Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 5

"کیسی ہے میری چڑیل بہن؟" فون اٹھاتے ہی احان نے عبیرہ کو تنگ کرنے کے لیے کہا تھا۔
"میں نہیں بولتی آپ سے۔" منہ پھلائے ہوئے جواب آیا تھا۔
"ارے کیوں۔۔" احان نے مصنوعی حیرت ظاہر کی تھی۔
"ایک تو آپ فون نہیں اٹھا رہے تھے اور اب مجھے چڑیل بھی کہہ رہے ہیں۔"
"میری بہن چڑیل نہیں ہے کیا۔" احان مسکراہٹ دبائے پوچھنے لگا تھا۔
"ٹھیک ہے اگر میں چڑیل ہوں تو آپ جن ہیں۔" حساب برابر کیا گیا تھا۔
"سچ میں کلاس میں تھا تب۔۔"
"میرے گفٹ کب بھیجیں گے۔۔" وہ ہنوز منہ بسورے ہوئی تھی۔
"پرسوں۔۔۔ماما ، بابا کیسے ہیں۔۔"
"وہ ٹھیک ہیں آپ ٹھیک ہیں۔۔" عبیرہ ساری خفگی سائیڈ پہ رکھے اداسی سے پوچھنے لگی تھی۔
"بڑی جلدی خیال آگیا۔۔میں ٹھیک ہوں اور پڑھائی کیسے جا رہی ہے۔۔" احان کو اسکے موڈ کا اندازہ ہوچکا تھا۔
"بہت اچھی بس آپ کو مس کررہی ہوں۔۔"
"میں بھی بہت مس کررہا ہوں" احان نے پیار سے کہا تھا۔ وہ سچ میں اس مصروف زندگی میں بھی انکو یاد کرتا تھا۔
"آپ کب آئیں گے"
"اگلے مہینے انشا اللہ"
"اچھا پھر آپ مجھے گھمانا بھی۔" وہ خوشی سے چہکتی دوبارہ فرمائشی پروگرام شروع کرچکی تھی۔
"ہاں ضرور اچھا میں بعد میں بات کرتا ہوں۔۔"
"اوکے اللہ حافظـــ۔!"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ_____________________________________________
"ردا۔۔" نسرین نے کمرے کے اندر آتے ہی اسے پکارا تھا۔
"جی مما۔۔" وہ کتاب سے سر اٹھائے نسرین کو دیکھنے لگی تھی۔ وہ شام سے پڑھ رہی تھی۔
"تیاری ٹھیک ہے پیپر کی۔۔"بیڈ سے چیزیں اٹھانے کے ساتھ ساتھ وہ مستفسر ہوئی تھی۔
"جی مما۔۔۔ بس ڈر لگ رہا ہے۔"
"کیوں جب تیاری ہے تو ڈر کیسا۔۔۔؟" نسرین فوراً اس تک آئی تھی۔
"بس ویسے ہی۔۔"
"اچھا چلو آؤ لیٹو باقی صبح کرلینا۔۔"
"مما میں آج آپ کے ساتھ سوؤں گی۔۔"
"اچھا آجائے میرا بچہ۔۔" نسرین اسکے بال سنوارنے لگی تھی۔ نسرین اسے لیے اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
"مما۔۔" بیڈ پر لیٹے ردا نے نسرین کی طرف کروٹ لے کر اسے پکارا تھا۔
"ہممم۔۔"
"بابا یاد آرہے ہیں۔۔" اسکے لہجے میں اداسی تھی۔
"کیوں۔۔؟" نسرین اسکی اداسی سے گھبرائی۔ اولاد کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ ڈری تھی۔
"وہ مجھے انگلش پڑھاتے تھے نا تو میں جلدی کر لیتی تھی۔۔" وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی صبح اسکا نہم کلاس کا امتحان تھا۔
"تمہاری تیاری ٹھیک نہیں ہے۔۔" وہ اپنے آنسو ضبط کئیے اسکے چہرے کے نقوشوں کو چھو کر پوچھنے لگی تھی۔
"تیاری تو ٹھیک ہے بس بابا یاد آرہے ہیں۔۔" ردا کی آواز رند گئی تھی۔
"میری جان مما آپ کے پاس ہے نا۔۔" نسرین اسے اپنے حصار میں لئیے اسکی کمر سہلانے لگی تھی۔
"مما آئی لو یو۔۔" تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر ردا نے اسکے ہاتھ لبوں سے چھوئے تھے۔
"آئی لو یو ٹو مما کی شرارتی سی جان۔۔" نسرین نم آنکھوں سے مسکراتی اسکی ناک ہولے سے دبانے لگی تھی۔
"چلو اب سو جاؤ۔۔"
"اوکے۔۔"
ردا کے سوئے ہوئے چہرے کو دیکھ کر نسرین نے جو آنسو اپنے اندر اتارے تھے وہ بیتابی سے باہر آنے لگے۔ کتنی معصومیت تھی اسکی چہرے پر۔
"اف تیمور کیا کرتے ہو میں ابھی اس کو سلا کر گئی تھی۔۔" کھانا لاتی نسرین نیند میں جھولتی ردا کو تیمور کی گود میں دیکھ کر رو دینے کو تھی۔
"یار خود تو سارا دن اس کے ساتھ لاڈ پیار کرتی ہو اور مجھے رات کو بھی نہیں کرنے دے رہی۔۔" وہ ردا کے بال سنوارتا شکوہ کناں ہوا تھا۔
"سارا دن مجھے اپنے پیچھے لگائے رکھتی ہے یہ لڑکی ۔۔مجھے تو یقین نہیں آتا میری اولاد اتنی شرارتی ہو سکتی ہے۔۔" نسرین ٹیبل پر کھانا رکھتے اپنے دکھ سنانے لگی تھی۔
"یعنی میری بیٹی تم سے صیحح سے بدلے لے رہی ہے۔۔" تیمور صوفے پر دراز ہوتا مسکراہٹ دبائے پوچھنے لگا تھا۔
"کون سے بدلے؟" نسرین ماتھے پر بل ڈال کر رہ گئی یعنی اب اس نے اپنی زندگی میں یہ بھی سننا تھا۔
"وہی جو تم مجھے تنگ کرتی رہتی ہو۔"
"استغفراللہ تیمور! میں نے کب آپ کو تنگ کیا۔۔۔میری جیسی بیوی آپکو کہاں ملنی تھی؟" نسرین کے آنکھیں تیمور کی بات سن کر کھل گئیں وہ ہکا بکا اسے کھاتے دیکھنے لگی تھی۔
"یاد نہیں سارا دن کیسے مجھے اگنور کرتی تھی شادی کے بعد۔۔" تیمور آنکھیں سکیڑے اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
"اور آپ کونسا ہونے دیتے تھے اپنے آپکو اگنور۔"
"بس میرا پیار تھا دیکھ لو۔۔"
"تھا کا کیا مطب ہے مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا آپ اب میرے حصے کا پیار بھی ردا کو دیتے ہیں۔۔" وہ ناراض سی پہلو بدل کر رہ گئی تھی۔
"میری جان کی مما ناراض لگ رہی ہے۔۔" تیمور نسرین کا پھولا منہ دیکھ کر مسکراہٹ دبائے پوچھنے لگا تھا۔
"میں جب پیار کرتا تھا تب تمہیں اعتراض تھا کہ میں پیار کرتا ہوں اب نہیں کر رہا تب بھی اعتراض ہے خود بتاؤ میں شریف سا بندہ جو شرافت سے لریز ہے وہ کیا کرے کہ آپ ملکہ جزبات میرے سچے جزبوں کی قدر دان ہوجائیں۔۔" نسرین کے کوئی جواب نہ دینے پر وہ مزید بات جاری رکھتے کہنے لگا تھا۔
"تیور ۔۔" نسرین غصے کی زیادتی سے مٹھیاں بھنچے رہ گئی تھی۔
"جی عرض کریں میری خوابوں خیالوں کی رانی شوہرِ محترم دل جمی سے ہمہ تن گوش ہیں۔۔" تیمور نے اسکے پھولے ہوئے منہ کو دیکھ کر معصومیت سے گول گول آنکھیں گمائیں تھیں۔
"کیوں تنگ کررہے ہیں مجھے۔"
"یہ سراسر الزام ہے مجھے غریب پر میری فاضل رانی۔۔"
"تیمور آپ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کرتے۔۔" وہ جھنجھلا کر رہ گئی تھی۔
"کیا بات کروں۔" تیمور نے بھنوئیں اچکائیں تھیں۔
"کونسی آنٹی کی لائن پر لبیک کہا ہے۔" نسرین نے بائیں بھنو اچکا کر باقاعدہ تفتیش کا آغاز کیا تھا۔
"آنٹی۔۔" وہ حیرت زدہ ہوکررہ گیا تھا۔
"جی بلکل اب اس عمر میں ایک عدد بچے کے باپ کے ساتھ آنٹی ہی سٹ ہوگی۔" نسرین نے اسکے اچھے سے لتھے لئیے تھے۔
"میری فاضل رانی ماننا تو پڑے گا آپکو ہے تو وہ بہت پیاری۔" تیمور نے مزے سے کہا تھا۔
"صیحح کہتے ہیں لوگ مرد بچوں کے بعد بدل جاتا۔" نسرین بھرائی آواز میں کہنے لگی تھی۔
"اللہ کی بندی پہلے زور زبردستی طاقت کے بل پر مجھ کسرتی قد و قامت والے بندے کو انکل بنا رہی تھی اب بچارے کو الزام سے ہمکنار بھی کررہی ہو۔" تیمور نے اسکو رونے کے قریب دے کر اپنی شرارت کو دو حرف بھیجے تھے۔
"میں نہیں بولتی آپ سے۔۔۔" وہ موڑ چکی تھی۔
"مجھے تو لگتا ہے ہماری شادی میں حق مہر تم نے طے کیا تھا "میں نہیں بولتی" والا جسکی دوذ مجھے دن میں تین دفعہ دیتی ہو۔"
"تو آپ کونسا مجھے مناتے ہیں میں خود ہی بولنے لگتی ہوں۔" نسرین سیدھی ہوکر میدان میں اتری تھی۔
"وہ دراصل میں تمہیں ناراض کرکے دیکھ رہا ہوتا ہوں کہ میری فاضل رانی پھولے منہ کے ساتھ کتنی پیاری لگتی ہے۔" تیمور نے معصومیت کے ریکارڈ توڑے تھے۔
"کتنی پیاری لگتی ہوں۔۔" نسرین کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی۔
"ہائےے میری رانی تم ابھی تک یہاں پہنچنے کی نوبت ہی آنے نہیں دے رہی ہو۔" دہائی دینے والا انداز۔
"مطلب۔۔" نسرین ناسمجھی میں تیمور کو دیکھنے لگی جو چہرے پر بھرپور مسکینیت طاری کیے ہوا تھا۔
"مطلب ابھی میں غور و فکر کرنے میں محو ہوتا ہوں کہ تم خود سے بولنے لگتی ہو۔"
"یعنی آپ چاہتے ہیں میں ناراض رہوں۔ تو ٹھیک ہے میں بھی اب بات نہیں کروں گی۔" وہ برا منا کر موڑ موڑنے لگی کہ ردا نے اپنی موجودگی کا احساس کروایا تھا۔
"بس اٹھا دیا نا۔ تیمور اب آپ اسے پکڑیں گے میں سونے لگی ہوں۔"
"چلو یہ اچھا ہے لڑ بھی خود رہی تھی شکوہ بھی خود کررہی تھی اور اب سارا ملبہ مجھ پر۔"
"تو میرے شکوؤں پر جوابِ شکوہ ضروری تھا۔ مان لیتے میری بات۔" وہ تیمور کو گھور کر بولی تھی۔
"یہ خاکسار سنگین جرم کے بعد معافی کا طلب گار ہے۔۔" تیمور مزید شریر ہوا تھا۔
"تیمور پلیز چپ کرجائیں روز آپ اسے جگا دیتے ہیں۔" وہ روتی بلکتی ردا کو اٹھا کر رونی شکل بنا کر بولی تھی۔
"اچھا اچھا سلا دو۔ میں بھی چینج کرکے آیا۔"
_____________________________________________
"زوار کہاں رہنے لگے ہو نظر ہی کم آنے لگے ہو اب۔۔" زوار ابھی تھکا ہارا آکر شائستہ کے پاس بیٹھا ہی تھا۔
"مما یہیں تھا بس ایک دو ضروری کام تھے۔۔ آپ بتائیں۔۔"
"مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔" شائستہ نے ردا کے ساتھ رشتے کی تمہید باندھی تھی۔
"جی کہیں۔۔" زوار فوراً متوجہ ہوا تھا۔
"میں نے تمہارے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے۔ماشااللہ بہت پیاری اور سیدھی سادھی ہے۔۔" شائستہ نے پیار بھرے انداز میں زوار کے سر پر بمب پھوڑا تھا۔
"ایک منٹ ایک منٹ! مما آپکو کیا ہوگیا ہے مجھے ابھی اپنے لیے جاب تلاش کرنی ہے مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔" زوار نے تو جلدی سے ہاتھ اٹھائے تھے۔
"او ہو زاری بھائی ہم کونسا کل ہی بارات لے کر انکے دروازے کے سامنے جا رہے ہیں۔" چائے اندر لاتی ساریہ لاڈ سے بولی تھی۔
"پھر بھی میرا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں۔"
"زوار کیا ہوگیا ہے اتنی اچھی بچی ہے اور وہ ابھی پڑھ رہی ہے جب تک وہ پڑھائی پوری کرتی ہے تب تک انشااللہ تمہیں بھی جاب مل جائے گی۔"
"میری تو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کوگوں کو اتنی جلدی آخر ہے کس بات کی۔" زوار نے اکتا کر کہا تھا۔
"زوار احان بھی تمہارا ہم عمر ہے اسکی ہوگئی ہے اب تم بھی کرلو۔" شائستہ نے اپنی توجہی پیش کی تھی۔
"مما یہ کیا بات ہوئی۔"
"زوار کیا ہوگیا ہے کیوں ایسے کہہ رہے ہو۔ بے شک کوئی پسند ہے تو بتا دو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔"
"یار آپ سمجھ نہیں رہے میرا یہ ہرگز مطلب نہیں تھا۔ کوئی پسند نہیں ہے لیکن ابھی بھی منگنی ہوگی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔" زوار نے بات کو کسی اور طرف جاتا دیکھ کر ہار مان لی تھی۔
"ہائے اللہ بھائی سچی۔۔ آپ مان گئے ہو۔" ساریہ خوشی اسکی طرف بڑھی تھی۔ جس پر وہ نفی میں سر ہلاتا مسکرایا تھا۔
____________________________________________
‏ہزاروں کا ہجوم ہے دل کے آس پاس
دل پھر بھی دھڑکتا ہے ایک ہی نام سے

Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 5
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 5


ساریہ الماری میں کپڑے مرتب کرکے بیٹھی ہی تھی کہ فون پر میسج موصول ہوا۔ احان نے پرسوں عبیرہ کی فرمائشی لسٹ کے ساتھ ساریہ کے لیے اسکی سالگرہ کا تحفہ بھی بھیجا تھا جو عزالہ اور عبیرہ کل ہی اسے دے کر گئی تھیں۔ رات کو انکے دیر سے جانے کی وجہ سے وہ فون نہ کھول سکی تھی ،صبح فون اون کیا تو احان کے لاتعداد پیغام موصول ہوئے تھے مگر اسکو آئن لائن نہ دیکھ کر ساریہ نے جواب میں کچھ نہ کہا تھا
"شکریہ حان۔۔" شرمگین مسکراہٹ کے ساتھ ساریہ نے پیغام رسانی کا آغاز کیا تھا
"شکریہ؟؟" وہ سوالیہ ہوا تھا۔
"جی۔" دلفریب مسکراہٹ لبوں سے ہٹنے سے انکاری تھی۔
"بہت بری ہوتم۔۔" احان نے اسکی صاف گوئی پر دل کے پھپھولے نکالے تھے۔
"کیوں۔۔؟" اس کی بات سے ڈھرکنوں میں ہلچل سی ہوئی تھی۔
"کوئی اظہار محبت کررہا ہے اور تو تم اسے روکھا سا شکریہ کررہی ہو۔" وہ ناک سکیڑے کر جواب لکھنے لگا تھا۔
"میں نے گفٹ اور سالگرہ کی مبادک باد پر شکریہ کہا تھا۔۔" ساریہ نے محفوظ سی وضاحت دی تھی۔
"او اچھا ٹھیک ٹھیک۔۔مطلب ابھی تم اظہارِ محبت پر آؤ گی۔" احان مسکراہٹ دبائے شوخ ہوا تھا۔
"جی جی۔۔؟" احان کی بے باکیاں نے ساریہ کو سٹپٹا دیا تھا۔
"تو بولیں مسز بندہ ہمہ تن گوش ہے۔" احان اسکی حالت سے خوب محفوظ ہورہا تھا۔ اسکے لبوں پہ خوشی ، چاہت سے بھرپور
مسکراہٹ تھی۔
"کیا بولوں۔۔"
"اپنی پیاری سی آواز میں مسحورکن اظہار۔" احان پٹری سے اتر چکا تھا۔
"مگر میری تو آواز ہی پیاری نہیں ہے۔" ساریہ نے لب دبائے فوراً معصومیت سے کہا تھا۔
"کوئی بات نہیں دل سے کرو گی تو تمہیں خود کو بھی بھلی محسوس ہوگی۔" وہ سب سمجھتے ہوئے بضد ہوا تھا۔
"حان میں آپکو اچھا خاصا ڈیسنٹ سمجھتی تھی۔"
"سمجھتی تھی کا کیا مطلب ہے میں نے کیا کیا۔" وہ بھنوئیں سکیڑ کر مستفسر ہوا تھا۔
"جب سے نکاح ہوا ہے۔"
"کس کا۔۔" ساریہ کے مزید بولنے سے پہلے احان نے بات پکڑی تھی۔ اسے ساریہ کو تنگ کرنے میں بہت مزہ آرہا تھا۔
"حان۔۔" وہ روہانسی ہوئی تھی۔
"اچھا بولو۔"
"کیا بولوں۔۔" وہ دوبارہ شروع نقطے پہ آئی تھی۔
"بھئی تم بتا رہی تھی کچھ کہ جب سے ہمارا نکاح ہوا۔ آگے؟"
احان نے اسے سرا پکڑایا تھا۔
"آپ تب سے خراب ہوگئے ہیں۔" وہ احان کی سابقہ حرکتوں پر روشنی ڈال رہی تھی۔
"اچھا ذرا بتانا پسند کریں گی مسز کہ مجھ معصوم سے بندے نے آپکی کونسی چیز چرائی ہے۔"
"میرا دل۔۔" احان کا پیغام موصول ہوتے ہی بےساختہ ساریہ کے دل و دماغ میں یہ بات گونجی تھی۔
"سوائے تمہارے دل کے۔"
"ہائے اللہ انکو کیسے پتہ چلا۔" وہ ابھی خلاؤں میں دیکھ ہی رہی تھی کہ دوبارہ بیل ہوئی تھی۔
"کہاں گئی۔" احان کی بیقراری کا اندازہ وہ پیغام رسانی سے بھی کرسکتی تھی۔
"کہیں نہیں۔۔۔"
"ہمم پھپھو اور زوار ٹھیک ہیں؟"
"جی سب ٹھیک ہیں۔"
"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔" وہ جو اس کے بارے میں پوچھنے کے پرتول رہے تھی احان کے مسیج نے اسکے اندر تلاطم سا برپا کردیا۔ ڈر تھا کہ کہیں آج ہی سب راز و نیاز پتہ ہی نہ چل جائیں اس ہستی کو۔
"مجھے لگتا ہے مجھے مما بولا رہی ہیں۔"
"اچھا سنو۔۔"
"جی۔۔" اسکی پکار پر دل الگ لہ میں ڈھرکا تھا۔
"مطلب میں نہیں سمجھو پھر۔" وہ پھر بات اپنی طرف موڑ چکا تھا۔
"کس بات کے لیے۔" وہ ناسمجھی سے گویا ہوئی تھی۔
"مسز حافظہ کمزور و ناتواں ہے یا مجھ معصوم کو ٹرخانا چاہتی ہو۔۔" احان نے لطیف سے لہجے میں کہا تھا۔
"نہیں تو۔۔" وہ گھبرا گئی تھی۔
"پھر کہو۔" جانے وہ آج کیا سننے کا ارادہ کیے ہوا تھا پر جو بھی تھا ارادہ مصمم لگ رہا تھا۔
"کیا۔۔؟" ساریہ بری طرح پھنس چکی تھی۔
"وہی جو میں کہتا پر تم نہیں کہتی۔" اشارے کا تیر چلایا گیا تھا۔
"کیا پتہ مجھے وہ پسند نہ ہو۔" وہ اسکی باتوں سے محفوظ ہوئی تھی۔
"مسز آپکی آنکھوں میں خوشیوں کے رنگ ، لبوں پر شرمگین مسکراہٹ اور شرم و حیا سے سرخ چہرہ تو آپکے شوہر کو کچھ اور ہی بتا رہا ہوتا۔ لیکن اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو ٹھیک ہے۔" وہ جان بوجھ کر جزباتی بنا تھا۔
"تیرے نام سے محبت کی ہے
تیرے احساس سے محبت کی ہے۔
تم میرے پاس نہیں پھر بھی
تیری یاد سے محبت کی ہے۔"
ساریہ شور مچاتی ڈھرکنوں کے ساتھ مسیج بھیج کر آف لائن ہو گئی احان کے شوخ جملے اسے خود میں سمیٹنے پر مجبور کررہے تھے۔
دوسری طرف سمندر پار بیٹھا شخص اس خوبصورت سے اظہار پر اندر تک سرشار ہوا۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments