Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 12

شائستہ کو گھر آئے دو دن ہوچکے تھے۔ وہ بظاہر تو ٹھیک تھی مگر کچھ مرض ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جڑیں مضبوط کرکے ایک تناور درخت کی صورت میں تشخیص ہوتے ہیں۔ یہ مرض کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں یہ صرف وہی جانتے ہیں جو اس دردِ مسلسل کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر کی پیشن گوئی ٹھیک تھی۔ شائستہ حیات کو برین ٹیومر تھا اور قسمت کی ستم ضریفی یہ تھی کہ وہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکا تھا۔ ٹیسٹ کی رپورٹ پڑھ کر زوار کو اپنی سانسیں بوجھ لگنے لگیں تھیں۔ بوجھل دل ڈھاریں مار مار کر رو رہا تھا۔ نمکین پانی خود بخود آنکھوں میں تیرنے لگا تھا۔سانسیں مدھم اور اٹکتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔
احان اور وہ ایک ساتھ ہی ڈاکٹر کے سامنے بیٹھے رپورٹ کو پڑھ رہے تھے۔ زوار نے ڈاکٹر کی تنبہی کسی کو نہیں بتائی تھی کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے مگر اندر اندر اسکا دم گھٹ رہا تھا اور وہ شدت سے دعا کررہا تھا کہ کاش یہ صرف ڈاکٹر کا مفروضہ ہی رہ جائے۔مگر ہونے کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔
شائستہ کی بیماری ساریہ اور شائستہ کے علاوہ سب کو معلوم تھی زوار نے خود ہی ساریہ کو بتانے سے منع کیا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ ساریہ ہمت ہارے۔
"زوار۔۔۔" زوار شائستہ کی گود میں سر رکھے آنکھیں موندے لیٹا تھا کہ شائستہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے گویا ہوئی تھی۔
وہ آفس سے جلد آنے لگا تھا ، پہلے ہی اس نے دنیاوی چیزوں کے پیچھے بھاگتے دورتے یہ خوبصورت چیزیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ان کو پیچھے کیا تھا۔ مگر اب وہ پہلے سے بھی زیادہ حساس ہوگیا تھا اور زیادہ سے زیادہ وقت گھر کو دیتا تھا۔
"جی۔۔۔" وہ ہنوز آنکھیں بند کیے بولا تھا۔
"بیٹا ایک بات مانوں گے۔۔" شائستہ کے لہجے میں ایک آس تھی۔
"آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں۔آج سے پہلےکب نہیں مانی آپکی بات۔" وہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں کھولے مستفسر ہوا تھا۔
"مجھے میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔۔" ابھی شائستہ نے بات کا آغازہی کی تھا کہ زوار نے اسکی بات کاٹ لی تھی۔
"مما۔۔ زندگی کا بھروسہ تو کسی کو نہیں ہوتا ، مجھے بھی نہیں پتا کہ میں اگلا سانس لے سکوں گا یا نہیں۔۔"
"اللہ نہ کرے ایسی باتیں نہیں کرتے۔" شائستہ نے اسے ڈپٹا تھا۔
"تو پھر آپ بھی ایسی باتیں نہ کریں۔" وہ روٹھے لٹھ مار لہجے میں کہتا دوبار آنکھیں موند گیا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے مگر میری ایک خواہش پوری کردو۔" شائستہ امید بھری نگاہوں میں اسکا روشن چہرہ لیے گویا ہوئی تھی۔
"مجھے پتا ہے آپکو چاند سی بہو چاہیے مگر اماں ابھی آپکے بیٹے کے پاس چاند تک جانے کی رسائی نہیں ہے۔" زوار کو اندازہ ہوگیا تھا کہ شائستہ اس سے کیا بات کرنا چاہتی ہے اس لیے وہ زیر لب مسکراتے لطیف سے لہجے میں بولا تھا۔
"اللہ کا بہت شکر ہے اسنے بہت اچھے حال میں رکھا ہے اور انشااللہ آنے والی اپنا رزق خود لے کر آئے گی۔" شائستہ نے ہلکے سے اسکے شانے پر چٹ لگائی تھی۔
"کیا چاہتی ہیں آپ۔۔۔"
"شادی کرلو میں تمہاری شادی دیکھنا چاہتی ہوں۔ تم جانتے ہو اسے سے زیادہ کی خواہش نہیں کی کبھی میں نے۔" شائستہ اسکے بال سنوارتے ہوئے نم آواز میں گویا ہوئی تھی۔
"اماں وہ۔۔۔" زوار اٹھ کر سامنے بیٹھ گیا اب اسکا ارادہ ہما کے بارے میں بتانے کا تھا۔
"بعض دفعہ لوگ ویسے نہیں ہوتے جیسے وہ دکھتے ہیں یا جیسے ہم انہیں سمجھتے ہیں۔ مانا کہ اس دن ردا زیادہ بول گئی۔ لیکن وہ رشتوں میں شفاف ہوگی ، مان رکھے گی رشتوں کا ، تمہارے اور اسکے رشتے یا تم سے منسک رشتوں کا تقدس پامال نہیں کرے گی۔" شائستہ کو لگا کہ آج بھی وہ پچھلی بار والی گردان کرے گا اس لیے اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
"مجھے آپکے انتخاب پہ بھروسہ ہے۔" وہ زوار حیات تھا جس کی زندگی کا محور سامنے بیٹھی ہستی تھی تو وہ کیسے نہ مان رکھتا۔ اس نے شائستہ کے ضعیف ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا تھا۔
"میری دعا ہے کہ تم زندگی کی ہر میدان میں فاتح بنو۔ کامیابی ہمیشہ تمہارا مقدر بنے۔" شائستہ جی جان سے خوش ہوتی آگے بڑھ کر اسکی پیشانی چوم کر اسے دعائیں دینے لگیں۔ جو دنیا کی کسی دوکان پر دستیاب نہیں ہوتیں۔ دولت کا انبار بھی ماں باپ کی ایک دعا نہیں خرید سکتا۔
____________________________________________
اس دن نسرین تیار ہوکر شائستہ کی عیادت کے لیے آنے ہی لگی تھی کہ اسکی دوست صدف عین وقت پر آگئی جس کی وجہ سے اس نے عیادت کا منصوبہ ترک کیا۔ مگر اگلے روز وہ ایک نئی کشمکش سے دوچار ہوگئی تھی کہ ایسے جانا ٹھیک ہے یا نہیں۔ مطلب وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں رشتے کی غرص سے۔۔۔۔
مگر جو بھی تھا ان دو ملاقاتوں میں انکی اچھی دوستی ہوچکی تھی۔اس لیے وہ ان تمام تر سوچوں کو ایک طرف رکھ کر شائستہ کی عیادت کے لیے آگئی
"السلام علیکم آنٹی آپ۔۔۔" ساریہ نے دروازہ کھول کر حیرانگی سے نسرین کو دیکھا تھا۔
"وعلیکم سلام وہ آپ کے مما کے بارے میں پتا چلا تھا تو انکی عیادت کے لیے آئی ہوں۔۔" نسرین نے مسکرا اپنے آنے کی وجہ بتانے لگی تھی۔
"جی جی آجائیں۔۔"

Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 12
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 12


"کیسی طبیعت ہے اب آپکی امی کی۔۔" نسرین اسکے ساتھ چلتے ہوئی گویا ہوئی تھی۔
"اللہ کا شکر ہے وہ ٹھیک ہیں۔ وہ اپنے کمرے میں آرام کررہی ہیں آپ وہیں آجائیں۔" ساریہ اسے شائستہ کے کمرے میں لے جانے لگی تھی۔
"جی اچھا۔"
"السلام علیکم۔" اندر آتے ہی نسرین نے سوال کیاتھا۔ زوار نے پیچھے نسرین کو دیکھا تو سر کو خم کرتا ، اٹھ کر جانے لگا تھا۔ ساریہ نسرین کو کمرے میں چھوڑتے چائے کے لیے کیچن میں آگئی تھی۔
"وعلیکم سلام۔۔۔" شائستہ کے لہجے میں ابھی بھی زوار کے مانے جانے کی خوشی رقصاں تھی۔ اس نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"کیسی ہیں آپ۔۔۔"
"اللہ کا بہت شکر ہے اب بہتر ہوں پہلے سے۔" شائستہ کے جواب کے بعد گفتگو میں توقف آیا تھا۔ نسرین کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب کیا بات کرے۔
"ردا نہیں آئی۔۔۔" شائستہ نسرین کو چپ دیکھ کر دوبارہ بولی تھی۔
"نہیں وہ پڑھ رہی تھی اس لیے نہیں آئی۔۔" نسرین مسکرا کر کہتی اپنی اولاد کے بارے میں سوچنے لگی۔ جس نے یہاں آنے کی ضد لگائی تھی۔
ردا کو جب پتا چلا کہ نسرین شائستہ کے گھر جانے لگی ہے تو وہ خودبخود ہی تیار ہوگئی کیونکہ اسکا ساریہ کو ملنے کا بہت دل تھا۔ مگر نسرین نے تو اسکو تیار دیکھ کر اسکی کلاس لی تھی اور سختی سے منع کیا تھا کہ وہ گھر ہی رہے گی۔ کیونکہ وہ عیادت کے لیے جارہی تھی کوئی نیا شو کرنے نہیں۔
ردا منہ پھلاتی تن فن کرتی کمرے میں چلی گئی اور اپنا غصہ بیچارے دروازے کو دھڑام سے بند کرکے نکالا تھا۔
"اچھا۔"
"آنٹی چائے۔۔" ساریہ نے چائے اور دیگر لوازمات سے سجی ٹرے سامنے پڑے میز پر رکھی تھی۔
"بیٹا آپ نے تکلف کیا۔"
"نہیں آنٹی ایسی بات نہیں ہے۔۔۔" ساریہ مسکرا کر کہتی کمرے سے جاچکی تھی۔
"نسرین وہ۔۔" کمرے میں چھائے سکوت کو شائستہ نے توڑا تھا۔
"جی۔۔۔" شائستہ کے ہچکچانےپر نسرین گویا ہوئی تھی۔
"وہ میں آپ سے پھر سے وہ سوال کرنا چاہتی ہوں۔"
"کونسا سوال۔۔" نسرین نے ناسمجھی سے شائستہ کی طرف دیکھا تھا۔
"مجھے ردا چاہیے ہے اپنے زوار کے لیے۔" بلآخر شائستہ نے کہہ ہی دیا تھا۔ اس کی بات سن کر نسرین نے چائے کا کپ واپس میز پر رکھا ، نمکین پانی خودبخود آنکھوں میں تیرنے لگا تھا۔
"اللہ تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔ اگر تمہیں اعتراض ہے تو کوئی بات نہیں۔" شائستہ اسکو روتا دیکھ کر ہڑبڑا کر سیدھی ہوتی متانت سے کہنے لگی تھی۔
"نہیں ،،، نہیں وہ ،،، وہ مجھے یقین نہیں آرہا۔" نسرین نے ہچکیوں کے درمیان اپنی بات مکمل کی تھی۔
"تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔"
"آپ بھی بیٹی کی ماں ہیں جانتی ہیں ماں باپ بیٹوں کے لیے کتنے حساس ہوتے ہیں۔ مجھے اس بات کو لے کر بہت پریشانی تھی کیونکہ میری بیٹی کے سر پر اسکے باپ کا سایہ نہیں ہے اور میں اکیلی عورت کیا کرسکتی ہوں۔ یوں بیٹھے بٹھائے زوار جیسے لڑکے کا رشتہ ماں باپ سوچ ہی سکتے ہیں لیکن اللہ کا کرم ہے اس نے یہ میری جھولی میں ڈال دیا۔" وہ آنکھیں صاف کیے اپنی دلی کیفیت بتانے لگی تھی۔
"اللہ اپنے در سے کسی سوالی کو خالی نہیں لوٹاتا۔۔۔"
"میری بیٹی میں تھوڑا بچپنا ہے مگر وہ دل کی بری نہیں ہے۔ اگر کل کو اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے بیٹی سمجھ کر سمجھائے گا وہ انشااللہ آپکی بات ضرور مانے گی۔"
"انشااللہ تو میں بات پکی سمجھوں۔" شائستہ نے تصدیق چاہی تھی۔
"جی۔" نسرین نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"اللہ دونوں کو خوش و آباد رکھے۔۔۔"
"آمین۔"
"کھانا کھا کر جانا ہے آپ نے۔" شائستہ خوشدلی سے گویا ہوئی تھی۔
"نہیں پھر کبھی ابھی ردا گھر میں اکیلی ہوگی۔"
"اچھا چلیں جیسی آپکی مرضی۔"
"جی آپ آرام کریں۔" نسرین جانے کے لئے اٹھنے لگی تھی۔
"زوار کی پھپھو ہے ایک ان سے بات کرکے منگنی رکھتے ہیں۔" شائستہ نے اسے اگلے پروگرام سے آگاہ گیا تھا۔
"جی جیسا آپکو مناسب لگے۔" وہ راضی ہوتی کمرے سے جانے لگی تھی۔
"اللہ حافظ۔۔۔"

جاری ہے۔۔۔ 

Post a Comment

0 Comments