Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 14

"مما کو تو کہہ دیا ہے مگر اپنے آپکو کیسے مناؤ۔۔۔ میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسی لڑکی۔۔۔نہیں ایسی بچی سے میری شادی ہوگی۔
توبہ اتنا تیز بولتی ہے اور تو اور اتنا بولتی ہے جتنا شاید میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں بولا۔ مما کو انکار بھی نہیں کرسکتا تھا۔ مما آپ نے مجھے کس کشمکش میں ڈال دیا ہے۔۔۔
اتنا تو میں جانتا اس نے مجھے سکھ کا سانس نہیں لینے دینا۔ وہ سدھر بھی گئی تو کتنا سدھرئے گی۔ یا اللہ تو ہی مجھے حوصلہ دے اگر وہ میرے لیے لکھ ہی دی گئی ہے تو۔" زوار نے ہوا کی زد سے پیشانی پہ آئے بالوں کو پیچھے کرتے سوچا تھا۔ اس نے شائستہ کو ہاں تو کہہ دی تھی مگر اسکا دل نہیں مان رہا تھا۔
وہ سرد آہ خارج کرتا سونے کی تیاری کرنے لگا تھا۔
____________________________________________
"کیسی طبیعت ہے اب بھابھی۔"غزالہ اور عبیرہ ابھی شائستہ کی طرف آئی تھیں۔ وہ شائستہ کے ہسپتال سے واپس آنے کے بعد روز آتی تھی مگر کل نہ آئی تھی تو شائستہ نے فون کرکے آج بلایا تھا تاکہ وہ زوار کے رشتے کے بارے میں بتا سکے۔
"اللہ کا شکر ہے تم سناؤ۔۔" شائستہ نیم دراز ہوتے گویا ہوئی تھی۔
"میں بھی ٹھیک۔۔"
"عبیرہ نہیں آئی۔۔" شائستہ نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا۔
"آئی ہے وہ ساریہ کے پاس ہے کیچن میں۔۔"
"اچھا اور ہاشم بھائی اور احان نہیں آیا۔۔؟"
"ہاشم تو کہیں گئے ہیں احان اپنے دوست کے گھر سے واپسی پر یہاں ہی آئے گا۔۔" غزالہ اسکے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ کر مسکرا کر اسے بتانے لگی تھی۔
"اچھا۔۔۔" شائستہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"میں نے وہ تمہیں بتایا تھا نا کہ میں نے زوار کے لیے ایک لڑکی دیکھی ہے۔۔۔" کچھ دیر بعد شائستہ نے گفتگو کا آغاز کیا تھا۔
"جی بتایا تھا۔" غزالہ پوری طرح متوجہ ہوئی تھی۔
"وہ میں نے اس کی امی سے بات کرلی ہے وہ راضی ہیں۔اب جب تم فری ہو مجھے بتا دینا انکے گھر چلیں گے۔" شائستہ نے مزید بتایا تھا۔شائستہ کے لہجے میں خوشی ہی خوشی رقصاں تھی۔
"مبارک ہو بھابھی بہت بہت۔ کل یا پرسوں چلتے ہیں۔ ویسے آپ نے کیا سوچا ہے زوار کی شادی کریں گیں یا منگنی۔۔۔" غزالہ بہت خوش ہوئی تھی۔ آخر کو اس کے اکلوتے بھتیجے کی شادی کی بات تھی۔
"فلحال تو منگنی کرنی ہے لڑکی چھوٹی ہے ابھی پڑھ رہی ہے۔"
"اچھا ٹھیک۔۔۔"
"السلام علیکم ممانی۔۔۔" عبیرہ اندر آتے ہی شائستہ کی طرف بڑھی تھی۔
"وعلیکم سلام۔۔ کہاں تھی کب سے انتظار کر رہی تھی۔" شائستہ نے اپنے پاس اسکے لیے جگہ بناتے پوچھا تھا۔
"وہ سوری پھپھو میں ساریہ آپی کے ساتھ تھی۔"عبیرہ نے سر کجھا کر جواب دیا تھا۔
"ممانی آپ نے زاری بھائی کا رشتہ طے کردیا ہے۔۔؟" عبیرہ نے پرجوش انداز میں پوچھا تھا کیونکہ ابھی کیچن میں ساریہ نے اسے بتایا تھا۔
"ہاں جی۔۔" شائستہ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ غزالہ بھی عبیرہ ا چہکتا چہرہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
"مجھے بھی دیکھنا ہے لڑکی کو۔۔" عبیرہ نے بڑے لاڈ سے فرمائش کی تھی۔
"اچھا کل یا پرسوں ہم لوگ جائیں گے تو تم بھی چلنا ہمارے ساتھ۔۔" شائستہ نے گویا اسکی خوشی دوگنی کردی تھی۔
"اللہ سچی۔۔۔" عبیرہ خوشی سے چہکی تھی کیونکہ ساریہ نے ردا کی بہت تعریف کی تھی اس لیے اسے ملنے کا اشتیاق ہوا تھا۔
____________________________________________
"السلام علیکم جناب۔۔۔" تھوڑی دیر بعد احان شائستہ کے گھر تھا ایسا کیسے ممکن تھا کہ ساریہ کے گھر جانا ہو اور احان منع کردے۔ سب سے مل کر اور کن اکھیوں سے کیچن میں مصروف ساریہ کو دیکھ کر اس نے زوار کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے تھے۔
"وعلیکم سلام تم کب آئے۔۔" زوار جو کہ اپنے کام میں جتا تھا احان کو دیکھ کر چونکا تھا۔ اور آس پاس پڑی فائیلز کو سمیٹ کر اسکے بیٹھنے کی جگہ بنانے لگا تھا۔
"ابھی آیا ہوں اور بتاؤ کیا ہورہا ہے۔۔۔" احان نے اسکے پاس نیم دراز ہوتے بھنوئیں اچکائی تھیں۔
"بچہ گود لے رہا ہوں۔۔" زوار اور احان میں بہت گہری دوستی تھی اس لیے زوار نے اسکے سامنے منہ بسور کر اپنے دل کے پھپھولے نکالے تھے۔
"ہیں۔۔۔۔!!!! مطلب۔۔" دوسری طرف احان اسے حیرت سے دیکھ کر رہ گیا تھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔
"کچھ نہیں وہی مما نے پھر سے رشتے کی بات کی تھی۔" زوار نے لڑکیوں کا انداز اپنائے اپنا دکھڑا سنایا تھا۔
"پھر۔۔" احان دلچسپی سے مستفسر ہوا تھا۔
"پھر کیا ہامی بھردی ہے۔۔" زوار کو تو ردا اور اپنا رشتہ کسی طور ہضم نہیں ہورہا تھا۔ اس بدہضمی کی وجہ ردا کا بچپنا تھا۔
"تو ایسے منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے۔" احان نے ناسمجھی میں اسے دیکھا مطلب خود تو ہامی بھری ہے جناب نے پھر کس بات سے مڑور اٹھ رہے ہیں پیٹ میں۔
"یار ایسے رشتے ذہنی ہم آہنگی سے چلتے ہیں۔ اس میں بہت بچپنا ہے جو میں افورڈ نہیں کرسکتا۔" زوار نے سنجیدگی سے اپنی سنگین قباحت گوش گزار کی تھی۔
"یار ٹھیک ہے یہ رشتے ذہنی ہم آہنگی سے چلتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں ہوتا ہر دفعہ ہمارے مفروضے حقیقت کے قریب ہوں بعض دفعہ جو انسان بظاہر ہمیں جیسا نظر آرہا ہوتا ہے حقیقتاً وہ ویسا نہیں ہوتا۔ اور یار لڑکیاں اکثر شادی کے بعد میچور ہوجاتی ہیں تم ایوں اس بات کو لے کے حساس ہورہے ہو۔" احان نے ایک اچھے دوست کی طرح اسے سمجھایا تھا۔انسان کے اردگرد مخلص لوگوں کا ہونا بھی ایک نعمت ہے جو ہمیں ہمارے مشکل وقت میں صیحیح مشورہ دیتے ہیں۔
"تم ابھی تک اس آفت کی پرکالہ سے ملے نہیں ہو اس لیے یہ کہہ رہے ہو۔ خیر اب جو اللہ کی مرضی میں مما کو انکار نہیں کرسکتا انکی بہت خواہش تھی۔" تیز تیز بولتی ردا کا تصور زوار کے ذہن کے پردے میں ابھرا تھا۔
"ہمم اچھا اللہ بہتر کرے گا۔"
"ہمم۔۔"
"تم نے دیکھا ہے اسے۔" احان نے پن ہاتھ میں گماتے غیرسنجیدگی سے پوچھا تھا۔
"ہاں۔۔" زوار نے اٹھ کر دریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے بال بناتے عام سے لہجے میں کہا تھا۔ احان کو تو ذرا برابر امید نہیں تھی وہ فوراً سیدھا ہوا تھا۔
"پیاری ہے۔۔۔" احان نے متجسس ہوکے پوچھا تھا۔
"ہاں مگر صرف تب تک جب تک اپنا منہ کھول کر کچھ الٹا سیدھا نہیں بولتی۔" زوار نے اسکی انکل کی تکرار کو تصور کرکے دل کے پھپھولے نکالے۔ وہ اپنے بارے میں اس قدر پوزیسیو نہیں تھا مگر اسے اپنے لیے ، وہ بھی اس جوانی میں انکل کا لفظ قابل قبول نہ تھا۔
وہ بال بنا کر پاس پڑی کرسی پر بیٹھا تھا۔
"ہاہاہا مطلب۔۔۔" زوار کا بدمزہ منہ دیکھ کر اسکا قہقہہ بےساختہ تھا۔
"سب چھوڑ مجھے یہ بتا میری کوئی توند نکلی ہے، سر پہ کوئی سفید بال ہے۔۔؟" زوار نے بیٹھے بیٹھے کمر سیدھی کرکے معصوم شکل بنا کر پوچھا تھا۔
"نہیں کیوں کیا ہوا۔۔" احان نے ناسمجھی میں اسے اور اسکے پیٹ کی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلایا تھا۔
"اس محترمہ کو میں انکل لگتا ہوں۔۔۔۔" زوار نے دانت پیس کر کہا تھا۔
"ہاہا سریسلی۔۔۔ اچھا تو یہ بات ہے تجھے اس بات سے زیادہ مرچیں لگ رہی ہیں۔۔" احان نے بڑی مشکل سے لب دبا کر اپنی مسکراہٹ کا گلہ دبایا تھا۔
"دفعہ ہوجا ذلیل انسان۔۔" زوار اسکی مسکراہٹ سے چڑا تھا۔
"ہاہا۔۔۔نہیں یار کم از کم تو اسکی بھی تو پریشانی سمجھ۔۔۔ اب وہ تجھے بھائی بولنے سے تو رہی۔۔۔ تو انکل ہی بولے گی۔" احان نے بمشکل اپنے اوپر سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا تھا۔
"تو نکل جا یہاں سے ورنہ میرے ہاتھوں ضائع ہوگا۔"
"ہاہا کیا ہوگیا ہے یار اس بیچاری نے تجھے غور سے نہیں دیکھا ہوگا تبھی انکل کہہ دیا ورنہ مجھے پکا پتہ ہے اس نے شرما کر سرتاج ضرور کہنا تھا تجھے۔" احان پھر باز نہ آیا تھا۔
"شرما ، وہ پٹاخہ صفت لڑکی شرما ہی نہ لے۔۔۔" زوار نے اسکی بات پر جھرجھری لی تھی۔ احان نے اسکی طرف دیکھ کر شانے اچکائے تھے۔
_____________________________________________
"ختم ہوگیا ڈرامہ۔۔؟" نسرین رات کو کیچن سے فارغ ہو کر ردا سے زوار اور اسکے رشتے کی بات کرنے کا سوچ کر لاؤنج میں اسکے پاس آئی تھی جہاں وہ انہماک سے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
"جی ابھی ہوا ہے ابھی نیکسٹ اپیی سوڈ کا ٹیزر آنا ہے۔" ردا نے ایک نظر نسرین کو دیکھ کر کہا تھا اور یہ بتانا ضروری سمجھا تھا کہ ابھی نیکسٹ اپیی سوڈ کا ٹیزر رہتا ہے۔
"اچھا یہ بند کرو مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" نسرین نے سنجیدگی سے کہتے اسکے ہاتھ سے ریموڑت لے کر ٹی وی بند کیا تھا۔
"کیا بات۔۔"
"وہ میں آج شائستہ کے گھر گئی تھی۔۔" نسرین نے بات کا آغاز کیا تھا۔
"مجھے پتہ ہے مجھے نہیں لے کے گئی تھیں نا ، میں نے ساریہ آپی سے ملنا تھا۔" ابھی نسرین نے بات شروع کی تھی کہ ردا اپنی شکایات کے دفتر کھول کر بیٹھ گئی۔
"میری سنو گی۔" نسرین نے اسے گھور کے دیکھا تھا۔ مطلب ابھی بھی اسکی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
"اچھا بتائیں ورنہ آپ نے پھر مجھے مارنے کی دھمکی دے دینی ہے۔" ردا نے روٹھے لٹھ مار لہجے میں کہا تھا۔
"انہوں نے رشتے کی بات کی ہے۔" نسرین نے بغیر تمہید کے بات کو شروع کیا تھا۔
"کس کے۔۔۔" ردا کی زبان پر پھر کجھلی ہوئی تھی۔
"مجھے بولنے دو گی۔۔۔" نسرین کو اس پر سخت غصہ آیا تھا جو بات ہی پوری نہیں کرنے دے رہی تھی۔
"میں نے کیا کیا۔۔۔" ردا منمائی تھی۔
"میری دماغ کا اچار بنا دیا ہے ابھی بھی پوچھ رہی ہو میں نے کیا کیا۔" نسرین نے اسے گھرکا تھا۔
"مما مجھے کیا پتہ اچار کیسے بنتا ہے۔" ردا کو ایک نئی فکر لاحق ہوچکی تھی۔
"اچار ڈالنا تمارے بس کی بات نہیں ہے اس لیے چپ کرکے میری بات سن لو اب درمیان میں نہ بولنا۔" نسرین نے اسکی بات پر اپنا ماتھا پیٹا تھا۔
"اچھا۔۔"
"انہوں نے پھر سے اپنے بیٹے کے رشتے کی بات کی تھی۔"
"اچھا۔۔!!! تو وہ ہمیں بھی بلائیں گی شادی پہ۔۔؟" اسکی خوشی دیدنی تھی۔
"چپ ایک دم چپ۔۔! انہوں نے مجھ سے بات کی تھی تمہارے اور زوار کے رشتے کے لیے تو میں نے انکو کہہ دیا ہے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔" نسرین نے بلآخر اسے ڈپٹ کر بلی تھیلے سے نکالی تھی۔
"ہا۔۔! مما کیوں آپکو کیوں اعتراض نہیں ہوا۔۔" ردا تو سنتے ہی بلبلا اٹھی تھی۔
"کیوں کہ میرا دماغ ابھی اپنے ٹھکانے پر موجود ہے۔" نسرین نے اسے آنکھیں دیکھائی تھیں۔
"ابھی تو کہہ رہی تھیں میں نے اچار ڈال دیا ہے۔۔" ردا اندر تک جل بن گئی تھی کہ اب یہ انکل والا معاملہ پھر سے سر اٹھا چکا ہے۔
"ردا۔۔!۔۔" نسرین نے اسے تنبیہ کی تھی جو اپنے زبان کے جوہر دکھانے میں مصروف تھی۔
"مما آپ اپنی اتنی پیاری بیٹی کی شادی اس سے کیوں کررہی ہیں۔۔" ردا جھنجھلا کر رہ گئی تھی۔
"مسئلہ کیا ہے اس میں۔۔" نسرین تیوری چڑھائے مستفسر ہوئی۔ اسے ردا پہ شدید غصہ آرہا تھا۔
"مما مجھے نہیں کرنی اس انکل سے شادی وادی میں بتا رہی ہوں۔۔" ردا نے ضدی لہجے میں کہا تھا۔
"ردا اب تم مجھے غصہ دلا رہی ہو۔۔"
"مما میں آپکو بتا رہی ہوں میں نے شادی نہیں کرنی اس انکل ونکل سے۔۔" ردا نے پھر وہی گردان کی مگر اب متانت سے کہا تھا کہ شاید نسرین مان جائے۔
"میں نے انہیں ہاں کہہ دی ہے اب دو تین دن تک وہ آکر منگنی کا فائنل کریں گے۔" نسرین نے ایک اور بم اسے کے سر پر پھوڑا تھا۔
"میں نے نہیں کرنی اس سے شادی ورنہ۔۔" ردا نے آنکھوں میں آنسو لاکر ایموشنل بلیک میل کیا تھا۔
"ورنہ کیا ، ہاں کیا کرو گی۔" ردا کی باتیں نسرین کا پارہ مزید ہائی کرچکی تھیں۔
"میں نہیں بولتی آپ سے آپ میرے ساتھ ہمیشہ یہی کرتی ہیں۔۔۔" وہ روٹھے لٹھ مار لہجے میں کہتی ناراض ہوکر جانے لگی تھی۔
"ردا۔۔" نسرین نے اسے پیچھے سے آواز دی تھی۔
"میں نہیں بولتی۔" اسکی آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔
"اللہ اس لڑکی کو میں کیسے سمجھاؤں۔۔۔ پتا نہیں چاہتی کیا ہے۔" نسرین اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
_____________________________________________
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 14
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 14


"اتنی تیاری۔۔۔! لگتا ہے کوئی خاص مہمان آئے ہیں۔۔" احان نے عین اس سے چار قدم فاصلے پر کھڑے ہو کر اسکے کان میں سرگوشیانہ انداز میں کہا تھا۔
احان نے موقع دیکھ کر کیچن کی جانب رخ کیا تھا۔ چونکہ وہ کب سے موقع کی طاق میں تھا تو اللہ نے اسکے پیٹ میں اٹھتے مڑوروں کو سکون پہنچانے کےلیے بلآخر موقع دے ہی دیا تھا۔
"حان۔۔! میری جان نکال دی آپ نے۔۔۔" ساریہ نے پلٹ کر خونخوار نظروں سے گھورا تھا۔ البتہ وہ دل ہی دل میں حیران تھی کہ احان آج اتنے سکون سے سب کے ساتھ کیسے بیٹھا ہے۔ وہ بھی اسکی جان ہلکان کیے بغیر۔
"اللہ سچی۔۔! میں اتنا پیارا لگ رہا ہوں آج۔۔" احان نے اسکی گھورتی نظروں کو قطعی نظر انداز کرکے بتیسی نکالی تھی۔
"زہر لگ رہے ہیں مجھے۔۔" احان کے باتوں پر وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئی تھی جس نے ساری کی ساری شرم بیچ کھائی تھی۔
"جھوٹ وشمہ کہہ رہی تھی کہ آج میں بہت وہ لگ رہا ہوں۔۔۔" احان نے سینے پہ بازو لپیٹے سکون سے مقابل کو بےسکون کیا تھا۔
"وشمہ۔۔! کون وشمہ۔۔؟" ساریہ برنر کی آنچ آہستہ کرکے اسکی جانب مڑ کر کڑھے تیوروں سے تفتیش کرنے لگی تھی۔
"میری دوست۔۔۔" احان نے خوب مزے سے کہا تھا کیونکہ اس نے اپنا کام کردیکھایا تھا۔
"آپ ٹھیک سے بتا رہے ہیں یا میں پھپھو کو آواز دوں۔۔۔" ساریہ نے بائیں بھنو اچکایا تھا۔
"پھپھو کو پتا ہے۔۔"
"پھپھو۔۔۔" احان کے بولنے کی دیر تھی کہ ساریہ نے اونچی آواز سے ہانک لگائی۔ ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر احان نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔
"اللہ پاگل۔۔۔! چپ کرو۔۔" احان نے متانت سے کہا تھا ساریہ کو اسکا مذاق سمجھ آچکا تھا لیکن وہ آج احان کو درست کرنا چاہتی تھی جسے وقت بے وقت بس رومانوی باتیں کرنا ہوتی تھیں۔
"کیوں میں کیوں چپ کروں۔۔۔"
"یار کلاس فیلو تھی بس۔۔۔" احان تو برا پھنس چکا تھا۔
"وہ کہہ کیا رہی تھی۔۔" وہ استفہامیہ نظریں اسکے چہرے پر فوکس کیے سوالیہ ہوئی تھی۔
"وہی جو تم نہیں کہتی۔۔" احان نے منہ بسور کر کہا تھا اس سے پہلے کہ ساریہ کوئی جواب دیتی کیچن میں کوئی چیز جلنے کے مہک اٹھی جس سے وہ ایک دم چونکی تھی۔
"شٹ۔۔! یہ سب آپکی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔" بریانی کے لیے چاول پانی سے ابل کر باہر آرہے تھے وہ تو اللہ بھلا وہ بروقت مڑنے سے زیادہ کام نہ بگڑا تھا۔
"ہا۔۔! میں نے کیا کیا۔۔؟" احان نے حیرت سے ساریہ کو دیکھا تھا جو رو دینے کے قریب تھی۔
"آپ نے باتوں میں لگایا تھا۔" شکوہ ، جوابِ شکوہ شروع ہوچکا تھا۔
"توبہ استغفر اللہ۔۔"
"حان آپ پلیز جائیں ورنہ میں نے۔۔۔" ابھی احان بول رہا تھا کہ ساریہ نے اسے معصوم سی دھمکی دینا چاہی تھی کہ احان جلدی سے کہتا کیچن سے باہر چلا گیا تھا۔
"اچھا اچھا گندی بلی۔"
"میں آپکو بعد میں پوچھتی ہوں۔ سارا کھانا خراب کر دیا۔۔۔۔" ساریہ نے رو دینے والے انداز میں کہا تھا۔
_____________________________________________
"یار آج مس شابانہ ساتھ شرارت کرتے ہیں۔۔۔ کیا خیال ہے۔۔؟" وہ تینوں اس وقت چھٹی کے بعد وین کے انتظار میں کھڑی تھیں جب علیزے نے راز دانہ طور پر ردا سے کہا تھا۔
"نہیں میرا دل نہیں کررہا۔۔۔" ردا نے بیزاریت سے کہا تھا۔ وہ کل رات نسرین کی بات کی وجہ سے منہ پھلائے بیٹھی تھی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کورانے کے لیے ناشتہ نہیں کرکے آئی تھی۔ نسرین نے اسے بہت کہا تھا کہ ناشتے کرے مگر اسنے مرغے کی ایک ٹانگ نہ چھوڑی۔
"اللہ خیر ہے۔۔! وہ تو تمہاری فہرست میں اول نمبر پہ تھیں جنہیں تم تنگ کرتی ہو۔" علیزے نے متحیر سی ردا کو دیکھنے لگی کہ شاید اسے کوئی مغالطہ لگا ہو۔
"کچھ نہیں بس آج دل نہیں ہے۔۔" ردا نے ٹالنے والے انداز میں کہا تھا۔
"کیوں کیا ہوا۔" اب کی بار پاس کھڑی علیشبہ نے پوچھا تھا جوکہ صبح سے اسکا یہ رویہ نوٹ کررہی تھی۔
"یار تمہیں پتا ہے میری مما میری منگنی کررہی ہیں۔۔۔" بس تھوڑی سی ہمدردی وصول کرنے کی دیر تھی کہ ردا پھٹ پڑی تھی۔
"ہا اللہ۔۔! سچی۔۔" علیشبہ نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا کہ شاید وہ کوئی مذاق کررہی ہو جبکہ علیزے گول منہ بنا کر ایک ہاتھ دل پہ رکھے اسے سنبھال رہی تھی۔
"ہاں۔۔۔پر مجھے نہیں کرنی اس انکل سے منگنی۔" ردا نے اپنے اندر ابلتے بات باہر نکالی تھی۔
"انکل۔۔! یہ کیسا نام ہے۔" علیزے نے بھی گویا ردا کی بیسٹ فرینڈ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔
"انہوں۔۔! پاگل یہ نام نہیں ہے۔۔" علیشبہ نے سر پر ہاتھ مارا تھا۔
"تو پھر انکل کیوں کہہ رہی ہو۔۔"
"یار وہ مجھے سے بڑے ہیں ۔۔" ردا منہ بسور اپنی شکایات کا پنڈوڑا باکس کھول چکی تھی۔
"ہا۔۔۔! مطلب جیسے ڈراموں میں ہوتا ہے بڑے سے انکل کے ساتھ شادی ویسے ہو رہی ہے۔؟" علیزے نے سنسنی پھیلاتے ہوئے پوچھا تھا۔
"ہاں۔۔" ردا نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"اللہ۔۔۔ یار وہ تو بہت غصہ کرتے ہیں اور کام بھی کرواتے ہیں۔۔" علیزے نے خطرناک نوشے کھینچنے شروع کردیے تھے علیشبہ تو ابھی بھی حیرت زدہ تھی۔
"میں نے مما سے کہہ دیا ہے کہ مجھے نہیں کرنی۔۔" ردا نے فرضی کالر جھاڑ کر داد وصول کی تھی۔
"پھر۔۔" علیشبہ نے متانت سے پوچھا تھا۔
"پھر میں اب نہ ان سے بولوں گی اور نہ ہی کھانا کھاؤں گی۔" ردا نے اپنا اگلا منصوبہ بتایا تھا۔
"ایسے تو تم مرجاؤ گی۔۔" علیزے کو اپنی دوست پر بہت ترس آیا جوکہ کھانے کی شوقین تھی۔
"اللہ نہ کرے میں اسکول میں آکر کھا لوں گی۔" ردا مرنے والی بات پر دہل کر علیزے کو گھرکنے لگی تھی جو اسے مارنے پہ تکی تھی۔
"اچھا ہاں یہ ٹھیک ہے چلو وین آگئی ہے چلتے ہیں۔۔"
"ہاں چلو۔۔" ردا اب قدرے بہتر تھی کیونکہ اپنے اندر گردش کرنے والی باتیں اب اس نے کم و بیش شئیر کرلی تھیں۔
_____________________________________________
"زوار بیٹا میں سوچ رہی ہوں اگر منگنی کرنی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ تم نکاح کرلو۔۔" غزالہ نے آج صبح زوار کو فون کرکے شام کو اپنی طرف بلایا تھا۔ شائستہ کی وجہ سے وہ چاہتی تھی کہ منگنی چھوڑ کر سیدھا نکاح کیا جائے تاکہ شائستہ بھی زوار کی خوشی دیکھ سکے۔
"پھپھو نکاح کیسے۔۔۔" زوار تو اچانک اس بات پر حیران پریشان ہوکر رہ گیا تھا۔
"میں شائستہ کی وجہ سے کہہ رہی ہوں اس کی طبیعت اور حالت تمہارے سامنے ہے۔۔۔"
"ہمم۔۔" زوار کی آنکھوں کے کنارے بےساختہ بھیگے تھے۔
"صبر کرو میری جان۔۔" غزالہ نے آگے بڑھ کر اسے تسلی دی تھی۔ بیشک اولاد کے لیے یہ بہت مشکل وقت ہوتا ہے۔
"پھپھو زندگی بہت مشکل ہے۔" اسکی آوازمیں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔
"اللہ پہ بھروسہ کرو میری جان۔۔ میرے خیال سے نکاح ٹھیک ہے اس طرح شائستہ بھی تمہاری خوشی دیکھ لے گی۔ ساریہ کی رخصتی تو احان کے آتے ہی ہوجائے گی۔"
"پھپھو وہ سب تو ٹھیک ہے مگر نسرین آنٹی شاید نہ مانیں۔" زوار اپنا منہ صاف کرکے اپنا خدشہ ظاہر کرنے لگا تھا۔
"میں اس سے کرلوں گی بات اس کی فکر نہ کرو۔۔"
"مما بھی ساتھ ہوں گی تو آپ کیسے کریں گیں۔" زوار نہیں چاہتا تھا کہ شائستہ کو اسکی بیماری کے بارے میں پتا چلے۔
"کل تم مجھے لے چلنا میں اکیلے جاکر بات کرکے دیکھ لوں گی۔"
"اچھا ٹھیک ہے۔"
"احان تو کل واپس جارہا تھا میں اسکو روک لیتی ہوں۔ تمہارے نکاح کے بعد چلا جائے گا۔۔" غزالہ مزید گویا ہوئی تھی۔
"پھپھو شکریہ آپ نے اس وقت بہت سنبھلا ہے ہمیں۔ ورنہ شاید۔۔"
"میری جان ایسے کیوں کہہ رہے ہو ایسی باتیں نہیں کرتے۔انشااللہ سب بہتر کرے گا۔ چلو تم احان سے مل لو میں نماز پڑھ لیتی ہوں۔" غزالہ نے اسے پیار سے سمجھایا تھا۔ یہ رشتوں کی خوبصورتی ہوتی ہے کہ وہ غم میں تنہا نہیں چھوڑتے۔
"جی۔۔۔" وہ بھیگا چہرہ صاف کرتا احان کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا تھا۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments