Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 27

زندگی پھر سے متوازن ڈگر پر چلنا شروع ہوچکی تھی۔ مختلف رشتوں کی نازک ڈوریوں میں بندھے لوگ ایک دوسرے سے کی جانے والی توقعات پوری نہ ہونے پر نالاں تھے۔ ہر کسی کے دل میں کسک تھی۔ جو انہیں اندر ہی اندر بے چین کیے جارہی تھی۔
مسئلہ ردا کے ساتھ رشتے کا تو نہیں تھا وہ تو بس حالت کے مطابق بہانہ بنا تھا۔ اصل میں تو وہ اپنی ملال اور الم جیسی سوچوں کے بھنور سے چھٹکارا چاہتا تھا۔ یہ کسک کہ وہ اس سے بہتر اپنی ماں کا خیال رکھ سکتا تھا اسکے دل پہ کچوکے لگاتی تھی۔ اور وہ اس بےرحم درد سے چاہ کر بھی مقابلہ نہیں کرپا رہا تھا۔ اسے یہاں آئے دو مہینے ہو چکے تھے۔ دن بڑی تیزی سے ہفتوں اور مہینوں میں بدلے تھے۔ اس دوران اس نے بارہا ساریہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ تاہنوز خفا تھی۔
اس دن سے لے کر اب تک ساریہ اور احان کے رشتے میں ایک چپ آگئی تھی۔ ایک مسلسل اور خوفناک چپ۔ محبتوں میں جب چپ آجایا کرے تو وہ اکثر خوفناک ہی ہوا کرتی ہے۔ جو روح تک فنا کرنے کی سکت رکھتی ہے۔
زوار کی وجہ سے غزالہ کا دل بہت بری طرح دکھا تھا۔ جس پر وہ چاہ کر بھی اس سے نارمل نہیں ہو پائی تھی۔ زوار جب بھی فون کرتا وہ خیر خیرت کے بعد فون بند کردیتی تھی۔ کیونکہ وہ اسے احساس دلانا چاہتی تھی کہ رشتے پیروں کی بھیڑیاں نہیں ہوتے جو کسی کو آگے نکلنے نہیں دیتے۔ ساتھ رہ کر ، قدم سے قدم ملا کر ایک دوسرے کی ہمراہی میں بھی انسان آگے بڑھ سکتا ہے۔ ردا کچے ذہن کی لڑکی تھی وہ اسے جس بھی سانچے میں ڈالتا وہ ڈھل جاتی تو پھر وہ کیونکہ آگے بڑھنے کے چکر میں اپنے اور اس کے رشتے کو روندھ کر گیا تھا۔ وہ خود عورت تھی جانتی تھی کہ شوہر کی پیار محبت اور عزت سے بیوی کس طرح کِھل جاتی ہے۔ جب اسے اپنے حلال رشتے سے عزت ، مان ملتا ہے تو وہ ہر محاذ پہ شانے سے شانہ ملا کر اسکے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔
ایک بیوی کو اس سے زیادہ تو کچھ نہیں چاہیے ہوتا کہ اس کا مرد اسکی عزتِ نفس کو بحال رکھے ، اسے توجہ دے اسکے احساسات کو سمجھے۔ اور جب عورت کو لگتا ہے کہ واقعی اس کے مرد نے اسکی عزتِ نفس بحال رکھی ہے اس کی توجہ پیار اور محبت پر صرف اسکا حق ہے تو وہ گھر کے سبھی افراد کی زندگی خوبصورت رنگوں سے سجا دیتی ہے۔ شوہر کے ایک قدم پر وہ دس قدم لے کر اسکی طرف بڑھتی ہے۔
ردا کے میٹرک کے امتحان سر پر آن پہنچے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ آجکل پڑھائی پر توجہ دینے لگی تھی۔ زوار کے جانے والی بات اتنی اچانک ہوئی تھی کہ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ اسکے ساتھ ہوا کیا ہے۔ مگر نسرین کی پریشانی دیکھ کر وہ بھی اب پریشان ہونے لگی تھی۔ سارا دن ایسے خاموشی میں گزر جاتا تھا۔ بات کرنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ سارا سارا دن نسرین خالی ذہن سے ردا کو دیکھتی رہتی اور خود کو ملامت کرتی رہتی تھی۔
____________________________________________
ایک سال بعد
"اور فیملی میں کون کون ہے۔" وہ اس وقت علینہ کے ساتھ لنچ بریک میں آفس کے سامنے ہوٹل میں بیٹھا تھا۔ جب ادھر ادھر کی باتوں کے دوران اچانک علینہ نے غیر متوقع سوال پوچھا تھا۔
ابھی دو مہینے پہلے ہی اس نے جوائن کیا تھا۔ ایک ساتھ کام کرنے کی وجہ سے انکی کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔
"مما تھیں انکی ڈیتھ ہوگئی ، اب ایک بہن اور بیوی ہے۔" اسکے سوال پر جوس پیتا زوار چونکا تھا۔ اس نے آج تک ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ خیر وہ سنبھلتے ہوئے بولا تھا۔
"آں۔۔۔ شادی سریسلی لگتا نہیں ہے کہ تم میرڈ ہو۔" زوار نے تو گویا علینہ کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ اسکی حیرت میں ڈوبی آواز زوار کی سماعتوں سے ٹکڑائی تو اسے پتہ چلا کہ وہ کیا بولا ہے۔ وہ اپنی بات پر خود حیران تھا کہ اسے یہ حوالہ ابھی بھی یاد ہے۔
"آں،،،،، ہمممم جلدی ہوگئی تھی۔" اسکو مسلسل حیرت سے اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ سنبھلتے ہوئے بولا تھا۔ اندر ہی اندر وہ خود حیران تھا کہ اس نے ردا کا ذکر کیوں کیا تھا۔ کیا ابھی بھی وہ اسے یاد تھی ، اپنا رشتہ یاد تھا۔
وہ گھر آکر بھی مسلسل بیڈ پر نیم دراز ہوکر اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔
"اچھا بس ایک بات۔" وہ اس وقت ردا کو پڑھا رہا تھا جبکہ ایک دو سوال کرنے کے بعد اسکی بس ہوچکی تھی اور اسکی پڑھائی کی طرف توجہ ختم ہوتے دیکھ کر زوار نے اسے ریلکس ہونے کے لیے پانچ منٹ دیے تھے۔ پورے پانچ منٹ اسکا سر اچھی طرح پکا کر وہ آخری منٹ میں پھر منت بھرے لہجے میں بولی تھی۔
"کیا۔۔۔؟" مسلسل اسکی الٹی سیدھی باتیں سن کر وہ جھنجھلا کر رہ گیا تھا۔
"آپکو پتہ ہے۔" ردا نے بات بتانے سے پہلے سنسنی پھیلائی تھی۔ اسکا بات کرنا کا انداز ہی ایسا ہوتا تھا کہ ہر کوئی انہماک سے اسکی طرف متوجہ ہوتا تھا سوائے سامنے بیٹھی اس ہستی کے۔
"نہیں پتہ۔۔۔" وہ تنک کر بولا تھا۔ اسکی نیت ردا کو جلد از جلد پڑھا کر سونے کی تھی۔ مگر وہ تو بات ہی لمبی کیے جارہی تھی۔
"بولنے دیں گے تو بتاؤں گی نا۔" زوار کا اسکے سنسنی کے درمیان بولنا ، ردا کو ذرا پسند نہ آیا تھا۔
"اچھا بولوں دادی اماں۔" وہ نیند کی وجہ سے سرخی مائل ہوتی آنکھوں سے اسکے فریش سے چہرے کو دیکھتا ہوا جان چھڑوانے والے انداز میں بولا تھا۔ مگر یہ الگ بات تھی کہ اب جان اور پکڑی گئی تھی۔
"جائیں میں نہیں بوتی۔" وہ دادی اماں کہنے پر خفگی سے منہ بسور کر بولی تھی۔
"ٹھیک ہے پھر بک کھولو۔" زوار نے بھی دل میں شکر کیا تھا۔ جبکہ اس بات سن کر ردا کے منہ کے زوایے مزید بگڑے تھے۔
"میں ناراض ہوں مجھے نہیں پتہ مجھے منائیں۔"
"کتنے لوگی۔۔۔" وہ ردا کی بےتکی باتوں سے اکتا کر سوالیہ ہوا تھا۔
"کیا کس لئیے۔" وہ خفگی میں بھی پوچھے بنا نہ رہ سکی تھی۔ ردا نے ناسمجھی سے اپنے سامنے بیٹھے اپنے شوہر کو دیکھا تھا جس کی نیند خراب کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
"چپ ہونے کے۔" وہ رو دینے کو تھا۔
"امممم ایک ہزار۔" ردا نے پرسوچ انداز میں کہا تھا یہ جانے بغیر کہ زوار نے اس پر طنز کیا تھا۔
"یار تم چاہتی کیا ہو۔" اب کی بار جھنجھلاہٹ سے تیز ہوئی تھی۔
"پہلے آپ مجھے منائیں پھر میں آپکو بات بتاؤں گی پھر پڑھ بھی لوں گی۔" اس نے ایک ماہر کی طرح اپنے مطالبات سامنے رکھ کر اسے لالچ دی تھی۔
"مجھے منانا نہیں آتا۔" زوار نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اسے ہری جھنڈی دیکھائی تھی۔ جس ہر وہ تلملا کررہ گئی تھی۔
"دیکھا میں تو پہلے ہی کہتی تھی۔"
"کیا کہتی تھی۔"
"یہی کہ آپ لائق فائق نہیں ہو۔" وہ ناک چڑھائے نخوت سے بولی تھی۔
"اب اس بات کی کیا تک تھی اس وقت۔" زوار کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش ردا کا منہ بند کرنے کےلیے کوئی بٹن ہوتا تو وہ ایک منٹ بھی نہ لگتا اسے بند کرنے میں۔
"مجھے بولنے دیتے نہیں ہے کہ تم بولتی رہتی ہو اور خود بولی جاتے ہیں۔" وہ رات کے گیارہ بجے اپنے شکایت کے کھاتے کھول چکی تھی۔
"کوئی کسر رہتی ہے تمہاری؟؟؟ اب ایک لفظ نہ سنو میں فالتو کا جلدی سے یہ پورا کرو۔" زوار نے اسے تند نظروں سے گھور کر کہا تھا اور اب کی باری خود ہی اسکا رجسٹر کھولا تھا۔
گزشتہ باتوں کی بازگشت سے اسکے لبوں کے کنارے ہلکے سے مسکرائے تھے۔ "پاگل لڑکی! پتہ نہیں آگے پڑھتی بھی ہوگی یا نہیں۔" وہ مسکرا کر دل میں سوچنے لگا تھا۔ اپنی خود کی ہی بات پر وہ حیران ہوتا اٹھ کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا تھا۔
"مجھے کیوں یاد آرہی ہے وہ۔ کیا میں،،،،،،، پتہ نہیں میں کیا چاہتا ہوں۔" وہ اپنے بالوں میں مضطرابی سے ہاتھ مارتا ، اپنے اندر کی حالت پر جھنجھلا اٹھا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ یہاں آکر اس نے باقاعدہ کونسلنگ سیشن لیے تھے۔ جس سے وہ اب قدرے بہتر تھا۔ مگر اس سارے عرصے میں وہ اس طرح تو کبھی یاد نہیں آئی تھی۔
_____________________________________________
"ہوگئی پیکنگ۔۔۔؟" احان کی پڑھائی مکمل ہوچکی تھی۔ کل وہ اور ساریہ پاکستان واپس جارہے تھے۔ ساریہ خاموشی سے پیکنگ کررہی تھی جب احان نے اندر آتے ہی پوچھا تھا۔
"جی۔" وہ ایک نظر سامنے بیڈ پر نیم دراز احان کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ جبکہ احان اسکا جواب سن کر اپنا فون نکال کر اس میں مصروف ہوگیا تھا۔ اسکی بڑھتی بےرخی سے ساریہ کا دل ٹوٹا تھا۔ جس سے اسکی آنکھوں کے کنارے بھیگے تھے۔ وہ ادھر ادھر دیکھ کر اپنے آنسو چھپانے میں ہلکان ہورہی تھی۔ ایسی زندگی ان دونوں نے تو کبھی نہیں سوچی تھی جیسی وہ گزار رہے تھے۔
اب احان بھی اسے خاموشی کی مار مار رہا تھا۔ وہ صبح جلدی یونی چلا جاتا اور شام کو گھر واپس آکر رات گئے تک پڑھتا رہتا تھا۔ اس نے ضرورت سے زیادہ کبھی ساریہ سے بات ہی نہیں کی تھی۔ وہ دن کی رسمی گفتگو کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ پہلے پہل تو ساریہ نے اسکے رویے پر غور نہیں کیا تھا مگر پچھلے چھے مہینوں سے احان کی بےرخی اسے اندر تک پریشان کررہی تھی۔ وہ کتنی دفعہ ہمت متجمع کرکے اس سے بات کرنے کے لیے اس کے پاس آئی تھی مگر احان نے کوئی بات نہیں کی تھی وہ اسکے سامنے ہنوز ویسے ہی کام میں مگن رہتا۔
آج بھی وہ رات کا کھانا کھا کر کمرے میں آتے ہی سو گیا تھا۔ ساریہ جو پیکنگ کرکے کیچن میں آئی تھی احان کی پلیٹ دیکھ کر اسے شدید رونا آرہا تھا۔ پاس ہوکر بھی وہ دور تھے۔
____________________________________________
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 27
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 27 


"کب آئیں گے بھائی۔؟" وہ اس وقت ائیر پورٹ پر کھڑے احان اور ساریہ کا انتظار کررہے تھے جب عبیرہ بے صبری سے انتظار کرتے روہانسی ہوئی تھی۔
"ابھی آجائیں گے۔" ہاشم نے مسکرا کر اسے اپنے ساتھ لگاتے کہا تھا۔ یہ سال اس نے کیسے گزرا تھا وہ دونوں جانتے تھے۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ احان اور ساریہ انہیں باہر آتے دیکھائی دیے تھے۔ وہ سب خوشی سے آگے بڑھے تھے۔
____________________________________________
"ردا کیا کررہی ہو۔؟" نسرین کمرے میں آتے ہی گویا ہوئی تھی۔
"مما یونیفارم پریس کرنے لگی ہوں۔" وہ جو الماری میں سر دیے کھڑی اپنا یونیفارم ڈھونڈھ رہی تھی۔ پیچھے مڑ کر بولی تھی۔
"اچھا ٹھیک۔ وقت پر سو جانا۔" اب وہ اپنے کام خود کرنے لگی تھی۔ زندگی نے پلٹا ہی ایسا کھایا تھا۔ جس سے اس کی معصومیت بےدردی سے کچلی گئی تھی۔ لوگوں کی تلخ باتوں سے اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی شادی برباد ہوچکی ہے وہ انجانے میں اپنا رشتہ نبھانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ نسرین کی بڑھتی پریشانی اسے بہت محسوس ہوتی تھی۔ وہ حساس تو پہلے ہی بہت تھی مگر اب اسکی حساسیت مزید بڑھ چکی تھی۔ وہ نسرین کو کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں دینا چاہتی تھی۔
"مما آپ چلیں میں بس آئی۔ دودھ پیا ہے آپ نے۔؟" بلآخر اسے یونیفارم مل ہی گیا تھا جسے وہ ہاتھ میں پکڑ کر نسرین کے قریب آئی تھی۔
"ردا میرا دل نہیں کررہا آج۔" نسرین نے اسکے سوال پر بچوں کی طرح منہ بنایا تھا۔ وہ روز نسرین کو زبردستی دودھ کا گلاس پلاتی تھی۔ جیسے بچپن میں نسرین ردا کو پلایا کرتی تھی۔
"مما آپ کا تو روز نہیں کرتا ، آپ چلیں میں لے کر آتی ہوں۔" اس نے نسرین کے زوایوں کو نظر انداز کیا تھا۔،
"اچھا۔" وہ برا منہ بناتی اپنے کمرے میں گئی تھی۔
"مما بھی نہ۔ خیر پتہ نہیں یہ یونیفارم سے کب میری جان چھوتے گی۔" وہ یونیفارم کی قمیض اپنے سامنے کرتی اپنا روز کا رونا رو رہی تھی۔ نہ صرف یونیفارم کو دھونا اور استعری کرنا اس کے لیے عذاب تھا بلکہ اسے پہننا اور اتارنا بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا۔
____________________________________________
احان اور ساریہ کو یہاں آئے ایک مہینہ ہوگیا تھا۔ گھر میں ہر طرف رونق لگی ہوئی تھی۔ پورے گھر میں خوشی سے بھرپور قہقہے گونجتے تھے۔ غزالہ تو ہر وقت اپنے گھر کی بلائیں لیتی رہتی تھی۔
ابھی انہیں آئے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ ہاشم کے دوست ماجد نے اپنے بیٹے زین کے لیے عبیرہ کا رشتہ مانگا تھا۔ گھر میں آجکل یہی بات ہورہی تھی۔ ہاشم اور احان تو شروع دن سے راضی تھے مگر غزالہ کے اسرار پر انہوں نے اچھی طرح چھان بین کروائی تھی۔ ہر طرف سے مثبت جواب آنے پر غزالہ کی تسلی ہو چکی تھی۔ جس پر پرسوں ہاشم نے ماجد کو فون کرکے ہاں کہا تھا۔
رشتہ آنے کے فوراً بعد غزالہ اور احان نے الگ الگ عبیرہ سے اسکی رضامندی جانی تھی۔ جس پر وہ فیصلہ کا حق انہیں دے چکی تھی۔
ہر طرف مبارک باد کا شور ہوتے ہی ساریہ نے اسے خوب چھیڑا تھا۔ وہ تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی تھی عبیرہ کو چھیڑنے کا۔ سارے ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔
احان کا رویہ یہاں آکر بھی ساریہ کے ساتھ سرد ہی رہا تھا۔ سب کے سامنے تو وہ ٹھیک ہوتا تھا مگر کمرے میں تو ایسے کرتا تھا جیسے کسی نے منہ سی دیا ہو۔ ساریہ کو اسکی یہ چپ بری طرح کھل رہی تھی۔ جس کی وجہ سے اسکی پریشانی دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
غزالہ نے بارہا احان سے اکیلے میں پوچھا تھا کہ ان دونوں میں کوئی مسئلہ ہوا ہے کیا۔ جس پر وہ انہیں نئی نئی جاب کی تھیوری سنا کر اسے مطمئن کرچکا تھا۔
ہاشم نے عبیرہ کی شادی کے ساتھ احان کے ولیمے کا بھی فیصلہ کیا تھا جس پر احان نے وہی سرد رویہ دیکھایا تھا۔ اس نے اپنے ولیمے کو لے کر کوئی گرمجوشی نہیں دیکھائی تھی۔ اور یہ بات ہاشم اور غزالہ نے بخوبی نوٹ کی تھی۔ کیونکہ انہیں یاد تھا کہ احان اپنے نکاح والے دن کس قدر خوش تھا لیکن اب اسکا یہ رویہ ان دونوں کی سمجھ سے باہر تھا۔ ہاشم نے غزالہ کو احان سے بات کرنے کا کہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ احان کچھ بھی نہیں بتائے گا اسی لیے وہ اب ساریہ سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
"ساریہ آپکے اور احان کے بیچ کوئی مسئلہ ہوا ہے۔؟" وہ اس وقت بیٹھیں کل کی تیاری کے حوالے سے بات چیت کررہی تھیں جب عبیرہ کے باہر جاتے ہی غزالہ نے ساریہ سے متانت سے پوچھا تھا۔
"ن نہیں نہیں تو پھپھو۔" غزالہ کے یوں ایکدم پوچھنے پر وہ گھبرا گئی تھی۔ مگر غزالہ کو مسلسل اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ نظریں چرا کر نفی کرنے لگی تھی۔ اندر سے وہ ٹوٹ کر بکھری تھی۔
"اگر نہیں ہے تو یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ مگر میری جان گھر میں جو بڑے ہوتے ہیں وہ آپ چھوٹوں کے لیے ہی ہوتے ہیں تاکہ جب آپ لوگوں سے جانے انجانے میں کوئی
غلطی ہوجائے تو وہ آپکو سمجھا کر معاملے کو حل کریں۔ اگر کوئی بھی مسئلہ ہے تو آپ مجھے بتاؤ تاکہ میں اپنے نالائق کے کان کھینچوں جسے بس نکاح کا شوق تھا اب چپ بیٹھا ہے۔"
"پھپھو ،،،،،،، پتہ نہیں کس بات پر ناراض ہیں بولتے ہی نہیں ہیں۔" غزالہ کے اپنائیت بھرے انداز پر وہ رو دی تھی۔
"آپ نے پوچھا ہے اس سے کہ وہ کیوں خفا ہے۔؟" غزالہ نے نرمی سے اسکے آنسو صاف کرتے پوچھا تھا۔ جس پر وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی دھیمے لہجے میں بولی تھی۔
"نہیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
"آپ اس سے پوچھو کہ کیا بات ہوئی ہے۔" غزالہ نے اس کی نم آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سمجھایا تھا۔
"مگر پھپھو۔"
"نہیں کہتا کچھ بھی ، ہاشم کے طرح وہ بھی بہت نرم مزاج کا ہے۔ آپ پوچھو گی تو وہ بتا دے گا۔" اسکا خدشہ جانتے ہوئے غزالہ نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہا تھا۔
"جی اچھا پھپھو۔"
"چلو اٹھو اس کے لیے دودھ لے کر جاؤ اور پوچھو اس سے کہ کیوں خفا ہے۔" غزالہ نے اسکی ہمت باندھی تھی۔
"جی پھپھو۔" وہ سر ہلاتی اٹھی تھی۔
____________________________________________
وہ کمرے میں آئی تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ لائٹ چلا کر وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ کی طرف آئی تھی جہاں وہ اپنی طرف لیٹ کر گہری نیند میں سویا ہوا تھا۔ کچھ دیر یونہی کھڑے اسکو دیکھ کر وہ اسکے قریب بیٹھی تھی۔
صبیح پیشانی پہ آتے سلکی بال ، تیکھے نین نقوش پر خوبصورتی سے تراشی داڑھی اسکی وجاہت میں مزید اضافہ کررہی تھی۔ وہ بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔ کسی ٹرانس کی کیفیت میں اسنے اپنے دائیں ہاتھ سے اسکی پیشانی پر آتے بال سلجھائے تھے۔ جس پر وہ کسمسا کر دوبارہ کروٹ لے گیا تھا۔ ایسے جیسے نیند میں بھی اس سے ناراضگی یاد ہو۔ چند لمحے اسکی پشت کو دیکھتے وہ لائٹ بند کرکے اپنی طرف آکر لیٹی تھی اور کروٹ لے کر لیمپ کی پیلی روشنی میں اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ کیونکہ جب وہ جاگ رہا ہوتا تھا تب تو ساریہ کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
____________________________________________
آجکل آفس میں کچھ کام بڑھ چکا تھا جس کی وجہ سے وہ پھپھو سے بھی بات نہیں کرپا رہا تھا۔ وہ اور علینہ اس پروجیکٹ پر مل کر کام کررہے تھے۔ یہاں آکر وہ مزید لگن سے کام کرنے لگ گیا تھا۔ ابھی وہ دونوں زوار کے ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر پروجیکٹ کے بارے میں بات چیت کررہے تھے۔
____________________________________________
ساری تیاری مکمل کرکے اور عبیرہ کو تیار کرکے وہ جلدی سے اپنے کمرے میں آئی تھی تاکہ وہ مہمانوں کے آنے سے پہلے تیار ہوجائے۔ کمرے میں آئی تو احان نک سک سا تیار شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا۔ دروزہ کھلنے پر وہ ایک نظر ساریہ کو دیکھ کر پھر سے بال بنانے میں مصروف ہوگیا تھا۔
"آپ کب آئے۔ میں نے تو آپکے دوسرے کپڑے استعری کیے تھے۔" وہ اسکے پہلو میں کھڑی ہوکر اسکے نکھرے چہرے کو دیکھ کر سوالیہ ہوئی تھی۔
"ابھی آیا تھا۔" وہ گھڑی پہنتے ہوئے بولا تھا۔ اس کی لاپرواہی سے ساریہ کا موڈ خراب ہوا تھا۔
"یہ والے کپڑے کیوں پہنے ہیں میں نے دوسرے پریس کرکے رکھے تھے۔" اس نے اپنے اور احان کے ایک ہی رنگ کے کپڑے استعری کیے تھے۔ مگر احان کو بلیک شلوار قمیض پہنے دیکھ کر اسکا دل برا ہوا تھا۔
"مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ نے استعری کیے ہوئے تھے اس لیے یہ پہن لیے۔" وہ بنا اس دیکھے اپنی تیاری میں جتا رہا تھا۔ اسکا لہجہ عام سا تھا۔ جس سے ساریہ کو تکلیف ہوئی تھی۔
"آپ بلا کر پوچھ لیتے میں یہی تھی۔" اسکی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی۔
"اچھا۔" احان نے گویا بات ختم کرنا چاہی تھی۔ اسکا اچھا سن کر ساریہ کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔ احان کا رویہ اب اسکی برداشت سے باہر ہوتا جارہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی احان کا فون بجا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے میں آتا ہوں۔" وہ فون بند کرتے بولا تھا۔
"کون تھا۔" اسکے جھکے سر کو دیکھ کر ساریہ نے اسکے قریب آکر پوچھا تھا۔
"پارسل آیا ہے۔" وہ فون پر کچھ لکھتے ہوئے بولا اور باہر جانے لگا تھا۔
"یا میرے اللہ۔! حان آپکو کیا ہوا ہے کیوں ایسے کررہے ہیں۔" احان کی یہ سرد مہری جان لیوا تھی۔ وہ تو اس کی بےتحاشہ محبتوں کی عادی تھی پھر کیسے یہ بےرخی برداشت کرتی۔ وہ آنسو گالوں سے صاف کرتے تیار ہونے لگی تھی۔
____________________________________________
"تھینک گوڈ! اٹس ہیو بین ڈن۔" آج انکا پروجیکٹ مکمل ہوچکا تھا۔ ابھی وہ بوس کے آفس سے نکلے ہی تھے کہ علینہ جوش سے بولی تھی۔ جبکہ زوار اسکا یہ جوش دیکھ کر مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا۔
"اچھا ایسے کونسے کام تھے جو اسکی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔" وہ چلتے ہوئے زوار کے کیبن میں آئے تھے۔
"نیند۔ ہائے میری پیاری نیند رکی ہوئی تھی۔" وہ سرد آہ بھرتے ہوئے بولی تھی۔ جبکہ اسکی بات سن کر زوار کا ذہن بےساختہ اپنی نیند کی دیوانی کی طرف گیا تھا۔ کتنا تنگ کرتی تھی وہ صبح ہی صبح جب زوار اسکو جگاتا تھا۔
"یہ سب لڑکیاں اتنی نیند کی دیوانی کیوں ہوتی ہیں۔" وہ چئیر پر بیٹھتا دلچسپی سے گویا ہوا تھا۔
"پتہ ہے کیوں۔" وہ بات کرتے کرتے ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر آگے ہوئی تھی۔ اس نے ردا کی طرح سنسنی پھیلائی تھی۔
"کیونکہ ہمیں خوابوں میں شہزادوں کو ملنا ہوتا ہے۔" وہ ہنستے ہوئے بولی تھی جبکہ اسکے پہلے والے سنجیدہ انداز پر زوار پوری طرح ہمہ تن گوش ہوا تھا۔ آخر کو آج اسکی پہیلی سلجھنے والی تھی۔ مگر علینہ کی بات سن کر وہ نفی میں سر ہلا کر اسے گھورنے لگا تھا۔
"تمہاری بیوی بھی نیند کی دیوانی ہے۔؟" اس نے تجسس سے پوچھا تھا۔
"بہت،،،،،، صبح ہی لڑنے لگتی تھی۔" اس کا چہرہ عجیب
احساس سے چمکا تھا۔
"اوہ۔،،،،" علینہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
____________________________________________
سب مہمان جاچکے تھے۔ رسم بہت اچھے سے ہوگئی تھی۔ عبیرہ اور زین دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگ رہے تھے۔ ساریہ نے اسے خوب چھیڑا تھا جس پر وہ شرم و حیا سے لال ہوتی جارہی تھی۔ وہ سب کو چائے دینے کے بعد اپنے کمرے میں آکر احان کا انتظار کرنے لگی تھی۔
احان اور ہاشم بیٹھے شادی کے بارے میں بات چیت کررہے تھے۔ غزالہ اور عبیرہ بھی اپنے اپنے کمرے میں جاچکی تھیں۔ ماجد اور اسکے گھر والے جلد از جلد شادی کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے شادی کی تاریخ عورتوں کی تیاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دو ماہ بعد کی فائنل ہوچکی تھی۔ شہناز نے بارہا انکو سختی سے جہیز سے منع کیا تھا۔
"احان تم مجھے اپنا ولیمہ ہونے پر خوش نظر نہیں آرہے ہو۔" ابھی وہ جانے کے لیے اٹھنے ہی لگا تھا جب ہاشم گویا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنا مسئلہ ہاشم سے بلاجھجک شئیر کرلیتا تھا۔ مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا تھا۔ جس پر ہاشم بےچین تھا۔
"نہیں تو بابا ، میں خوش ہوں بہت۔" وہ بیٹھ کر سنبھل کر بولا تھا۔
"لگتا تو نہیں ہے، میں نے تمہیں ساریہ کو وقت دیتے تو کبھی دیکھا ہی نہیں ہے۔" ہاشم نے بغور اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"بابا ایسی بات نہیں ہے ، بس جاب کی وجہ سے مصروف تھا۔ آپ جانتے ہیں نئی نئی جاب ہے۔" اسنے جلدی سے بہانہ تراشا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے مگر مرد کی اتنی محنت بےکار ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر والوں کو خوش نہ رکھ پائے۔" ہاشم نے اسے ڈھکے چھپے لفظوں میں سمجھایا تھا۔
"جی بابا۔ میں آئندہ خیال کروں گا۔" وہ سعادت مندی سے گویا ہوا تھا۔
"ہممم چلو اب آرام کرو جاکے۔"
"شب خیر۔" وہ اٹھتے ہوئے بولا تھا۔
_____________________________________________
وہ بغیر آج کا لباس تبدیل کیے احان کا انتظار کررہی تھی۔ انتظار تھا کہ لمبا ہی ہوتا جارہا تھا۔ کچھ دیر چکر لگا کر وہ صوفے پہ بیٹھ کر انتظار کرنے لگی تھی۔
کلک کی آواز سے دروازہ کھلا تھا۔ احان نے اندر آتے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔ پھر آگے بڑھ کر اپنی طرف کے سائیڈ ٹیبل کے پاس رک کر گھڑی اتارنے لگا تھا۔ ساریہ جو اسکے دیکھنے پر سیدھی ہوئی تھی کہ شاید احان اسکی طرف آئے اسکو آگے جاتا دیکھ کر امید ہاری تھی۔ مگر پھر غزالہ کی باتیں یاد کرکے وہ ہمت متجمع کرکے اسکے پیچھے آئی تھی۔
"کہاں رہ گئے تھے اتنی دیر کردی آنے میں۔"
"ہمم ، بابا سے بات کررہا تھا۔" وہ ایک نظر اسکو دیکھ کر بولتا ہوا اپنے شب خوابی کا لباس لے کر کپڑے بدلنے چلا گیا تھا۔ اسکے سرد رویہ نے ساریہ کو تھکا دیا تھا وہ وہیں بیڈ پر بیٹھ کر اسکا انتظار کرنے لگی تھی۔
"کیا ہوا ہے۔؟" وہ کپڑے بدل کر خاموشی سے چلتا ہوا اپنی طرف آکر لیٹنے لگا تھا کہ ساریہ نے نرمی سے اسکا بازو پکڑتے ہوئے پوچھا تھا۔
"کچھ نہیں۔" ہر بار والا جواب آج بھی حاضر تھا۔ وہ نرمی اپنا بازو چھڑواتے ہوئے بول کر پھر سے لیٹنے لگا تھا۔
"کچھ تو ہوا ہے جو مجھے نہیں پتا۔" کچھ دیر یونہی اسکو لیٹا دیکھ کر ساریہ نے پھر سے اسکا دائیں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔
"تمہیں میرے بارے میں ویسے بھی نہیں پتہ۔" اس نے بنا ہاتھ چھڑوائے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔
"واقعی اس والے احان کے بارے میں مجھے نہیں پتہ۔" ساریہ کے لہجے میں افسوس تھا۔
"مجھے نیند آئی ہے۔" وہ ہاتھ چھڑواتا عام سے لہجے میں بولا تھا۔ ساریہ کے شکوے سے اسکا دل خراب ہوا تھا۔ یعنی خود ہی سب کرکے وہ اب الزام بھی اس پر لگا رہی تھی۔
"حان میں نے کپڑے نہیں بدلے۔" ساریہ نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کروانا چاہی تھی۔ مگر وہ دوسری طرف کروٹ لے گیا تھا۔ مسلسل اس کی نظر اندازی پر اسکی آواز نم ہوئی تھی۔
"یعنی وہ سب باتیں تھیں جو فون پر آپ کیا کرتے تھے۔"
"مجھے سچ میں بہت نیند آرہی ہے۔" وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔
"اور مجھے حیرت ہورہی ہے کہ مجھے رلا کر بھی آپکو نیند آرہی ہے۔" وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی تھی۔
"کیا چاہتی ہو۔؟" وہ خفگی میں بھی اسکے رونے پر تڑپا تھا۔
"کیوں کررہے ہیں ایسا۔۔۔؟" وہ نم آنکھوں سے مستفسر ہوئی تھی۔
"کیونکہ تمہیں مجھ سے یہی امید تھی۔" وہ دائیں بازو لپیٹ کر سر کر نیچے رکھ کر افسوس سے بولا تھا۔
"میں سمجھی نہیں آپکی بات۔" وہ حقیقتاً اسکی بات نہیں سمجھی تھی۔
"میں تمہاری ناسمجھی کا عادی ہوچکا ہوں۔" وہ استہزائیہ ہوا تھا۔
"کیا کیا ہے میں نے ، میری کونسی بات بری لگی ہے ، بتائیں تو سہی۔" وہ اپنی انگلیاں اس کی بھاری مضبوط انگلیوں میں پھسائے متانت سے گویا ہوئی تھی۔
"تمہاری بے اعتباری ، مجھ پر اور میرے جزبات پر۔" اسکے لہجے میں ٹوٹے ہوئے مان کی کرچیاں تھیں۔
"ایسا نہیں ہے۔" وہ برجستگی سے بولی تھی مگر احان نے فوراً اس کی بات کاٹی تھی۔
"ایسا ہی ہے۔ مجھے تو عورتوں کی سمجھ نہیں آتی خود کے لیے الگ الگ ترازو چاہیے ہوتا ہے۔ لیکن مردوں کےلیے ایک ہی ترازو رکھا ہے۔
مجھے بہت حیرت ہوئی تھی کہ تمہیں مجھے لے کر بےاعتباری ہے کہ شاید میں بھی زوار کی طرح کروں۔" وہ افسوس کرتا بولا تھا۔
"وہ۔۔۔" ساریہ تو اسکی بات سن کر حیران ہوئی تھی کہ اسے یہ سب کیسے پتہ ہے یہ باتیں بس زوار اور اسکے درمیان میں ہوئی تھیں۔ اسے اب احان کی ناراضگی سمجھ میں آئی تھی جس پر وہ نظریں چراتے مبہم انداز میں منمنائی تھی۔
"لائٹ بند کرو مجھے نیند آرہی ہے۔" وہ ہاتھ چھڑوا کر قطعیت سے بولا تھا۔ ساریہ ایک نظر اسکو دیکھ کر رہ گئی تھی۔
_____________________________________________
"پھپھو مبارک ہو بہت بہت۔ ساریہ کیسی ہے؟" وہ اس وقت بریک کے وقت فارغ ہوکر غزالہ سے بات کررہا تھا جب غزالہ نے اسے عبیرہ کے رشتے کے بارے میں بتایا تھا۔
"خیر مبارک۔ اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں۔ مجھے تو تم دبلے لگ رہے ہو۔" غزالہ نے اسکو دیکھتے ہوئے افسوس سے کہا تھا۔
"پھپھو وہ بس آجکل مصروفیت زیادہ تھی۔" وہ غزالہ کی فکر پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا۔
"خیال رکھا کرو۔"
"جی۔" وہ سعادت مند ہوا تھا۔
"اگلے مہینے شادی ہے۔ آؤ گے شادی پہ۔؟" غزالہ نے اس پر طنز کیا تھا۔ جس پر وہ منہ بسورا تھا۔
"پھپھو آپ اب تک خفا ہیں۔ کیوں نہیں آنا میں تو ضرور آؤں گا۔"
"تمہاری حرکتیں ہی اسی لائق ہیں۔" غزالہ نے اسے گھرکنا ضروری سمجھا تھا۔
_____________________________________________
"تمہیں میں نے کہا تھا کہ ریڈی رہنا۔" وہ اندر آکر ساریہ کو صبح والے کپڑوں میں دیکھا کر بھڑکا تھا۔ اس نے دوپہر میں ہی میسج بھیجا تھا کہ وہ شام چھے بجے تک تیار رہے ، انہیں آج ولیمے کے لیے شاپنگ کرنے جانا تھا۔
"مجھے ایسے آپکے ساتھ نہیں جانا کہیں بھی۔" وہ اسکے مقابل کھڑی ہوکر سکون سے بولی تھی۔ اتنے دنوں سے اس کو بارہا منانے کی کوشش کی تھی مگر احان بات ہی نہیں سن رہا تھا۔
"میں آج ہی فارغ تھا اب مما کے ساتھ چلی جانا۔" اسکی بات سن کر وہ بھی ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بول کر ساریہ کا موڈ خراب کرچکا تھا۔
"جب آپ ہی خوش نہیں ہیں تو پھر پیسے ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔"
"میں اپنے دوست کی طرف جارہا ہوں۔" وہ کہہ کر جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ ساریہ نے اسکی بازو پکڑ کر پورے استحقاق سے کہا تھا۔
"آپ آج مجھے جاکر دیکھائیں۔"
"کیوں تنگ کررہے ہیں۔" مسلسل احان کے گھورنے پر وہ روہانسی ہوئی تھی۔
"تو نہ ہو تنگ جیسے پہلے فرق نہیں پڑتا تھا ویسے ہی رہو۔" وہ ہنوز منہ پھلائے ہوئے تھا۔
"مجھے ویسے رہنا ہے جیسے آپ رکھنا چاہتے ہیں۔" وہ مان سے ضدی ہوئی تھی۔
"بلاوجہ کی بحث ہے یہ۔" وہ اکتا کر بولا تھا۔ کمرے کے وسط میں کھڑے وہ دونوں نوک جھوک میں مگن تھے۔
"جب شوہر میرا ہے ، بحث ہماری ہے تو بلاوجہ تو ہرگز نہیں ہے۔ آپ کم از کم بات تو سن لیں میری۔" وہ مفاہمت پسند ہوئی تھی۔
"کوئی کسر رہتی ہے ابھی۔" اسکی باتوں پر احان بائیں بھنو اچکا کر سوالیہ ہوا تھا۔
"جی رہتی ہے ، اس دن جو آپ نے سنا میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" ساریہ نے صاف اور سیدھے لفظوں میں وضاحت دی تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے۔" وہ عام سے لہجے میں بولا تھا۔
"نہیں ٹھیک۔ سوری،،،،،، وہ سب بھائی کو بولنے کے لیے کہا تھا۔ میری آنکھوں میں دیکھیں ، آپ پہ بےاعتباری آسکتی ہے؟" وہ اپنی غزالی آنکھیں اسکے خفا چہرے پر مرکوز کیے موہوم سے لہجے میں مستفسر ہوئی تھی۔
غزالہ نے جب ساریہ کو زوار کی بےتکی حرکت کے بارے میں بتایا تھا تو اسکا غصے سے برا حال ہوا تھا۔ اس نے فون بند کرکے زوار کو ملایا تھا۔
"السلام علیکم۔" وہ بڑے ضبط سے بولی تھی۔ جبکہ زوار اسکے خود فون کرنے پر حیران تھا کیونکہ اس نے اتنی کوشش کی تھی تب اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔
"وعلیکم السلام ،،،، کیسی ہو؟"
"آپ نے ردا کو چھوڑ دیا ہے۔؟" وہ تیکھے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
"چھوڑا نہیں ہے ،،، میری جاب ہوگئی تھی۔"
"بھائی مجھے یہ سب نہ کہیں، آپ نے ایک بار بھی سوچا کہ اگر احان یہ سب میرے ساتھ کریں۔"
"ساریہ۔!"
"نہیں بھائی آپ سوچیں ،،، کیونکہ مجھے اب ڈر لگنے لگا ہے۔" وہ فوراً اسکی طات کاٹتے بولی تھی۔ جس پر وہ خاموش ہوکر رہ گیا تھا۔ ساریہ نے بھراس نکال کر فون ٹک سے بند کیا تھا یہ جانے بغیر کہ دروازے کے پار کھڑے احان نے سب کچھ سن لیا تھا۔
احان نے بےیقینی سے دروازے کو دیکھا تھا۔ اسے شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا کہ وہ اسکے بارے میں ایسا کچھ سوچ سکتی ہے۔ اسکے دماغ نے ساریہ کی خاموشی کو اس سے منسوب کیا تھا۔ بس اسی دن سے وہ چپ ہوگیا تھا۔
"میں کیوں بلاوجہ کسی کی آنکھوں میں دیکھوں۔" وہ ابھی بھی اپنی بیوی پر بھٹکتی نظروں کو قابو کرکے ، ناک سکیڑے بولا تھا۔
"کسی کی آنکھوں میں دیکھنے کی نوبت میں خود ہی آنے نہیں دوں گی۔ آپ میری یعنی اپنی بیوی کی آنکھوں میں دیکھیں۔" ساریہ نے اسکی غلط فہمی دور کرتے ہوئے پھر سے زور دیتے ہوئے کہا تھا۔
"میں نے نہیں دیکھنی۔" احان نے پھر کورا انکار کیا تھا۔
"کسی کی آنکھوں میں دیکھنے پر تو جلدی سے راضی ہوگئے تھے۔" وہ خفگی سے اسکے سینے کے دائیں طرف چھونٹی کاٹتے بولی تھی۔
"ہو گئی بات ختم تو میں جاؤں۔" وہ بھنوئیں اکٹھی کرکے انہیں اوپر چڑھائے سوالیہ ہوا تھا۔
"حان،،،،، وہ میرے بھائی ہیں میرے آئیڈیل مجھے ان سے اس قسم کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ کوئی بھی بہن ہو وہ بےاعتبار ہوجاتی ہے۔ خدارا آپ سمجھیں۔ میں اس وقت جزباتی ہوئی تھی۔ مجھے اگر ایک فیصد بھی اندازہ ہوتا کہ آپ اس بات کو لے کر مجھ سے خفا ہیں تو میں آپکو اتنے عرصے خفا رہنے ہی نہیں دیتی۔ مجھے عادت ہوگئی ہے آپکی خطرناک حد تک۔" وہ اسکی شرٹ کے بٹنوں پر ہاتھ پھیرتے روہانسی ہوئی تھی۔
"ٹھیک ہے ہوگئی جزباتی ، مگر میں نے ہر بار ہر موڑ پر اظہار کیا تھا اپنی چاہت کا ، میرے پیار کو مزاق تو نہ گردانتی۔" وہ اپنی ناراضگی کی وجہ بتا رہا تھا۔
"تو اب میری چاہت کا بھی اعتراف سن لیں۔" وہ منہ بسور کر اسکی شرٹ کے ایک بٹن کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بولی تھی۔
"تمہیں مجھ سے محبت ہی نہیں ہے۔ عادت ہے بس۔" اسکا انداز خفا سا تھا۔
"عادت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ مگر مجھے محبت چاہت سب آپ سے ہے۔ میرے لیے آپکی محبت فضا میں رچی آکسیجن کی طرح ہے ، جو سانس لینے کے لیے بےحد ضروری ہے۔" وہ اپنے محرم کی آنکھوں میں دیکھتے اپنے سچے جزبے اس پر آشکار کررہی تھی۔ مسلسل نظروں کے تصادم نے مہینوں کی خفگی کو مات دی تھی۔ وہ سامنے کھڑی اپنی بیوی اپنی اولین محبت سے ، اپنے لیے محبت کا اعتراف سن کر سرشار ہوا تھا۔ احان نے مسکرا کر اسے اپنے حصار کی چادر میں لیا تھا۔
"مجھے بھی۔"
"دانت تو اندر کریں۔" وہ اسکے حصار کی چادر میں ، اسکی بولتی آنکھوں اور مسکراہتے لبوں کو دیکھتے ہوئے گھور کر بولی تھی۔
"یہ نہیں کرنے اب اندر کیونکہ سب نے پوچھ پوچھ کر مجھے کافی شرمندہ کردیا ہے۔" وہ مسکراتا ہوا ساریہ کو بہت جاذب لگا تھا۔
"کیا پوچھ کر۔؟"
"یہی کہ میں اپنے ولیمے پہ خوش کیوں نہیں ہوں۔" وہ تاسف میں سر ہلاتا بولا تھا۔
"تو بتا دیتے کہ آپکو بیویوں کی طرح منہ پھلانے کی عادت ہے۔" وہ اسکے حصار کو توڑ کر گویا ہوئی تھی۔
"کہاں جارہی ہو۔" اسکی بات کو احان نے یکسر نظر انداز کیا تھا۔
"ہم جارہے ہیں شاپنگ پہ۔" وہ ہم پر زور دیتی بولی تھی۔ ایک سکون اسے اپنے رگوں میں دوڑتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔ مہینوں سے چھائے خفگی اور خاموشی کے بادل چھٹ گئے تھے۔ اب مطلع صاف تھا۔ اور ہر طرف بےشمار محبتوں کا جھنڈ تھا۔
"آج نہیں کل چلتے ہیں۔" وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بیڈ کی طرف آیا تھا۔
"اب تو ولیمے تک آپ مصروف ہوں گے تو آج ہی کرتے ہیں۔" وہ ضدی ہوئی تھی۔
"بہت ضدی ہو۔" احان نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
"کس نے کہا تھا بگاڑیں۔" وہ دوبدو جواب دے کر اسے گھورنے لگی تھی۔
"میرے دل نے۔" وہ دل کشی سے سرگوشیانہ انداز میں بولا تھا۔
"اب اپنے اس دل کو شاپنگ کے لیے بھی منائیں تب تک میں تیار ہوکر آتی ہوں۔" اسکو شوخ ہوتا دیکھ کر وہ بدک کر اٹھی تھی۔
"میرا میتھس بہت اچھا ہے۔!" وہ اسے گھور کر دیکھتے ہوئے متنبہ ہوا تھا۔
_____________________________________________
دن تیزی سے گزر رہے تھے۔ شادی کے دن قریب آتے جارہے تھے جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی اپنی تیاری میں مصروف تھا۔ غزالہ اور ساریہ دونوں مل کر ردا کے گھر گئیں تھیں شادی کا کارڈ دینے۔ اور آنے پر بھی بےحد اصرار کیا تھا۔
غزالہ اور ساریہ نے سوچ لیا تھا کہ اب کی بار جب زوار آئے گا تو اسکے کان زور سے کھینچ کر اسے سیدھا کرنا ہے۔ وہ دل سے خواہشمند تھیں کہ زوار اور ردا پھر سے ہمیشہ کے لیے ایک ساتھ رہیں۔
_____________________________________________
ساریہ نے پاکستان آکر اگلے ہی دن ردا کے گھر چکر لگایا تھا۔ اور نسرین سے زوار کے عمل کی معافی بھی مانگی تھی۔ وہ زوار کی اس بےتکی حرکت پر دل سے شرمندہ تھی۔ اس کے معافی مانگنے پر نسرین اسے معاف کرچکی تھی۔ ردا بھی ساریہ سے مل کر خوش تھی مگر وہ زوار کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ جس کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا۔
"مما آپ چلی جائیں مجھے نہیں جانا۔" وہ اس وقت بیڈ پر بیٹھی پڑھ رہی تھی جب نسرین نے اسے تیار ہونے کا کہا تھا۔ غزالہ نے شادی کے ہنگاموں سے پہلے قرآن خانی رکھی تھی۔ اور نسرین اور ردا کو لازمی آنے کا کہا تھا۔ ان کے بےحد اصرار پر نسرین نے ہانی بھری تھی۔
"ردا ساریہ نے دو بار فون کیا ہے۔" وہ اسکے چہرے کو دیکھ کر گویا ہوئی تھی۔
"آپ بول دیں کہ میرا کل ٹیسٹ ہے۔" وہ اکتا کر بولی تھی۔ اسکا ارادہ تھوڑی دیر بعد سونے کا تھا۔
"ہم جلدی آجائیں گے نا۔" نسرین نے اسے منانے کی کوشش کی تھی۔
"مما میں بہت تھکی ہوں۔ مجھے سچ میں بہت نیند آرہی ہے۔"
"کل چھٹی کرلینا نا ، اٹھو میرا پیارا بچہ" وہ اسکو پیار سے پچکارتے ہوئے بولی تھی۔
چلیں آپ میں آتی ہوں۔" وہ بےبس ہوکر بولی تھی۔
_____________________________________________
وہ کالے رنگ کے کپڑے پہنے جس کے گلے پر پیلے رنگ کی بازاری کڑھائی ہوئی تھی ، بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ دودھیا رنگت کالے رنگ میں مزید نمایاں ہورہی تھی۔ گلابی چہرہ معصومیت سے بھرا ہوا تھا ، کالے گھنگرالے گیسوؤں کو ہلکا سا پکڑ کر کیچر میں مقید کیا ہو تھا۔ آنکھوں میں کاجل کی ہلکی کالی دھاڑ اور لبوں ہر ہلکے پیچ رنگ کی لیپ اسٹک لگائے وہ مسخر کرنے والے تمام سامان سے لیس تھی۔ اسکا نرم لہجہ اسکے نرم روئی جیسے چہرے سے میل کھا رہا تھا۔
شادی میں بس ایک ہفتہ باقی تھا۔ اور وہ سب کو سرپرائز دینے کی غرض سے ایک ہفتہ پہلے ہی آگیا تھا۔ اس نے اپنے آنے کا کسی کو نہیں بتایا تھا۔ وہ ائیر پورٹ سے سیدھا قبرستان اپنے ماں باپ کو فاتحہ کہنے گیا تھا اور پھر پھپھو اور بہن کی ناراضگی کی وجہ سے وہ سیدھا غزالہ کی طرف آیا تھا۔
ابھی وہ لابی میں ہی آیا تھا کہ کسی کومل سی کھنکتی ہنسی نے اسکے اردگرد جلترنگ بکھیرا تھا۔ وہ نیلے رنگ کی جینز پر سفید ٹی شرٹ پہنے وجیہہ لگ رہا تھا۔ ردا کے اس بدلے دلنشین روپ کو دیکھ کر وہ مبہوت سا رہ گیا تھا۔ کسی ٹرانس کی کیفیت میں وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ہر چیز گلابی گال ، لمبے گیسو اور سب سے اوپر اسکی معصوم ہنسی اسکی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ وہ اپنی مقناطیسی نگاہوں کو بھٹکنے سے باز رکھنے کی سر توڑ کوششیں کررہا تھا مگر مقابل اسے ایک ہی پل میں تسخیر کرچکا تھا۔ وہ اندر جانا چاہتا تھا مگر اپنی سابقہ کرتوں کی وجہ سے دل مسوس کرکے رہ گیا اور بمشکل اپنی مقناطیسی نگاہوں جو ردا کے چہرے کا طواف چھوڑنے پر راضی نہیں تھیں انکو گھیستے ہوئے لاؤنج میں آیا تھا۔
غزالہ نے شادی کے ہنگاموں سے پہلے قرآن خانی رکھی تھی۔ اور آس پاس کے پڑوسیوں کو مدعو کیا تھا۔ قرآن خانی پانچ بجے تک مکمل ہوچکی تھی۔ اور کھانے کے بعد سارے مہمان باری باری کرکے اپنے گھر روانہ ہورہے تھے۔ اب بس گھر کے افراد کے ساتھ ردا اور نسرین ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔ جہاں وہ سب ہلکی پلکی باتیں کررہی تھیں۔ ڈرائنگ روم کا درواز تھوڑا سا کھلا ہوا تھا، باتوں کے دوران ساریہ کو دروازے کے پاس کوئی محسوس ہوا تو وہ باہر آئی تھی۔
مگر لاؤنج میں آکر تو وہ دھنگ ہی رہ گئی تھی کیونکہ زوار صوفے پہ نیم دراز ہوکر فون چلانے میں مصروف تھا۔ وہ اپنے وجیہہ بھائی کو دیکھ کر دل ہی دل میں اسکی بلائیں اتارنے لگی تھی۔
اپنے اوپر نظروں کی تپش سے اس نے سر اوپر اٹھایا تھا۔ ساریہ کے حیران چہرے کو دیکھ کر وہ جی جان سے مسکرا کر کھڑا ہوا تھا۔ اسکی مسکراہٹ دیکھتے ہی ساریہ کو اپنی خفگی یاد آئی تھی۔ جس پر وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئی تھی۔ زوار کو اندازہ تھا کہ وہ بہت سخت خفا ہے اسی لیے اس کے پیچھے اس کے کمرے میں آیا تھا۔ تاکہ اسکو مناسکے۔
_____________________________________________
کچھ دیر باتوں کے بعد ردا اور نسرین بھی اپنے گھر لوٹ گئے تھے۔ غزالہ اور عبیرہ انکو رخصت کرکے لاؤنج میں آئیں تھیں کہ زوار کے سامان کو دیکھ کر وہ چونکی تھیں۔
ساریہ کو غائب دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھیں کہ وہ اسے منا رہا ہوگا۔ غزالہ نے بھی دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ زوار کو نہیں بخشنا۔ ردا کے من موہنے چہرے کو دیکھ کر وہ زوار سے مزید نالاں ہوئی تھیں۔
_____________________________________________
"بھائی آپ کم از کم مما کی خواہش کا ہی احترام کرلیتے۔" پورے آدھے گھنٹے کے تگ و دو کے بعد وہ اب اپنی خفگی ختم کرچکی تھی مگر شکوں کی اقساط ابھی رہتی تھیں۔
"میں نے وجہ بتائی تو ہے۔" وہ منہ بسور کر بولا تھا۔ حد ہے وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے ایک ہی بات دوہرا دوہرا کر جھنجھلایا تھا۔
"اب آپ پھر اکیلے جائیں گے۔" وہ کڑے تیور لیے اسے گھور کر مستفسر ہوئی تھی۔
"نہیں جیسے تم سب کہو گے ویسے۔" زوار نے تو گویا کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی تھی۔
"وعدہ کریں۔" وہ ابھی بےیقین تھی۔
"وعدہ اب تو ناراضگی چھوڑ دو۔ پورا سال ناراض رہی ہو۔" وہ روہانسا ہوا تھا۔
"تو آپ نے ہی ناراض کیا تھا۔"
"اچھا تم خوش ہو؟ ،،،،،،، احان خیال رکھتا ہے تمہارا۔؟" وہ پیار سے اپنی خوشی سے کھلتی بہن کو دیکھ کر سوالیہ ہوا تھا۔
"نہیں وہ خیال نہیں رکھتے۔" وہ مصنوعی بیچارگی سے بولی تھی۔
"حیرت ہے ، میں لیتا ہوں اسکی کلاس اب۔"
"اوہ شٹ۔۔۔!" ساریہ نے اپنا ماتھا پیٹا تھا۔
"کیا ہوا۔؟" زوار نے پریشانی سے پوچھا تھا۔
"نیچے آنٹی نسرین بیٹھی ہوئی تھیں۔ اب تو شاید چلی بھی گئی ہوں وہ تو تب سے ہی جارہی تھیں ہم نے ہی روکا ہوا تھا۔ چلیں نیچے چلتے ہیں۔"
"چلو اب پھپھو کو بھی ماننا ہے۔" وہ تاسف میں سر ہلاتا اسکے پیچھے آیا تھا۔
_____________________________________________
"السلام علیکم پھپھو۔! کیسی ہیں آپ۔" وہ لاؤنج میں آتے ہی ہشاشت سے بولا تھا۔
"وعلیکم السلام،،،،، آخر آگئی ہماری یاد۔؟" غزالہ نے اسے گھرکا تھا۔
"نہیں بیوی کی آئی ہے اسی لیے سر کے بل آیا ہوں۔" وہ جان بوجھ کر شوخ ہوا تھا۔ کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اب ایسے نہیں جان چھوٹنے والی۔
"بس رہنے دو مجھے سب پتہ ہے۔" عبیرہ اور ساریہ تو انکی باتوں پر مسکرا رہی تھی۔
"پھپھو آج تو میں آپ سے خفا ہوں ، میری بیوی آئی تھی ، آپ نے مجھے اس سے ملوایا ہی نہیں ہے۔" وہ غزالہ کے پاس بیٹھتے مصنوعی خفگی سے بولا تھا۔
"بڑی یاد آرہی ہے بیوی کی۔"
"ظاہر ہے پھپھو وہاں سکون کی زندگی میں وہ افلاطون تو یاد آئے گی نا۔" وہ معصومیت سے بولا تھا۔ جس پر غزالہ نے اس کے شانے پر ایک دھب لگائی تھی۔
"خبردار۔"
"اچھا سوری سوری۔" وہ مسکرا کر کان پکڑ کر بولا تھا۔
"کتنے دبلے ہوگئے ہو۔" غزالہ نے اسکے چہرے کو دیکھ کر کہا تھا۔
"اب تو آگیا ہوں نا اب کھلائیں کھانا۔"
"اوہ،،،،، بھائی میں تو آپ سے پانی تک کا نہیں پوچھا۔" ساریہ نے سر کھجایا تھا۔ کیونکہ زوار کے آتے پی اس نے اپنا مقدمہ لگا لیا تھا۔
"سب کو اپنی ناراضگی سے فرصت ملے تو میرے پیٹ کا خیال کریں۔" وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دہائی دینے لگ تھا۔ عرصے بعد وہ اپنے اردگرد اپنے لوگوں کو دیکھ کر پرسکون ہوا تھا۔
"کھانا کھاؤ گے یا پہلے جوس۔؟" غزالہ نے اسکی اداکاری پر اسکو گھورتے ہوئے پوچھا تھا۔
"کھانا بہت شدید بھوک لگی ہے۔"
"آپ فریش ہوں میں لگاتی ہوں کھانا۔" ساریہ اسکو کہتے ہی عبیرہ کے ساتھ کیچن میں گئی تھی۔ جبکہ زوار اور غزالہ باتوں میں مصروف ہوگئے تھے۔
____________________________________________
عرصے بعد گھر میں خوشیاں مکمل ہوئی تھیں۔ ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ سب لاؤنج میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ جب زوار نے کڑے تیوروں سے احان کو گھورا تھا۔
"تمہاری شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔"
"حیرت ہے۔" احان نے پاس بیٹھی ساریہ کو ایک نظر دیکھ کر داد دینے والے میں بولا تھا۔
"کیوں نہیں خیال رکھ رہے میری بہن کا۔" وہ بھنوئیں سکیڑے مستفسر ہوا تھا۔
"میں تو زیادہ ہی رکھ رہا ہوں پر لگتا ہے وہ منفی میں کنسیڈر ہورہا ہے۔" وہ تاسف میں بولا تھا۔
"میتھس اچھی نہیں ہے تمہاری۔" زوار نے نفی میں سر ہلاتا افسوس سے کہا تھا۔
"نہیں میتھس تو بہت ہی زبردست ہے۔" اس نے ساریہ کے پاس ہوکر سرگوشی کی تھی جس پر ساریہ نے اسے زبردست گھوری سے نوازا تھا۔
"زوار تم بھی ولیمہ ساتھ کرلو۔" ہاشم نے براہ راست زوار کو کہا تھا۔
"انکل میں نے ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے۔" وہ اس اچانک سوال پر حیران ہوا تھا۔
"تو برخودار بڑھاپے میں جاکر سوچوں گے۔" ہاشم نے طنز کیا تھا۔
"نہیں انکل۔ ایک دوبدن تک بتاتا ہوں۔"
"زوار ہاشم ٹھیک کہہ رہے ہیں احان کے ساتھ ہی رکھ لیتے ہیں تمہارا اور ردا کا ولیمہ بھی۔" غزالہ نے بھرپور حمایت کی تھی۔
"جی اچھا۔" وہ گہرا سانس لے کر سعادت مندی سے بولا تھا۔
_____________________________________________
وہ سب ابھی لاؤنج سے اٹھے تھے۔ زوار بیڈ پر چٹ دراز ہوکر آنے والے وقت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پتہ نہیں نسرین کا کیا ردعمل ہو ولیمے کی بات سن کر۔ یہی سوچ سوچ کر اسکی نیند اڑ چکی تھی۔

جاری ہے۔  

Post a Comment

0 Comments