ہوگیا اب تو مان جاؤ۔" فون اس کے سامنے کرتے زوار نے مسکین سی شکل بنائی تھی۔
"مجھے واٹس ایپ کریں۔" وہ ابھی بھی نخرے سے بولی تھی۔ جس پر زوار منہ بناتا اسے تصویر بھیجنے لگا تھا۔
"بس ہوگئی سوری۔؟"
"نہیں۔" وہ منہ بنا کر بولی تھی کہ زوار نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔ جس پر وہ کھل کھلا کر ہنسی تھی۔ اسکو یوں ہنستا دیکھ کر زوار آسودگی سے مسکرایا تھا۔
_____________________________________________
ایک نئی روشن خوشگوار صبح کا آغاز ہوچکا تھا۔ دل کا موسم کیا بدلا تھا ہر چیز چہکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
زوار نے صبح اٹھتے ہی نسرین کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ وہ اور ردا اپنے گھر پر ہیں اور اب وہ ناشتہ بھی باہر کریں گے۔ وہ نو بجے تک اس کے اٹھنے کا انتظار کرتا رہا تھا مگر ردا کے اٹھنے کے اثار ابھی بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ کمرے میں آیا تھا۔
"گڈ مارننگ ڈارلنگ وائف۔" وہ اسکے کان کے قریب سرگوشیانہ ہوا تھا۔ نیند میں یہ خلل ردا کو بلکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔ اس لیے وہ کسمسا کر دوبارہ سو گئی تھی۔
"بیوی یار۔! میں صبح سے بھوکا ہوں۔ اٹھو ناشتہ کرتے ہیں۔" وہ اب کی بار اسکو اپنے پرانے والے انداز میں اٹھاتے ہوئے بولا تھا۔ جس پر ردا نے رونی شکل بنا کر اسکا تروتازہ چہرہ دیکھا تھا۔
"میرا دل نہیں کررہا ناشتہ بنانے کا۔" وہ بروقت اسے آگاہ کررہی تھی۔ جس پر زوار مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا تھا۔
"تو بیوی کو کہہ بھی کون رہا ہے کہ ناشتہ بنائے۔ ہم باہر ناشتہ کرنے جارہے ہیں۔ اب جلدی سے اٹھو پھر چلتے ہیں۔" زوار اسکی ناک پر ضرب لگاتا بولا تھا۔ جبکہ اس بات سن کر ردا تو ہکا بکا رہ گئی تھی۔ یہ وہ والا زوار تو بلکل بھی نہیں تھا۔ اور ساریہ کی بات اسے اب بلکل ٹھیک لگی تھی۔ وہ واقعی ہی رات سے اسکا اپنے ساتھ غیر معمولی رویہ محسوس کررہی تھی۔
"تو اسطرح سے کہیں نا۔" وہ لاڈ سے کہتی ، بیڈ سے اتری تھی۔ جبکہ زوار بیڈ پر اسکی جگہ پر نیم دراز ہوا تھا۔
_____________________________________________
ہوٹل سے ناشتہ کرنے کے بعد ، زوار اسے لے کر گھومانے لگا تھا۔ پھر مال سے ردا کو اسکی پسند کی شاپنگ کروا کر وہ لنچ کرکے ، غزالہ کی طرف آئے تھے۔
سارا دن ردا نے اسے خوب ناز نخرے دیکھائے تھے۔ جو زوار نے دل جمی سے اٹھائے تھے۔ دونوں کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ نسرین تو اپنی بیٹی کو اتنا خوش دیکھ دیکھ کر اسکی بلائیں لے رہی تھی۔ آج وہ دل سے مطمئن ہوئی تھی۔ سکون کی ایک لہر اسکے رگ و پے پر اتری تھی۔
"آج تو تمہیں بھابھی جی کہہ سکتی ہوں نا۔؟" ساریہ نے ردا کے تروتازہ چہرے کو دیکھ کر اسے چھیڑا تھا۔ جس پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی جھینپی تھی۔
"آپی ولیمہ کب ہوگا۔" وہ بات کو پلٹنے کے لیے بولی تھی۔
"آپکا ولیمہ تو بھائی ہی بتائیں گے۔" ساریہ نے اسکے کندھے سے اپنا کندھا مارتے ہوئے شوخی سے کہا تھا۔ جس پر وہ روہانسی شکل بنا کر رہ گئی تھی۔
_____________________________________________
سارا دن زوار کے چہرے سے مسکراہٹ نہیں ہٹی تھی۔ اسکا رویہ بلکل نئے نویلے دلہے کی طرح تھا۔ نیوی بیلو رنگ کا ٹو پیس پہنے وہ بہت دلکش لگ رہا تھا۔ جبکہ پہلو میں کھڑی بیوی بھی اس سے کم ہرگز نہ تھی۔
ردا نے آج سلور رنگ کی ٹیل پہنی تھی۔ پارلر سے تیار ہوکر تو وہ زوار کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی۔ پوری تقریب میں زوار کی نظریں بھٹک بھٹک کر اس کے سراپا کا طواف کرہی تھیں۔ وہ نظروں ہی نظروں سے اسے داد دے رہا تھا۔
"ہمارا بھی ولیمہ ہوجانا تھا۔" وہ اسٹیج کے قریب کھڑے ہوکر ردا سے کہہ رہا تھا۔ جبکہ اسکی بات سن کر ردا نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔
"بھئی مجھے اتنی جلدی والی شادی نہیں کرنی۔" وہ اسکا بازو تھامے لاڈ سے بولی تھی۔
"مطلب۔" زوار نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔ جس نے نیا شوشا چھوڑنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔
"مجھے اپنی شادی پر سارے فنکشن کرنے ہیں۔" وہ ایک ادا سے بولی تھی۔ زوار تو آج اس کی اداؤں پر اپنا دل سنبھالتا رہ گیا تھا۔
"اچھا جناب ایسے ہی کرلیں گے شادی۔ ،،،، مگر تین مہینے کے بعد ابھی مجھے آفس کے کام کے لیے واپس جانا ہے۔" وہ دلکشی سے مسکراتا اسے بتانے لگا تھا۔ اسنے صبح ہی میل پڑھی تھی جس پر اسے ٹرانسفر تو مل گیا تھا مگر تین مہینے بعد کا۔
اس کی بات سن کر ردا کی مسکراہٹ سمیٹی تھی۔ وہ زوار کی بازو سے اپنا نازک ہاتھ ہٹا چکی تھی۔ آنکھوں میں اداسی اور نمی تیری تھی۔ جسے زوار نے بخوبی محسوس کیا تھا۔ اور اپنے آپکو ڈپٹا بھی تھا کہ کیا ضرورت تھی اسے یہاں بتانے کی۔ گھر جاکر آرام سکون سے بتادیتا۔
"ہم گھر جاکے بات کریں گے۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا سمجھانے والے انداز میں بولا تھا۔ مگر ردا واپس مڑ گئی تھی۔
"یار کیا ضرورت تھی ابھی بتانے کی ، اب پاگل لڑکی خوامخواہ روئے گی اور پریشان ہوگی۔" زوار نے اسکی پشت دیکھتے افسوس سے کہا تھا۔
پوری تقریب اور پورے راستے وہ چپ چپ تھی۔ زوار کو اسکی یہ خاموشی بری طرح کھل رہی تھی۔ وہ اس وقت عبیرہ کے ولیمے کی تقریب کے بعد ردا کو اپنے گھر لے کر جارہا تھا۔ مگر آج نسرین بھی انکے ساتھ تھی۔ جسکی وجہ سے وہ خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔
گھر آتے ہی زوار نے نسرین کو اسکا کمرہ دیکھایا تھا۔ ردا بھی تب انکے ساتھ تھی مگر جلد ہی اٹھ کر وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ وہ زوار سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے وہ اسکے آنے سے پہلے سونے کا ارادہ رکھتی تھی۔
ابھی وہ کپڑے تبدیل کرکے لیٹی تھی کہ زوار کمرے میں آیا تھا۔
"سو گئی ہو۔؟" وہ بیڈ کے قریب کھڑے ہوکر اسے استفہامیہ نظروں دیکھتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
"ردا ہم بات کرتے ہیں نا یار۔" وہ اسکے پاس بیٹھ کر اسکا ہاتھ تھام کر بولا تھا۔
"مجھے نہیں کرنی آپ سے کوئی بات مجھے نیند آئی ہے۔" وہ ہاتھ چھڑوا کر روکھائی سے بول کر دوسری طرف کروٹ لے گئی تھی۔ جبکہ اسکا شدید ردعمل دیکھ کر زوار گہری سانس بھرتا کپڑے تبدیل کرنے لگا تھا۔
صبح بھی وہ چپ چپ تھی نسرین نے اس سے بارہا پوچھا تھا مگر وہ ٹال گئی تھی۔ وہ پھر سے بےیقین ہوئی تھی۔ زوار نے صبح بھی اس سے بات کرنا چاہی تھی مگر وہ بات ہی نہیں سن رہی تھی۔ پھر آفس کے کچھ کام کرنے کے لیے وہ گھر سے باہر نکلا تھا جسے کرتے کرتے رات کے آٹھ بج گئے تھے۔ جب وہ تھکارا ہارا گھر آیا تھا تو لاؤنج میں کوئی نہیں تھا۔ وہ کمرے میں گیا تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ کپڑے بدل کر نسرین کے کمرے میں آیا تھا۔ ردا بھی وہیں موجود تھی۔ پورے دن بعد اسکو دیکھ کر زوار کو کچھ سکون محسوس ہوا تھا۔
نسرین کی وجہ سے ردا کو ناچارہ اٹھنا پڑا تھا۔ وہ نسرین کے گھورنے پر جلدی سے اٹھ کر کچن میں پانی لینے گئی تھی۔ اسکے جاتے ہی زوار اسکے پیچھے آیا تھا۔
"ناراض ہو۔؟" ردا کے خاموشی سے گلاس آگے کرنے پر وہ نرمی سے مستفسر ہوا تھا۔
"نہیں۔" وہ گلاس پھر سے آگے کررہی تھی۔ جسے زوار نے تھام کر شلیف پر رکھا تھا۔
"پھر بات کیوں نہیں کررہی ہو۔ میری بات تو سنو کم از کم۔" وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔
"کھانا ہو۔" وہ بات کا رخ بدل گئی تھی۔
"جب تک بات نہیں کرو گی کھانا نہیں کھاؤں گا۔" زوار نے اسے دیکھتے ہوئے قطعیت سے کہا تھا۔
"آپکی مرضی۔" وہ سنجیدگی سے کہتی آگے بڑھنے لگی تھی جب زوار نے اسے بازو سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا۔
"یار بات تو سنو۔! میں صرف تین مہینے کے لیے جارہا ہوں۔ وعدہ میری جان واپس آؤں گا۔" ردا اسکی بات سن کر بھی خاموشی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
"ردا یار کام کی وجہ سے جارہا ہوں ورنہ میرا یقین کرو میں واپس جانے کا سوچتا بھی نہیں۔" اس کی خاموشی اور اداسی سے زوار افسردہ ہوا تھا۔
"کچھ تو بولو۔" زوار نے پھر سے اسے اکسایا تھا۔
"مجھے نیند آئی ہے۔" وہ بنا اسے دیکھتی بازو چھڑوا کر کمرے میں آگئی تھی۔ اسکو جاتا دیکھ کر زوار نے پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پانی کا گلاس پیا تھا۔
وہ ہر حال میں آج ردا دے بات کرنے کا ارادہ کرکے کمرے میں آیا تھا جہاں وہ کمفرٹر اوڑھنے لگی تھی۔
"میری پرسوں صبح کی فلائٹ ہے۔" وہ کمرے میں آکر اسے دیکھتے بولا تھا۔ اسکی بات سن کر ردا کی دھڑکنیں اور ہاتھ تھما تھا۔ جو زوار سے مخفی نہ رہ سکا تھا۔
"یار ایسے کیسے چلے گا تھوڑا یقین تو کرو۔" زوار کچھ دیر اسکو دیکھ کر اسکے قریب بیٹھ کر اسے ملتجی نگاہوں سے دیکھ کر بولا تھا۔
"مجھے پتہ ہے آپ واپس نہیں آئیں گے۔" وہ نم آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے آنسو کو باہر آنے سے روکنے کی کوشش کرتی ، لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔ وہ زخم جو کل اسکی مرہم سے بھرے تھے اب پھر ہرے ہوگئے تھے۔
"یار کیوں نہیں آنا ، وعدہ کررہا ہوں نا کہ آؤں گا ، پھر شادی بھی تو کرنی ہے۔" اسکو روتا دیکھ کر زوار کا دل مٹھی میں قید ہوا تھا۔ وہ جلدی سے اسکا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں کے کر نرمی سے بولا تھا۔
"وہیں کسی گوری سے شادی کرلیں۔" وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھ کر ، خفگی سے بولی تھی۔
"میں تو اپنی بیوی سے ہی شادی کروں گا۔
اچھا ادھر تو دیکھو۔! یار ماما کی ڈیتھ کے بعد میں نفسیاتی طور پر کمزور ہوا تھا۔ میں بس اس جگہ سے جان چھڑوانا چاہتا تھا۔ مجھے یہاں سکون نہیں محسوس ہوتا تھا۔ ہر وقت کی بےچینی اور مخلتف سوچوں سے میں جھنجھلا کر رہ گیا تھا۔ اس لیے یہاں سے جانا چاہتا تھا۔اور پھر جاب نے مجھے بہانہ بھی دے دیا تھا۔ وہاں جاکر میں نے سیشنز لیے تو طبیعت میں تھوڑا ٹھہراؤ آیا تھا۔
ٹھیک ہے مجھے تم یاد نہیں آئی تھی مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں بھولا بھی نہیں تھا۔ ہمارے رشتے کا حوالہ میرے ذہن نے کب ازبر کیا مجھے نہیں پتہ۔ لیکن ویسا ہرگز نہیں ہے جیسا لوگوں نے تمہارے اس ننھے سے دماغ میں بیٹھایا ہے۔ جب دماغ اور دل کی جنگ ہو تو چند لوگ ہی اس سے اسی محاز پر نبردآزما ہوتے ہیں اور اکثر میدان چھوڑ دیتے ہیں جیسے میں چھوڑ گیا تھا۔" وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر رسانیت سے اسے گزرے دنوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ یہ وہ باتیں تھیں جو اس نے کسی سے نہیں کی تھیں مگر آج وہ اپنے شریک حیات سے کررہا تھا۔
"ایک بات پوچھوں۔؟" وہ کل سے اپنے دماغ میں امنڈتے سوال کو لبوں پہ لائی تھی۔
"یہ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے پریٹی ڈارلنگ۔ یہ بندہ آپکا ہے تو جو چاہیں پوچھیں۔" اسکی متورم آنکھیں دیکھ کر وہ دھیمے انداز میں مسکرا کر بولا تھا۔ پتہ نہیں کیوں مگر اس کے آنسو اب برادشت نہیں ہورہے تھے۔
"آپ واپس کیوں آئے تھے۔؟" وہ اسے دیکھتے معصومیت سے سوالیہ ہوئی تھی۔
"جب میری بےچینی کافی حد تک محدود ہوگئی تھی تب خیال آیا تھا تمہارا مگر میں خود سے مصروفیت کا بہانہ لگا کر اس خیال کو تھپک گیا تھا۔ تمہیں پتہ ہے کچھ چیزیں ہمارے دماغ کے لاشعوری والے حصہ میں ہوتی ہیں بظاہر تو وہ ہمیں یاد نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی ہمارے ذہن میں انکا عکس منکعس ہوتا تھے۔ ویسے ہی میرے دماغ میں تھی تم ، مگر اس دن علینہ کی بات سے مجھے نہیں پتا کیسے پر تمہارا خیال ، ہمارا رشتہ پہلی بار میرے دماغ سے میری زبان تک رسائی کرگیا تھا۔ میں خود بہت حیران ہوا تھا۔ پھر ناچاہتے ہوئے بھی ذہن تمہاری طرف آتا تھا۔
یار۔! مسئلہ تم سے شادی کا نہیں تھا۔ مسئلہ تمہارا چھوٹا ہونا تھا۔ مجھے بس وہ وقت ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ جس کی وجہ سے میں جھنجھلایا ہوا رہتا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ شاید اللہ کی اس میں کوئی مصلحت ہو۔
لیکن ایک بات کا شکر ہے اگر غلطی ہوئی تو اللہ نے احساس کی حس نہیں چھینی تھی۔ رشتوں میں احساس نہ ہو تو پھر رشتے نہیں چلتے کیونکہ اس کے بغیر ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم کہاں اور کیسے کسی سے زیادتی کے مرتکب ہوگئے ہیں۔ میں واقعی ہی مانتا ہوں ہمارا رشتہ احساس کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔" وہ اسکا ہاتھ تھام کر ، انگوٹھے سے اسکے ہاتھ کی پشت سہلاتا دھیرے دھیرے اس سے اپنے دل کی باتیں کر رہا تھا۔
"پر آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپکو پیار ہوا تھا۔" وہ خاموشی سے اسکی باتیں سن کر ، اسکی آخر والی بات پر مشکوک ہوئی تھی۔
"بھولی بیوی۔! احساس کی وجہ سے واپس آیا تھا ، مگر پیار تو اسی دن ہوگیا تھا جس دن پہلی دفعہ آپکو دیکھا تھا واپس آکر۔" وہ مسکراتے ہوئے ہولے سے اسکا ناک دباکر اعتراف کرگیا تھا۔ اسکے ناک دبانے پر ردا اپنا ناک سہلاتے ہوئے اسے گھور کر رہ گئی تھی۔
"اب تو کھانا کھلا دو حسین سی بیوی۔!" اس کی گھوری کو نظر انداز کرکے وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر رونی شکل بنائے اسے دیکھنے لگا تھا۔
"ابھی بھی بھوک ہے۔؟" وہ آنسو پیتی بولی تھی کیونکہ اب اسکا دل بیڈ سے اترنے کا بلکل بھی نہیں کررہا تھا۔
"جی بلکل ، چلو ساتھ چلتے ہیں نیچے۔" وہ مسکرا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کچن میں لایا تھا۔ کچن میں آتے ہی وہ خود ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھ کر فون نکال کر اسے کھنگالنے لگا تھا۔ جبکہ ردا اسکے کیے کھانا گرم کرنے لگی تھی۔
رات کا کھانا کھا کر وہ چھت پر جاکر کچھ دیر چہل قدمی کرکے کمرے میں آئے تھے۔ باتوں کے دوران ردا کی ناراضگی کافی حد تک ختم ہوچکی تھی۔ اس لیے وہ اب اس سے باتیں کرتی رہی تھی۔
اگلے ہی دن زوار نے اپنے جانے کا سب کو بتا دیا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ آتے ہی دوبارہ سے اپنی شادی کرنے کا بھی بتایا تھا۔ جس پر سب نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ زوار نے نسرین سے اکیلے میں بات کرکے اسے اعتماد میں لیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب کوئی بھی بدگمانی دل میں آئے۔
رات کو وہ اپنی پیکنگ پوری کرکے ابھی بیٹھا ہی تھا۔ کہ ردا ہاتھ پیچھے کرکے مشکوک انداز میں اندر آئی تھی۔ زوار اسکو دیکھ کر چونکا تھا۔
"یہ لیں۔" وہ زوار کے قریب آکر لجائے انداز میں بولی تھی۔ جس پر زوار اسکے ہاتھ میں کاغذ دیکھ کر حیرت زدہ ہوا تھا۔
"لو لیٹر۔؟" زوار نے ہنستے ہوئے شرارت سے آنکھ کا کونا دباتے ہوئے ، کاغذ پکڑا تھا۔
"پلیز آپ دیکھ لیں۔" اسکے شرمائے ہوئے روپ کو دیکھ کر وہ جلدی سے کھولنے لگا تھا۔ کاغذ کھلنے کی دیر تھی کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی تھی۔
ردا نے اپنی فرمائشوں کی لمبی فہرست اسے نہایت رومانوی انداز میں پیش کی تھی۔ جس پر زوار کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔ وہ روہانسی شکل بنا کر کبھی ردا کو دیکھتا تو کبھی اسکی لمبی فہرست کو۔
"یار۔! تم قسم سے کیا چیز ہو۔ ایک منٹ نہیں لگاتی سارے موڈ کا ستایا ناس مارنے میں۔" وہ سخت بدمزہ ہوا تھا۔
"میں نہیں آپ سے بات کررہی اب۔ دیں میری لسٹ ، نہیں لانی تو نہ سہی ڈانٹیں تو نہ۔" وہ برا مانتی ، خفگی سے اسکے ہاتھ سے کاغذ لینے لگی تھی۔
"اوہ ہو۔! ڈانٹ نہیں رہا ، شکوہ کررہا ہوں۔ کل تمہارا شوہر جارہا ہے اور تم بجائے اس سے باتیں کروں یہ فرمائشیں لے آئی ہو۔" وہ بروقت ہاتھ پیچھے کرتا معصومیت سے بولا تھا۔
"ہاں تو شادی کی تیاریاں نہیں کرنی۔" وہ وہیں کھڑے خفگی والے انداز میں لاڈ سے بولی تھی۔ جس پر زوار مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا۔
"جس سے شادی کررہی ہو ، اس سے تو کوئی بات کرلو پہلے۔" زوار نے دوسرے ہاتھ سے اسے پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھایا تھا۔
"مجھے پتہ تھا آپ نے یہی کرنا ہے ، مجھے نہیں پتہ ، دیں میری لسٹ ،،،، میں نے اتنی محنت سے بنائی ہے اور آپ نے پڑھی بھی نہیں۔" وہ اسکی بات سن کر ، زوار کو خفگی سے دیکھتی روٹھے لٹھ مار لہجے میں بولتی پھر سے کاغذ لینے لگی تھی۔
"یار پڑھ بھی لیتا ہوں اور پرومیس لے کر بھی آؤں گا ، پر ابھی تو ساتھ بیٹھ کر باتیں کرو۔" زوار نے اسے آنکھیں دیکھاتے ، ہاتھ پیچھے کرکے کہا تھا۔
"وعدہ نہیں بھولنا۔؟" وہ انگلی دیکھا کر تنبیہ کرنے والے انداز میں بولی تھی۔
"مجھے مس کرو گی۔؟" وہ ردا کی آنکھوں میں جھانکتا ، اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہولے سے دبا کر مستفسر ہوا تھا۔
"نہیں ، مجھے اتنا سارا کام کرنا ہے۔" ردا نے مکمل صاف گوئی سے کام لیا تھا۔ جس پر زوار اپنی بیوی کا منہ دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"ویسے اللہ نے بھی چن کر مجھے ظالم بیوی دی ہے۔ اچھا چلو فون تو کرو گی نا۔؟" وہ افسوس کرتا پھر سے بولا تھا۔
"کیا ہے بھئی ،،، اگر میں آپکو فون کرتی رہوں گی تو شادی کی تیاری کیسے کروں گی۔؟؟؟" وہ جھنجھلا کر بولی تھی ، اسے بس اپنی شادی کی تیاریوں سے غرض تھی۔
"ویسے تم انوکھی دلہن ہو ، دولہے کو ناراض کرکے دھڑلے سے شادی کی تیاریاں کررہی ہو۔" ردا کی بات سن کر وہ تاسف میں سر ہلا کر رہ گیا تھا۔
"اچھا چلو فون تو اٹھا لینا۔!" اب کی بار زوار نے ملتجی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔ کیونکہ وہ ایک دفعہ پہلے بھی زوار کو بلاک کرچکی تھی۔
"اچھا۔" وہ روٹھے لہجے سے بولی تھی۔
"موڈ ٹھیک کرو پھر آپکی قیمتی لسٹ پڑھتے ہیں۔" وہ اسکی خفگی جانتے ہوئے ، اسکا گال کھینچتے ہوئے بولا تھا۔
"سچی۔۔۔!" اپنی لسٹ کو زیر غور دیکھ کر وہ خوشی سے چہکتی اس کے گلے لگی تھی۔ زوار تو اسکی حرکت پر مسکراہ کر رہ گیا تھا۔
_____________________________________________
دن پر لگا کر اڑے تھے۔ تین مہینے ایسے گزرے تھے کہ پتا بھی نہیں چلا تھا۔ اپنی پسند کے مطابق شادی ہوتی دیکھ کر ردا کے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ ان تین مہینوں میں وہ روز مال جاتی تھی۔ اس نے ہر چیز بڑے دل سے لی تھی۔ اپنے ساتھ ساتھ اس نے زوار کی بھی ساری تیاری کی تھی۔ وہ جو اسے فون نہ کرنے کا کہہ رہی تھی۔ دن میں کوئی چوبیس بار اسے فون کرتی تھی کہ یہ کیا ہے ، وہ کیا ہے ، یہ ایسا ہو وہ ویسا ہو۔ جبکہ زوار مسکراتے ہوئے اسے دیکھی جاتا تھا۔
ابھی کل ہی وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آیا تھا۔ سب نے گرم جوشی کے ساتھ اسکا استقبال کیا تھا۔ وہ خود بھی بہت خوش تھا۔
آج انکی مہندی تھی۔ پیلے ، آتشی اور ہرے رنگوں سے بنے بھاری لہنگے پہ سبز چولی پہنے ، سر پر گولڈن رنگ کا ڈوپٹہ اوڑھے ، دونوں کلائیوں میں بھر بھر کر کانچ کی چوڑیاں پہنے ، پھولوں کا زیور اور ماتھا پٹی لگائے ، ہلکے ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ حسین ترین لگ رہی تھی۔ آئینہ میں اپنا آپ دیکھ دیکھ کر وہ شرما رہی تھی۔ اسکا یہ الوہی روپ دیکھ کر زوار کس طرح اسے سراہے گا یہ سوچ ہی اس کے گال سرخ کررہی تھی۔
_____________________________________________
"طبیعت ٹھیک ہے اب۔؟" ساریہ آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہورہی تھی جب احان نے اسکے پیچھے کھڑے ہوتے تشویش سے پوچھا تھا۔ دو مہینے پہلے ہی اسکی طبیعت خراب ہوئی تھی تو غزالہ اسے ڈاکٹر کے پاس کے کر گئی تھی۔ امید کا سن کر تو وہ خوشی سے نہال ہوئی تھیں۔ ساریہ کا تو شرما شرما کر برا حال تھا۔
"کیا ہوا ہے۔" اسکو پریشان دیکھ کر احان نے پوچھا تھا۔
"وہ ، وہ ، حان ،،،،، پھپھو دا ، دادی بننے والی ہیں۔" اس نے بڑی مشکل سے احان کو بتایا تھا۔ اور کہتے ساتھ ہی شرم سے ہاتھوں میں چہرہ چھپا گئی تھی۔ جبکہ احان تو اسکے لفظوں پر ساکت ہوکر اسے دیکھے گیا تھا۔ پھر یلکدم خوشی سے چہکا تھا۔ ساریہ اس کی خوشی سے محفوظ ہوئی تھی۔
"بہت بری ہو تم مجھے تو پاپا بناتی ۔" وہ اسکے ہاتھ ہٹاتا شرارت سے بولا تھا۔ جس پر وہ احان کو گھور کر رہ گئی تھی۔
"ہممم کچھ بہتر ہے۔" وہ دھیما سا مسکرا کر بولی تھی۔ آج صبح سے ہی اسکی طبیعت تھوڑی بوجھل تھی۔
"تیار ہو تو چلتے ہیں ، زوار کا دوسری دفعہ فون آگیا ہے۔" وہ مسکرا کر کہتا باہر نکلا تھا۔
_____________________________________________
مہندی کی تقریب باہر لان میں ہی رکھی گئی تھی۔ زوار سفید شلوار قمیض پہ ہرے رنگ کی واسکٹ پہنے اور پیلے رنگ کا پٹکا گلے میں لیے ، بھرپور مردانہ وجاہت کے ساتھ اسٹیج پر پڑے صوفے پہ بیٹھا تھا۔ خوشی اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی۔ ابھی وہ اپنے دوستوں سے ہنس ہنس کر باتیں کررہا تھا کہ سامنے اسے چادر کے نیچے سہج سہج کر چلتی ردا اپنی طرف آتی دیکھائی دی تھی۔ اسکا یہ سجا سنوارا روپ دیکھ کر زوار کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
ردا کے اسٹیج کے قریب آتے ہی اس نے اپنا دائیں ہاتھ ردا کے آگے کیا تھا۔ سب کی ہوٹنگ کے درمیان ردا نے شرماتے ہوئے اپنا مرمری ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا تھا۔
زوار نے اسے اپنے پہلو میں بیٹھا کر جی بھر کر ایک نظر دیکھا تھا۔ طمانیت کے احساس سے وہ آسودگی سے مسکرایا تھا۔ ردا کے اس الوہی روپ نے اسے چاروں شانے چت کیا تھا۔
وہ مسلسل زوار کی نرم نظروں کے حصار میں رہی تھی۔ مہندی کی تمام رسموں میں بھی وہ گاہے بگاہے اسکو دیکھ رہا تھا۔ ساریہ تو اپنے دیوانے بھائی کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوئی تھی مگر وہ یوں ردا اور زوارکو ایک ساتھ خوش دیکھ کر بہت خوش تھی۔ کئی بار اس نے ان دونوں کی نظر اتاری تھی۔ پھپھو تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ دونوں بچوں کو یوں خوش ہوتا دیکھ کر انکا دل بڑا ہوا تھا۔
اپنی بیٹی کو اتنا خوش وخرم دیکھ کر کئی بار شکرانے کے آنسو نسرین کی آنکھوں سے نکلے تھے۔ وہ اپنا اللہ کی بہت شکر گزار ہوئی تھی جس نے اس کی دعائیں سن لیں تھیں ، اسکی مرادیں بھر دی تھیں۔
_____________________________________________
وہ ابھی کمرے میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اسکا فون بجا تھا۔ اسکرین پر زوار کا نام دیکھ کر وہ جی جان سے مسکرائی تھی۔
"ابھی چینج نہ کرنا ، میں مسیج کروں گا تو اوپر چھت پر آجانا۔" وہ سب کے درمیان بیٹھا ردا کو تحریری پیغام بھیج رہا تھا۔ زوار کا پیغام پڑھ کر وہ ہنستے ہوئے سوچنے لگی تھی کہ اپنے دولہے شریف کو کیسے تنگ کیا جائے۔
کپڑے بدلنے کا تو ابھی اسکا خود کا دل بھی نہیں تھا۔ وہ بار بار آئینے میں مسکرا کر اپنے کپڑے دیکھ رہی تھی۔ اور سوچنے کگی تھی کہ آج زوار کن لفظوں میں اسے سراہے گا۔
"آج تو پارلر والی نے کمال کردیا۔" زوار کا تحریری پیغام پڑھتے ہی وہ چھپتے چھپاتے چھت پر آئی تھی۔ چاند کی روشنی میں سامنے کھڑے اپنے دولہے کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن بڑھی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اس کے قریب آرہی تھی۔ اسکو اپنے سامنے دیکھ کر زوار بھی مسکراتے ہوئے اسکی طرف قدم بڑھانے لگا تھا۔ کتنی دیر اس کے موہنے حسن کو دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا بولا تھا۔
"جائیں پھر اس پارلر والی سے بات کرلیں۔" وہ جو ان تین مہینوں میں اس کی بےتحاشا تعریف کی عادی ہوچکی تھی۔ آج اتنی تیاری پر ایسا فقرہ تو قطعی نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے وہ عام دلہنوں والی شرم کو بلائے طاق رکھتی ، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ، روٹھے لہجے میں بولی تھی۔
"ڈارلنگ۔! اب میں تمہاری تعریف بھی نہیں کرسکتا۔؟" وہ اسکی بات ٹھیک سے نہ سمجھتے ہوئے ، ردا کا کاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سوالیہ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا تھا۔
"تو میری کریں ، پارلر والی کی کیوں کی۔؟" وہ بنا ہاتھ چھڑوائے لاڈ سے بولی تھی۔ وہ آج اسکے روبرو کھڑی ہوکر اپنی تعریف سننا چاہتی تھی۔ جو وہ پچھلے تین مہینوں سے اسکی سماعتوں میں اتار رہا تھا۔
"ویسے میں حیران ہوں کوئی اتنا خوبصورت لگ کر بھی لڑائی کرسکتا ہے۔" زوار مسکرا کر کچھ دیر اسکی جلن سے محفوظ ہوتا ، اسکے بائیں کان کی طرف جھک کر سرگوشیانہ انداز میں بولا تھا۔
"میں نہیں بولتی آپ سے ، آپ اب مجھے لڑاکا کہہ رہے ہیں۔" اب کی بار وہ ہاتھ چھڑوا کر خفگی سے بولی تھی۔ وہ جن جن سوچوں کے ساتھ یہاں آئی تھی ، ویسا تو کچھ بھی نہیں ہورہا تھا۔ اسے تو لگا تھا۔ آج زوار اسکی تعریف کرنے میں پتہ نہیں کون کونسی چیز ملا دے گا۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔
"خوبصورت بھی تو کہا ہے۔" وہ کمر پر ہاتھ رکھتے اسے آنکھیں دکھاتا بولا تھا۔ اسے تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ دھان پان سی لڑکی آخر چاہتی کیا ہے۔
"بس خوبصورت۔؟" وہ دلہن کا روپ لیے ، ہاتھ کمر پر ٹکائے برجستگی سے بولی تھی۔ زوار تو اپنی بیوی کے تیور دیکھ کر رہ گیا تھا۔ جو دلہن بن کر بھی خفگی سے باز نہیں آئی تھی۔
"ہاں تو اور کیا۔؟" زوار نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے گویا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارا تھا۔
"اور یہ کہ میں جارہی ہوں نیچے۔" وہ زوار کے اتنے پرسکون جواب کو بمشکل ہضم کرتی اسے گھور کر بولی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ واپسی کا ایک قدم بھی لے چکی تھی۔
"خبردار۔! کم از کم آج تو اونگی بونگی باتیں نہ کرو۔" زوار نے اسکی چوڑیوں سے بھری کلائی کو اپنی گرفت میں لے کر اسے آنکھیں دکھاتے کہا تھا۔
"آپ بہت برے ہیں ، جب سے میں آئی ہوں کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہہ رہے ہیں اس لیے مجھے چینج نہیں کرنے دیا تھا۔" وہ روہانسی شکل بنا کر بےچارگی سے بولی تھی۔
"تم بھی بہت بری ہو ، کب سے تعریف کررہا ہوں سن ہی نہیں رہی ہو۔" زوار برامناتا خفگی سے بولا تھا۔
"بس اتنی سی تعریف۔؟" وہ رونی شکل بنا کر زوار کو دیکھ رہی تھی۔ اب کی بار زوار کو اسکی سمجھ آچکی تھی۔ جس پر وہ محفوظ ہوتا مسکراہٹ دبا کر گویا ہوا تھا۔
"اور تعریف کرنے کی اجازت ہے۔"
"بلکل چلیں جلدی سے کریں میری تعریف۔!" وہ خوش ہوتی ایک اداِ شاندار سے بولی تھی۔ جس پر زوار ہنستے ہوئے اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔ بلاشبہ وہ اچھا انتخاب ثابت ہوئی تھی۔
"ہممم۔ ،،، ویسے مجھے تو تم پہلے سے موٹی لگی ہو۔" وہ ردا کو جانچتی نظروں سے دیکھ کر جان بوجھ کر تنگ کرنے کے لیے بولا تھا۔
"موٹے ہوں گے آپ۔" زوار کی بات سن کر وہ تلملا کر اسکے سینے پر اپنی مخروطی انگلیوں سے چٹکی بھرتے ، مرچیں چبا کر بولی تھی۔
"آئی ،،، بہت ظالم ہو تم۔" اس اچانک حملے پر وہ تڑپ اٹھا تھا۔ وہ خفگی سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے ، سینہ سہلاتے ہوئے شکوہ کناں ہوا تھا۔
"زاری۔!" زوار کی بے تکی باتوں سے وہ جھنجھلا کر روہانسی ہوئی تھی۔
"ایک منٹ کیا کہا ہے مجھے ابھی۔" وہ سب چھوڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوا تھا۔
"زاری۔" وہ خفا سے لہجے میں بولی تھی۔
"ہائے۔۔! کتنا پیارا لگ رہا یہ نام تمہارے منہ سے۔" پھر سے اپنا نیا نام اسکے منہ سے سن کر وہ دل پر ہاتھ کر دلکشی سے بولا تھا۔
"اور مجھے آپ زہر لگ رہے ہیں اس وقت۔" ردا تو اپنی ناقدری پر رونے والی ہوگئی تھی۔ کیا کیا سوچا تھا اس نے کہ زوار پتا نہیں کیا کیا کہے گا اور وہ تھا کہ بات کا رخ ہی بدلے جارہا تھا۔
"ڈارلنگ وائف۔! اب آپ زیادتی کررہی ہیں۔" زوار اسکی خفگی کو دیکھ کر تھوڑا سنجیدہ ہوا تھا۔ وہ اس کی آنکھوں میں چھپے اپنی تعریف کا انتظار دیکھ چکا تھا۔ مگر اسکا یہ روپ دیکھ کر زوار کا دل اسے شرارت پر اکسا رہا تھا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو ، اتنی حسین ، دلربا کہ میرا دل ہی نہیں کررہا کہ تمہیں ان آنکھوں سے اوجھل ہونے دوں۔ کیسا سحر پھونکا ہے تم نے مجھ پر ، کہ میں دن بہ دن اس میں جکڑا جارہا ہوں۔ اوپر سے تمہاری ان جان لیوا اداؤں نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔" وہ اسے زیرک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ، نرمی روئی لہجے میں بولا تھا۔ ردا کے سراپے کا طوف کرتی اسکی بولتی آنکھیں اس کے لفظوں کی سچائی پر مہر لگا رہی تھیں۔ وہ دیوانہ وار ، وارفتگی لٹاتی نظروں سے اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے۔ اس کے بولوں اور ان میں چھپی محبت کی چاشنی محسوس کرکے وہ سرشار ہوئی تھی۔ اسکی شوخ باتوں سے ردا کے دل میں گدگدی ہوئی تھی۔ دور افق پر کھڑا چاند بھی ان کے اس ملن پر خوش ہو کر کالی چادر اوڑھے آسمان پر بکھرے بادلوں میں چھپا تھا۔



وہ گہرے سرخ رنگ کے بھاری لہنگے پر سرخ اور زنگ رنگ کے امتزاج سے لگے نگوں کی بھاری چولی پہنے ، سر پر سرخ ہی رنگ کا نازک سا ڈوپٹہ اوڑھے ، ہاتھوں میں بھر بھر کر لگی ہوئی اپنی مہندی کو دیکھ رہی تھی۔ اسکی مہندی کا رنگ بہت کھلا تھا۔ جسے دیکھ کر وہ شرمائی تھی۔ بھاری میک اپ اور زیور میں اسکا نازک سراپا بہت دلربا لگ رہا تھا۔ وہ بہت خوش تھی زوار سے ، اس رشتے میں منسلک ہوکر اور اپنی پسند کے مطابق پھر سے شادی ہونے پر۔ زوار نے اس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی بہت اہمیت دی تھی۔
پورا کمرہ گلاب کے سرخ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ لیمپ کی مدھم پیلی روشنی خواب گاہ کو مزید خوابناک بنا رہی تھی۔ وہ شور مچاتی ، بےہنگم دھڑکنوں اور تھمتی سانسوں کے ساتھ قد آور بیڈ پہ استحقاق سے بیٹھی تھی۔ ابھی ساریہ اور عبیرہ اسے کمرے میں چھوڑ کرگئی تھیں۔
آنے والے خوش کن لمحات کا سوچ کر ہی گھبراہٹ کے مارے اسکی بےداغ پیشانی اور نازک ہاتھوں کی ہتھیلیاں عرق آلود ہورہی تھیں۔ ناچاہتے ہوئے آج اسے بھی شرم آرہی تھی۔ تقریب اور فوٹو شوٹ کے دوران زوار کی گہری بولتی نگاہوں کی حدت ابھی بھی اسے اپنے آرپار محسوس ہورہی تھی۔ جو اسکا لوں لوں بےچین کیے ہوئے تھیں۔
دروازے کے ٹک کی آواز سے کھلتے ہی اس کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں۔ سفید سوٹ پر بلیک شیروانی پہنے ، دلہے کا روپ لیے وہ کوئی شہزادہ ہی معلوم ہورہا تھا۔ چہرے کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ جیسے دنیا فتح کرلی ہو۔ چہرے پر پھیلا عجیب طمانیت کا احساس اسے مزید دلکش بنا رہا تھا۔
دروازے کے کھلتے ہی ردا نے ایک نظر سامنے دیکھا تھا ، زوار کو اندر آتے دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اپنی نظریں جھکائی گئی تھی۔ اندر آتا زوار ردا کی اس معصوم ادا پر اپنا دل سنبھالتا رہ گیا تھا۔
اپنے عقب سے آتی اس شہزادے کے قدموں کی چاپ سن کر ردا نے چہرہ نیچے کیے آنکھیں زور سے مچی تھیں۔ جیسے جیسے وہ قدم بڑھا رہا تھا ردا کو اپنا دل بےقابو ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
"السلام علیکم۔!" وہ نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر تھوڑے فاصلہ پہ بیٹھ کر گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔ اس کے بولنے پر ردا نے بمشکل اپنی غیر ہوتی حالت پر قابو پایا تھا۔ شرم و حیا سے اسکا چہرہ تپ اٹھا تھا۔ وہ جو بلاجھجھک پٹر پٹر بولتی رہتی تھی آج ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ خود ہی ریموٹ سے اپنا آپ بند کرچکی ہے۔
"و و و ،،، وعلیکم السلام۔!" وہ مشکل سے ہکلاتے ہوئے منمنائی تھی۔ اسکی شرمائی گھبرائی آواز سن کر زوار کچھ حیرت اور کچھ تعجب سے سامنے بیٹھی اپنی بیوی کو دیکھ کر رہ گیا تھا جو آج خلافِ توقع شرما رہی تھی۔ ردا کی شرم و حیا سے وہ خوش ہوکر دلکشی سے مسکرایا تھا۔
"پانی ہو۔؟" زوار نے سر جھکا کر اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نرمی سے استفسار کیا تھا۔
"ج ج جی۔۔۔!" وہ ہکلا کر مبہم انداز میں گویا ہوئی تھی۔
(اف۔۔۔! یا اللہ یہ مجھ سے بات کیوں نہیں ہورہی۔ ہائے آج تو لگتا سچ میں مجھے ہارٹ اٹیک ہوجائے گا دیکھو تو دل ہی قابو نہیں ہورہا ، پاگل بھاگی جارہا ہے۔)
ردا کی بات سنتے ہی زوار نے خاموشی سے پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈھیل کر اسکے سامنے کیا تھا جسے وہ کانپتے ہاتھوں سے تھام کر گلاس لبوں کو لگا گئی تھی۔
"پیچھے ٹیک لگا کر ریلکس ہوجاؤ۔" اسکی ہاتھ سے گلاس واپس لیتے زوار نے نرمی سے اسے پرسکون کرنے کے لیے کہا تھا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی پیچھے ہوکر ٹیک لگا گئی تھی۔
"تو کیا چاہیے منہ دیکھائی میں میری بیوی کو۔؟" وہ دوسرا تکیہ لے کر کہنی کے بل کروٹ لے کر اسکے سامنے نیم دارز ہوکر ، محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
زوار کی نظروں کی تپش سے اسکا نظریں اٹھنا محال ہوا تھا۔ شرم و حیا سے اسکا چہرہ گلکنار ہوا تھا۔ وہ چاہ کر بھی آج اسکی آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہیں کرپا رہی تھی۔ سیاہ گھنیری پلکوں کا اٹھتا گرتا جال زوار کو جکڑ رہا تھا۔
"میری طوطی کی آج بولتی کیوں بند ہے۔" وہ بائیں ہاتھ سے اسکی تھوڑی پکڑ کر ، چہرہ اوپر کرتے بولا تھا۔ ردا نے لمحے بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پھر سے نظریں جھکائی تھیں۔
"ویسے ہی۔"
"خفا ہو۔" وہ جان بوجھ کر اسے بولنے کے لیے اکسانے لگا تھا۔
"نہیں تو۔!" وہ نظریں اوپر کرکے ، نفی کرتی بولی تھی۔
"پھر بات کیوں نہیں کررہی۔؟" وہ مسکرا کر اسکا نرم و گداز ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مستفسر ہوا تھا۔
"کیا بات۔؟" وہ زوار کی پریشانی پر ہلکا سامسکرائی تھی۔ اسے یقین ہونے لگا تھا کہ نازک رشتے کی دوڑ اب مضبوط ہونے لگی ہے۔
"مہندی بہت پیاری ہے۔" وہ اسکے حنائی ہاتھ سے حنا کی خوشبو کی مہک سونگتے بولا تھا ، اسکی اس حرکت پر ردا سٹپٹا کر رہ گئی تھی۔
"ڈارلنگ وائف۔! آپکی منہ دیکھائی۔" زوار اسکی مرمریں کلائی پر دو سونے کے کنگن محبت سے پہنتاتے ہوئے بولا تھا۔
"شکریہ۔" وہ مسکاتی آنکھوں سے کنگن دیکھتی ممنون ہوئی تھی۔ اسے واقعی اپنی منہ دیکھائی بہت پسند آئی تھی۔
"ویلکم ڈارلنگ۔!" وہ مسکرا کر دل پر ہاتھ رکھ کے تعظیماً سرجھکا کر بولا تھا۔ ردا کی غیر ہوتی حالت اب قدرے سنبھل چکی تھی۔
"میری منہ دیکھائی نہیں کرو گی۔؟" زوار نے اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر مسکراہٹ دبا کر پوچھا تھا۔
"جی نہیں ،،، کیونکہ دولہے کی منہ دیکھائی نہیں ہوتی۔" وہ منہ اٹھائے صاف گوئی سے گویا اسکے معلومات عامہ میں اضافہ کرتے بولی تھی۔
"کیوں۔؟" زوار نے تحیر سے اٹھ کر اسے استفہامیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
"کیونکہ ،، کیونکہ اس نے دلہن کی طرح گھونگھٹ نہیں نکالا ہوتا۔" زوار کےسوال پر وہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھنے لگی تھی پھر اچانک فاتح نظروں سے دیکھتے ہوئے ، ردا ایک ادا سے بولی تھی۔
"مگر گھونگھٹ تو تم نے بھی نہیں نکالا تھا۔!" ردا کو اپنے جون میں آتا دیکھ کر وہ محفوظ ہوتا ، معصومیت سے بولا تھا۔ اندر ہی اندر وہ اسکی لوجک پر خوب ہنسا تھا۔
"تو اب آپ میری منہ دیکھائی مجھ سے واپس لیں گے۔؟" اسکی بات سے خائف ہوکر ردا نے اپنا بائیں ہاتھ ، دائیں ہاتھ پر پہنے کنگنوں پر رکھ کر ، منہ بسور کر کہا تھا۔
"نہیں ، مگر ڈارلنگ آپکو مجھے بھی تو منہ دیکھائی دینی چاہیے نا۔" وہ نفی میں سر ہلاتا اسکے پہلو میں بیٹھ کر ، چہرے پر بھرپور مسکینیت طاری کیے بولا تھا۔
"یہ تو میں نے سوچا نہیں۔" زوار کی مسکنینت ، اسکی باتیں ردا کے ننھے دل پر زور سے ٹکڑائی تھیں جس پر وہ شہادت کی انگلی دانتوں میں دبائے افسوس کرتی ، بولی تھی۔
"تو کوئی بات نہیں اب سوچ لو۔!" اسکے تاثرات دیکھ کر زوار نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دباتے ، اسکا ہاتھ پکڑ کر ملتجی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گزارش کی تھی۔
"اب۔! اب تو مارکیٹس بند ہوگئی ہوں گی۔" وہ معصومیت سے اسکی آنکھوں میں جھانکتی ، اسکی بات کے مقصد سے انجان بنی ، افسردہ ہوئی تھی۔
"یار کہاں سے لاتی ہو ایسے جواب ، جو بندہ رومینس کو چھوڑ کر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔" اس کی بات سن کر زوار نے اپنا سر پیٹا تھا۔ حد ہوگئی اب یہ لڑکی اسکی بات کب سمجھے گی۔
"آپ ہماری شادی پر بھی مجھے ڈانٹیں گے۔؟" وہ خفگی سے ہاتھ چھڑواتے ، روٹھے لہجے میں شکوہ کناں ہوئی تھی۔
"ڈانٹا کہاں ہے پریٹی ڈارلنگ ، یہ بندہ بشر تو شکوہ کررہا ہے۔" زوار اپنی روٹھی بیوی کو بازو کے حلقے میں لے کر ، اسکی خفگی بھری آنکھوں میں دیکھتا ، معصومیت سے گویا ہوا تھا۔
"شکوے تو بیویاں کے ہوتے ہیں۔" وہ بائیں بھنو اچکا کر ، خالص بیویوں والے تیور لیے مستفسر ہوئی تھی۔ جس پر زوار اسکو دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"تم نے کبھی سوچا کہ تمہارے پاس کس سوال کا جواب نہیں ہے۔؟"
"آپ پڑھائی کی بات کریں گے تو میں سوجاؤں گی۔!" وہ برا مناتی ، دھمکی دیتی پیچھے ہوئی تھی۔ جس پر زوار نے بروقت اسے مصنوعی آنکھیں دیکھاتے ٹوکا تھا۔
"اف۔! لڑکی کیا کروں میں تمہارا۔"
"آپ بہت برے ہیں۔"
"ہمم یہ تو ہے ، ویسے آج کل سے بھی زیادہ حسین لگ رہی ہو۔!" وہ مسکرا کر اسکے کان کے قریب سرگوشیانہ ہوا تھا۔ اسکا یہ سراپا زوار کے دل کی تہہ و بالا ہلا گیا تھا۔
"زاری۔!" ردا اپنا رخ زوار کی طرف موڑے دھیمے سروں میں بولی تھی۔
"ہمم۔۔؟"
"آپ مجھے چھوڑیں گے تو نہیں۔؟" وہ بولی تو اسکے لہجے میں ایک انجانا سا خوف پنہاں تھا۔
"نہیں بلکل نہیں کیونکہ اس وجود کے بغیر اب میں مکمل نہیں رہا۔ فکر نہ کرو میں نے جو یہ بےیقینی پیدا کی ہے اسے میں ہی یقین میں بدل کر ، تمہیں اس خوبصورت رشتے کا اعتماد دلاؤں گا۔ کیونکہ میری دھڑکنیں اب تمہارے نام سے ، ہمارے رشتے سے دھڑکتی ہیں۔" زوار نے اسکے چہرے کو ہاتھوں کی اوک میں لے کر ،اس کی پیشانی پہ اپنے لمس سے مسیحائی کرتے کہا تھا۔ وہ محبت کا یہ امرت ، عشق کا یہ گیان ان تین مہینوں میں وقتاً فوقتاً اس کی سماعتوں میں گھولتا رہا تھا۔
____________________________________________
زندگی کے شب و روز میں گھلتی زوار کی محبت و چاہت کے بےپناہ رنگ انکی زندگی کو مزید حسین کرتے جارہے تھے۔ روٹھنا ماننا اور لاڈ ان کے رشتے میں وقت کے ساتھ ساتھ وابستگی کو مزید گہرا کرتا جارہا تھا۔
زوار کی اس قدر توجہ سے وہ بےیقینی کی کیفیت سے نکلنے لگی تھی۔ اپنا اعتماد بحال ہوتے ہی وہ کھل کے جینے لگی تھی۔ اس نے ثابت کیا تھا کہ عورت اگر شاخ کی نرم ٹہنی سے منسوب کی گئی ہے تو اس میں غلط کچھ نہیں ہے۔
زوار نے آہستہ آہستہ اسے اپنے رنگ میں رنگا تھا۔ اور وہ نرمی سے خود بخود اسکے رنگ میں رنگتی چلی گئی تھی۔ وہ جو پہلے پہل اس سے غافل رہتی تھی آہستہ آہستہ اسے ، اسکی طبیعت ، اسکی ضرویات کو جاننے لگی تھی۔ اسکا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے لگی تھی۔
شروع شروع میں زوار اسکو جگائے بغیر آفس چلا جاتا مگر دھیرے دھیرے وہ ناشتہ پہ اسکا ساتھ دینے کے لیے اٹھتے اٹھتے ، اسکی تیاری میں بھی مدد کرنے لگی تھی۔ یہ سب زوار نے اسے نہیں کہا تھا وہ خود سمجھی تھی کہ رشتوں میں ایک دوسرے کا کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی بلکہ یہ دوسرے کو آپکی موجودگی کے احساس کے ساتھ ساتھ آپکی نظر میں اسکی اہمیت بھی واضح کرتی ہے۔
زوار نے نسرین کو اکیلے نہیں رہنے دیا تھا۔ اب وہ انکے ساتھ رہتی تھی۔ وہ خود بھی ردا کو بدلتے دیکھ کر حیران اور خوش ہو ئی تھی۔
____________________________________________
ردا نے اسے صبح سے کوئی پانچ دفعہ یاد کروایا تھا کہ آج جلدی گھر آنا مگر پھر بھی وہ لیٹ آیا تھا۔ جس پر وہ گول گپے کی طرح منہ پھلا کر ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔ زوار نے بارہا اسے وقت پر نہ آنے کی وجہ بتائی تھی مگر پھر بھی وہ خفا تھی۔ پچھلے دو دنوں سے اسکا دل آئس کریم کھانے کو کررہا تھا مگر زوار آجکل روز ہی دیر سے آرہا تھا۔
"یعنی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔" وہ اسکا ہاتھ تھام کر کچھ پیار سے کچھ گھور کر دیکھتے بولا تھا۔
"بھوت،،،،، بھوت ہوں گے آپ ، آپکے بچے۔" ایک تو دیر سے آنے پر وہ خفا تھی اب بھوت کہنے پر تو وہ بدک ہی پڑی تھی اس لیے شاک کی حالت جو منہ میں آیا وہ بولی گئی تھی۔
"ویسے آپس کی بات ہے۔ میرے اور تمہارے بچے ایک ہی ہوں گے کسی کو بتانا نا۔" بچوں کا سن کر زوار نے بمشکل اپنا قہقہہ دبا کر اسکا پھولا ہوا منہ دیکھ کر رازدانہ طور پر کہا تھا۔
"میں تو سب کو بتاؤں گی۔" وہ اسکا غیر سنجیدہ انداز دیکھ کر چڑ کر بولی تھی۔
"مجھے پتہ تھا اسی لیے تو کہا کہ کسی کو بتانا مت۔" زوار نے اسکا ہاتھ دبا کر ہنستے ہوئے کہا تھا۔ جس پر وہ اسکا اسکو پیچھے دھکیلتی پیر پٹختی واک آؤٹ کرگئی تھی۔ زوار تو اسکا انداز دیکھ کر مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا۔
_____________________________________________
"مبارک ہو ، آپکا بیٹا ہوا ہے۔" ڈاکٹر کے یہ الفاظ تھے کہ جینے کی نئی امید ، احان نے سنتے ہی ایک گہرا سانس لیا تھا۔ آج دوپہر میں ساریہ کی طبیعت بگڑی تھی جس پر احان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ جب سے ساریہ اندر کمرے میں گئی تھی وہ ایک منٹ کے لیے نہیں بیٹھا تھا۔ سکون ہوتا بھی کیسے اسکی متاع جان اندر اپنی جان سے کھیل رہی تھی۔
"اللہ تیرا شکر ہے ، احان بہت بہت مبارک ہو میری جان۔!" وہ جو ڈاکٹر کے اپفاظ سنتے ہی سکون سے آنکھیں موند کر دل میں ہی اپنے رب کا شکر گزار ہورہا تھا پاس سے آتی غزالہ کی آواز سن کر ہوش میں آیا تھا۔ خوشی ، طمانیت کے احساس سے اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔ وہ خوشی سے غزالہ کے گلے لگا تھا۔
"میری بیوی کیسی ہے۔؟" غزالہ سے ملتے ہی وہ لجاحت سے پاس کھڑی نرس سے مستفسر ہوا تھا۔
"وہ ٹھیک ہیں ، ابھی انہیں روم میں شفٹ کردیں گے تب آپ مل لیں۔" نرس مخصوص انداز میں مسکراتے بولی تھی۔ جس پر وہ سر ہلا کر اپنی آنکھیں صاف کرکے ہاشم کے گلے لگا تھا۔ آنسو خود بخود اسکی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔
_____________________________________________
"ہائے ماشاءاللہ یہ کتنا پیارا ہے ، کتنا کیوٹ۔! او میرا گولو ، میرا مولو ، پیالا سا بےبی۔" سب اس وقت ہسپتال کے کمرے میں موجود ساریہ اور اسکے بیٹے کو دیکھنے آئے تھے۔ ردا تو گول مٹول باوے جیسے بچے جو دیکھ کر اسکی دیوانی ہوگئی تھی۔ نیلے کمبل میں لپیٹے بچے کو گود میں کے کر وہ خوشی سے اسے چٹاچٹ چومتے ہوئے بولی تھی جبکہ اس کے انداز پر سب مسکرا اٹھے تھے۔
احان تو مسلسل ساریہ کو دیکھ کر اسکا مشکور کورہا تھا جس نے اسے اتنا پیارا تحفہ دیا تھا۔ زوار احان کی نظروں میں اپنی بہن کی قدر دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔
غزالہ اور ہاشم تو بچے کو گود میں لینے کے لیے بچوں کی طرح خفا ہورہے تھے۔ دونوں کی خوشی دیدنی تھی۔ نسرین تو انکی خوشی دیکھ کر بار بار انکی نظر اتار رہی تھی۔
"پھپھو کی جان کہاں ہے۔؟" عبیرہ اندر آتے ہی خوشی سے بولی تھی۔ زین اور وہ ابھی ہسپتال آئے تھے۔ اسکی خوشی دیکھ کر احان جو ابھی اپنے بیٹے جو گود میں لے کر بیٹھا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ عبیرہ خوشی سے احان کے گلے لگتی ، بےصبری سے بچے کو گود میں لے گئی تھی۔ اور دیوانہ وار اسے چومنے لگی تھی۔ عرصے بعد انکے گھر کوئی ننھا مہمان آیا تھا۔ عبیرہ خود بھی ماں کے رتنے پہ فائز ہونے والی تھی مگر پھپھو بننے کی خوشی اسے بہت زیادہ تھی۔
_____________________________________________
موسم بدل رہا تھا ، ہوا میں اب خنکی بڑھنے لگی تھی۔ سردیوں کی دیوانی ردا نے رات کے بارہ بجے زوار کو بڑے لاڈ سے چھت پر جاکر کافی پینے کے لیے منایا تھا۔ کل سنڈے تھا اس لیے وہ جلد ہی راضی ہوگیا تھا۔
"اب اگر تم نے ایک دفعہ بھی اور چونٹی کاٹی تو میں،،،، میں نے بولنا نہیں ہے پھر۔" وہ رات کے اس پہر چھت پر بیٹھ کر ، ردا کی فرمائش پر کافی پے رہے تھے۔ زوار ردا کی ناختم ہونے والی باتوں پر دل و جان سے ہمہ تن گوش تھا۔ مگر اب باتوں کے دوران جیسے جیسے اسکے چونٹی کاٹنے کے سلسلے بڑھ رہے تھے ویسے ویسے زوار کے وجیہہ چہرے کے زوایے بھی بدل رہے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔ جبکہ اسکی بات پر ماہ کامل کے چاند سے میل کھاتا اسکا دلنیشین چہرہ لٹکا تھا۔
"یہ کیا بات ہوئی شوہر تھوڑی ناراض ہوتے ہیں بیوی ناراض ہوتی ہے۔" وہ اب بھی ایسی تھی ساری بات سے اپنے مطلب کی بات کو گرفت میں لیتی تھی۔ اسکی قابلِ گرفت بات کو سن کر زوار نے بچوں کی طرح معصوم منہ بنا کر اسکے چاند کی سفید روشنی میں دمکتے چہرے کو دیکھا تھا۔
"چلو جی یہ کون سی کتاب میں لکھا۔" وہ برہم آنکھوں سے اسکو دیکھتے ہوئے برا مناتے ہوئے مستفسر ہوا تھا۔
"ایک تو آپکی ہر بات پڑھائی سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوتی ہے۔" وہ ماہ کامل کی رات ، جاذب شوہر اور کافی کے امتزاج سے بنے اس رومانوی ماحول میں پڑھائی کی بازگشت کو گھلتا دیکھ کر سخت بدمزہ ہوئی تھی۔
"تم ذرا بھی اچھی اسٹوڈنٹ نہیں ہو۔" وہ نفی میں سر ہلاتا تاسف میں بولا تھا۔
"بیوی تو اچھی ہوں نا۔" ردا نے جواب بےحد برجستگی کے ساتھ دے کر اپنی جھیل سی استفہامیہ نگاہیں اسکے چہرے پر مرکوز کی تھیں ، اسکی آنکھوں میں اقرار کی چاہ بسی ہوئی تھںی۔ مگر یہ تو ہر صدی کا رواج ہے کہ مرد فطرتاً کنجوس ہو یا نہ بیوی کی تعریف میں غریب کے ساتھ ساتھ خاصا کنجوس بھی ہوتا ہے۔ اور اب بھی یہی ہوا تھا۔
"بہت خوب۔" وہ اس پہر میں اپنے ارد گرد سرد ہوا کے جھونکے میں گہری سانس اس میں انڈھیل کر چڑانے والے انداز میں بولا تھا۔
"آپ مزاق بنارہے ہیں۔؟" وہ چشمگین نگاہوں سے گھور کر بولی تھی۔
"میری مجال۔؟" وہ رخ اسکی طرف موڑ کر بھنوئیں سوالیہ انداز میں اچکائے بولا تھا۔
"چھوڑ کر چلے گئے تھے۔" وہ خفگی سے ناک چڑھائے طنزیہ بولی تھی۔ وہ جب بھی خفا ہوتی تھی ، آخر میں اسے یہ طعنہ ضرور دیتی تھی۔ جس پر زوار اسکا منہ دیکھ کر رہ جاتا تھا۔
"یار بس بھی کردو اب یہ طعنہ دینا۔" زوار نے اسے دیکھتے ہوئے روہانسی شکل بنائی تھی۔ جس پر وہ کھلا کھلا کر ہنسی تھی۔ زوار نے غور کیا تھا کہ جتنی جلدی وہ خفا ہوتی ہے اتنی ہی جلدی وہ مان بھی جاتی تھی۔
_____________________________________________
نسرین کے ہسپتال سے فون کرتے ہی زوار سب کچھ چھوڑ کر بھاگتے ہوئے ہسپتال آیا تھا۔ آج صبح زوار کے جاتے ہی ناشتہ کرتے وقت ردا کی اچانک طبیعت خراب ہوتے ہی نسرین گھبرا کر اسے ہسپتال لائی تھی۔ اسکے چیک اپ کے دوران نسرین زوار کو فون کرچکی تھی۔
ابھی وہ اور نسرین باہر ٹہل ہی رہے تھے کہ ڈاکٹر نے باہر نکل کر انہیں خوشخبری سنائی تھی۔ جس پر وہ دونوں خوشی سے نہال ہوئے تھے۔ وہ دونوں دل ہی دل میں اللہ کے شکرگزار ہوئے تھے۔ نسرین اسے سے مل کر اسے مبارکباد دے کر شکرانے کے نفل ادا کرنے چلی گئی تھی۔ ردا کا تو شرم کے مارے برا حال تھا۔ وہ زوار سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی۔ آج دوسری دفعہ اسکی بولتی بند ہوئی تھی۔
"مبارک ہو ڈارلنگ۔!" وہ مسکرا کر چلتا ہوا اسکے قریب آکر لہجے میں محبت سموئے بولا تھا۔ جبکہ ردا شرماتے ہوئے مسکرا کر منہ کا رخ دوسری طرف کرگئی تھی۔
____________________________________________
زوار اب مزید اسے توجہ دینے لگا تھا۔ اسکے کھانے پینے کا ، اٹھنے بیٹھنے کا خیال رکھنے لگا تھا۔ اسکے موڈ سوئنگز کو بھی ہنس کر برداشت کرتا تھا۔ جیسے جیسے دن قریب آرہے تھے وہ اسے بچوں کی طرح ٹریٹ کرنے لگا تھا۔ ردا تو اسکا یہ انداز ، توجہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
وہ ردا کو کے کر نیچے شائستہ کے کمرے میں شفٹ ہوچکا تھا۔ بہت زیادہ ضروری کام کی وجہ سے وہ ناچاہتے ہوئے بھی دو دن کے لیے اسلام آباد گیا تھا۔ مگر وہ ردا کو بےتحاشا نصیحتیں کرنا نہیں بھولا تھا۔ ردا تو اسکے جانے کا سن کر ہی بھڑک اٹھی تھی اور اس سے بول چال بھی بند کرچکی تھی۔ جس پر نسرین نے اسے بہت ڈپٹا تھا۔
اور وہ زوار کو بھی جانے سے پہلے مطمئن کرچکی تھی کہ وہ ردا کا خیال رکھے گی جس پر وہ کچھ پرسکون ہوا تھا۔ وہاں جاکر بھی وہ ہر دوگھنٹے بعد فون کررہا تھا۔ کبھی تو ردا اسے یاد کرنے کی وجہ سے فون اٹھا لیتی مگر کبھی غصے سے کاٹ دیتی۔
ابھی وہ بےچین ہوکر بیڈ پر چت دارز تھی ، نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اس لیے وہ بے مقصد کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی کہ زوار مع سامان اندر آیا تھا۔ جسے دیکھ کر وہ خفگی سے نظروں کا رخ بدل گئی تھی۔ زوار اسکا انداز دیکھ کر مسکرایا تھا اسے پتہ تھا کہ وہ ایسے ہی کرے گی۔ وہ سامان سائیڈ پر رکھتا اسکے قریب آکر ، ردا کی دائیں بازو سیدھی کرکے ، اس پہ سر رکھ کر نیم دراز ہوا تھا۔ ردا تو اسکی حرکت پر اسکو گھور کر دیکھنے لگی جس پر زوار نے خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے آنکھ دبائی تھی۔ بس اس کی برداشت یہاں تک تھی۔ اور وہ چڑتے ہوئے اسی بازو والے ہاتھ سے اسکے شانے پر زور سے چٹکی بھر گئی تھی۔
"آئی ،،، کتنی ظالم بیوی ہو۔ ایسے کرتے ہیں شوہر کا استقبال۔؟" وہ جو پیار اسے تک رہا تھا تڑپ کر اٹھ بیٹھا تھا۔
"بات نہیں کریں مجھ سے۔" وہ خفگی سے کہتی پہلو بدل گئی تھی۔
"پریٹی ڈارلنگ ابھی آپکو دیکھتے ہیں۔" وہ اسکی پشت دیکھ کر بولتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اسکا ارادہ پہلے کپڑے بدلنے کا تھا۔
"کھانا لاؤں۔؟" وہ جو ابھی فریش ہوکر شب خوابی کا لباس پہنے باہر آیا تھا۔ ردا اسکو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ اب اسکا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔
"ہممم ، چلو ساتھ میں چلتے ہیں کچن۔" وہ اسکے چہرے کو دیکھتے مسکرا کر بولا تھا۔ پھر اسے ساتھ لے کر کچن میں آیا تھا اور اسکو کرسی پر بیٹھا کر خود ہی کھانا گرم کرنے لگا تھا۔ کھانا میز پر لگا کر خود ہی اسکے لیے پلیٹ میں نکالنے لگا تھا۔ جس پر ردا تاسف سے اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔
"اب پیزا نہیں کھانا۔" وہ اسکو دیکھتے نرمی سے بولا تھا۔ کیونکہ ردا کو ہر دوسرے دن پیزا کھانا ہوتا تھا۔ زوار جانتا تھا اب بھی پیزا کھانے کے چکر میں اس نے رات کا کھانا نہیں کھایا ہوگا۔
"اللہ کم از کم کنجوس شوہر تو کسی کو نہ دے۔" وہ سامنے پڑی پلیٹ دیکھ کر سخت بدمزہ ہوتے بولی تھی۔ جس پر زوار نے اسکو دیکھ کر مسکراہٹ دبا کر کہا تھا۔
"آمین۔"
"زاری۔! زرا نہیں اچھا یہ۔" ردا نے سامنے چالوں والی پلیٹ دیکھ کر روہانسی شکل بنائی تھی۔
"کوئی بات نہیں ، میڈیسن سمجھ کر کھالو۔" زوار اپنا چمچ پلیٹ میں رکھ کر ، اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے اسے سمجھانے کے لیے بولا تھا۔ ڈاکٹر نے اب سختی سے منع کیا تھا پیزا کھانے سے اس لیے وہ اسے پیار سے قائل کرنے لگا تھا۔
"بہت برے ہیں آپ۔" وہ برا منہ بناتی ہاتھ ہٹا کر بےدلی سے کھانے لگی تھی۔ پیزے کی بھوک کی وجہ سے چاول بمشکل اس کے حلق سے نیچے گئے تھے۔ مگر وہ زوار سے پھر سے خفا ہوگئی تھی۔ اس کیے کھانا کھاتے ہی خاموشی سے اٹھ کر کمرے میں آگئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد زوار بھی دودھ کا گلاس ہاتھ میں لے کر اسکے پیچھے آیا تھا۔ اور خاموشی سے اسکے سامنے کیا تھا۔ وہ اس سب کے بعد اسے منانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
"زاری پلیز۔ میرا ذرا دل نہیں ہے ، اسے پیچھے کرلیں مجھے پہلے ہی بہت درد ہورہی ہے۔" وہ زوار کو دیکھتے ہوئے بےدلی سے بولی تھی۔ درد کے تاثرات اسکے چہرے سے عیاں ہورہے تھے۔
"کیا ہوا ہے ڈاکٹر کے پاس چلیں۔" وہ جلدی سے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر ، پریشان ہوکر سنجیدگی سے بولا تھا۔
"زوار۔۔۔!" درد کی شدت سے وہ یکدم چیخی تھی۔ اسکی حالت دیکھ کر تو زوار کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ اس نے جلدی سے نسرین کو آواز دے کر ہسپتال کے لیے گاڑی نکالی تھی۔
مسلسل بےچینی سے چکر کاٹ کاٹ کر وہ تھک چکا تھا مگر بیٹھنے کو ابھی بھی دل نہیں تھا۔ نسرین راہداری میں لگی کرسیوں پر بیٹھی اپنی بیٹی کے لیے دعائیں کررہی تھی۔
"مجھے بے بی چاہیے۔" وہ باہر ہونے والی گفتگو کے بعد سے بضد ہوئی تھی۔ زوار جو پہلے ہی اسکی باتوں پر غصے سے جھنجھلایا ہوا تھا ، تنک کر بولا تھا۔
"بنی تو ہوئی ہو میری اماں اور کیا کرنا ہے۔"
"مجھے اتنا گندہ بچا نہیں لینا۔" وہ خفگی سے جومنہ میں آیا تھا کہہ گئی تھی۔
"گندی مما کو گندا بچہ ہی ملتا ہے۔" زوار تو اس کے منہ سے اپنے لیے جھڑتے پھول دیکھ کر دوبدو بولا تھا۔
ردا کی باتیں مسلسل اسکے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ اسکی معصوم باتوں کو یاد کرکے زوار کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔ اتنے میں ہی کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ اور ڈاکٹر باہر آئی تھی۔
"مبارک ہو ، آپکا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئی ہے۔" ڈاکٹر نے مخصوص انداز میں اسے یہ خوشخبری سنائی تھی۔ خوشی سے زوار کے آنکھوں سے آنسو نکلے تھے۔ اتنے میں غزالہ ہاشم ، احان اور ساریہ بھی آگئے تھے۔
"مبارک ہو بھائی بہت بہت۔۔۔!" ساریہ سنتے ہی نم آنکھوں سے اسکے گلے لگی تھی۔ ساریہ کے گلے لگتے ہی زوار خوب رویا تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ شائستہ کی وجہ سے رو رہا تھا۔ غزالہ نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو الگ کیا تو زوار اس کے گلے لگ کر بھی رونے لگ تھا۔ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی میں اپنے ماں باپ کو شدت سے یاد کررہا تھا۔
غزالہ نے کچھ توقف کے بعد الگ کرکے اسکے آنسو صاف کیے تھے۔ اور نفی میں سر ہلا کر اسے رونے سے منع کیا تھا۔ جس ہر وہ آنسو صاف کرتا ہاشم کے گلے لگا تھا۔ پھر ہر طرف مبارک باد کی سدائیں بلند ہوئی تھیں۔
_____________________________________________
وہ کالے ٹریک سوٹ میں ملبوس ، پیشانی پر بکھرے بالوں کے ساتھ اسکے بیڈ کے قریب کرسی پر بیٹھا ، سوئی ہوئی ردا کو دیکھ رہا تھا۔ رات کی وجہ سے باقی سب واپس چلے گئے تھے مگر زوار اور نسرین وہیں تھے۔ ردا کو سوتا دیکھ کر نسرین نفل پڑھنے چلی گئی تھی۔ جبکہ زوار کافی دیر اپنے ننھے ننھے بچوں کو پیار سے دیکھتا رہا تھا۔ پھر نسرین کے جاتے ہی وہ ردا کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ جس نے اسے دو انمول تحفے دیے تھے۔
زوار ٹکٹکی باندھ کر ردا کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ، ماں بننے کے بعد اسکا چہرہ زوار کو مزید اپنے سحر میں جکڑ رہا تھا۔ وہ مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا کہ ردا کی پلکوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی تھی۔ جس ہر وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہو کر اس پر جھکا تھا۔
"ٹھیک ہو۔؟" زوار کی بےچینی ، اسکی پروا اسکے لہجے میں پنہاں تھی۔ اس نے بہت مشکل سے آنکھیں کھولی تھیں۔ زوار کو یوں پریشان دیکھ کر وہ ہلکا سامسکرائی تھی۔
"جی ، میرے بےبی۔؟"
"کاٹ میں ہیں ، میں لاتا ہوں۔" وہ نرمی سے بول کر کاٹ کی طرف گیا تھا۔ پہلے بیٹی کو اٹھا کر وہ آرام سے اسے ردا کی گود میں دے کر اپنے بیٹے کو نرمی سے پکڑ کر اسکے قریب بیٹھا تھا۔
"تھینک یو سو مچھ وائفی۔" وہ ردا کو اپنی بیٹی کے چھوٹے چھوٹے سرخ و گلابی ہاتھ چومتے ہوئے دیکھ کر مشکور ہوا تھا۔
جس پر وہ سامنے بیٹھے اپنے شوہر جو کہ اسے مکمل کرچکا تھا ، کو دیکھ کر آسودگی سے مسکرائی تھی۔ وہ اپنے رب کی بےانتہا شکرگزار ہوئی تھی جس نے اس کے نصیب میں زوار جیسا شوہر لکھا تھا۔
چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہُوئی آنکھیں اُس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوتی ہُوئی سانسیں اُس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں، شامیں اُس کی
دھیان میں اُس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ مہتاب کی، یادیں اُس کی
رنگ جوئندہ وہ، آئے تو سہی!
پُھول تو پُھول ہیں، شاخیں اُس کی
فیصلہ موج ِ ہَوا نے لکھّا!
آندھیاں میری، بہاریں اُس کی
خود پہ بھی کھلتی نہ ہو جس کی نظر
جانتا کون زبانیں اُس کی
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اُس کی
دُور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مُجھ کو تھامے ہُوئے باہیں اُس کی
(پروین شاکر)
ردا آج پہلی بار جذبے لٹاتی نظروں سے زوار کو دیکھتے ہوئے اپنی چاہت کا اعتراف کررہی تھی۔ زوار کی محبت کی پھوار پر وہ پور پور بھیگ کر اپنا آپ اسکے سپرد کرچکی تھی۔
_____________________________________________
"حان۔!" ساریہ نے احان کو گھورتے ہوئے سرگوشی کی تھی۔ جب سے فہد پیدا ہوا تھا وہ طوطے کی طرح اسے یہ بات رٹا رٹا کر تھک گئی تھی کہ فہد چھوٹا ہے اس لیے دروازہ زور سے کھولنا اور بند کرنا چھوڑ دیں مگر احان کو یہ بات دونوں حرکتیں کرکے یاد آتا تھا۔ آج بھی یہی ہوا تھا۔ وہ زور سے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا تھا۔ ساریہ جو ابھی مشکل سے فہد کو سلا کر بیٹھی تھی جھنجھلا اٹھی تھی۔
"سوری۔" احان نے کان پکڑتے اشارہ سے کہا تھا۔ جس پر وہ اسے تاسف میں دیکھ کر رہ گئی تھی۔
"کافی۔" فہد کو سلا کر وہ احان کے فریش ہونے سے پہلے اسکے لیے کافی بنانے کے لیے کچن میں گئی تھی۔ احان فریش ہوکر فہد کو چوم کر بالکونی میں آیا تھا۔
"وقت مل گیا میرے لیے۔" وہ کافی کا مگ پکڑتے شکوہ کناں ہوا تھا۔ جب سے فہد ہوا تھا اس کا یہ شکوہ اسکے لبوں سے ہٹنے سے انکاری تھا۔ کیونکہ فہد بہت شریر بچہ نکلا تھا اور ساریہ ہر وقت اسکے پیچھے بھاگتی رہتی تھی۔
"آپ دونوں نے مجھے تنگ کرکے رکھا ہوا ہے۔" ساریہ اسکے قریب بیٹھتے ہوئے منہ بنا کر بولی تھی۔
"یار ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی ، ہمارا فہد کس پر چلا گیا ہے میں تو اتنا شرارتی نہیں تھا۔" وہ کافی کا مگ پکڑ کر تاسف سے بولا تھا۔ جبکہ ساریہ تو اسکی بات سن کر اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔
"میرا بیٹا آپ سے بہت زیادہ شریف ہے۔"
"میرا بیٹا مطلب ، میں کیا اب تمہارا سوتیلا شوہر ہوگیا ہوں۔؟" احان نے ساریہ کی بات سن کر خفگی سے کہا تھا جس پر وہ مسکراہٹ دبا کر مغرور ہوئی تھی۔
"پتہ نہیں۔!"
"دئیر وائفی۔! آپ زرا بھی اچھی بیوی نہیں ہیں۔" وہ اسکے تاثرات سے محفوظ ہوتا بولا تھا۔
"کوئی بات نہیں گزرا کرلیں۔" وہ جان بوجھ کر کندھے اچکا کر بولی تھی۔
"گزرا تو آپ کررہی ہیں میں تو بہت خوش ہوں۔" وہ مسکاتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوا تھا۔ جس پر ساریہ آسودگی سے مسکرائی تھی۔ محبت کا یہ امرت ہر وقت اسکا شوہر اسکے کانوں میں گھولتا رہتا تھا۔ جس پر وہ بےحد شکرگزار تھی۔
"آئی لو یو حان۔"
_____________________________________________
چھے سال بعد۔!
‏‎
"مما۔!" عبدالله نے پیار سے ردا کو بلایا تھا۔
"جی مما کی جان۔" اس نے ہیل میں قید پاؤں کو آزاد کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔ وہ ابھی ساریہ کے بیٹے فہد کی سالگرہ سے واپس آئے تھے۔
"آئی لو یو" آبی نے معصومیت سے ردا کے چہرے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
"آئی لو یو ٹو مما کی جان ،،، میرا پیارا بلا۔" ردا نے اسکے بال بگاڑتے ہوئے ہوئے کہا تھا۔
"مما۔!" عبداللہ نے اسے دیکھتے ہوئے پھر سے پکارا تھا۔
"جی بولو، کیا چاہیے میرے بلے کو جو مکھن لگایا جارہا ہے۔" ردا نے اسکے گال پیار سے کھینچے پوچھا تھا۔
"مما مجھے نا آپ جیسی وائف چاہیے۔" آبی نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بم پھوڑا تھا۔
"ہیں۔۔۔ کیا کہا؟" ردا نے حیرت سے اپنے سپوت کو دیکھا تھا۔ جو ہر آن اسے حیران کرنے پہ تلا رہتا تھا۔
"مما پلیز نا، آپ لا دو مجھے بھی میری اپنی والی وائف۔" آبی نے بڑے لاڈ سے کہا تھا جیسے بیوی نہیں کوئی گیند چاہیے تھی۔
"میری جان ابھی آپ چھوٹے ہو۔ ابھی بس پڑھو۔ جو صحیح سے نہیں پڑھتا نا پھر کوئی بھی لڑکی اس سے شادی نہیں کرتی۔" ردا نے اسے پیار سے اسکے بال بناتے اسے ٹالنا چاہا تھا۔
"مما میں نا اسے منالوں گا آپ لاؤ تو۔" آبی نے روہانسی صورت بناتے ہوئے کہا پھر سے کہا تھا۔
"کیسے مناۓ گا میرا بلا؟" ردا نے اسکی شکل دیکھ کر مسکراتے ہوئے اسکے گال کھینچ کر پوچھا تھا۔
"میں نا اسے اپنے ٹوائز دوں گا۔ اسکے ساتھ باتیں کروں گا اور پھر جب ہم سکول سے واپس آئیں گے تو میں اسکو آئس کریم بھی کھلاؤں گا۔" آبی نے اپنے معصوم خوابوں کا نقشہ اپنی ماں کے گوش گزار کیا تھا۔
"بھائی آپ نے مجھے تو کبھی اسکول سے واپس آتے آئس کریم نہیں کھانے دی تھی۔" زروہ جو کب سے بیڈ پر بیٹھی اپنے بھائی کو سن رہی تھی اسکی آخری بات سن کر حیرت سے شکوہ کرنے لگی تھی۔ جو روز واپسی پہ اسکو آئس کریم کھانے نہیں دیتا تھا۔
"ہاں تو وہ میری وائف ہوگی نا۔" آبی نے جلدی سے زروہ کو اسکی غلطی کی نشان دہی کروائی تھی۔ ردا تو اپنے بچوں کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔
"مما آپ نہ لا کے دو اسے۔" زروہ نے اپنے طوطا چشم بھائی کو دیکھ کر کہا تھا۔
"مما پلیز نا۔" آبی اسکو نظر انداز کرکے اپنی بات جاری رکھی تھی۔ جس پر ردا اسے گھور کر رہ گئی تھی۔
"اچھا بس چلو چینج کرو اور سونے کے لیے لیٹو۔" ردا نے اسے آنکھیں دکھائی تھیں۔ مگر وہ ویسے ہی منہ بسور کر کھڑا تھا۔
"ابھی تک چینج نہیں کیا آپ دونوں نے۔" زوار جو باہر سے ابھی فون سن کر آیا تھا ان دونوں کو ویسے کھڑا دیکھ کر بولا تھا۔ جس پر عبداللہ مسکراتے ہوئے اسکی طرف آیا تھا۔ تاکہ اپنی خوائش اسے بتا سکے۔ ردا تو اسکی ڈھٹائی دیکھ کر حیران تھی۔
"بابا۔"
"جی بابا کی جان۔!" وہ آبی کے گال کو زور سے چوم کر بولا تھا۔
"مما کو کہیں نا مان جائیں۔" وہ معصوم منہ بنا کر زوار کے سامنے کھڑا تھا۔ جس پر زوار اسکے سلکی بال خراب کرتا ردا کو بھنوئیں اچکا کر پوچھتے ہوئے ، زروہ کو گود میں لے کر لاڈ کرنے لگا تھا۔
"بابا ، بھائی کو اپنے والی وائف چاہیے۔" اس سے پہلے کہ ردا کچھ بتاتی زروہ معصومیت سے زوار کو دیکھتے بولی تھی۔
زروہ کی بات سن کر اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔ جبکہ ردا نفی میں سر ہلاتی اپنی جیولری اتارنے لگی تھی۔
"اسکو کیا ہوا ہے۔" زوار نے شرماتے ہوئے آبی کو دیکھ کر تشویش سے ردا سے پوچھا تھا۔
"اسکی بہت دنوں سے ٹیونگ نہیں ہوئی ، مجھے لگتا ہے آج کروا کے سونا ہے اس نے۔" ردانے مڑ کر عبداللہ کو تنبیہی نظروں سے گھورا تھا۔
"میری جان ابھی آپ پڑھ لو ، پھر کرلینا۔" ردا کو غصے میں دیکھ کر زوار نے اپنے بیٹے کو پچکارا تھا۔ مگر آبی تو اپنی امی کی گھوری کی پرواہ کیے بغیر اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا۔
"نہیں بابا پلیز۔"
"یار کیا ہوگیا ہے ، اب میں نہ سنوں۔" ردا کے بگڑتے تیور دیکھ کر زوار نے سختی سے اسے گھرکا تھا۔ جس پر آبی منہ بنا کر بولتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
"اوکے بابا۔"
"چلو پرنسس آپ بھی چینج کرو۔" زوار نے زروہ کے گلابی گال چومتے اسے گود سے اتارا تھا۔
"اوکے بابا۔ پھر میں آج آپ کے ساتھ سوؤں گی۔" وہ لاڈ سے کہتی ، زوار کو دیکھنے لگی تھی۔
"اچھا میری ڈول ، چلو ہری اپ جلدی سے جاؤ۔" زوار نے مسکراتے ہوئے اسکا دوسرا گال چوما تھا۔
بچوں کے جاتے ہی وہ سجی سنوری اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ان چھے سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ انکا رشتہ مزید گہرا ہوا تھا۔
"ہمم تو پڑیٹی ڈارلنگ کیا کہہ رہی تھیں آپ کہ میں اب آپکو وقت نہیں دیتا۔" زوار نے اسکو پکڑ کر اپنے پاس کرتے مسکراہٹ دبا کر پوچھا تھا۔ وہ جو ساریہ سے شکوہ کرکے آئی تھی زوار نے صاف صاف اس بارے پوچھا تھا۔
"بلکل۔!" وہ زوار کی آنکھوں میں دیکھتے ایک ادا شاندار سے بولی تھی۔ اسکی اداؤں پر آج بھی زوار اپنا دل سنبھالتا رہ گیا تھا۔
"آہاں ،،، تو بتائیے پھر کہ یہ بندہ بشر کیسے وقت دے۔"
"بندے بشر نے شادی کرلی مگر یہ نہیں پتہ کہ بیوی کو وقت کیسے دیتے ہیں۔" وہ اپنے نازک ہاتھوں سے ہلکا سا مکا اسکے چوڑے سینے پر مارتی ، بمشکل مسکراہٹ روکے آنکھیں دیکھا کر بولی تھی۔ وہ مسکراتا ہوا پھر سے اسے اپنے مقابل کھڑا کرکے اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لے گیا تھا۔
"ویسے عبداللہ بلکل تم پہ گیا ہے۔ تمہاری طرح اسے بھی شادی کا بہت شوق ہے۔" وہ دھیمی جان لیوا مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اسے چھیڑنے والے انداز میں بولا تھا۔ شرارتی نگاہیں اسکے سراپا کا طواف کررہی تھیں۔
"مت بھولیں کہ ٹائی کی ناٹ میرے ہاتھ میں ہی ہے۔" وہ جو بڑے لاڈ اور استحقاق سے اسکے قریب کھڑی ٹائی سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی زوار کی بات سن کر ، اسکی آنکھوں میں رقصاں شرارت دیکھ کر ٹائی کی ناٹ کو ہلکا سا کھینچتے ہوئے ، بائیں بھنو اچکا کر دھمانے والی انداز میں بولی تھی۔
"پریٹی ڈارلنگ۔! یہ بندہ سارے کا سارا تمہارا ہے۔" وہ مسکرا کر اپنے دونوں بازو اسکے کندھوں پر رکھ کر ، اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ، گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔
"ہنہہ میرا۔ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔۔۔" وہ منہ بناتے ، اسکے حصار کی چادر میں ہی طنزیہ ہوئی تھی۔ جس پر زوار اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"خبرار جو یہ طعنہ دیا۔ اب تو بس کردو ،،،، دو بچے ہوگئے ہیں۔" وہ اپنی بیوی کے طعنے پر سخت بدمزہ ہوکر بدک کر پیچھے ہوتے اسے متنبہ کرکے آخر میں روہانسا ہوا تھا۔
"تو میں کونسا جھوٹ بولتی ہوں۔" وہ گردن اکڑا کر ، کڑے تیور لیے بولی تھی۔
"اب اگر مجھے یہ طعنہ دیا نا تو،،،،،، تو میں نے صبح عبداللہ اور زروہ کو اسکول کے لیے تیار نہیں کرنا۔" زوار نے جھنجھلا کر کہا تھا۔ پچھلے پانچ سالوں سے یہ طعنہ سن سن کر اس کے کان پک گئے تھے۔
"نہ کریں۔" وہ روٹھے لٹھ مار لہجے میں کہتی پہلو بدل گئی تھی۔
"تم تو آگے یہی چاہتی ہو کہ وہ پڑھیں نا۔" زوار تو اسکے تیور دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"استغفراللہ۔! میں یہ کب کہا ہے۔" وہ اسکی بات پر جھٹکے سے پلٹی تھی۔
"نہ دیا کرو نا یہ طعنہ۔" زوار نے پھر سے اسکی مرمریں ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر متانت سے کہا تھا۔
"کیوں۔" وہ اسکی حالت کا مزہ لیتی مصنوعی خفگی سے مستفسر ہوئی تھی۔ مگر دل ہی دل میں اپنے جاذب نظر آتے شوہر کو یوں دیکھ کر اسکو خوب ہنسی آئی تھی۔
"کیونکہ اس طعنے کا دماغ خراب ہے اور یہ سیدھا یہاں لگتا ہے۔" وہ برامناتا اسکے ہاتھ چھوڑ کر اپنی شہادت کی انگلی دل کے مقام پر رکھ کر روہانسا ہوا تھا۔
"آپ بہت جھوٹے ہیں۔ مجھے تو اپنے اس منہ شریف سے کہتے تھے کہ یہاں بس میں لگتی ہوں۔" وہ اپنے کومل ہاتھوں کا مکا بنا کر اسے مارتے ، جھلا کر بولی تھی۔
"ردا۔" وہ اسکی باتوں کے ہیر پھیر پر اسے گھور کر رہ گیا تھا۔ جس نے نیا کھٹا کھول دیا تھا۔
"اور طعنہ میرا ہے تو اسکا دماغ خراب ہے۔ آپکا ہوتا تو اسکا دماغ ٹھیک ہوتا۔" وہ برا مناتی جھنجھلا کر بولتی کمرے سے باہر نکلی تھی۔ زوار تو اسکی انوکھی منطق سن کر ہکا بکا رہ گیا تھا۔
وہ آج بھی نہیں بدلی تھی یہ سوچتے ہی زوار جی جان سے مسکرایا تھا۔ اور اسکے پیچھے گیا تھا۔ وہ جانتا تھا ردا ناراض ہوکر نہیں گئی بلکہ بچوں کو دیکھنے گئی ہے۔ دن بہ دن اسکے لیے محبت زوار کے دل میں بڑھتی جارہی تھی۔

ختم شد۔! 

Post a Comment

0 Comments