Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 8

 "کیا سوچ رہی ہیں؟" ردا نے لان میں آکر نسرین کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"تمہاری شادی کا۔۔" نسرین کے دماغ میں جانے کیا سمائی کے اس نے ردا سے یہ بات کردی تھی۔
"ہیں؟؟؟" وہ حیرانی سے سوالیہ ہوئی کیونکہ شادی کے نام سے تو اس کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں ، دل الگ اچھل کود کرہا تھا۔ آخرکار ان چھٹیوں میں اسکی اور کوئی نہیں تو یہی خواہش پوری ہونے لگی تھی۔
"ساریہ کی امی اس دن یہی بات کرنے آئیں تھیں۔ مجھے تو ٹھیک لگ رہے ہیں لوگ۔ دل نہیں مان رہا انکار کو۔۔" نسرین اس وقت اسے ایک دوست سمجھ کر اپنی کیفیت بتانے لگی تھی۔
ماں اور بیٹی کے رشتے کی چاشنی کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انکی محبت میں عجیب ہی حدت رکھی ہے۔ وہ چاہ کر بھی اپنا غم یا خوشی ایک دوسرے سے نہیں چھپا پاتیں کیونکہ انکی درمیان لب نہیں آنکھیں بولتی ہیں۔
"مما مطلب میری شادی۔۔۔مطلب اب میں آگے نہیں پڑھوں گی؟ میرے پاس اتنے سارے کپڑے ، جوتے ، بیگ ہوں گے؟؟؟" ردا آنکھیں ٹپٹپا کر معصومیت سے گویا ہوئی تھی۔
"بونگیاں جتنی مرضی مروا لو۔! میری اولاد نے ماشااللہ اس میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔۔۔" نسرین تو اسکے خیالات سن کر تاسف میں سر ہلا کر رہ گئی تھی۔
"اب میں نے کیا کیا آپ نے خود ہی تو بتایا ہے کہ میری شادی ہوگی۔۔"
"ردا یہ میرے ہاتھ دیکھ لو اور بولنے سے پہلے کم از کم تین بار سوچا کرو۔۔" نسرین ردا کے خیالات سن کر ماتھا پیٹ کر رہ گئی۔ وہ تو بری طرح پھنس چکی تھی ایک طرف اسکی شاہکار اولاد تھی تو دوسری طرف ایک اچھا رشتہ جو کہ آجکل نایاب ہوتا ہے۔
"اتنی دیر سوچنے پہ لگانی ہے۔" ردا نے منہ ٹیڑھا کرکے مزید گل افشانی کی جس پر نسرین نے کوئی ردعمل نہ دیا تھا۔
_____________________________________________
"احان بھائی میں آپ سے نہیں بولتی آپ ماموں کے گھر اکیلے چلے گئے تھے نا۔۔" غزالہ نے عبیرہ کو جب احان کا بتایا تھا کہ وہ کل ساریہ کی طرف گیا تھا تو عیبرہ کا غصے سے برا حال تھا وہ کیچن سے تن فن کرتی لان میں احان کے سر آن دھمکی اور خفگی سے کہنے لگی تھی۔
"امم ہمم مجھے وہ زوار سے کام تھا۔۔۔" احان نے اسکے پھولے گال دیکھ کر جلدی سے بہانہ بنایا تھا۔
"کیا کام۔۔" وہ ناک منہ چڑئے مستفسر ہوئی تھی۔
ابھی احان کوئی جواب دیتا اس سے پہلے ہی غزالہ شام کی چائے کے ساتھ انکے قریب آئی تھی۔
"شکریہ مما۔۔" عبیرہ ہنوز منہ پھلائے احان کو دیکھ کم گھور زیادہ رہی تھی۔ وہ کب سے ساریہ سے نہیں ملی تھی اسکا بہت دل تھا کہ وہ بھی احان کے ساتھ جاتی مگر احان صاحب نے یہ موقع اسے فراہم ہی نہ کیا تھا۔
"میں سوچ رہا تھا آئس کریم کھانے چلتے ہیں لیکن اب تم ناراض ہو۔۔۔" وہ عبیرہ کی ناراضگی محسوس کرچکا تھا۔
"بھائی چلیں نا چلتے ہیں۔۔۔" آئس کریم کا سن کر وہ ساری ناراضگی بھلائے چہکی تھی۔
"تم تو ناراض ہو نا۔۔۔" احان نے غزالہ کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ دبائی جوکہ دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
"مما میں نہیں بولتی بھائی سے میں جارہی ہوں اپنے کمرے میں۔۔" عبیرہ ان دونوں کو ہنستے دیکھ کر منہ بنا کر جانے لگی تھی۔
"اچھا میری ڈرامہ کوین چلو چلتے ہیں۔۔" احان نے کرسی سے اٹھ کر اسکے پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔
"آپ نے مجھے ڈرامہ کوین کہا ہے۔۔" عبیرہ گھوم کر خفگی سے پوچھنے لگی تھی۔
"نہیں تو ، تم تو کوین ہو ہماری۔۔۔" احان نے کہتے ساتھ اسکی ناک دبائی تھی۔
"بھائی واپسی پر ماموں طرف بھی لے کر جانا ہے۔" عبیرہ اسکا بازو پکڑے دوسری فرمائش کرنے لگی تھی۔
"یار وہ اب میرا سسرال بھی ہے اور سسرال روز روز نہیں جاتے۔" احان نے بیچارگی سے کہا تھا۔
"یہ کیا بات ہوئی کل بھی تو گئے تھے نا آپ۔۔" عبیرہ نے اسے یاد دلایا تھا۔
"ہاں وہ تو میں ملنے گیا تھا ممانی اور زوار کو۔۔" احان نے دانستہ ساریہ کا نام نہ لیا تھا۔
"کیوں ساریہ آپی کہاں تھی۔۔" عبیرہ کے معصومیت سے کیے جانے والے سوال نے احان کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔
"بہت باتیں کرتی ہو تم چلو چلیں۔۔" احان بات کو گول کرنے لگا تھا۔
"دھیان سے جانا اور کار آرام سے چلانا۔۔" غزالہ نے ہمیشہ کی طرح آج بھی ہدایت کی جس پر وہ دنوں مسکرا کر پلٹ کر یک زبان بولے تھے۔
"اچھا مماااا"
"شریر کہیں کے۔"
_____________________________________________
مسلسل سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ابھی صرف بات کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ویسے بھی ابھی تو وہ خود بھی شادی کا نہیں کہہ رہے تھے۔ وہ ناشتے کے بعد کیچن صاف کرکے شائستہ کو فون کرنے کا سوچنے لگی۔ ردا ناشتے کرکے ٹی وی کے آگے براجمان ہوکر بڑے انہماک سے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ ایک نظر اسے دیکھ کر نسرین کا دل ڈولا تھا۔ اس خیال سے اسکی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے کہ اسکی بیٹی اب پرائی ہوجائے گی۔ وہ آنسو پیتی اپنے کمرے میں جانے لگی تھی۔
"السلام علیکم میں نسرین بول رہی ہوں۔۔" وہ کمرے میں آکر فون ملانے لگی۔ تیسری بیل پر فون اٹھاتے ہی وہ بولی تھی۔
"وعلیکم سلام آنٹی کیسی ہیں آپ۔۔" ساریہ نے ملنسار لہجے میں پوچھا تھا۔
"میں ٹھیک اللہ کا شکر آپ سناؤ۔۔۔" نسرین کے ہاں کے وجہ ساریہ اور شائستہ کا رویہ ہی تھا۔
"جی اللہ کا کر ہے سب ٹھیک ہے۔۔"
"اچھا آپکی امی کہاں ہیں بات ہوسکتی ہے۔۔"
"جی جی مما اپنے روم میں ہیں میں بات کرواتی ہوں۔۔"
"اچھا۔۔"
"مما ردا کی مما کا فون۔۔" ساریہ شائستہ کو فون پکڑاتے بتانے لگی تھی۔
"السلام علیکم۔۔" شائستہ نے پہل کی تھی۔
"وعلیکم اسلام کیسی ہیں آپ۔۔" نسرین عجیب سا محسوس کررہی تھی عجیب ہی یہ لمحے تھے۔
"میں ٹھیک آپ سنائیں۔۔"
"اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ٹھاک ہے۔
وہ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔" نسرین کچھ توقف کے بعد بولی تھی۔
"جی جی کہیں۔۔"
"امم وہ م مجھے یہ کہنا تھا کہ مجھے آپکی بات مناسب لگی ہے۔" نسرین نے فون تو کرلیا تھا مگر اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ بات کیسے کرے۔
"سچ۔۔" دوسرے طرف شائستہ خوشی سے اٹھ بیٹھی۔ ساریہ جو کہ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں کو مرتب کررہی تھی شائستہ کے انداز سے اسکی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
"جی۔۔" نسرین اتنا ہی کہہ پائی تھی۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے شکر آپ نے میری بات کا مان رکھا۔ میں آپکو بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں۔۔" شائستہ کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا دوسری طرف ساریہ حیران پریشان انکی باتیں سن رہی تھی۔
"آپ لوگ کل آجائیں پھر بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں۔"
"کل کے لیے معزرت قبول کریں دراصل میرا بھتیجا آیا ہے تو ہمیں انکی طرف جانا ہے۔" شائستہ کو یوں پہلی دفعہ مناسب تو نہ لگا مگر مجبوری تھی۔
"چلیں کوئی بات نہیں جب آپ کو مناسب لگے آپ آجائیں۔"
"جی انشااللہ۔۔"
"اچھا اللہ حافظ۔۔"
"خدا حافظ۔۔"
"کیا ہوا۔۔ وہ مان گئیں؟" فون بند ہوتے ہی ساریہ نے بے چینی سے پوچھا تھا۔
"ہاں اللہ تیرا لاکھ شکر ہے۔ کل آنے کا کہہ رہیں تھیں میں نے پرسوں کا سوچا ہے۔" شائستہ کے لہجے میں خوشی ہی خوشی تھی۔
"اللہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ شکر ہے آنٹی مان گئی ہیں۔"
"ہاں۔۔" ساریہ اور شائستہ کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
"بھائی۔۔" شام کو جب زوار آیا تو ساریہ اسے پانی کا گلاس دے کر خوشی سے بولی تھی۔
"کیا ہوا اتنی خوشی کس بات کی ہے۔۔" وہ چونک کر اسے دیکھ کر سوالیہ ہوا تھا۔
"وہ آنٹی مان گئی ہیں۔۔" ساریہ کی گرم جوشی قابلِ دید تھی۔
"کون آنٹی۔۔" زوار نے ناسمجھی میں پوچھا تھا۔
"اونہوں ردا کی مما۔۔" ساریہ نے اسکی یاداشت پر برا منہ بنایا تھا۔
"ہاں ں؟۔۔" زوار حیرانگی میں بس یہی کہہ پایا۔ (بقول ساریہ اور شائستہ کے اسکی تو قسمت چمک اٹھی تھی اور اتنی چمکی تھی کہ اب اسے دن میں بھی تارے نظر آنے تھے)
"میں تو بہت خوش ہوں۔۔" شائستہ نے لاؤنج میں آتے ہی کہا تھا۔
"مما آپ لوگ۔۔"
"زاری بھائی۔۔" ابھی زوار نے اپنا بیزار ہوتا منہ کھولا ہی تھی کہ ساریہ نے اسکی بات کاٹی تھی۔
"اتنی جلدی کس چیز کی ہے۔۔" زوار بیزاری سے شائستہ سے استفسار کرنے لگا تھا۔
"زوار ہم نے کونسا کل شادی رکھ دی ہے جب تم کہو گے تب ہی کریں گے۔۔" شائستہ اسکے انکار سے برا منانے لگی تھی۔
"اب تو مان نہیں رہے تب کیا ماننا۔۔"
"زاری بھائی میں اب ناراض ہوجاؤں گی۔"
"اچھا ٹھیک ہے مگر صرف منگنی اس سے آگے کچھ نہیں۔" زوار نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
جاری ہے۔
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 8
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 8 

Post a Comment

0 Comments