Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 7

شائستہ اور ساریہ ابھی لاؤنج میں داخل ہوئی ہی تھیں کہ انہیں صوفے پر نیم دراز ، تھکا ہارا زوار نظر آیا تھا۔
"آج جلدی گھر آگئے۔۔" شائستہ اسکے قریب آتے حیرانی سے پوچھنے لگی تھی۔
"ہمم سر میں درد تھا۔۔" وہ ہنوز آنکھیں بند کرکے ہنکارا۔ (یہ الگ بات تھی کہ یہ دردِ سر اب مسلسل ہونے کی تیاری پکڑنے لگا تھا ردا کی ہمسفری میں)
"کھانا کھایا۔۔" شائستہ اسکے پاس بیٹھے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی تھی۔
"نہیں دل نہیں کررہا۔۔" زوار نے سیدھا ہوکر شائستہ کی گود میں سر رکھا تھا۔
"جاؤ اسکے لیے چائے اور دوائی لے آؤ۔ کیا حال بنایا ہوا ہے۔" ساریہ جو کہ آتے ہی کیچن سے شائستہ کے لیے پانی لینے گئی تھی اسکے قریب آتے ہی شائستہ نے ساریہ سے کہا تھا۔
"کچھ نہیں ہوا بس ہلکا سا سر میں درد ہے۔۔۔" چھوٹی چھوٹی آنکھیں کھول کر تھکے ہوئے لہجے میں کہا گیا تھا۔
"ذرا اپنی صحت کی طرف تمہارا دھیان نہیں ہے۔۔"
"اچھا آئندہ سے کروں گا۔ یہ چھوڑیں آپ لوگ کہاں گئے تھے۔"
"ہم لوگ نسرین کے گھر گئے تھے۔"
"کون نسرین۔۔" زوار نے ناسمجھی سے شائستہ کی طرف دیکھا تھا۔
"بتایا تو تھا۔۔ جو تمہارے لیے لڑکی پسند کی ہے اسکے گھر گئے تھے۔" شائستہ نے خفگی سے کہا تھا۔
"ایک تو مجھے تو سمجھ نہیں آرہی جلدی کیا ہے آپ لوگوں کو۔کہا بھی تھا کہ رک جائیں ابھی۔۔" زوار جی بھر کر بدمزہ ہوا تھا۔
"بھائی آپ نے اس دن خود کہا تھا۔۔" ساریہ چائے ٹیبل پر رکھتی اسکو یاد دلانے لگی تھی۔
"زبردستی ہامی بھروائی تھی اس دن۔۔۔" زوار سیدھا ہوتا منہ بناتے بولا تھا۔
"ایک تو پہلے ہی میں پریشان ہوں اب تم بھی یہ باتیں لے کے بیٹھ جاؤ۔"
"کیوں پریشانی کیسی۔۔" زوار نے اچھنبے سے شائستہ کو دیکھا تھا۔
"وہ لڑکی کی امی نے کچھ خاص جواب نہیں دیا۔۔۔" شائستہ اداس لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
"کیوں۔۔" اب کہ ساریہ نے حیرت سے پوچھا۔ زوار نے چپ رہنے میں عافیت جانی تھی۔
"کہہ رہیں تھیں کہ ابھی وہ چھوٹی ہے۔۔"
"چلو کسی نے تو یہ سوچا کہ لڑکی چھوٹی ہے۔۔" زوار نے تو سکھ کا سانس لیا کہ کم ازکم یہ معاملہ تو ختم ہوا۔ وہ پہلے کسی اچھی جاب کوتلاشنا چاہتا تھا۔
"مجھے تو لگتا ہے یہ سب تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔۔" شائستہ نے چشمگین نظروں سے گھورا تھا۔
"میں آرام کرنے جارہا ہوں۔۔" زوار ہاتھ اٹھاتے اپنے کمرے کی طرف چل دیا تھا۔
"مطلب اسکی امی نے منع کردیا۔۔" ساریہ افسردہ ہوئی تھی اسے ردا بہت پسند آئی تھی۔
"ہمم میں نے کہا تو ہے کہ ایک دفعہ سوچ لیں ہم ابھی شادی نہیں چاہتے۔۔۔"
"اللہ کرے وہ مان جائیں اتنی اچھی ہے ردا مجھے تو اتنی اچھی لگی ہے وہ۔"
_____________________________________________
"مما۔۔۔"
"مما۔۔" ردا کب سے لاؤنج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہی تھی۔اپنا ڈرامہ ختم ہوتے ہی وہ نسرین کو آواز دیتے کمرے میں آگئی تھی۔
"ہوں۔۔" جب سے شائستہ نے رشتے والی بات کی تھی نسرین تب سے ہی گم سم ہوگئی تھی اسے یہ رشتہ مناسب لگا تھا مگر ردا ابھی بہت چھوٹی تھی وہ اسی کشمش میں تھی کہ کیا کرے۔
"کیا ہوا؟" ردا اسکے پاس بیٹھتے سوالیہ ہوئی تھی۔
"کچھ نہیں۔۔"
"اچھا کھانے میں کیا بنائیں گی آج۔۔"
"دال اور چاول۔۔" نسرین نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
"مجھے نہیں کھانی دال آپ چکن کڑھائی بنا لیں۔۔۔" ردا نے دال کا سن کر منہ بنایا تھا۔
"کس خوشی میں۔۔" نسرین نے بھونیں اچکائیں ابھی کل ہی تو اس نے ردا کے کہنے پر چائنز بنائے تھے۔
"پہلے تو آپ جب مرضی بنالیتی تھیں اب صرف خوشی پہ بنایا کریں گی۔۔" ردا نے منہ بسورا تھا۔
"مجھے تو سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں تمہارا۔۔" ردا کی گل افشانی پر نسرین چڑی تھی۔
"خود ہی سوچ لیں میری تو ہر بات پر آپ ناراض ہوجاتی ہیں۔" ردا نے نایاب مشورہ گوش گوار کیا تھا۔
"بے تکی باتوں پر غصہ ہی آتا ہے۔ پتا نہیں سسرال میں کیا کروگی۔۔" نسرین نے شائستہ کی باتوں کے زیر اثر اسکا گھرکا تھا۔
"آپ بتا دینا وہی کرلوں گی۔۔" ردا لاپرواہی سے کہتی نسرین کا فون اٹھانے لگی تھی۔
"پتا نہیں وہ کونسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو سسرال یا اپنی شادی کی باتوں سے شرما جاتی ہیں۔۔" نسرین جھنجھلا کر رہ گئی تھی۔
"مما آپ نے میری شادی کی بات کب کی ہے آپ تو مجھے دال نہ کھانے پر ہی شرمندہ کری جارہی ہیں۔۔"
"اور تمہیں پھر بھی نہیں آرہی۔۔" نسرین تاسف سے بولی تھی۔
"میں نہیں بولتی آپ سے ، آپ نے ساری چھٹیاں مجھے ڈانٹا ہے۔۔" ردا خفگی سے کہتے فون بیڈ پر رکھ کر جانے لگی تھی۔
"اچھا ادھر بیٹھو۔۔" نسرین نے اسکا پھولا پھولا معصوم چہرہ دیکھ کر پیار سے پکڑ کر اپنے پاس بیٹھایا تھا۔
"بس میں نہیں بولتی۔۔" وہ ہنوز خفگی سے بولی تھی۔
"میری جان تو بہت اچھی ہے میری ہر بات مانتی ہے۔۔" نسرین نے اسکے بال کان کے پیچھے اڑیستے پچکارا تھا۔
"میں آپکی ہر بات مانتی ہوں آپ ہی بھول جاتی ہیں۔۔۔"
"کیا بھولی ہوں میں۔۔"
"آپ نے کہا بال نہیں کٹوانے میں چپ کرگئی پھر آپ نے مجھے سلائی بھی نہیں کرنے دی شرٹ اور اس دن میں نے کہا کہ میں نے کسٹرڈ بنانا ہے تو آپ نے پورے چھتیس منٹ مجھے ڈانٹا۔۔"
"بس یا اور کچھ بھی۔۔" چھتیس منٹ پر نسرین نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی مبادا اور ہی ناراض نہ ہو جائے۔
"اور اس دن جب شائستہ آنٹی آئیں تھیں آپ نے تب بھی ڈانٹا تھا۔۔"
"اچھا چلو میں اپنے بچے کو اسکی پسند کا کھانا بنا دیتی ہو پھر تو یہ سب بھول جاؤ گی نا۔۔" نسرین نے ہنستے ہوئے اسے گلے لگایا تھا۔
"امممم پھر شام کو پارک سے واپسی پر آئس کریم بھی۔۔" وہ سر اٹھاتے معصومیت سے بولی تھی۔
"بہت تیز ہو۔۔" نسرین نے مسکرا کر اسکے کندھے پر ایک چٹ لگائی تھی۔
_____________________________________________

Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 7
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 7


"السلام علیکم ممانی۔۔" شائستہ لاؤنج میں بیٹھی تھی جب احان اندر آتے اس سے سلام کرنے لگاتھا۔
"وعلیکم سلام تم کب آئے۔۔" شائستہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی کیونکہ ابھی کل ہی اسکی غزالہ سے فون پر بات ہوئی تھی اور اس نے احان کے آنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔
"میں کل رات ہی واپس آیا تھا۔۔" احان نے شائستہ کی حیرانی پر مسکرا کر جواب دیا۔ کل رات جب وہ اچانک گھر آیا تھا تو غزالہ اور ہاشم بھی اسی طرح حیرت زدہ ہوئے تھی عبیرہ کی تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ اس نے سب کو سرپرائز دینے کے لیے کسی کو بھی اپنی واپسی کا نہیں بتایا تھا۔
سارا دن گھر والوں کے ساتھ گزار کر وہ شام میں زوار کی طرف آیا تھا۔
"پڑھائی کیسی جارہی ہے۔۔"
"اللہ کا شکر ہے بہت اچھی۔۔" احان صوفے پر بیٹھتا جواب دینے لگ تھا۔
"ماشااللہ عبیرہ کو بھی لے آتے۔۔" شائستہ تو اسے دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال ہو رہی تھیں۔
"اسکی کوئی دوست آئی ہوئی تھی۔۔ اور زوار کہاں ہے۔"
"جاب پہ ہوگا آٹھ بجے تک آتا ہے۔۔"
"اچھا۔۔"
"کب تک یہاں ہو۔۔"
"دو ہفتوں کے لیے آیا ہوں۔۔"
"ساریہ بیٹا بات سنو۔۔" شائستہ نے وہیں بیٹھے ساریہ کو آواز دی جو کہ لئچن میں موجود رات کے کھانے کی تیاری کررہی تھی۔
"جی۔۔ جی مما بتائیں۔۔" وہ جو شائستہ کی آواز سے جلدی سے باہر آئی تھی احان کو وہاں بیٹھا دیکھ کر گھبراگئی تھی۔
"وہ احان کے لیے چائے لاؤ۔۔"
"ج جی لاتی ہوں۔۔" ساریہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ احان صاحب پاکستان آچکے ہیں۔ وہ شرم کے مارے اتنا ہی کہہ پائی اور ہربڑی میں دوبارہ کیچن میں چلی گئی۔
شائستہ اور احان پھر سے باتوں میں مگن ہوگئے۔
"چائے۔۔۔" دس منٹ بعد ساریہ چائے اور دیگر لوازمات سے سجی ٹرے لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی تھی۔
"شکریہ۔۔" احان نے بمشکل اپنے تاثرات کو قابو کرتے سنجیدگی سے کہا اور دوبارہ شائستہ سے باتوں میں مگن ہوگیا۔ مگر اندر ہی اندر وہ ساریہ کی حیران شکل سے خوب محفوظ ہورہا تھا۔
لیکن وہ اس دفعہ اتنی جلدی موڈ ٹھیک کرنے کے چکر میں نہیں تھا کیونکہ ساریہ نے اسے ایک دفعہ بھی خود سے مسیج نہیں کیا تھا۔
وہ احان کے روکھے رویے سے بمشکل اپنے آنسو حلق سے اتارتے جلتے کڑتے وہاں سے گئی۔
"ہاااااا یہ کیا ایک تو آنے سے پہلے بتایا بھی نہیں اور اب آگے سے موڈ بھی مجھے دکھا رہے ہیں۔ ہممم بعد میں پوچھتی ہوں ذرا۔" کیچن میں آتے ہی وہ بھنے ہوئے لہجے میں زیر لب بڑبڑاتی لڑنے کا پروگرام ایک طرف کرتی رات کے کھانے کا انتظام کرنے لگی تھی۔
"تم بیٹھو ذرا میں نماز پڑھ آؤ۔۔" احان کی چائے ختم ہوتے ہی شائستہ نے کہا تھا۔
"جی میں بس چلتا ہوں۔۔"
"جانا کیوں ہے آرام سے بیٹھو رات کا کھانا کھا کر جانا۔۔"
"نہیں ممانی پھر کبھی۔۔" احان کو یوں اکیلے آنا اب عجیب لگ رہا تھا۔
"میں نے رات کا کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دینا۔ اور بھی ابھی زوار آتا ہوگا۔" شائستہ نے اسے آنکھیں دکھاتے کہا تھا۔
"جی۔۔"
"السلام علیکم۔۔" ساریہ نے کیچن کی کھڑکی سے ایک نظر باہر لاؤنج میں دیکھا تو احان اکیلا لاؤنج میں بیٹھا فون استعمال کررہا تھا۔ ساریہ جلدی سے آنچ ہلکی کرتی باہر آئی تھی۔
"وعلیکم سلام۔۔" وہ ایک نظر اٹھا کر دانستہ دوبارہ فون کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔
"آپ کب آئے ہیں۔۔" اسکو خاموش دیکھ کر وہ نم ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے مزید بولی تھی۔
"کل رات۔۔" فون کی طرف دیکھتے ہوئے جواب آیا تھا۔
"آپ نے بتایا کیوں نہیں۔۔" ساریہ دھیمے سروں میں سوالیہ ہوئی۔احان کا روکھا رویہ اسے اندر تک جھنجھور گیا تھا۔
"میں مصروف تھا۔۔" احان کو اپنا لاپرواہ رویہ بہت مزہ دے رہا تھا۔
"ایسی بھی کیا مصروفیت کہ بندہ بیوی کو ہی نہ بتائے۔۔" بے اختیار اسکی زبان سے شکوہ پھسلا تھا۔احان کا دل تو خوشی سے اچھل کود کرنے لگا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔
"حان کیا ہوا ہے آپکو۔۔" ساریہ کی آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔
"میں خراب ہوگیا ہوں۔۔" اسکی رو دینے والی آواز سے احان نے چونک کر فون بند کرکے خفگی سے کہا تھا۔
"حان۔۔۔ میں بتا رہی ہوں اب میں نے رو دینا ہے۔۔" ساریہ کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
"افف پاگل ہو رو کیوں رہی ہو۔۔" احان نے اسکے تنگ کرنے والے خیال پر دو حرف بھیجے۔
"آپ نے رلایا ہے۔" وہ معصومیت سے اسکی شکایت اسی کو لگا رہی تھی۔
"میں نے۔۔۔ اب میں نے کیا کیا ہے پہلے خود کہتی ہو کہ میں چپ کرجاؤں اب چپ کرگیا ہوں تو بھی ناراض ہو۔" احان نے بر مناتے ہوئے کہا تھا۔
"آپ کیا لڑنے آئے ہیں۔۔" ساریہ نم آنکھوں سے شکوہ کناں ہوئی تھی۔
"میری مجال۔۔" احان لب بھینچے مسکراہٹ دبانے لگا تھا۔
"میں بتارہی ہوں اب لڑائی ہوجانی ہے۔" ساریہ استحقاق سے انگلی دکھا کر تنبیہ کرنے لگی۔ احان تو ساریہ کی اس ادا پر دیوانہ وار ہوا۔ صد شکر وہ اب شرم اور جھجھک پر قابو پاچکی تھی۔
"ٹھیک ہے کرلو میں بھی پھر ممانی کو بتا کرجاؤں گا۔۔" وہ مزے سے کہتا فون دوبارہ اٹھانے لگا۔مگر ساریہ نے پہلے ہی اسکا فون اٹھا لیا تھا۔
"حان آپ ذرا بھی نہیں اچھے۔۔"
"یار میں مذاق کررہا تھا سریسلی۔۔" احان نے اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا تھا۔
"پھر بتایا کیوں نہیں کہ آپ آرہے تھے۔۔" ساریہ کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی تھی۔
"مجھے اپنی بیگم کو سرپرائز دینا تھا۔ اور بیگم صاحبہ خوش تو کیا ہوتیں الٹا فٹ بال کی طرح منہ پھلایا ہوا ہے۔۔" احان نے ساریہ کی گال کو کھینچتے ہوئے کہا تھا۔
"میں نے کہاں پھلایا ہے۔۔۔آپ کھانا کھا کرجائیں گے اب۔"
ساریہ نے رعب سے کہا تھا۔
"اپکا حکم سر آنکھوں پر۔۔" احان نے اسکی طرف جھک کر شرارت سے آنکھ کا کونا دبایا تھا۔
"حان ہم لاؤنج میں بیٹھے ہیں۔"
"کیا کھلاؤ گی؟"
"آپ بتادیں کہ کیا کھانا ہے۔۔" ساریہ کھڑے ہوتے مستفسر ہوئی تھی۔
"جو سب کھائیں گے میں بھی وہی کھالوں گا۔۔" اس سے پہلے کہ ساریہ مزید کچھ کہتی زوار لاؤنج میں داخل ہوا۔ زوار کے آتے ہی وہ جلدی سے کیچن کی سمت بھاگی تھی۔
"تم یہاں۔" زوار احان کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
"السلام علیکم۔۔" احان نے اسے گھرکا تھا۔
"وعلیکم سلام کب آئے۔۔" وہ دونوں بغل گیر ہوکر صوفے پر بیٹھ گئے تھے۔
"کل رات کو۔۔"
"بتایا ہی نہیں تم نے۔۔" سب کی طرف سے کیے جانے والا شکوہ زوار نے بھی کر ڈالا تھا۔
"بس سرپرائز کا پلان تھا۔۔"
"او اچھااا پڑھائی کیسی جارہی ہے۔۔"
"ہمم اچھی تم سناؤ۔۔۔"
"کچھ نہیں ماسٹرز کے ساتھ جاب۔۔"
"ہمم چلو اللہ بہتر کرے۔۔۔"

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments