Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 28

ساری رات آنکھوں میں گزری تھی۔ مگر وہ ایک فیصلہ لے چکا تھا۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ ردا سے ایک بار بات کرنے کا ، اپنے اور اسکے رشتے کو ایک موقع دینے کا۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوا تھا جب اسے احساس ہوا تھا کہ اس نے غلطی کی تھی۔ ایک پچھتاوے سے پیچھا چھڑوانے کے لیے اس نے ایک اور غلطی کردی تھی۔
___________________________________________
وہ صبح سویرے جلدی اٹھ کر آفس کے کچھ کام کرکے شام کو علینہ کو ائیر پورٹ سے لے کر ، اسے ڈنر کروا کے اب نسرین کے گھر جارہا تھا۔ وہ صبح سے مختلف کاموں میں بہت الجھا رہا تھا ، شدید تھکن بھی ہوئی تھی مگر وہ اس بات کو مزید لمبا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اسے ہاشم اور غزالہ کو بھی جواب دینا تھا جو کہ ردا اور نسرین کے جواب پر انحصار کرتا تھا۔
رات کے نو بج رہے تھے جب وہ مناسب چال سے چلتے ہوئے لاؤنج میں آیا تھا۔ لاؤنج تو خالی تھا مگر کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ محتاط انداز میں چلتے ہوئے کچن کے دروازے کے کواڑ میں کھڑے ہوکر اندر دیکھنے لگا تھا۔ جہاں نسرین اسٹو کے آگے کھڑی دودھ گرم کررہی تھی۔
_____________________________________________
کل اسکا فزکس کا ٹیسٹ تھا۔ جو کہ اسے ناپسندیدہ مضامین میں سے ایک تھا۔ اسکی اچھی تیاری کرنے کے لیے وہ کالج سے آتے ہی پڑھنے بیٹھ گئی تھی۔ اب رات کے آٹھ بج رہے تھے جب تھکاوٹ کے وجہ سے اس کی بوجھل ہوتی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔ تیاری اسکی ہوچکی تھی اس لیے وہ جلدی سے کھانا کھا کر سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔
_____________________________________________
"السلام علیکم۔!" زوار نے وہیں کھڑے رہ کر پہل کی تھی۔
"وعلیکم السلام۔۔" زوار کو اپنے گھر دیکھ کر نسرین کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔
"خیریت۔" وہ برنر بند کرتی اسکے قریب آتی بےچینی سے مستفسر ہوئی تھی۔
"جی ،،،، وہ مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔" وہ شرم کے مارے نظریں نہیں ملا پارہا تھا۔ مگر بات تو برحال کرنی ہی تھی۔
"اچھا ، ٹھیک آؤ بیٹھو۔" نسرین کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ ٹھیک ہے زوار کی طرف سے اسکا دل برا ہوا تھا مگر وہ رشتہ تو ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اب زوار کے انداز اسکے اندر ہول اٹھا رہے تھے۔
"چائے لوگے یا کھانا کھاؤ گے۔" وہ بےطرح سے دھڑکتے دل کے ساتھ اسے لاؤنج میں لے کر آئی تھی۔ اور اسے صوفے پر بیٹھا کر وہ بمشکل مسکرا کر مستفسر ہوئی تھی۔
"آنٹی کچھ بھی نہیں۔" وہ اپنی مضطرابی پر ضبط کرتا بولا تھا۔
"میں چائے لاتی ہوں۔" وہ خود ہی کچن میں گئی تھی۔
"اف یار۔! کہاں سے بات شروع کروں۔! اور یہ میری ہیروئن کہاں دبکی بیٹھی ہے۔" نسرین کے جاتے ہی وہ کھل کر سانس لیتا منہ میں بڑبڑایا تھا۔" وہ شدید ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔
"چائے۔" وہ پانچ منٹ میں اپنی اور زوار کی چائے کے ساتھ لاؤنج میں آئی تھی۔
"شکریہ۔"
"کب آئے تھے۔؟" نسرین اسکے سامنے بیٹھتے ہوئی گویا ہوئی تھی۔
"کل آیا ہوں واپس۔" عجیب بےچینی نے اسے اپنے حصار میں کیا ہوا تھا۔
"اور سب گھر والے کیسے ہیں۔؟"
"ٹھیک ہیں۔ ،،،،،،،،، آنٹی میں آپ سے معزرت کرنے آیا ہوں۔" وہ دھیمے لہجے میں گویا اعتراف کررہا تھا۔ نسرین تو اسکی کہی بات سن کر حیران رہ گئی تھی۔ پھر سنبھلتے ہوئے بولی تھی۔
"کوئی بات نہیں۔" مسکراہٹ بلاشبہ زبردستی تھی۔
"آنٹی میں مانتا ہوں میری وجہ سے آپ سب کا دل دکھا ہے ظاہر ہے میں نے کی ہی ایسی بےتکی حرکت تھی۔ مگر آنٹی میں اس وقت خود ایک جزباتی دور سے گزر رہا تھا۔ عجیب سی وحشت ہورہی تھی یہاں۔ ،،،،، اس لیے میں یہاں سے بغاوت کرنا چاہتا تھا۔
میں بہت شرمندہ ہوں اپنے ان تلخ جملوں کےلیے۔ جو بھی تھا مجھے وہ سب کسی صورت زیب نہیں دیتا تھا۔" وہ چائے کا کپ سامنے رکھتا رسانیت سے دل میں جو بھی تھا کہہ گیا تھا۔
"کوئی بات نہیں ،،،، آپ بتاؤ جاب کیسی جارہی ہے۔؟" نسرین نے ٹوٹے دل کے ساتھ کہا تھا جو بھی تھا وہ اپنی بچی کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی نہیں برداشت کر پارہی تھی۔ مگر پرانی باتیں کرکے کچھ حاصل بھی کچھ نہیں ہونا تھا۔
"اللہ کا شکر ہے جاب ٹھیک ہے ، میں نے درخواست دی ہے ٹرانسفر کے لیے امید تو بہت ہے یہاں پاکستان میں جاب ہوجائے گی۔۔" وہ اب قدرے بہتر تھا۔ دل میں جو ملال تھا وہ معافی مانگ کر کچھ کم ہوا تھا۔
"اچھا۔"
"آنٹی وہ میں،،،،، میں اپنے اور ردا کے رشتے کو ایک موقع دینا چاہتا ہوں۔ آپ پلیز ایک موقع دے دیں میں وعدہ کرتا ہوں اب شکایت کی گنجائش بھی پیدا نہیں ہوگی۔" وہ کچھ توقف کے بعد ہچکچا کر بولا تھا۔ اس کی بات نسرین کے لیے بلکل غیر متوقع تھی۔ اس لیے وہ قدرے حیران ہوئی تھی کہ یہ وہی زوار ہے۔
"میں کیا کہوں۔! تم ردا سے بات کرکے دیکھ لو کیونکہ اب میں اس پر زبردستی کرکے اسکا دل بدظن نہیں کرنا چاہتی ہوں۔" نسرین نے صاف گوئی سے کام لیا تھا۔
"جی میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں آپ حق بجانب ہیں۔" وہ ردا سے بات کرنے کی اجازت پر ممنون ہوا تھا۔ اس کے لیے یہی بہت تھا کہ نسرین نے اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔
"بات چیت سے مسئلے حل ہوجائیں تو اس سے بہتر تو کوئی بات نہیں ہوسکتی۔" وہ مدبرانہ ہوئی تھی۔
"جی آنٹی ،،،،، میں اب چلتا ہوں۔" وہ اسکی بات سے اتفاق کرتا جانے کے لیے پرتول رہا تھا۔
"رات بہت ہوگئی ہے ، یہیں رک جاؤں۔"
"نہیں آنٹی ، میں چلتا ہوں۔" وہ مسکرا کر نفی کرنے لگا تھا۔
"آنٹی بھی کہہ رہے ہو اور بات بھی نہیں مان رہے۔" نسرین نے مصنوعی خفگی سے کہا تو وہ سر کھجا کر رہ گیا۔
"بیٹھو میں آتی ہوں۔" وہ اسے لاؤنج میں بیٹھا کر مہمان گاہ گئی تھی۔
" شکر ایک مرحلہ تو طے ہوا۔ اب اگلا مرحلہ اپنی اکلوتی ہیروئن کو منانے کا ہے۔ ،،،،، ویسے یہ ہے کہاں نظر کیوں نہیں آرہی۔" نسرین کے جاتے ہی اس نے شکر ادا کیا تھا۔ پھر ادھر ادھر دیکھ کر ردا کو ڈھونڈا تھا مگر وہ تھی کہ سامنے ہی نہیں آرہی تھی۔
"آجاؤ۔" نسرین نے لاؤنج میں آتے ہی اس سے کہا تھا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا اسکے پیچھے آیا تھا۔
____________________________________________
وہ نسرین کے جاتے ہی دروازہ بند کرکے گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر بستر پر چٹ دراز لیٹا تھا۔ سوچوں کا محور ابھی بھی اپنی ہیروئن پر تھا۔ جیسے ہی ردا کی اس دن کی جھلک اسکے ذہن کے پردے میں ابھری تھی اسکے لب خودبخود مسکرا اٹھے تھے۔ جس پر وہ آسودگی سے آنکھیں موند گیا تھا۔
____________________________________________
ایک روشن صبح کا آغاز ہوچکا تھا۔ سفید آسمان پر پرندے آغول کی صورت میں پھیلے اللہ کی حمد و ثنا کررہے تھے۔ سورج کی قرمزی کرنیں کمرے کی کھڑکی سے پھلانگ کر اندر داخل ہورہی تھیں۔ جس سے وہ کسمسا کر بند آنکھوں سے سائیڈ ٹیبل پر پڑی گھڑی کو ٹٹول کر ہلکی ہلکی آنکھیں کھول کر ٹائم دیکھنے لگا تھا۔ گھڑی صبح کے سات بجا رہی تھی۔ وہ ٹایم دیکھ کر گھڑی واپس رکھ کر کسملندی سے کروٹ کے بل ہوکر پھر لیٹ گیا تھا۔
___________________________________________
وہ رات کو جلدی سونے کی وجہ سے صبح صادق اٹھ گئی تھی۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ پڑھنے بیٹھ گئی تھی۔ جیسے ہی سورج کی نرم سنہری کرنیں تھوڑی تیز ہوئی تھیں وہ اٹھ کر کالج کے لیے تیار ہونے لگی تھی۔ اسکا کالج ساڑھے آٹھ بجے لگتا تھا۔
مگر صبح جلدی اٹھنے کی وجہ سے اب اسے شدید بھوک لگی ہوئی تھی اس لیے وہ آج معمول سے زرا جلدی تیار ہوکر نیچے آئی تھی۔
____________________________________________
"ردا تم تیار ہوگئیں۔؟" وہ رات کو زوار کو کمرے میں چھوڑ کر ردا کے کمرے میں آئی تھی مگر تب تک ردا سوچکی تھی۔ اس کیے اس نے صبح بات کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ ابھی وہ اسکو جگانے ہی آرہی تھی کہ ردا تیار ہوکر کچن میں آئی تھی۔
"جی مما۔ ناشتہ دیں بہت بھوک لگی ہے۔" وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے کر کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھی تھی۔
"میں تو تمہیں اٹھانے آرہی تھی کہ آج کالج نہ جاؤ۔" ردا نے آلو کے پراٹھوں کا آمیزہ فریج میں رکھتے ہوئے کہا تھا۔
"کیوں۔؟ ،،،، میرا بہت ضروری ٹیسٹ ہے آج۔" ردا نے حیرت سے نسرین کی بات سن کر بھنوئیں اچکائی تھیں۔
"وہ ،،، وہ رات کو زوار آیا تھا۔ تو دیر ہوگئی تھی رات کو ، تو وہ یہں رک گیا تھا۔" نسرین نے اسکے قریب آکر بڑے پیار سے اسکے سر پر بم پھوڑا تھا۔
"کون زوار۔؟" وہ ناسمجھتے ہوئے سوالیہ ہوئی تھی۔
"تمہارا شوہر۔" نسرین نے اسکی عقل پر ماتم کیا تھا۔ جس نے یہ بےتکا سوال داغا تھا۔
"ہنہ،،،،،، وہ سڑیل یہاں کیوں آیا ہے۔؟" اسکی سماعتوں سے یہ ٹکڑانے کی دیر تھی کہ وہ جھلا کر بولی تھی۔
"آہستہ۔۔۔!" ردا کی بات پر نسرین نے اپنا ماتھا پیٹا تھا۔ اور اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے تنبیہ کی تھی۔
"کیا آہستہ۔۔۔؟ وہ کیوں آیا ہے۔؟" وہ نسرین کی تنبیہ کو ہوا میں اڑاتے جھنجھلا کر بولی تھی۔ آخر کو پرانا دشمن تھا۔ کیسے برداشت ہوتا۔
"بات کرنے آیا تھا۔ تم چپ کرو اب میں کوئی بات نہ سنوں۔ اور یہ یونیفارم اتار کر آؤ آج کالج نہیں جانا۔" نسرین نے اس ڈپٹ کر قطعیت سے کہا تھا۔
"مما ایسے کیسے نہیں جانا۔؟ میرا آج انتہائی اہم ٹیسٹ ہے میں وہ نہیں چھوڑ سکتی میں نے کل کا پورا دن لگایا ہے۔" ردا تو نسرین کی بات پر صدمے میں غوطے کھا کر بمشکل بولی تھی۔ کل سے وہ اتنی محنت کررہی تھی اور اب وہ اس فلوپ شہزادے کی وجہ سے خواہ مخواہ چھٹی کرلے یہ بات اسکے خالی پیٹ کا بھی ہاضمہ خراب کرگئی تھی۔
"ردا۔۔۔!" نسرین نے اسے آنکھیں دیکھائی تھیں۔
"مما میں نے چھٹی نہیں کرنی تو نہیں کرنی۔" وہ غصے سے کہتی بدک کر کرسی سے اٹھی تھی۔
"ویسے تو روز موت پڑتی ہے کالج جاتے ہوئے آج میں کہہ رہی ہوں چھٹی کا تو اب کیوں فوت ہورہی ہو۔" نسرین نے بھی اگلے پچھلے حساب چکتا کیے تھے۔
"مما میرا نا ٹیسٹ ہے میں جارہی ہوں۔" وہ مزید بحث کو ترک کرکے کچن سے باہر گئی تھی۔
____________________________________________
وہ سوا سات بجے اٹھ کر فریش ہوکر باہر نکلا تھا۔ اسکا رخ لاؤنج کی طرف تھا مگر کچن سے آتی بحث و تکرار سے وہ کچن کی طرف بڑھنے لگا تھا۔
____________________________________________
"اپنے شوہر سے تو ملتی جاؤ چھوٹی سی بیوی۔" وہ نسرین کے ساتھ کچن میں اچھی خاصی بحث کرکے پیر پٹختی باہر نکلی تھی کہ اسکی سماعتوں میں زوار کی شوخ آوازگھلی تھی۔ جس پر وہ عالمِ تحیر میں جھٹکے سے پلٹی تھی۔
وہ لبوں پر جاندار مسکراہٹ سجائے ، ڈارک بلیو جینز پر بلیک ٹی شرٹ پہنے اسے دیکھ کر اپنی تشنگی مٹا رہا تھا۔ اسکے معصوم روپ سے زوار کو اپنے رگ و پے پہ سکون اترتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
جبکہ صبح ہی اس جان کے عذاب کو دیکھ کر ردا کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔ پیٹ تو پہلے ہی خالی تھی۔ اس پہ متضاد مقابل کی جاندار مسکراہٹ کو دیکھ کر وہ اسے زہر سے بھی کوئی اوپر کی چیز لگا تھا۔ اسکی جھیل سی آنکھیں گویا شعلے ٹپکنے لگی تھیں۔
"کیا بہت پیارا لگ رہا ہوں۔۔۔؟ ،،،،،،،،،،، اب کیا ان آنکھوں سے سالم نگلو گی۔" مسلسل اسکو خود کو گھورتے دیکھ کر زوار نے پھر شوخی سے کام لیا تھا۔ جبکہ اسکی بات سن کر ردا اپنے ناک کے نتھنے پھلا کر بھسم کرنے والے لہجے میں غرائی تھی۔
"آپ نگلنے والی چیزوں میں سے نہیں ہیں ، آپ گلے شریف میں لٹکنے والوں میں سے ہیں۔" وہ بہت لپیٹ کر اسے ہڈی کہہ چکی تھی۔ زوار اسکے حساب برابر کرنے پر دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔
"اوہ تم بولی تو ،،،، ورنہ مجھے لگا تھا کہ تم گونگی ہوگئی ہو۔" اسکی شعلے بیانی پر زوار نے مزید اسکو چڑانے کے لیے بائیں بھنو اچکا کر پرسوچ لہجے میں کہا تھا۔
"ردا۔!" اس سے پہلے کے ردا کوئی جواب دیتی نسرین کی سوالیہ آواز سنائی دی تھی۔ وہ زوار کو دوحرف بھیج کر پیر پٹختی پھر سے کچن میں گھسی تھی۔ اسکا موڈ بری طرح سے بگڑ چکا تھا۔ ایک طرف بھوک تھی تو دوسری طرف یہ کھڑوس اپنی تمام تر منہوسیت کے ساتھ اسکے سامنے تھا۔
ردا کے اندر آتے ہی وہ بھی اندر آگیا تھا۔
"آجاؤ۔! ناشتے میں کیا لو گے۔" ردا کے پیچھے زوار کو آتا دیکھ کر وہ اسے مخاطب ہوئی تھی۔ ردا تو نسرین کے اندازِ تخاطب کو دیکھ کر مزید جل کر جل ککڑی بنی تھی۔ اسے لیے بھسم کردینے والی نظروں سے زوار کو دیکھ کر جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی تھی۔
"سوئیاں۔"
"ردا۔" نسرین نے بروقت اسے گھرکا تھا۔
"آنٹی مجھے لگتا ہے اس نے سویاں کہا ہے۔" زوار نے آنکھیں گما گما کر معصومیت سے کہہ کر مزید ردا سے سلواتیں سنی تھیں۔ جو وہ دل ہی دل میں اسے دے رہی تھی۔
نسرین نے زوار کے سامنے آلو کے پراٹھے رکھے تھے جن کے ساتھ وہ بھرپور انصاف کررہا تھا۔
"ناشتہ کرلو دیر ہوجائے گی۔" مسلسل اسکو زوار کو گھورتے دیکھ کر نسرین نے ردا کو ٹوکا تھا۔
"جی بس تو ویسے بھی گزر گئی ہوگی۔" وہ جلے لہجے میں بولی تھی۔
"اوہ۔! آنٹی اگر کوئی مسئلہ نہیں ہے تو میں چھوڑ دیتا ہوں میں بھی بس نکلنے والا ہوں۔" زوار نے پھر اسے زچ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔ دوسرا وہ کچھ دیر اپنی اس ہیروئن کو بلاخوف دیکھنا چاہتا تھا۔
"مجھے نہیں جانا۔" وہ گویا احسان کرتے بول کر ناشتہ کرنے لگی تھی۔
"ابھی تو کہہ رہی تھی کہ ٹیسٹ ہے۔" نسرین نے تاسف میں اسے دیکھا تھا۔
"اب بھی میں ہی کہہ رہی ہوں کہ مجھے نہیں جانا۔" وہ بےدلی سے بولی تھی۔ زوار تو پھلجڑی چھوڑ کر اب چپ چاپ پراٹھے کھا رہا تھا۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے چھٹی کرنے کی۔ زوار چھوڑ دے گا۔" نسرین نے جیسے بات ختم کی تھی۔
"میں جارہی ہوں بیگ لینے۔" وہ جھلا کر کہتی اٹھی تھی۔ بھوک تو ویسے ہی اپنی موت آپ مرچکی تھی۔
_____________________________________________
"کچھ کھانا ہے تو لے دوں۔؟" وہ اس وقت کالج کے راستے میں تھے جب زوار نے ردا کو دیکھ کر پوچھا تھا۔ جو کہ کڑے ضبطوں سے گزر رہی تھی۔ اسے اچھے سے پتا تھا کہ ردا نے ناشتہ ٹھیک سے نہیں کیا ہے۔
"جی زہر کھانا ہے وہ لادیں۔" وہ مرچیں چبا کر دانت پیستے بولی تھی۔
"کیسی اسٹوڈنٹ ہو تمہیں پتا ہی نہیں کہ خودکشی حرام ہے۔" زوار نے اسکی بات پر چوٹ کی تھی۔ جس ہر وہ صبر کے گھونٹ بھرتے بولی تھی۔
"گاڑی تیز چلائیں۔"
"نہیں بھئی اگر کہیں لگ وگ گئی تو۔ ابھی تو میں نے دنیا میں کچھ دیکھا بھی نہیں ہے۔" وہ شوخ جملہ نہایت معصومیت سے بولا تھا۔ زوار تو اسے بغیر کسی کے موجودگی کے احساس سے ، اسے اپنے قریب دیکھ کر خوشی سے پاگل ہورہا تھا۔
"جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو چھوڑنے کیوں آئے ہیں۔" وہ زوار کی نظروں سے خائف ہوتی جھنجھلا کر بولی تھی۔
"میری مرضی۔" زوار نے گاڑی کالج کے گیٹ کے سامنے روکتے ہوئے کندھے اچکا کر کہا تھا۔ جس پر ردا کراہ کر رہ گئی تھی۔
"میری بڑی حسرت ہے کہ تم بھی صبح انکی طرح مسکرا کر کالج جاؤں۔" وہ ابھی بیگ اٹھا کر باہر جانے لگی تھی کہ زوار نے پوائنٹ سے نکلتی ہنستی ہوئی لڑکیوں کو دیکھ کر اسکے موڈ پر چوٹ کی تھی۔
"اور میرا دل کررہا ہے کہ آپکا گلا دبا دوں۔" وہ غصے سے غرائی تھی۔
"دبانا ہے تو سر دبانا اپنے ان کومل ہاتھوں سے۔" زوار نے اسکی غصے کی بلکل بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ، آنکھیں ٹپٹپا کر کہا تھا۔ جس پر وہ زوار کو ایک غصیلی گھوری سے نواز کر باہر نکل گئی تھی۔
"اللہ حافظ۔" زوار نے بھی باہر نکلتے ہوئے ہنس کر کہا تھا۔ وہ واقعی ہنستے ہوئے بہت پیارا لگ رہا تھا۔
"یار کتنا ہینڈسم بندہ ہے۔" ردا کے تھوڑے فاصلے پر دو لڑکیاں کھڑی ہوکر چہ مگیوں کررہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے زوار کو دیکھ کر دلچسپی سے کہا تھا۔ ردا کا ضبط بس یہی تک کا تھا۔ صبح کی جو بھراس اسکے اندر بھر رہی تھی وہ اب اپنے نکلنے کا راستہ بنا چکی تھی۔
"سنو آپ ایک کام کرو گی۔" وہ ان دونوں لڑکیوں کے پاس آکر دوسری لڑکی سے بولی تھی۔
"کیا۔؟" جبکہ وہ حیرانی سے ردا کو دیکھنے لگی تھی۔
"گھر جاکر انکی مما کو فون کرکے کہنا اپنے اس شاہکار کی آنکھوں کا علاج کروائیں۔" وہ جھلا کر بولی تھی۔
"آپ وقت نکال کر اپنا کروالیں۔" اس سے پہلے کہ ردا آگے بڑھتی ، جس کے بارے میں ردا نے مشورہ دیا تھا وہ تڑخ کر بولی تھی۔
" تم مجھے کہہ رہی ہو۔؟" ردا تو اس کی بات سن کر آگ بگھولا ہوگئی تھی۔ وہ کندھے پہ بیگ لٹکائے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے میدان میں عود آئی تھی۔
"جی بلکل اور لگے ہاتھوں اپنے کانوں کا بھی علاج کروا لینا۔ پاگل۔!" اس لڑکی نے بڑے فخر سے اقرار کرتے مزید گل افشانی کی تھی۔
"تم ،،،، تمہاری اتنی ہمت تم نے مجھے پاگل کہا ہے۔" ردا تو پاگل سن کر تلملا کر رہ گئی تھی۔
"ہاں تو۔" وہ گردن اکڑا کر بولی تھی۔
"کیا ہو ہے۔؟" زوار جو کہ گاڑی میں بیٹھ گیا تھا اور گاڑی چلانے سے پہلے ایک نظر سامنے دیکھنے لگا۔ جہاں ردا کے تیور دیکھ کر وہ بھنوئیں سکیڑ کر سمجھنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ اسے کے کمر پر ہاتھ رکھنے کی دیر تھی وہ پیچھے دیکھ کر گاڑی پارک کرکے بھاگ کر اس تک آیا تھا۔ اور ناسمجھی میں ردا کو دیکھ کر مستفسر ہوا تھا۔
"یہ منحوس شکل اپنی کرامات دکھا رہی ہے۔" ردا نے اسے بھی ساتھ گھسیٹا تھا۔ زوار نے نفی میں سر ہلاتے اسے دیکھا تھا۔
"آپکی بہن بلکل پاگل ہے۔" جبکہ ردا کا جواب سن کر لڑکی نے مزید کہا تھا۔
"او ہیلو۔،،، بہن ہوگی تم ، پورا پاکستان ہوگا اسکی بہن۔ خبردار اب اگر مجھے پاگل کہا تو ورنہ۔" لڑکی کی بات کرنے کی دیر تھی ردا کا تو دماغ الٹ گیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اسکی طرف قدم بڑھا کر خونخوار نظروں سے گھور کر اسے دھمکانے لگی تھی۔
"ردا دیر ہورہی ہے اندر جاؤ۔" زوار نے ہڑبڑا کر ردا کی بازو کھینچ کر اسے پیچھے کیا تھا۔
"آپ سے مطلب۔" وہ ہاتھ چھڑوا کر خفگی سے بولی تھی۔
"اندر جارہی ہو یا نہیں۔" زوار نے اپنے ازلی انداز میں اسے گھورا تھا۔
"پاگل انسان۔!" وہ منہ میں بڑبڑاتے پیر پٹختی اندر جانے لگی تھی۔
"وہ میری بہن نہیں ہے میری بیوی ہے آئندہ تمیز سے بات کریں۔" زوار نے اب اس لڑکی کی طرف دیکھ کر اسکی تصیح کرنے کے ساتھ اسے تنبیہ بھی کی تھی۔
"مائے فٹ۔" بیوی سن کر تو وہ تپی ہی تھی ، مگر ساتھ اسکی تنبیہ سن کر وہ غصے سے جھنجھلا کر بولی تھی۔ زوار تو اس بدتمیز لڑکی کو دیکھ کر رہ گیا تھا جو اب آگے بڑھ گئی تھی۔
_____________________________________________
"اللہ یہ لڑکی کتنا لڑتی ہے۔ پتہ نہیں میں جب اس سے بات کروں گا تو یہ پھپھا کٹنی کیا کرے گی۔ یااللہ مدد۔" وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے شاک میں بڑبڑایا تھا۔ اسے تو اپنی جان کے لالے پڑگئے تھے۔
_____________________________________________
آج کا دن بہت مصروف گزرا تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے احان آج آتے ہی نڈھال ہوکر بستر پر دراز ہو گیا تھا۔ جبکہ ساریہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکر نرمی سے اپنے بال سلجھا رہی تھی۔
احان آنکھوں پر بازو رکھ کے چت دراز لیٹا تھا جب بیک وقت ساریہ کے فون پر پیغام آرہے تھے۔ وہ ناسمجھی سے بیڈ کی طرف دیکھتے ہوئے احان سے بولی تھی۔
"حان جاگ رہے ہیں تو فون تو دیکھیں۔" اسے لگا کہ احان کا فون بج رہا ہے۔
"ہمم۔،،،، میرا نہیں بج رہا ہے تمہارا بج رہا ہے۔" وہ ایک نظر سائیڈ ٹیبل کو دیکھ کر خمار آلود آواز میں بولا تھا۔
"اچھا ،،،،، دیکھیں تو سہی کس کے مسیج آرہے ہیں۔" وہ ہنوز بال سلجھاتے ہوئے بولی تھی۔
_____________________________________________
وہ آج غزالہ کی طرف جانے کی بجائے اپنے گھر آیا تھا۔ گھر میں مکینوں کے نہ ہونے کی وجہ سے سنسانیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بےدلی سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں آکر ، شب خوابی کا لباس پہن کر بیڈ پر لیٹا تھا۔
ذہن آج بھی اپنی بیوی کی طرف لگا ہوا تھا۔ شاید یہ اسے بیوی مان لینے کا اثر تھا جو وہ اب اسے اپنے ہر طرف دیکھنا چاہتا تھا۔ اس دیکھنے کی چاہ پر دل مسوس کرتا وہ لیٹا ہی تھا کہ ذہن میں ایک جھمکا ہوا۔
"کیا ہوا دیکھ نہیں سکتا تو ،،،،،، بات تو ہو ہی سکتی ہے۔" وہ اپنی خیال پر مسکرا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ جلدی سے پاس پڑے فون کو ہاتھ میں لے کر اسے بیک وقت کئی مسیج کیے تھے۔
"ساری،،،،،،، ردا کا نمبر ہے کیا۔"
"جلدی بتاؤ۔؟"
"کہاں غائب ہو۔؟"
"ردا کا نمبر بھیج دو۔"
"کہاں ہو جواب کیوں نہیں دے رہی۔"
وہ بےصبرے پن کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے پیغام پہ پیغام بھیجے جارہا تھا۔ مگر اگلا بندہ اسکا صیحیح سے امتحان لے رہا تھا۔
"یار۔! کہیں سو نہ گئی ہو۔ اف یار کیا مصیبت ہے۔۔۔!" وہ مسلسل فون کو دیکھ کر جھنجھلا کر بولا تھا۔
_____________________________________________
"تمہارے لارڈ صاحب ہیں۔" زوار کی بےصبری دیکھ کر اسکی نیند بھک سے اڑنچھو ہوئی تھی۔ وہ اسکی حالت کا مزہ لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
"بھائی ،،،،، اس وقت۔۔؟" وہ تحیر سے اسکے قریب چلی آئی تھی۔ جبکہ احان نے ہنسی دباتے ہوئے فون اسکے سامنے کیا تھا۔ آنکھیں سکیڑ کر اسکے مسیج پڑھ کر ساریہ نے ہنستے ہوئے احان کی طرف دیکھا تھا۔ بھنوؤں کو ملا کر انہیں اوپر سوالیہ انداز میں اٹھائے احان سے اگلا پروگرام پوچھ رہی تھی۔
"یار ویسے یہ کبھی قابو نہیں آئے گا ، میں تو کہتا ہوں مزہ کرتے ہیں۔" احان نے ہنستے ہوئے اجازت چاہی تھی۔
"تھوڑا سا تنگ کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔" ساریہ نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ احان کو دیکھا تھا۔
"بلکل ، بلکل ،،،،، اب دیکھو۔" وہ شرارت سے مسکراتا ہوا گردن ہلا کر فون پر کچھ لکھنے لگا تھا۔
"کیا ہوا۔؟ خیریت۔؟ ،،،، میں احان۔۔۔؟" احان نے لکھنے کے ساتھ ہنسی دباتے نیند والا ایموجی بھیجا تھا۔ ساریہ بھی اب اٹھ کر اسکے پاس بیٹھ کر فون کو دیکھنے لگی تھی۔
زوار جو فون ہاتھ میں پکڑے انتظار کررہا تھا۔ مسیج آتے ہیں جلدی سے سیدھا ہوا تھا۔ مگر نیند والا اموجی دیکھ کر وہ سخت بدمزہ ہوا تھا۔
"ہاں خیریت ہے ،،،،، ساریہ کہاں ہے۔؟" وہ کچھ سوچتے ہوئے مستفسر ہوا تھا۔
جب کہ اسکی حالت کا اندازہ لگا کر ساریہ اور احان کا ہنس ہنس کر برا حال ہورہا تھا۔
"یار۔! وہ تو آج بہت تھکی تھی جلدی سو گئی۔" احان نے اب کی بار ہنستے ہوئے پہلو میں بیٹھی ساریہ کی طرف دیکھ کر سیڈ ایموجی بھیجا تھا۔
"اچھا۔۔۔!" اسکے متوقع جواب کو سن کر زوار کا سارا جوش ڈھیلا پڑا تھا اور موڈ کا بری طرح ستیاناس الگ ہوا تھا۔
اسکو مزید تڑپانے کے لئے اب کی بار احان نے کوئی مسیج نہیں بھیجا تھا۔ ایک طرف انکی زوار کی حالت کو سوچ کر ہنسی نہیں رک رہی تھی تو دوسری طرف زوار کی جھنجھلاہٹ سوا نیزے پر تھی۔
"کب سوئی تھی۔؟" دو منٹ کے وقفے کے بعد زوار نے پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر مسیج بھیجا تھا۔
"پتا نہیں یار۔! میں تو جب آیا تھا تب وہ سوئی ہوئی تھی۔" زوار کا مسیج پڑھ کر انکا قہقہہ بےساختہ تھا۔ احان بمشکل ہنسی کے درمیان مسیج لکھ کر بھیج چکا تھا۔ جو اگلے بندے کے ارمانوں پر پورا کا پورا ڈیم الٹ کر ، موڈ کو ملیا میٹ کر گیا تھا۔
"اچھا۔" وہ مسیج لکھ کر اب لیٹ گیا تھا۔
"احان اب بس بھی کریں۔" اچھی طرح ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوکر اب ساریہ بھائی کی محبت میں بولی تھی۔ جس پر احان نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
"احان سن۔۔۔؟" ابھی وہ ایک دوسرے کو گھور رہے تھے کہ زوار کا ایک اور مسیج آیا تھا۔ اسکی اضطرابی دیکھ کر پھر سے انکی ہنسی کا فوارہ پھوٹ گیا تھا۔
"جی ، جی۔" وہ نہایت تابعداری ہوا تھا۔
"کچھ نہیں۔" وہ اسکے ٹانگ کھینچے کے ڈر سے بات کو گول کرگیا تھا۔
"کیا ہوا ہے ، کوئی بات ہے تو بتا۔۔؟" احان مسلسل ساریہ کے گھورنے کو نظرانداز کرکے زوار سے مصنوعی ہمدردی کررہا تھا۔
"نہیں یار۔ کچھ نہیں۔" وہ بےدلی سے انکار کر گیا تھا۔
"مرضی ہے تیری۔! ورنہ کوئی تو بات ہے۔" احان نے پھر سے اسے اکسایا تھا۔ اب کی بار اسکے میسج بھیجتے ہی ساریہ نے احان سے فون جھپٹنے کے انداز میں لیا تھا۔
"یار وہ۔ میں کہہ رہا تھا کہ۔" وہ بات کرتے کرتے پھر ہچکچایا تھا۔
"کہ۔۔؟" اب کی بار ساریہ نے پوچھا تھا۔
"وہ ،،،، وہ ردا کے پاس فون ہوگا کیا۔؟ تجھے پتہ ہے۔؟" بلآخر وہ بول ہی گیا تھا۔ سانس روک کر مسیج بھیج کر وہ گہرا سانس لے کر جواب کا انتظار کرنے لگا تھا۔
"یار نہ دینا آج کی رات نمبر ، کچھ نہیں ہوتا۔" احان نے اسے پکڑ کر اپنے قریب بیٹھایا تھا۔ زوار کا بےبس سا مسیج پڑھ کر وہ ساریہ کی طرف دیکھ کر متانت سے بولا تھا۔
"اب آپ زیادہ کررہے ہیں۔ اللہ اللہ کرکے تو وہ سیدھی لائن پہ آئے ہیں اور آپ ہیں کہ تنگ کررہے۔" ساریہ نے منہ پھلا کر خفگی سے کہا تھا۔ اندر ہی اندر وہ بہت خوش تھی کہ چلو زوار نے اپنے اور ردا کے بارے میں کچھ تو سوچا ہے۔
"بس کردو اتنا وہ بیچارہ۔" احان نے اسے آنکھیں دکھائی تھیں۔ اور ساریہ سے فون لے کر فوراً مسیج بھیجا تھا۔
"پتہ نہیں۔"
"یار ساریہ کے فون پہ چیک کرکے دیکھ لے۔" اب جب اصل بات کرلی تھی تو وہ یارانہ ہوا تھا۔
"اچھا رک۔" احان نے فوراً ہمدردی جتائی تھی۔ جبکہ اسکا مسیج پڑھ کر زوار اچھل کر بیٹھا تھا۔
"ہاں ہے۔" احان نے اسکو لجانے کے لیے کہا تھا۔
"اچھا بھیجو جلدی سے۔" زوار نے اپنی بےصبری اس پہ ظاہر کی تھی۔
"کیوں تو نے کیا کرنا ہے۔" احان نے جان بوجھ کر بات کو کھینچا تھا۔ ساریہ مسلسل اسکو گھور رہی تھی۔ مگر وہ کہاں باز آنے والا تھا۔
"جھک مارنی ہے۔ بکواس نہ کر اور نمبر بھیج۔" احان کا مسیج پڑھ کر زوار نے جل کر بھنا ہوا مسیج بھیجا تھا۔
"او ہو غصہ کیوں کررہا ہے۔ دیکھ کیا پتا وہ برا منا جائے اگر اسکو پتہ چلا کہ اسکا نمبر تیرے پاس گیا ہے۔" احان نے ہنسی دباتے ہوئے اسے باتوں میں الجھایا تھا۔
"شکریہ ہمدردی کا تو نمبر بھیج۔" زوار نے اسکی ہمدردی پر طنز کرکے روعب جھاڑا تھا۔
"یار میں تو ایسے کسی بچی کا نمبر نہیں بھیجوں گا کسی انجان کو۔" احان بھرپور معصومیت سے اسکی جان تنگ کی تھی۔
"تیرا دماغ جگہ پہ ہے۔؟ انجان کے بچے میں اسکا شوہر ہوں۔" زوار تو اسکے تنگ کرنے پر بھڑک اٹھا تھا۔
"تجھے یاد آگیا ہے؟" احان نے آنکھیں کھولے ہوئے ایموجی کے ساتھ اس پر طنز کیا تھا۔
"یار کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو ، چل میرا پیارا بھائی نمبر بھیج اپنی بھابھی کا۔" زوار نے بےبسی سے کہہ کر اسے پیار سے پچکارا تھا۔
"یار پھر سوچ لے۔" احان نے اسکے پیار کو لپیٹ کر اپنی بیوی کو دے کر پھر بات الجھائی تھی۔
"احان بس کردے۔ اور نمبر بھیج۔" زوار نے رونی شکل والا ایموجی بھیجا تھا۔
"یار میں کیسے بھیجوں ، صبح ساریہ کو کہہ دوں گا وہ دے دے گی۔" احان نے بڑی آسانی سے اپنا دامن بچایا تھا۔
"شاباش اے۔! فضول مسیج پہ میسج ہورہے ہیں اور نمبر بھیجنے میں موت آرہی ہے۔" زوار تو غصے سے جھنجھلا اٹھا تھا۔
"تو کیوں اتنا اتاولا ہوا ہے کر لینا صبح بات۔" احان نے پرسکون ہوتے کہا تھا۔ جو کہ اسکے اندر مزید آگ بھڑکا گئی تھی۔
"اپنا وقت شاید تو بھول گیا ہے۔"
"نہیں ، نہیں ،،،، جناب۔" احان نے دانت نکالے تھے۔ زوار مسیج پر پڑھ کر اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ کیوں اس نے احان سے بات کی تھی۔
"ویسے آپس کی بات ہے تو نے نمبر کرنا کیا ہے۔؟" وہ راز دانہ طور پر مستفسر ہوا تھا۔
"میرا دل کررہا ہے تیرا سر پھاڑ دوں فسادی۔" وہ غصے سے مسیج بھیج کر کال کرنے لگا تھا۔ جو کہ احان نے پہلی ہی بیل پر اٹھا لیا تھا۔
"ہاں بول اب کیا کہہ رہا ہے۔،"
"ذلیل انسان نمبر بھیج۔" زوار دبے دبے غصے میں غرایا تھا۔
"کس کا نمبر۔" احان فوراً انجان بنا تھا۔
"ردا کا۔۔۔" زوار کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ احان کا سر پھاڑ دے۔
"بھائی میں بھیجتی ہوں۔" اس سے پہلے کہ احان کوئی بات کرتا ساریہ نے احان کو گھورتے ہوئے اونچی آواز میں کہا تھا۔
"یہ تو جاگ رہی ہے ،،،،، احان تو مجھے مل تو سہی۔ تیری خیر نہیں ہے میرے ہاتھوں۔" ساریہ کی آواز سن کر اسے پتہ چل چکا تھا کہ احان اسے تنگ کررہا تھا۔ جس پر وہ اسے دھمکاتے ہوئے بولا تھا۔
"جب تک تو بتائے گا نہیں کہ کرنا کیا ہے میں تو نمبر نہیں دوں گا۔" احان ابھی بھی ہنسی دباتے ہوئے بضد تھا۔ ساریہ نے بارہا اس سے فون کھینچا تھا مگر وہ اسکے قابو میں نہیں آرہا تھا۔
"اوئے تجھے شرم ہے۔ یہ بات بھی بھلا پوچھنے والی ہے۔؟" زوار نے اسکی عقل پر جیسے ماتم کیا تھا۔
"اوئے ہوئے لڑکا شرما رہا ہے۔" احان نے شوخی سے کہا تھا۔
"احان بس کردے۔" زوار نے بے بس ہوکر کہا تھا۔
"اچھا بھیجتا ہوں نمبر۔" اچھی طرح اسکی حالت کا مزہ لے کر وہ ہنستے ہوئے بولا تھا۔
"شکریہ ذلیل انسان۔" زوار نے بھرپور طنز کیا تھا۔
"اوکے اللہ حافظ۔"
"بہت برے ہیں آپ۔" فون بند ہوتے ہی ساریہ نے خفگی سے کہہ کر فون اس کے ہاتھ سے لے کر زوار کو نمبر بھیجا تھا۔
"اب ایسے کیوں گھور رہے ہیں۔" وہ فون بند کرکے احان کو دیکھ کر خفگی سے پوچھنے لگی تھی۔
"بتاتا ہوں تمہیں۔" وہ گردن ہلاتا اسکی طرف بڑھا تھا۔
_____________________________________________
بہت ہی کوئی ذلیل انسان ہے کب سے تنگ کررہا تھا۔ اسکو تو ملنے دو پھر اسکی طبیعت صاف کرتا ہوں۔ ابھی تو فلحال اپنی ہیروئن سے اپنی کرواؤں۔
ساریہ کا مسیج ملتے ہی اس نے شکر کیا تھا۔ جلدی سے وقت دیکھا تھا تو بارہ بجنے میں پندرہ منٹ تھے۔ سڑ کر احان کو دو حرف بھیجے تھے جس نے خواہ مخواہ اتنا وقت ضائع کروایا تھا۔
"ہیلو۔" زوار نے نچلا لب دانتوں میں دبا کر نہ تھمنے والی مسکراہٹ کا گلا گھونٹ کر اپنی بیوی کو پہلا مسیج بھیجا تھا۔ مسکاتی آمکھیں مسلسل فون کی اسکرین کا طواف کررہی تھیں۔ اتنظار کی تاب سے دل کی دھڑکنیں بےہنگم ہورہی تھیں۔ چہرہ عجیب چمک سے چم چم کر رہا تھا۔
"کون۔؟" وہ جو کتاب میں سر دیے بیٹھی تھی فون کے بجنے سے نظروں کا ارتکاز بدل کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون اٹھانے لگی تھی۔ مگر انجان نمبر دیکھ کر وہ تاسف میں سر ہلاتی پھر سے پڑھائی کے لیے نظریں کتاب کے صفحوں پر کرگئی تھی۔ مگر بیک وقت آتے تین چار میسج نے اسے جواب دینے پر مجبور کیا تھا۔
"آپکے سب کچھ ،،،،،،،،،، کیسی ہیں۔؟" وہ شوخی سے کام لیتے کسے پرانے احباب کی طرح گویا ہوا تھا۔ انداز ایسا تھا جیسے بڑا یارانہ رہا ہو۔
"بسترِ مرگ پر ہوں۔" چھچھوڑت سے بھرا مسیج پڑھ کر وہ تپ کر بولی تھی۔
"اوہ۔! اچھا میرا نمبر سیو کرلیں تاکہ جب آپ بور ہوں تو مجھ سے بات کرلیں۔" زوار کو اس سے سیدھے جواب کی توقع ہرگز نہ تھی۔ مگر ردا کا مسیج پڑھ کر غصے سے لال بھبھوکا ہوتا اسکا منہ تصور کرتے وہ جی جان سے ہنسا تھا۔ دل کی کیفیت کیا بدلی تھی اس نے تو اپنے انداز ہی بدل ڈالے تھے۔
"کیوں میرے باپ لگے ہو۔" وہ کتاب کو ایک طرف رکھ کر اس چھھوڑے کی طبیعت ٹھیک کرنے کے لیے میدان میں عود آئی تھی۔
"نہیں کچھ اور لگا لیں۔" ردا کے جواب پر وہ خوب ہنس کر لوٹ پوٹ ہوا تھا۔ اور اسکو مزید چرانے کے لیے وہ شوخ ہوا تھا
"شکل دیکھی ہے۔؟" وہ تو اب پھٹ چکی تھی۔
"جی ماشااللہ آپ بہت پیاری ہیں۔ میں بھی دیکھنے میں اچھا ہوں۔" بڑی دھٹائی سے مسیج بھیجا گیا تھا۔ مسیج پڑھ کر تو ردا کا خون خول اٹھا تھا۔ جس پر وہ ساری تمیز بلائے طاق رکھ کر اسے سبق سیکھانے لگی تھی۔
"تو پھر اپنے اس پیارے تھوبرے لے لیے میری طرف سے دو نہیں تین حرف قبول کریں۔"
"تین حرف کسی اور موقع کے لیے رکھ لیں۔" ردا کی بات پر وہ ہنستے ہوئے معنی خیز ہوا تھا۔
"پاگل نہ ہو تو۔" اسکا آخری مسیج پڑھ کر ردا نے پھر کوئی جواب نہ دیا تھا۔ فون کو بند کرکے وہ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ جھلا کر بولی تھی۔
جبکہ اسکا پھر سے مسیج نہ آنے پر وہ مسکرا کر فون رکھتا لیٹ گیا تھا بلاشبہ اب اسے اچھی نیند نے اپنی آغوش میں لینا تھا۔
_____________________________________________
صبح اٹھتے ہی اس نے فون کنگالا تھا۔ مگر ردا نے پھر کوئی جواب نہ دیا تھا۔ وہ لیٹے لیٹے ہی فون اٹھا کر اسکو مسیج کرنے لگا تھا۔
"پریٹی ڈارلنگ۔! صبح بخیر۔" وہ مسیج بھیج کر ہنستے ہوئے اٹھا تھا۔ آفس کے لیے تیار ہونے کے درمیان بھی وہ وقتاً فوقتاً فون دیکھ رہا تھا مگر دوسری طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
_____________________________________________
آجکل اسکے ٹیسٹ ہورہے تھے جن کی وجہ سے وہ پڑھائی معمول سے زیادہ کررہی تھی۔ کچھ زوار کو گھر میں دیکھ کر اور نسرین کی بےجا حمایت سن کر وہ تپی بیٹھی تھی۔ اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسیج زوار نے کیے ہوں گے۔
صبح ہوتے ہی فون کو چارجنگ پہ لگا کر وہ کالج چلی گئی تھی۔ تاکہ آتے تک اسکی چارجنگ پوری ہوئی ہو۔
وہ لنچ بریک تک کافی دفعہ فون دیکھ چکا تھا۔ مگر ردا کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ جس پر وہ برے برے منہ بنا کر فون بند کردیتا۔
لنچ بریک میں سب سے پہلے اس نے ردا کو مسیج بھیجا تھا۔
"پریٹی ڈارلنگ۔ کہاں غائب ہو۔؟"
وہ ابھی کالج سے آکر کھانا کھا کر کمرے میں آئی تھی۔ سونےطسے پہلے فون کو چیک کرنے کے لیے ہاتھ میں لیا تھا۔ مگر رات والے نمبر سے مسیج دیکھ کر وہ پھر تپ اٹھی تھی۔
"فلوپ شہزادے۔! جہنم میں ہوں۔"
"آہ۔ مل گئی نا مجھ معصوم کو تنگ کرنے کی سزا۔؟" وہ جو نظریں فون پہ لگائے بیٹھا تھا۔ مسیج آتے دیکھ کر فوراً سیدھا ہوا تھا۔ اسکا غصے سے بھرپور مسیج دیکھ کر وہ بمشکل اپنا لب دبا کر مسکراہٹ کو چھپا رہا تھا۔
"آپ بہت بیہودہ انسان ہیں اب مسیج نہ آئے۔" ردا جو فون رکھنے لگی تھی اگلا مسیج آتے دیکھ کر اسے پڑھنے لگی۔ مسیج پڑھنے کی دیر تھی اسکا دل کیا یہ شخص سامنے آئے اور ردا اسکا حشر بگاڑ دے۔
"لیکن میں کیا کروں میرا دل ہے کہ مانتا نہیں وہ بس آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔" وہ کافی کا گھونٹ بھرتے ، شوخ ہوا تھا۔
"ٹھیک ہے پھر میرے شوہر سے اجازت لے لیں۔" ردا نے اس سے جان چھڑوانے کے لیے لمبی چھوڑی تھی۔ جو کہ اسکے شوہر نے اچھے سے سنبھال کر اسی کے گرد لپیٹی تھی۔
"آ،،،،، آپ شادی شدہ ہیں۔" زوار نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنا قہقہہ دبا کر معصومانہ سوال کیا تھا۔
"جی ماشااللہ تین بچے ہیں میرے۔" ردا نے لگے ہاتھوں مزید چھوڑی تھی۔ زوار جس سے ابھی تک پہلی بات نہیں سنبھالی جارہی تھی دوسری سن کر تو اسکا قہقہہ بےساختہ تھا۔ جس پر آس پاس کے لوگ اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔
سب کے دیکھنے پر وہ سر کھجا کر اپنی خفت مٹانے لگا تھا۔
"میرا تھوڑا انتظار تو کرتیں۔" ہنسی ضبط کرنے کی وجہ سے اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔
"آج آنے دو میرے شوہر کو اب وہیں تمہاری عقل ٹھکانے لگائیں گے۔" وہ لیٹ کر بڑی بڑی چھوڑ رہی تھی۔ مگر اگلے کے جواب سن کر وہ مزید جھنجھلا اٹھی تھی۔
"اب آپ مجھے مار پڑوائیں گیں۔" وہ معصومیت سے سوالیہ ہوا تھا۔
"اب مسیج آیا تو اچھا نہیں ہوگا۔" ردا نے زچ ہوکر متنبہ کیا تھا۔
"ڈارلنگ موڈ تو ٹھیک کرو۔ نہیں کرتا تنگ اب۔" وہ پھر سے اپنے آپ کو شوخی سے باز نہ رکھ پایا تھا۔ مگر ردا اس پر دو حرف بھیج کر فون بند کرکے لیٹ گئی تھی۔
_____________________________________________
دو دن مسلسل زوار نے اسکے ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ ہر وقت کوئی نا کوئی مسیج کرتا رہتا تھا۔ ردا کا دل کررہا تھا کہ فون سے ہی اگلی طرف کے بندے کو نکال کر اسکو گنجا کردے۔ رات کو تو وہ فون بند کردیتی تھی۔ مگر جیسے ہی صبح وہ فون اون کرتی تھی لاتعداد مسیج اسکو منہ چڑا رہے ہوتے تھے۔ اب بھی پچھلے ایک گھنٹے سے زوار نے اسے تنگ کیا ہوا تھا۔ وہ جو آج آخری ٹیسٹ کی وجہ سے خوش تھی کہ مزے کرے گی زوار کی وجہ سے وہ اچھا خاصا زچ ہوگئی تھی۔
"اتنا غصہ کیوں کرتی ہو۔؟" وہ ابھی آفس سے آکر صوفے پر نیم دراز ہوکر بیٹھا تھا۔
"آپ سے مطلب۔" ردا نے پھر بھنا ہوا جواب دیا تھا۔
"میرے ہی تو مطلب ہیں۔" زوار نے اب کی بار آنکھ مارنے والا ایموجی بھی مسیج کے ساتھ بھیجا تھا۔ ردا کا ضبط بس یہاں تک کا تھا۔
"مما یہ نمبر بار بار تنگ کررہا ہے ، اسے دیکھیں۔" بےتکی باتوں سے وہ چڑ کر لاؤنج میں آتی نسرین کو دیکھ کر بولی تھی۔ نسرین نے ناسمجھی میں اس سے فون لیا تھا۔ خود وہ پیر پٹختی کمرے میں چلی گئی تھی۔
نسرین نے ردا کے فون سے نمبر لے کر اپنے نمبر سے اسی نمبر کو فون کیا تھا۔ جو دوسری ہی بیل پر اٹھا لیا گیا تھا۔
"السلام علیکم۔ آنٹی۔" وہ سیدھا ہوتے بولا تھا۔ اس نے ساریہ سے ابھی کل ہی نسرین کا نمبر لیا تھا۔
"وعلیکم السلام۔ یہ تمہارا نمبر ہے۔" نسرین نے حیرت سے اس سے پوچھا تھا۔
"جی یہ میرا ہی نمبر ہے۔" نسرین کے پوچھنے پر اس نے بڑی تابعداری دیکھاتے ہوئے اقرار کیا تھا۔
"اچھا۔" نسرین نے ان دونوں کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا تھا۔
"خیریت آنٹی آپ نے کال کی۔؟" زوار نے فرمابنرداری دیکھائی تھی جو کہ اسکے گلے پڑ گئی تھی۔
"ہاں وہ ردا کہہ رہی تھی کہ یہ نمبر اسے تنگ کررہا تھا۔" اسکے سوال پر نسرین نے مسکراہٹ دبا کر کہا تھا۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ زوار ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔ فون بمشکل نیچے گرنے سے بچا تھا۔
"و و وہ آنٹی می میں تو بس ایسے ہی تنگ کررہا تھا۔" وہ ردا کی محدود عقل پر ماتم کرتے ہکلا کر بولا تھا۔ خفت کے مارے اس سے مزید بات کرنا محال ہورہا تھا۔ مگر وہ مجبور ہوکر کررہا تھا۔ ایک دفعہ تو اسے سمجھ آگئی تھی کہ دنیا واقعی گول ہے۔
"اچھا ، اچھا کوئی بات نہیں۔ تم پھر بات کرنے نہیں آئے۔" نسرین نے اسکی حالت سمجھتے ہوئے اسے پرسکون کیا تھا۔
"جی وہ آنٹی میں کل ذرا کام کی وجہ سے شہر سے باہر گیا تھا ، انشااللہ کل آؤں گا۔" زوار نے محتاط انداز میں کہا تھا۔ اندر سے تو وہ ایک دفعہ ہل کر رہ گیا تھا۔
"اچھا ٹھیک۔"
"اچھا آنٹی میں کھانا کھا لوں۔" مزید بات نہ ہونے کی وجہ سے زوار نے جلدی سے بہانہ بنایا تھا۔
"ہاں ہاں بلکل۔!" نسرین نے سمجھتے ہوئے ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
_____________________________________________
"ہائے اللہ۔! پاگل لڑکی۔! یااللہ یہ کب سدھرے گی۔ ذرا جو عقل سے اسکا کوئی واسطہ ہو۔ اب ہر کوئی مذاق بنائے گا۔ ردا تمہارا میں کیا کروں۔ ،،،،،، احان کو پتہ چلا تو وہ خوب درگت بنائے گا میری۔ اور تو اور اللہ اب اس لڑکی کو عقل دے یہ مسیج والی باتیں سب کو نہ بتاتی پھرے۔" وہ فون بند کرکے دہائی دیتے بولا تھا۔ ردا کی اس حرکت پر وہ تلملا کر رہ گیا تھا۔ مزید اسے اس بات پر جان کے لالے پڑے تھے کہ وہ اپنا منہ کھول کر سب کچھ نہ بول دے۔
_____________________________________________
رات کو کھانے کے بعد جب نسرین اور ردا بیٹھ کر باتیں کرہی تھیں۔ تب نسرین نے اسے بتایا تھا کہ وہ زوار کا نمبر تھا۔ ردا کی تو حیرت سے آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ یہ بات سنتے ہی اسکا خون خول اٹھا تھا۔ مگر نسرین کے سمجھانے پر وہ ضبط کرکے رہ گئی تھی۔ زوار کے بات کرنے کے بعد وہ ساری رات سوچتی رہی تھی کہ آگے کیا ہو۔ بےشک وہ دکھی تھی مگر رشتہ تو ختم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اور زوار کی بات پر وہ خوش تھی کہ وہ اپنے اور ردا کے رشتے کو ایک موقع دینا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے ردا کو ٹھنڈا کیا تھا۔
_____________________________________________
ابھی وہ کمرے میں آئی تھی کہ اسکا فون بجنے لگا تھا۔ اسکرین پر ایک بار پھر وہی نمبر جگمگا رہا تھا۔
"کہاں تھیں۔؟ ،،،،، فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھیں۔" اب کی بار زوار اسے کال کررہا تھا۔ دوسری ہی بیل پر کال اٹھا لی گئی تھی۔ اور ردا کو زوار کی جھنجھلائی ہوئی آواز سنائی دی تھی۔
"میری مرضی۔ اب اگر آپ نے فون کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔ چھچھوڑے نہ ہوں تو۔" کال آتے دیکھ کر وہ بھی غصے میں میدان میں عودی تھی۔
"یار تم کب بڑی ہوگی۔؟ آنٹی کو بتانا ضروری تھا۔؟" اسکو بھی مرچیں چباتے دیکھ کر وہ تھوڑا نرم ہوا تھا۔
"آپ کے تنگ کرنے کی وجہ سے ہی بتایا تھا۔" ردا نے تنک کر باور کروایا تھا۔
"تو میں آج بتانے والا ہی تھا۔ تم اتنی بےصبری کیوں ہو۔" زوار نے اسکی عقل پر ماتم کرتے ہوئے جھنجھلا کر بولا تھا۔ اپنے لیے زوار کے منہ سے شیریں بیانی سن کر وہ جھلا کر فون کاٹ گئی تھی۔
"فون کاٹ دیا۔ پتہ نہیں کیوں میری جان کا عذاب بن گئی ہے۔ فون اٹھاؤ۔" ٹک کی آواز سنتے ہی اس نےفون کان سے ہٹھایا تھا۔ کال کو بند ہوتے دیکھ کر وہ کراہ کر رہ گیا تھا۔
زوار نے بارہا ردا کو کال کی مگر وہ پہلے تو کاٹتی رہی مگر پھر فون ہی بند کرگئی تھی۔
"میں تو گیا کام سے،،،،، اس نے تو سب کو پکڑ پکڑ کر بتانا ہے۔ یااللہ اس سے رومینس کرنے سے بہتر تھا کہ میں اپنا سر دیوار پہ دے مارتا۔" وہ بیڈ پر فون پٹخ کر جھلا کر بولا تھا۔
"توبہ استغفراللہ۔! کس قدر چھچھورے ہیں۔ ایک تو خود مجھے تنگ کیا پھر خود ہی ڈانٹ رہے کہ بتایا کیوں۔ پاگل۔! میرا نام بھی ردا نہیں ہوگا اگر میں نے ایک دفعہ بھی بات کی تو۔" ردا ٹک سے فون بند کرکے جھلا کر بولی تھی۔ اسکا تو دل کررہا تھا کہ زوار کے بال نوچ دے جس نے اسے بیوقوف بنایا تھا۔ وہ کسی صورت بھی اس سے بات کرنے پہ راضی نہ تھی۔
_____________________________________________
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 28


اگلے سارے دن وہ وقفے وقفے سے فون کررہا تھا تاکہ ردا سے گزارش کرسکے کہ وہ اپنا منہ بند رکھے گو کہ اسے اس کی امید نہیں تھی مگر ایک بار تنبیہ کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ مگر ہر بار فون نہیں مل رہا تھا جس کی وجہ سے وہ جھنجھلا اٹھا تھا۔
وہ رات کو خود نسرین کے گھر جانے کا ارادہ کرچکا تھا۔ تاکہ وہ خود اپنی شہزادی ہیروئن کو اسکی ذہانت پر تمغہ شجاعت دے کر آئے۔
شام کو سات بجے وہ گھر آکر تیار ہوکے آٹھ بجے تک نسرین کے گھر پہنچ گیا تھا۔ نسرین کو تو اچانک اسے دیکھ کر حیرت اور خوشی دونوں ہوئی تھی۔ وہ کچھ دیر لاؤنج میں نسرین کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ آج بھی حسبِ معمول ردا نے کمرے میں ڈیڑا ڈالا ہوا تھا۔ ہچکچاہٹ کے مارے وہ سیدھا نسرین سے بھی پوچھنے سے پرہیز کررہا تھا۔
باتوں کے درمیان اسکی غائب دماغی دیکھ کر نسرین نے خود اسے ردا کے کمرے میں بھیجا تھا تاکہ وہ ردا سے بات کرسکے۔
وہ دل میں شکر کرتا اٹھ کر ردا کے کمرے کی طرف گیا تھا۔
سب سے پہلے تو وہ اس سے بلاک کرنے کا سوال کرنے والا تھا۔ لنچ بریک میں جب اسنے اپنی طرف سے عقل سے کام لیتے ہوئے اسے واٹس ایپ پر فون کیا تو وہ بھی نہیں لگا تھا۔ تب اسے اپنی ہیروئن کی سمجھ آئی جس نے اسے بلاک کیا ہوا تھا۔
وہ کمرے میں آیا تو ردا اسے ٹیبل پر سے اپنی کتابیں اٹھاتی نظر آئیں تھیں۔ زوار کی طرف اسکی پشت تھی۔ وہ چلتا ہوا اسکے قریب آرکا تھا۔
"تم نے مجھے بلاک کیا ہے؟"زوار استہفامیہ نظروں سے گویا ہوا تھا۔
"اچھا!۔۔ میں نے۔۔۔"۔۔(چلو اب اس پر بھی جواب چاھیے فلوپ شہزادے کو۔۔ ہننہہ) چہرے پر بھرپور مسکینیت طاری کیے مبہم گوئی کی گئی تھی۔ ورنہ اندر سے تو زوار کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ تلملا کر رہ گئی تھی۔
نسرین نے ابھی صبح ہی اسے زوار اور اپنی ہونے والی بات کے بارے میں بتایا تھے اور ساتھ ساتھ لگے ہاتھوں نصیحتوں کے انبار بھی لگا دیے تھے۔ جس پر وہ جھلا کر رہ گئی تھی۔ وہ بلکل بھی اتنی جلدی زوار کو معاف کرنے کی قائل نہ تھی۔ اس نے دل ہی دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اسے خوب زچ کرے گی۔
"میں تم سے ہی پوچھ رہا ہوں۔۔۔"(صدقے جاؤں اس فلوپ ادکاری پہ) کمال مہارت سے کام لیتے ہوئے غصے کو ہوا نہ لگنے دی تھی۔
"کیا ہوگا۔۔" ردا نے آنکھوں پر پلکوں کی باڑ گرائے بمشکل تاثرات پر قابو پایا تھا۔ دل تو کررہا تھا کہ اسکو گنجا کردے۔ جس نے دن رات اسکو تنگ کیا ہوا تھا۔
"تم نے بلاک کیا کیسے مجھے؟؟" ردا کا بھرپور اداکاری کے ساتھ دیا گیا جواب زوار کا دماغ یک دم ہی کھولا گیا تھا۔
"اف !!سچی آپکو نہیں پتہ، کیسے بلاک کرتے۔۔میں بتاؤں۔۔۔" ردا نے آنکھیں ٹپٹپا کے سوال کیا تھا۔
"مجھے بلاک کیسے کیا۔۔" زوار نے اپنی ہیرؤن کی فلوپ اداکاری پر مٹھی بھنچے غصہ سے دوبارہ پوچھا تھا۔
"سب سے پہلے تو اپنے ہاتھوں کو استعمال میں لا کر نیٹ کے سہارے ۔۔" بھرپور ضبط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قیمتی معلومات آشکار کی گئی تھیں۔
"کیوں کیا" اپنے پچھلے سوال پر دو تین حرف بھیج کر وہ غصہ ضبط کرکے اگلے سوال پر آیا تھا۔
"آپکو نہیں پتہ کوئی کسی کو بلاک کیوں کرتا ہے" (مجال ہے جو کبھی صحیح جواب لئیے بغیر اس کھڑوس نے جان چھوڑی ہو۔ یاد نہیں کیسے ریاضی کا سارا سوال ٹھیک بھی ہوتا تھا بس جواب کی چھوٹی سی غلطی پر سارا سوال دوبارہ کرواتے تھے۔۔ہنہہہ)
"جسٹ شٹ اپ!! جو پوچھا ہے وہ بتاؤ کیوں بلاک کیا" بس یہاں سے آگے صبر کا دامن زوار سے چھوٹ گیا تھا۔
"کیونکہ آپ بلاوجہ تنگ کررہے تھے" ردا نے منہ پھلا کر شکوہ کیا تھا۔ غصے کی وجہ سے اسکا چہرہ لال بھبھوکا ہوا تھا۔
"تو۔۔؟" بمشکل مسکراہٹ دبا کر بھنونیں اچکائی گئی تھیں۔
"تو!! یہ کہ میں ڈسٹرب ہورہی تھی تو کردیا" غصے سے کہہ کر منہ کا رخ دوسری طرف کیا گیا تھا۔
"یہ فون پکڑو اور ابھی کے ابھی مجھے ان بلاک کرو " زوار نے ایک نظر اسکے گلابی پھولے ہوئے گالوں کو دیکھتے ہوئے ڈریسنگ سے فون اٹھا کر اسکے ہاتھ میں تھماتے روعب سے کہا تھا۔ مگر اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کی بیوی روعب میں آنے والوں میں سے نہیں تھی۔
"مجھ سے نہیں ہوگا" وہ معصومیت سے کہتی ، ہاتھوں کو برق رفتاری سے پیچھے کر گئی تھی کیونکہ اسے اپنے جلاد شوہر سے کوئی بھید نہ تھا۔ وہ خود اسکے ہاتھ پکڑ کر نہ کردے۔
"کیوں بے بی کوپلن کی کمی ہو گئی ہے۔ " زوار نے اسکا پھولا ہوا منہ دیکھ کر آنکھوں میں بھرپور شرارت لیے مسکراہٹ دبا کر پوچھا تھا۔
"بھئی کوئی زبردستی ہے " ردا اچھا خاصا چڑی تھی کیونکہ زوار کی آنکھوں میں رقصاں شرارت اس سے مخفی نہیں تھی۔
"جی ہے!!! اور ابھی کے ابھی کرو" رعب دار لہجے میں کہا گیا تھا۔
"اوکے " دماغ کے بروقت کام کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہوتے فون لے کر واٹس ایپ سے ان بلاک کیا گیا گیا تھا مگر وہ انجان تھی کہ اسکا شوہر اسکی رگ رگ سے واقف تھا۔
"بےبی تمہیں کیا لگتا ہے میں بچہ ہوں پانی کو مم کہتا ہوں ، کھانے کو تھانا کہتا ہوں۔۔۔ ہاں؟؟؟ " (اپنی ہیرؤن کی سمجھداری کو داد دیے بغیر نہ رہا گیا)
فوراً سے پہلے نمبر والی بلاک لسٹ سے ریمو کرو ورنہ۔۔۔ زوار نے آنکھیں دکھائیں تھیں۔
"پتہ نہیں کیوں آگئے ہیں واپس۔۔۔"ردا کلس کے بڑبڑائی جو کہ زوار کی سماعتوں سے بخوبی ٹکرائی۔
"بے بی وہ کیا ہے نا میری ایک سٹوڈنٹ وائف ہے اسکو تھوڑی بلکے اچھی خاصی عقل کی ضرورت ہے۔۔۔ جبھی واپس آیا ہوں۔۔" اپنا کام کروا کر دنیا جہاں کی معصومیت بٹور کر شیریں بیانی سے کہا گیا تھا۔
"لیکن مائی دئیر ہبی سر!!! (طنزیہ) یہ کام آپ سے نہیں ہوسکتا کیونکہ آپکے خود کے پاس یہ چیز نہیں ہے۔۔آپکو تو خود اسکے لئیے کوئی ٹیچر چاھئیے۔۔۔۔اور میں نے سنا ہے کہ لڑکیاں بہت اچھا کچھ بھی سکھا سکتی ہیں۔۔۔" اپنے کھڑوس ٹیچر کی معصومیت اور شیریں بیانی سے اچھا خاصا زچ ہوکر برجستگی سے جواب دینے کے ساتھ ساتھ مشورہ بھی دیا۔۔ (یہ الگ بات تھی کہ وہ مشورہ خود پہ الٹ گیا آخر کو اسے چن کر حساب بےباک کرنے والا بندہ جو نوازا گیا تھا)
"آہاں! لڑکیوں کا تو پتہ نہیں۔۔ ہاں اگر بیوی ان بلاک کرے فون سے اور ناراضگی سے بھی تو ایک آدھا ٹرائل لیکچر لینے میں کوئی مضحکہ نہیں۔۔۔" زوار نے اس کے تاثرات سے محفوظ ہوکر کہا تھا۔ اسکے غصے سے سرخ پڑتے عارض ، دھلا صاف شفاف چہرہ اور لمبے گیسو اسے اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ مگر وہ اپنی بیوی کی واویلا اور بات بڑھا چڑھا کر کرنے والی عادت سے ابھی بھی بجوبی واقف تھا۔ اس لیے وہ اپنا کام کروا کر دل مسوس کرکے باہر جانے لگا تھا۔
"اف! ٹھرکی کہیں کے۔۔" ردا کی جھنجھلاہٹ سے بھری بڑبڑاہٹ اس نے بخوبی سنی تھی۔
"ہاہاہا! سلیپنگ بیوٹی۔۔۔۔" زوار نے پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ زیرِ لب کہا تھا۔
_____________________________________________
زوار کے کمرے سے جاتے ہی اس نے ایک جھرجھری سی لی تھی۔ وہ پھر سے نسرین کی خوشی کی وجہ سے مجبور ہوکر رہ گئی تھی۔ فون بیڈ پر پٹخ کر وہ منہ ہاتھ دھونے واش روم گئی تھی۔
وہ فریش ہوکر نیچے آئی تو اسکی جان کا عذاب اپنی تمام تر منہوسیت کے ساتھ صوفے پر براجمان تھا۔ وہ جو سوچ رہی تھی کہ اب تک زوار چلا گیا ہوگا اسکو نیچے دیکھ کر کلس کررہ گئی تھی۔
وہ بات کرنے کے ارادے سے ردا کے کمرے میں گیا تھا مگر بحث و تکرار کی وجہ سے وہ اسکو باہر لے جاکر بات کرنے کا سوچ چکا تھا۔ اس لیے وہ کھانے کے بعد نسرین سے اجازت لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔کل عبیرہ کی مہندی تھی اور اسے ہاشم اور غزالہ کو جواب دینا تھا کہ وہ بھی اپنا ولیمہ ان کے ساتھ کرنا چاہتا ہے یا نہیں اور یہ سب وہ ردا سے بات کرنے کے بعد ہی کچھ بتا سکتا تھا۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد زوار نے نسرین سے بات کرکے گویا ردا کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ وہ اسے تند نظروں سے گھور کر رہ گئی تھی۔ ردا کے منہ کے تاثرات سے صاف واضح تھا کہ وہ جانا نہیں چاہتی۔ اس سے پہلے کہ ردا منہ کھولتی نسرین نے اپنے ماں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے تیار ہونے کا تھا۔ جس پر وہ منہ بنا کررہ گئی تھی۔
"اتنے اچھے منہ کو کیوں بگاڑ رہی ہو۔؟" وہ دونوں اس وقت گاڑی میں بیٹھے تھے۔ ردا کا منہ ہنوز بنا ہوا تھا۔ جسکو دیکھ کر زوار نے نرمی سے اسے ٹوکا تھا۔
"میرا منہ ہے نہ ، تو میری مرضی میں اسے کیسے بھی رکھوں۔" وہ ایک نظر اسکو دیکھ کر جھلا کر بولی تھی۔
"نہیں پریٹی ڈارلنگ اب یہ چہرہ میرا بھی ہے۔" زوار نے نرم مسکراہٹ اپنے وجیہہ چہرے پہ سجائے گھمبیر لہجے میں کہا تھا۔
"کتنے گندے ہیں آپ۔!" اسکا صاف اشارہ پریٹی ڈارلنگ کی طرف تھا۔ جس پر وہ محفوظ ہوتے گویا ہوا تھا۔
"اچھا باقی باتیں بعد میں پہلے یہ بتاؤ کیا کھاؤ گی زہر کے علاوہ۔؟"
"مجھے نہیں کھانا کچھ بھی۔ مجھے گھر چھوڑیں۔" وہ برہمی سے اسکی طرف دیکھ کر خفگی سے بولی تھی۔ اسکا ذرا دل نہیں تھا زوار سے بات کرنے کا۔ وہ اتنی جلدی لوگوں کی باتیں نہیں بھول پا رہی تھی۔ جب زوار اسے چھوڑ کر گیا تھا۔
"میرے خیال سے آئس کریم ٹھیک ہے۔! اور ہم بات کرلیں پھر چھوڑ دوں گا۔" زوار نے اسکی بات کو یکسر نظر انداز کرکے ، اپنے اگلے ارادے بتائے تھے۔
"مجھے نہیں کرنی کوئی بھی بات۔" وہ منہ بسور کر احتجاجاً بولی تھی۔
"پریٹی ڈارلنگ۔! آپ نے سننی ہے بات تو میں نے کرنی ہے۔" اسکے برعکس زوار نے کافی نرمی سے بات کی تھی۔
"میں سنوں گی بھی نہیں۔" وہ منہ بنا کر قطعیت سے کہتی اپنا رخ پھر سے شیشے کی طرف کرگئی تھی۔
"ہممم چلو پہلے آئس کریم کھا لیں پھر اسکا بھی حل نکال لیتے ہیں۔" وہ اب بھی اسکے نخرے اٹھاتا ، بڑے تحمل سے گویا ہوا تھا۔ اسکا لب و لہجہ پہلے کی طرح بلکل بھی نہ تھا۔ گاڑی میں ایک دفعہ پھر خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ گاڑی چلاتے ہوئے بھی اسکی نظروں کا ارتکاز بنی رہی تھی۔
"پریٹی ڈارلنگ۔۔۔۔" وہ موڑ کاٹتے ہوئے پھر سے کوئی بات کرنے لگا تھا جب ردا نے جھلا کر اسکی بات کاٹی تھی۔
"اب اگر یہ بیہودہ لفظ مجھے کہا تو میں نے آپ کے سر پہ یہ جو دو بال ہیں انہیں بھی کاٹ دوں گی۔" وہ خون خوار نظروں سے گھور کر بولی تھی۔
"یار دو تو نہ کہو۔ اچھے خاصے بال ہیں میرے۔" وہ تو اپنی بیوی کا روشن خیال سنتے ہی تڑپ اٹھا تھا۔
"تو میوزیم میں رکھوا دیں آٹھویں عجوبے کے طور پر۔" ردا اسکی طرف دیکھ کر طنز کرتے بولی تھی۔
"میرے پاس تو اور بھی بہت سے عجوبے ہیں جن کو میں میوزیم میں رکھوا سکتا ہوں۔" وہ اسے نرم نظروں کے حصار میں لے کر مناظرے والے انداز میں بولا تھا۔ جبکہ ردا اسکو گھور کر پھر خاموش ہوگئی تھی۔
"چلو فلیور بتاؤ۔؟" آئس کریم پارلر کے قریب پہنچتے ہی زوار سوالیہ ہوا تھا۔
"میں نے نہیں کھانی۔" وہ ابھی بھی بضد تھی۔
"ردا۔! اچھا چلو آج اپنے شوہر کی پسند والی کھا لو۔" زوار نے پہلے اسکے خفگی بھرے چہرے کو دیکھا تھا پھر ہلکے پلکے انداز میں بولا تھا۔ اپنے شوہر والی بات پر وہ تلملا کر رہ گئی تھی۔
وہیں کار میں بیٹھے بیٹھے آئسکریم کا آڈر دے کر وہ خاموشی سے اسے دیکھے گیا تھا۔
"یہ لو۔" آئسکریم آتے ہی اس نے ردا کی طرف بڑھائی تھی۔
"میں نے نہیں کھانی۔" وہ روٹھے لٹھ مار لہجے میں کہتی پہلو بدل گئی تھی۔
"میری جان۔۔۔" زوار نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا تھا۔ آج اس کی زبان سے بھی عجیب رومانوی لفظ نکل رہے تھے۔
"پھر وہی۔!" وہ اسکی طرف دیکھ کر جھرجھری لے کر بولی تھی۔
"اچھا اچھا ردا خاتون پلیز اس آئس کریم کو کھا کر بیش قیمت کردیں۔ آپکی عین نوازش ہوگی۔" زوار نے تو کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی تھی۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تھی۔
"ردا۔! اب لے لی ہے یار تو کھا لو۔" وہ اسکے رخ موڑے چہرے کو دیکھ کر متانت سے بولا تھا۔
"میں نے نہیں کہا تھا کہ لیں۔"
"اچھا اب تو لے لی نا۔ ،،،،،، پھینک دوں پھر میں۔؟" وہ اسے اکساتے ہوئے بولا تھا۔
"زہر لگتے ہیں آپ مجھے۔" وہ ضائع کرنے والی بات پر منہ بسور کر گویا ہوئی تھی۔ جبکہ اس کو مانتے ہوئے دیکھ کر زوار نے پیشن گوئی تھی۔
"کبھی شہد بھی لگنے لگوں گا۔"
"اچھا اب میری بات سنو۔" آئسکریم کھا کر وہ اب پارلر سے گاڑی آگے لے جاتے ہوئے بولا تھا۔
"بھئی کوئی زبردستی ہے ، میں نے کہا تھا نا کہ میں نہیں سنوں گی۔" اسکی ایک ہی بات پر وہ چڑ کر بولی تھی۔
"ردا میں چاہتا ہوں ہم ساتھ رہیں۔ میں ہماری شادی چلانا چاہتا ہوں۔ مجھے تم بیوی کے طور پر دل و جان سے قبول ہو۔" وہ گاڑی ایک طرف روک کر ، گہری سانس اپنے اندر انڈھیلتے ، اسکا مرمریں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہولے سے دباتے ہوئے موہوم سے آنچ دیتے لہجے میں بولا تھا۔ اپنی ہامی چاہتی آنکھیں اس کے خفا چہرے پر مرکوز کیے وہ اسکا جواب سننے کے لیے بےتاب تھا۔
"آپ چھوڑ دیتے ہیں۔ اور پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ دیں۔" وہ ہاتھ چھڑوا کر عام سے لہجے میں کہتی اپنا پہلو بدل گئی تھی۔ جبکہ کہ زوار ایک نظر اسے دیکھ کر ابھی بھی نرمی سے بولا تھا۔
"اچھا۔" وہ اب گاڑی گھر کے راستے ڈال چکا تھا۔ اب کی بار خاموشی کا دورانیہ طویل ہوا تھا۔
"سنو۔۔۔! تم اچھی طرح سوچ لو۔ میں یہں ہوں اب ، وعدہ کہیں نہیں جاؤں گا۔" گھر کے دروازے پہ گاڑی روکتے ہی وہ پھر سے نرمی سے اسے ایک بار سوچنے کے لیے اکسانے لگا تھا۔ جبکہ وہ بغیر کچھ کہے گاڑی سے نکل گئی تھی۔ پچھلے ایک سال سے ہوتی لوگوں کی بازگشت اسکے سماعتوں سے ٹکڑا رہی تھی۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments