Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 6

ردا کے امتحان ختم ہوئے ایک ہفتہ ہونے والا تھا اس دوران اسکے دماغ میں ایک نئی ہلچل سی شروع ہوگئی تھی جو کہ دن بد دن اپنے عروج کی طرف گامزن تھی۔
وہ ہلچل صبح مارنگ شو میں لڑکیوں کو بال کٹواتا دیکھ کر دل میں مچلی تھی۔ گنگھرالے بھورے بالوں کو روز قصائی والی نظروں سے دیکھ کر بھی کچھ نہیں ہوپا رہا تھا۔ کیونکہ جب ردا نے اپنے اس شوشے کا نسرین کے سامنے ذکر کیا تھا بلکہ ضد کہنا زیادہ مناسب ہوگا تو نسرین بپھر گئی۔ نسرین کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی اس آفت کی پرکالہ کا دماغ درست کردے جو ہر روز کوئی نیا ہی کارنامہ کرنے کا سوچتی تھی۔ اتنی محنت سے اس نے ردا کے بال بڑے کیے تھے اور وہ اب اسکو کٹوانے پہ تلی تھی۔
وہ اس فرمائش پر وہ تلملا کر رہ گئی مطلب حد ہوگئی تیل تک تو ابھی بھی وہ اسکے پیچھے بھاگ دوڑ کر لگاتی تھی۔ نسرین نے اسے سختی سے منع کیا اور آخری وارننگ بھی دے دی کہ اگر اب یہ خیال اپنے ذہن میں لائی تو بہت برا ہوگا۔
لیکن خواہشات کا کیا کریں ان پر تو کسی کا بس نہیں یہ تو ہر اچھی چیز دیکھ کر مچل جاتی ہیں۔ جو ردا کے اندر بھی زور و شور سے اور اپنی پوری آب و تاب سے مچل چکی تھیں اور نتیجہ طلب تھیں۔
وہ پچھلے ایک گھنٹے سے آئینے کے سامنے کھڑی بالوں کو مختلف زاویوں میں دیکھ رہی تھی۔ کبھی بالوں کو کھول کر انہیں تیکھی نظروں سے دیکھتی تو کبھی ٹیل پونی جیسی شکل دیتی ، کبھی مانگ نکال کر تھوڑے بالوں کو منہ کے ہالے میں کرکے دیکھتی تو کبھی منہ بسور کر اپنے بالوں کو دیکھتی کجاکہ وہ اپنے ننھے سے دماغ کے ساتھ عظیم تخریب کاری میں مصروف تھی کہ کیا کرے کیسے کرے۔مگر ابھی تک سمجھ سے بالاتر تھا کہ کیا کرے۔
"ردا۔۔" ابھی تھک ہار کر اسنے انجام کی پروا کیے بغیر قینچی پکڑ کر اپنی شور مچاتی خواہش کا احترام کرنا ہی چاہا تھا کہ نسرین کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی۔ اس اچانک حملے پر وہ ہڑبڑا سی گئی مگر زیادہ نہیں آخر کو وہ ردا تیمور تھی بھئی۔
"کونسی تخریب کاری میں جتی ہو؟" نسرین نے سخت تیوروں سے استفسار کیا۔ایک لمحے کے لیے خوف کی وجہ سے ردا کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی مگر وہ ایک لمحہ ہی تھا۔
"مما میں۔۔ وہ۔۔ وہ میں دیکھ رہی تھی کہ قینچی ٹھیک سے چلتی ہے کہ نہیں" ردا تھوک نگل کر قینچی کو نظروں کے سامنے لہرانے لگی تھی۔
"کیوں تم نے قینچی سے کونسے کام سرانجام دینے تھے۔" نسرین تیکھی نظروں سے ردا کو گھورنے لگی جو اپنے آپ کو پرسکون کرنے میں ہلکان ہورہی تھی۔
"او نہوں مما میں نے کیا کرنا تھا بس ویسے دیکھ رہی تھی۔۔" ردا نے سکون سے جواب دے کر قینچی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی۔
"اچھا تو کیا پتہ لگا کہ قینچی ٹھیک ہے کہ نہیں۔۔؟"
"کہاں لگا ابھی تو بس سوچا تھا۔۔۔"
"چلو میں تمہاری گنج کرکے دکھا دیتی ہوں کہ یہ قینچی اپنی صلاحیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔۔۔" نسرین نے بھگو کر طنز کیا جس پر ردا سٹپٹا گئی تھی۔
"او مما آپکو لگا کہ میں بال کاٹنے لگی ہوں۔۔ میں پاگل تھوڑی ہوں مجھے پتہ ہے کہ اس سے بال تو کٹ جاتے ہیں مگر خود کے نہیں کاٹے جاسکتے۔" ردا نے عقلمندی ظاہر کرنے کا موقع ضائع نہیں کیا تھا۔
"میں تمہارا کیا کروں ردا۔ بچوں کی طرح تم پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔" نسرین ردا کی باتوں پر سر پکڑ کر رہ گئی تھی۔
"مما اب میں نے کیا کیا ہے۔" دنیا جہان کی بےبسی لہجے میں سموئے ردا سوالیہ ہوئی تھی۔ ایک تو بال نہیں کاٹے گئے اوپر سے کلاس الگ لگنے والی تھی۔
"ردا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم سوچتی ہی کیوں ہو کچھ۔۔"
"کیا مطلب۔۔"
"مطلب یہ کہ جب انسان ڈھنگ کا نہ سوچ سکے تو اسے اپنے دماغ کو سکون دینا چاہیے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں کبھی کام کرسکے۔۔" نسرین نے اسے دیکھتے تاسف سے سر ہلایا تھا۔
"ایک تو مما مجھے آپکی سمجھ نہیں آتی پہلے کہتی تھیں کہ دماغ سے کام لو عقل کو ہاتھ مارو اور اب کہہ رہی ہیں کہ اپنے دماغ کو سکون دوں۔۔ آپ مجھے ایک دفعہ پکا والا بتا دیں کہ کرنا کیا ہے۔۔۔" ردا منہ پھلا کر جواب دینے لگی اسکے پاس کسی سوال کا جواب نہ ہو ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔
"خبردار جو اب تم نے آئندہ صبح مارنگ شو دیکھے تو۔۔" نسرین اسے انگلی سے وارن کرتے بکھرا کمرہ سمیٹنے لگی تھی۔
"مما اتنا اچھا تو سب سکھاتے ہیں باتیں ، میک اپ ، ہیر سٹائل اور کھانا بنانا بھی۔" ردا کی دماغ کی سوئی ہنوز وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
"میں تو یہ حیران ہوں کہ جب اسکول جانا ہوتا تھا تب تم اٹھتی نہیں تھی یہ جب سے امتحان ختم ہوئے ہیں تم صبح صادق اٹھ جاتی ہو بس مجھے ذلیل کرنا ہے۔ یہ میرے ہاتھ دیکھ لو اور صبح سوجایا کرو۔۔" نسرین اسکے جوابوں سے جھنجھلا کررہ گئی۔
"مما میری تو آپ سمجھ سے باہر ہیں کبھی غصہ کرتی ہیں کہ میں صبح اٹھتی نہیں ہوں اور اب۔۔۔"
"تو تم کونسا ڈھنگ کا کام کرتی ہو اٹھ کر صبح ہی صبح ٹی وی کے آگے بےشرموں کی طرح بیٹھ جاتی ہو۔" نسرین نے ردا کی بات کاٹتے ہوئے اسے شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کی جو کہ منہ بسور کر اب بھی نسرین کو قائل کرنے کے پرتول رہی تھی۔
"مما یار چھٹیاں ہیں۔"
"بال کٹوانے والا خیال اپنے دماغ سے نکال دو میں نے ہرگز نہیں ماننا میری تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ تمہیں کیا تکلیف دیتے ہیں یہ۔ میں آخری بار بتا رہی ہوں کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کرنا ورنہ میں نے سیدھی گنج کروادینی ہے پھر روتی رہنا۔" نسرین تنبیہ کرتے گویا ہوئی۔
"مما پلیز کروانے دیں نے کٹ۔۔ اتنی پیاری لگی تھی وہ لڑکی مجھے پتہ ہے جب میں کرواؤں گی تو مجھے بھی اچھی لگے لگی پھر اگلی دفعہ آپ خود سے میری کرواؤ گی دیکھنا۔۔" ردا بھی کہاں باز آنے والی تھی نسرین کے پیچھے سے پھر ہانک لگائی مگر جواب ندارد۔
"یہ قینچی اب نہ دیکھو تمہارے ہاتھ میں۔" نسرین پلٹ کر قینچی اٹھاتی کمرے سے چلی گئی تھی۔
"یااللہ مجھے نہیں پتہ مجھے بال کٹوانے ہیں۔" وہ جھنجھلا کر بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی تھی۔
_____________________________________________
جس دن سے غزالہ زوار کے گھر سے واپس آئی تھی وہ چپ چپ رہنے لگی تھی۔ کیونکہ جب وہ اور عبیرہ ساریہ کو احان کے بھیجے گئے تحفے دینے گئیں تھیں تو شائستہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ زوار کے لیے لڑکی پسند کرچکی ہے۔
غزالہ کو زوار ہمیشہ سے بہت پسند تھا۔ اور ہوتا بھی کیوں نا آخر اسکے اکلوتے بھائی کی نشانی تھی۔ اسکی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ عبیرہ کی شادی زوار سے ہو۔احان اور ساریہ کے نکاح کے وقت بھی اس نے شائستہ سے زوار اور عبیرہ کی بات کرنا چاہی لیکن ہاشم نے اسے منع کردیا کہ ابھی عبیرہ چھوٹی ہے جب احان کی شادی کریں گے تو تب بات کرنا مناسب ہوگا۔
مگر شائستہ کی بات سے وہ بہت افسردہ تھی۔ ہوتی بھی کیوں نا اسے ہمیشہ سے تو عیبرہ کے لیے زوار کا خیال آیا تھا۔
"کن سوچوں میں ہیں۔۔" ابھی بھی وہ اسی سوچ میں غوطہ زن تھی کہ قریب سے ہاشم کی آواز آئی جو کہ اسکے برابر نشست پر براجمان ہوچکا تھا۔ غزالہ نے ابھی تک ہاشم سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی وہ تو خود حیران و پریشان تھی کسی سے کیا بات کرتی۔
"کہیں نہیں آپ کب آئے؟" غزالہ زبردستی مسکرا کر جواب دینے لگی تھی۔
"ابھی آیا ہوں۔۔ خیر ہے میں نوٹ کررہا ہوں کچھ دنوں سے تم کچھ پریشان سی لگ رہی ہو۔۔" ہاشم اسکی چائے کا کپ اٹھا کر گھونٹ بھرنے لگا تھا۔
"ہاشم۔۔ مجھے لگتا ہے ہم نے دیر کر دی ہے۔۔" غزالہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں تھیں۔
"مطلب۔۔" ہاشم ناسمجھی میں غزالہ کو دیکھنے لگا تھا۔
"غزالہ بھابھی بتا رہی تھیں کہ انہوں نے زوار کے لیے کوئی لڑکی پسند کر لی ہے۔
ہاشم میں نے ہمیشہ عبیرہ کے ساتھ زوار کو سوچا تھا میری بہت خواہش تھی کہ ان دونوں کی شادی ہو۔" غزالہ بھرائی آواز میں ہاشم کو شائستہ کی بات بتانے لگی تھی۔
"ہمم!!! غزالہ حوصلہ کرو اس میں شاید کوئی بھلائی ہی ہو اللہ نے چاہا تو عبیرہ کے لیے بہت اچھا رشتہ مل جائے گا۔" ہاشم بھی افسردہ ہوا تھا لیکن وہ اس میں چھپی کوئی نا کوئی مصلحت جان کر خاموش ہوگیا تھا۔
"ہاں لیکن وہ زوار تو نہیں ہوگا نہ۔اتنا نیک فرمابردار اور محنتی بچہ ہے سب سے بڑھ کر گھر کا بچہ ہے۔"
"لیکن اگر وہ عبیرہ کے نصیب میں نہیں ہے تو ہم کچھ کر تو نہیں سکتے نا۔ اللہ سے دعا کرو کہ اللہ عبیرہ کا نصیب اچھا کرے۔" ہاشم سنجیدگی سے کہنے لگا تھا۔
"آمین۔"
"ہمم اور اپنا دل صاف کرو مجھے یقن ہے اللہ نے ہماری بیٹی کے لیے کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا۔"
"جی۔۔ چائے لاؤں آپکے لیے۔۔"
"نہیں کھانا لگاؤ بہت بھوک لگی ہے۔"
"جی اچھا۔۔"
"عبیرہ کہاں ہے نظر نہیں آرہی۔۔" ہاشم فون نکالے مستفسر ہوا تھا۔
"وہ اندر ہے شاید پڑھ رہی ہے۔"
"ہمم۔" فون پر احان کی کال آنے لگی۔
"السلام علیکم کہاں ہیں آپ دونوں جب میں فون کرتا ہوں آپ لوگ اٹھاتے ہی نہیں۔۔" ہاشم کے فون اٹھاتے ہی احان شروع ہوگیا تھا۔
"وعلیکم اسلام۔۔۔ بس بس کتنا بولتے ہو یار اور آج ہی نہیں سنا فون تم تو ایسے کر رہے ہو جیسے پچھلے ایک سال سے تمہارا فون نہیں سنا۔"
"مما کہاں ہیں۔"
"یہ لو بات کرو اماں کے چمچے۔۔۔"
"میری جان کیسے ہو ۔۔" غزالہ احان سے پوچھنے لگی تھی۔
"مما میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں۔۔"
"بس تمہیں مس کرتی ہوں بہت۔۔"
"میرا بھی دل ہی نہیں لگتا اس لیے ہر وقت پڑھائی کرتا رہتا ہوں تاکہ وقت گزر جائے۔" وہ ساتھ ساتھ چائے کے لیے کپ نکالنے لگا تھا۔
"اچھا یعنی میرے بچے پر اسکے ابا کو نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔" غزالہ شوخی سے ہاشم کو سنانے لگی تھی۔
"ہاہا ویسے ایک دو گوری پیاری ہیں۔۔" احان نے شرارت سے کہا تھا۔
"خبردار جو ایسی بات بھی کی تو۔ میری بھتیجی سے پیاری نہیں ہوسکتیں۔۔"
"ہاہا مما کیا ہوگیا ہے میں تو آپ کو تنگ کررہا تھا آپ تو سریس ہی ہوگئی ہیں۔۔۔"
"ہاں ویسے جیسی نکاح پر تمہاری حرکتیں تھیں سریس ہونا بنتا نہیں تھا۔۔" ہاشم نے احان کے انداز پر چوٹ کی تھی۔
"ہاہا۔۔" احان کا قہقہہ بےساختہ تھا۔
"اور پڑھائی کیسے جارہی ہے۔"
"الحمد اللہ بہت اچھی۔"
"ہمم عبیرہ سے بات ہوگئی۔۔" ہاشم مستفسر ہوا تھا۔
"جی بابا اچھا چلیں میں بعد میں بات کرتا ہوں باہر دروازے پہ ہے کوئی۔"
"اوکے اللہ حافظ۔"
_____________________________________________
بالوں کی کٹنگ کا جو بھوت ردا کے سر پر سوار تھا وہ تقریبا اتر چکا تھا کیونکہ اسکی جگہ اب ایک نئے قیمتی شوق نے لے لی تھی۔
آج صبح اس نے مارنگ شو میں آئی ڈیزائنر کی باتوں کو سنجیدہ لیا تھا اس لیے اب ایک اچھا ڈیزائنر بننے کا شوق آنکھوں میں چمکنے لگا تھا۔جس پر قسمت نے بھی بھرپور اس کا ساتھ دیا۔ یعنی نسرین نے آج ہی درزی کو دینے کے لیے کپڑے نکالے تھے جو کہ اس وقت ردا کی آنکھوں کے سامنے پڑے تھے۔
"مما آپ میرا یہ والا ڈریس رہنے دو۔۔" نسرین اندر سے پرس اٹھا کرآئی تو ردا نے بم پھوڑنے کی بھرپور تیاری کی تھی۔
"کیوں کل تک تو میری جان کھائی ہوئی تھی کہ میں سلوا کر کیوں نہیں دے رہی اب کیا ہوا ہے۔" نسرین بھنوئیں اچکا کر رہ گئی کہ اب اسکی شاہکار اولاد نے کیا سوچا ہے۔
"وہ میں یہ ڈریس خود سلائی کروں گی۔۔" ردا مزے سے کہتی نیلے آسمانی رنگ کا سوٹ پکڑنے لگی تھی۔
"ہاں؟؟؟؟؟" نسرین کو لگا جیسے اسنے سننے میں کوئی غلطی کی ہو۔
"مما میں یہ ڈریس خود سلائی کرنا چاہتی ہوں۔۔" ردا نے نسرین کو حیران کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔
"یا میرا اللہ میں کیا کروں۔۔ تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے۔ تم نے کبھی سلائی مشین دیکھی ہے؟" نسرین سر پکڑ کر اپنی اولاد کو دیکھ کر رہ گئی جس نے ہر اوٹ پٹانگ حرکت کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔
"نہیں۔۔"
"تو میری دادی اماں سلائی کیسے کروں گی۔۔" نسرین نے اسکی عقل پر ماتم کرتے کپڑے شاپر میں ڈالے تھے۔
"او نہوں مما وہ ڈیزائنر بھی کہہ رہی تھی کہ شروع شروع میں مسلہ ہوگا مشکل لگے گا مگر پھر آسان ہوجائے گا۔"
میں ابھی ایسا کرتی ہوں سوئی سے سی لیتی ہوں۔۔" ردا نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائے۔ ( شاید اس سے بڑی بونگی کوئی نہیں ہوسکتی)
"سوئی۔۔۔ تمہارا دماغ اپنے ٹھکانے پر ہے؟ سوئی سے کون کپڑے سلائی کرتا ہے کبھی تم نے دیکھا ہے۔؟" نسرین تو اسکی بات سن کر بپھر گئی تھی۔
"اور مجھے ذرا یہ بتاؤ کبھی سوئی میں دھاگہ بھی ڈالا ہے؟"
"نہیں وہ آپ ڈال دینا سلائی میں خود کرلوں گی۔ اور۔۔۔"
"چپ اب اگر ایک لفظ بھی بولی تو میں نے ایک کی بجائے دو تھپر لگانے ہیں۔" ردا ابھی مزید گل افشانی کے چکر میں تھی کہ نسرین نے اسے ڈپٹ کر چپ کروایا تھا۔
"مما۔۔" ردا منہ پھلا کر ناراض ہوگئی تھی۔
"ردا میں جارہی ہوں اندر سے دروازہ بند کرو اچھے سے۔" نسرین تنبیہی نظروں سے گھور کر چلی گئی تھی۔
_____________________________________________

Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 6
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 6


"پاکستان کے لوگ بے وفا کیوں ہوتے جارہے ہیں۔" احان نے ایک ہفتے انتظار کرکے خود ہی مسیج کیا تھا۔ ساتھ میں دکھی والا ایموجی ٹائپ کرنا وہ نہیں بھولا تھا۔
"کیونکہ سمندر پار لوگوں کی وفا باہر امڈتی چلی آرہی ہے۔" ساریہ ابھی کیچن سے ناشتے کے برتن سمیٹ کر آئی تھی کہ فون کی بیل ہوئی احان کی رونی شکل دے کر بےساختہ اسکی ہنسی نکلی تھی۔
"بندہ خود بھی کبھی حال چال پوچھ لیتا ہے۔" احان کو جب جواب موصول ہوا تو وہ خوش تو بہت ہوا مگر پھر بھی بگڑے منہ کے ساتھ بات کرنے لگا تھا۔
"آپ باقاعدگی سے بتا تو دیتے ہیں۔۔" وہ معصوم بنی تھی۔
"یار بہت ہی بری ہو تم۔" وہ سرد آہ خارج کرکے رہ گیا تھا۔
"اب کیا کیا جاسکتا ہے۔۔"
"ہوش کرو گوریوں میں چھوڑا ہوا ہے تم نے اپنا اکلوتا بندہ۔" احان نے شرارت سے کہا تھا۔
"حان۔۔۔!" وہ خفگی سے بولی تھی۔
"جی جان۔۔" احان مسکراہٹ دبا کر اسکی حالت سے محفوظ ہوا تھا۔
"آپکو پتہ ہے آپ کتنے خراب ہوگئے ہیں۔۔" ساریہ نے منہ پھلائے مسیج بھیجا تھا۔
"کتنے۔۔" دلچسپی سے پوچھا گیا تھا۔
"یہ تو آپکو پھپھو ہی بتائیں گی کیونکہ اب میں پھپھو کو بتاؤں گی کہ آپ کا دھیان وہاں پڑھائی میں بلکل نہیں ہے۔" ساریہ نے دل کے پھپھولے نکالے تھے۔
"پھر کیا ہوگا۔۔" احان اپنے آپ کو شرارت سے باز نہ رکھ سکا تھا۔
"پھر پھپھو پھپھا آپ کو بتائیں گیں۔۔" وہ ناک سکیڑ کر تحریری پیغام لکھنے لگی تھی۔
"ہاہا پھر۔۔"
"پھر وہ آپکے کان کھینچ کے آپکی کلاس لیں گے۔۔" ساریہ نے بڑے فخر سے کہا تھا۔
"بڑی ظالم ہو تم میں ایوں ہی تمہیں شریف سی بندی سمجھ رہا تھا۔۔" احان نے بائیں بھنو اچکایا تھا۔
"میں ابھی بھی شریف ہوں بس آپ مجھے تنگ کررہے ہیں۔۔"
"توبہ کریں مسز تنگ تو آپ نے کررکھا ہے فون ہی نہیں اٹھاتیں
ویسے شکایت تو اب میں لگاؤں گا مامی کو۔۔" احان ہکا بکا اسکا مسیج دیکھ کر رہ گیا یعنی تنگ خود کیا ہوا ہے میڈم نے اور الزام مجھ پر۔۔
"ایک منٹ کونسی شکایت۔۔"
"یہی کہ تم لفٹ نہیں کرواتی اور نہ ہی مجھ سے بولتی ہو۔" احان نے مزے سے کہا تھا۔
"آپکو شرم نہیں آئے گی۔"
"نہیں خود ہی تو کہتی ہو کہ میں خراب ہوں۔"
"آپ شکایت لگا کر تو دکھائیں۔۔" وہ گھورنے والا ایموجی بھیج کر اپنے تاثرات بتا رہی تھی۔
"کیوں کیا کر لوگی۔۔"
"میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔" ساریہ نے دھمکی دی تھی۔
"وہ تو تم ویسے ہی نہیں کرتی۔۔" دھمکی ہوا میں اڑائی گئی تھی۔
"حان۔۔" وہ پھر روہانسی ہوئی تھی۔
"جی مسز۔۔" وہ آنکھیں ٹپٹپا کر ہمہ تن گوش ہوا تھا۔
"آپ واقعی ہی خراب ہیں۔۔۔" منہ بسورے شکوہ آیا تھا۔
"جتنی دفعہ نکاح کے بعد تم مجھے یہ خراب والی لائن بول چکی ہو مجھے تو لگتا ہے میں باسی ہوگیا ہوں۔ خدارا اب نہ بولنا یہ۔۔" احان اسکی خراب والی گردان پر سر پیٹ کررہ گیا تھا۔
"نہیں بولوں گی مگر آپ بھی وعدہ کریں کسی لڑکی کو نہیں دیکھیں گے۔"
"آنکھیں اللہ نے دیکھنے کے لیے ہی دی ہیں لیکن اب اتنی پیاری سی بیوی کی بات کو میں ٹالنے سے رہا ، اس لیے آپکی یہ بات سر آنکھوں پر۔۔"
"وعدہ کریں سب لڑکیوں کو اپنی بہنیں سمجھیں گے۔" ساریہ لب بھنچے مسکراہٹ دبانے لگی تھی۔
"میری جان اتنا جزباتی کیوں ہورہی ہو اور میں نے تھوڑا سا اظہار کہا تھا بس۔" احان تو اس کے مطالبے سن کر بدمزہ ہوا تھا۔
"حان آپ وعدہ کررہے ہیں یا نہیں۔" وہ کڑے تیور لیے مستفسر ہوئی تھی۔
"و ع د ہ۔" احان کی بے بسی عروج پہ تھی۔
"وعدہ کریں شریف انسان بن کر رہیں گے۔۔"
"پچھلے دو وعدوں کے ساتھ انسان شریف ہی ہوتا ہے مسز۔" احان نے بھگو کر طنز کیا۔ مطلب واقعی پیچھے رہ کیا گیا تھا۔
"اچھا اب میری باری۔۔" احان نے جان بوجھ کر نئی بات شروع کی تھی۔
"کس چیز کی۔۔" ساریہ نے بھنوئیں اچکائیں تھیں۔
"یہ جو تم نے اتنی شرطیں رکھی ہیں اسکے بدلے میں میری بھی کچھ شرائط ہیں جن کو آپ من وعن تسلیم فرمائیں گیں۔۔۔" احان نے نچھلا لب دانتوں میں دبائے تحریری پیغام بھیجا تھا۔
"آپ بہت وہ ہیں۔" ساریہ نے خراب لکھ کر مٹایا تھا۔
"تم۔" احان سر پیٹ کر رہ گیا تھا۔
"اچھا بتائیں۔"
"ہمم
۱۔روز صبح اٹھ کر گڈ مارنگ بولوں گی۔" احان مکمل طور پر پھیل چکا تھا۔
"یہ کیا بات ہوئی ایسے کون کرتا ہے۔۔" ساریہ تو اسکی بات پر حیران مطلب ایسے کہہ کر کون مارنگ وش لیتا ہے۔
"آپ کریں گی مسز۔
۲۔ رات کو سونے سے پہلے گڈ نائٹ بولیں گیں۔۔" احان نے دوسری انوکھی شرط سامنے رکھی تھی۔
"حان آپ بہت تیز ہیں میں نہیں کروں گی کیونکہ آپ اتنے باتونی ہیں مجھے باتوں میں الجھائے رکھیں گے۔" احان کی شرائط سے اسکا سر چکرا گیا تھا۔
"ہاہا اچھا چلو جس دن موڈ خوشگوار سا ہو اس دن؟"
"اوکے۔"
"اب
۳۔ میں اگلے مہینے آرہا ہوں تو تم مجھے میرے گھر نظر آنی چاہیے ہو۔"
"حان۔۔۔! یہ سب سے مشکل ہے میں روز آپکو تحریری پیغام کروں گی مگر یہ نہیں پلیز۔۔" ساریہ نے التجا کی کیونکہ احان کی بولتی شریر نگاہوں کی وہ تاب نہیں لاسکتی تھی۔
"کیوں۔۔؟" وہ انجان بنا تھا۔
"مجھے شرم آتی ہے۔"
"اسکا ایک حل ہے۔۔" احان پھر شریر ہوا تھا۔
"اب وہ کیا ہے۔۔" ساریہ کو پتا تھا وہ پھر کوئی نیا شوشا چھوڑے گا۔
"تب تک تم ایسے کرو روز مجھے ویڈیو کال کرو" دانتوں کی باقاعدہ نمائش کی گئی تھی۔
"آپکا کوئی حال نہیں ہے اور میں نہیں کروں گی۔۔ میں جارہی ہوں مجھے کھانا بنانا ہے۔ اللہ حافظ۔"ساریہ تاسف سے سر ہلاتے فون رکھ کر باہر چلی گئی تھی۔
_____________________________________________
"کیسی ہیں آپ۔۔" ساریہ اور شائستہ اس وقت نسرین کے گھر میں بیٹھی تھیں جب نسرین نے ان سے پوچھا تھا۔نسرین انکو اپنے گھر میں دیکھ کر حیران ہوئی مگر جلد ہی اپنی حیرت پر قابو پاتے وہ سلام کے بعد انہیں لاؤنج میں لے آئی تھی۔
"اللہ کا شکر آپ سنائیں۔" شائستہ مسکرا جواب دینے لگی تھی۔
جب کہ ساریہ ادھر ادھر دیکھ کر ردا کو ڈھونڈنے لگی تھی۔
"اللہ کاشکر۔۔۔ آپ بیٹھیں میں ابھی آئی۔" نسرین کا ارادہ کیچن میں جانے کا تھا۔
"آنٹی وہ ردا نظر نہیں آرہی؟" نسرین کے اٹھتے ہی ساریہ نے پوچھا تھا۔
"وہ اپنے کمرے میں گئی تھی میں بلاتی ہوں اسکو۔۔"
"جی۔"
_____________________________________________
"ردا۔۔۔ ردا۔۔" نسرین کیچن میں جانے سے پہلے ردا کے کمرے میں آئی تھی
"جی جی مما۔۔! اف اب مما کو کیا کام ہے اٹھا تو لیے تھے میں نے برتن۔" ردا منہ میں بڑبڑاتے ڈریسنگ روم سے باہر آنے لگی تھی۔
"باہر آؤ اس دن والی آنٹی اور انکی بیٹی آئی ہیں۔۔"
"کون۔۔" ردا باہر آکر سوالیہ ہوئی تھیز
"جس سے آپ میلاد والے دن باتیں کررہی تھیں۔۔"
"او اچھا۔۔"
"ہاں باہر جا کر بیٹھو ذرا میں بس ابھی آئی۔۔۔"
"جی اچھا۔۔"
" سنو زیادہ نہ بولنا کیونکہ کچھ الٹا سیدھا بولتے تمہیں پتا نہیں لگتا۔۔" نسرین دروازے سے پلٹ کر اسے سمجھایا تھا۔
"بھئی میں نہیں جارہی باہر جب دیکھو آپ ایسے ہی کہتی ہیں۔۔" ردا جھنجھلا کر بولی تھی۔
"آرام سے بولو ورنہ میں نے کھینچ کے ایک لگانی ہے۔ اور ابھی دو دن پہلے جب لیزا(ہمسائی) کی مما آئی تھی تب والی اپنی کرتوت بھول گئی ہو۔" نسرین نے اسے شرم دلانا چاہی تھی۔
"ہاں تو وہ جھوٹ بول رہی تھیں کہ لیزا سارے گھر کا کام کرتی ہے۔۔" ردا کے کان میں جوں تک نہ رینگی تھی۔
"تو تم اسکی دادی اماں ہو جس کا بحث کرنا ضروری تھا۔ اب چپ کرکے بیٹھنا۔۔"
"ٹھیک ہے وہ جب کچھ پوچھیں گے کچھ تو میں پھر بھی چپ رہوں گی۔" وہ منہ بنا کر لاؤنج میں جانے لگی تھی۔
"تم کسی دن میرے ہاتھوں پٹو گی۔۔۔" نسرین کلس کر رہ گئی۔
"السلام علیکم آنٹی۔" ردا نے لاؤنج میں آتے شائستہ سے سلام کیا تھا۔
"وعلیکم اسلام کیسی ہے میری بیٹی۔۔"
"میں ٹھیک آپ سنائیں۔۔"نسرین کی باتوں کا کچھ کچھ ردا نے اثر لے ہی لیا تھا۔
"میں بھی ٹھیک۔"
"آپ کیسی ہو۔۔" ردا مسکرا کر ساریہ سے پوچھنے لگی تھی۔
"میں ٹھیک ۔۔۔کیا ہورہا تھا۔۔"
"کچھ نہیں ابھی پپیر ختم ہوئے ہے نا تو چھٹیاں چل رہی ہیں۔۔"
"اچھا کیسے ہوئے پیپر؟" ساریہ نے گویا اسکی عقل کا امتحان لے لیا تھا۔
"پتہ نہیں رزلٹ آئے گا تو پتہ چلے گا۔" ردا نے ابھی کوئی بونگی مارنی ہی تھی کہ نسرین بروقت ٹرے اٹھائے لاؤنج میں آئی تھی۔
"آپ نے بے جا تکلف کیا۔۔" لوازمات دیکھ کر شائستہ نسرین سے کہنے لگی تھی۔
"نہیں کوئی بات نہیں آپ پہلی بار آئی ہیں۔"
"پھر بھی بہت زیادہ کرلیا آپ نے۔۔"
"ارے نہیں۔ اچھا آپ یہ لیں۔۔" نسرین نے کبابوں کی پلیٹ شائستہ کے آگے کی تھی۔
"میں آج آپ سے بات کرنے آئی ہوں۔" رسمی گفتگو کے بعد شائستہ نے اپنی بات شروع کی تھی۔
"ردا آپ انکو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔۔" نسرین کو شائستہ کا انداز غیر معمولی لگ رہا تھا۔
"جی مما۔۔ چلیں۔۔" ردا اور ساریہ دونوں اسکے کمرے میں چلی گیں۔
"جی۔۔" ردا اور ساریہ کے جاتے ہی نسرین شائستہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
"وہ مجھے آپکی بیٹی اپنے بیٹے زوار کے لیے بہت پسند آئی ہے۔۔" شائستہ نے بہرحال ہچکچا کر کہہ ہی دیا تھا۔
"جی۔۔" نسرین کو حیرت کا زور دار جھٹکا لگا تھا۔
"بڑی اچھی بچی ہے آپکی ماشااللہ۔ میرا بیٹا نے ابھی حال ہی میں ڈگری پوری کی ہے۔"
"لیکن شائستہ میری بیٹی ابھی بہت چھوٹی ہے۔ میرا یقین کریں میں نے تو ابھی اس بارے میں ایسا کچھ سوچا ہی نہیں ہے۔ بہت معزرت میری طرف سے۔۔" نسرین شائستگی سے منع کرنے لگی۔ بات بھی سچ تھی ردا واقعی چھوٹی ہی تو تھی۔
"جی میں مانتی ہوں آپکی بیٹی چھوٹی ہے۔میرا بیٹا بھی ابھی آگے جاب کے ساتھ ساتھ پڑھے گا۔میں بس یہ چاہ رہی تھی کہ ابھی بات پکی کرلیں ، جب ردا کی پڑھائی ختم ہوگی تو شادی تب کرلیں گے۔"
"مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔۔" نسرین بوکھلا کر رہ گئی تھی۔
"آپ کی بات میں سمجھ رہی ہوں مگر پھر بھی آپ سے گزارش ہے کہ ایک دفعہ سوچ لیں۔ پھر جواب دے دیں۔
مجھے آپکی بیٹی بہت پسند آئی ہے میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گی میرا بیٹا بہت محنتی ہے انشااللہ اسکی پڑھائی ختم ہوگی تو اسے موجودہ جاب سے اچھی جاب مل جائے گی۔۔۔" شائستہ نے ایک بار پھر اپنی عرض کی تھی۔
"جی بہتر۔" نسرین سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا۔
"اچھا اب ہمیں اجازت دیں۔۔" کچھ توقف کے بعد شائستہ نے کہا تھا۔
"نہیں ایسے نہیں میں کھانا کھلائے بغیر اجازت نہیں دوں گی۔"
"نہیں انشااللہ جب آپ مثبت جواب دیں گیں تو ضرور۔۔"
"میں بچیوں کو بلاتی ہوں۔" شائستہ کی ایک ہی بات سے اسنے زور دینا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
"جی۔۔"
"اچھا اللہ حافظ۔۔" شائستہ الوداعی کلمات کہتی چلی گئی۔نسرین الجھ کر ان دونوں کی پشت دیکھتی رہ گئی۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments