Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 11

اس بات کو گزرے ہفتہ ہوچکا تھا آہستہ آہستہ سب نارمل ہونے لگا تھا۔ شائستہ نے بارہا زوار کو سمجھایا تھا مگر وہ اپنی بات سے ایک انچ نہ ہلا تھا۔جس کی وجہ سے وہ چپ کرکے رہ گئی تھی۔
دوسری طرف زوار نے اسکا متبادل حل سوچ لیا تھا۔ وہ یوں شائستہ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا مگر خود بھی کوئی درد سر نہیں پال سکتا تھا اس لیے اسے نے اپنی ساتھ آفس میں کام کرتی ہما کا انتخاب کیا اور بہت جلد ہما اور گھر والوں سے بات کرنے کا بھی سوچ لیا تھا۔ مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
"بھائی ۔۔بھائی ۔۔۔" ساریہ جو شائستہ کو پانی دینے آئی تھی اسکو بیہوش دیکھ کر چلانے لگی تھی۔
‏"‎جی۔۔ جی کیا ہوا ۔۔۔ " ساریہ کے چیخنے پر وہ برق رفتاری سے نیچے آیا تھا۔
"کیا ہوا امی کو ۔۔۔ " شائستہ کو زمین پر بیہوش دیکھ کر وہ گھبرا گیا تھا۔
‏‎"پتا نہیں بھائی پلیز کچھ کریں۔۔۔" ساریہ نے روتے ہوئے کہا تھا۔
‏"‎تم فکر مت کرو ہم ابھی ہسپتال چلتے ہیں کچھ نہیں ہو گا انشااللہ۔۔" زوار بمشکل اپنے لہجے کو مضبوط کیے ساریہ کو تسلی دینے لگا تھا۔
‏‎اس نے جلدی سے گارڈ کی مدد سے شائستہ کو گاڑی میں لیٹا کر ریش ڈرائیونگ کر کے ہسپتال پہنچ کر ، شائستہ کو ایمرجنسی میں داخل کر وایا تھا۔
‏‎
وہ کب سے ارد گرد کی ہوش سے بے خبر کوریدوڑ میں یہاں سے وہاں بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔سار یہ نے رو رو کے اپنا برا حال کر لیا تھا۔
‏‎اپنے ارد گرد شور سن کر اچانک اسکی نظر سار یہ پہ گئی تو زوار بھاگ کر اسکی طرف لپکا تھا۔
‏"‎گڑیا پلیز چپ ہو جاؤ انشااللہ امی کو کچھ نہیں ہوگا یہ رونے کا نہیں دعا کا وقت ہے چلو شاباش چپ کر کے دعا کرو ۔۔" زوار نے اسے گلے لگا کر تسلی دی۔مضبوط سہارا پاکر ساریہ کے رونے میں مزید شدت آگئی تھی۔
‏‎"یااللہ میری امی کو ٹھیک کر دے آمین۔۔۔" ساریہ نے شدت سے دل میں دعا کی تھی۔
"ڈاکٹر کیسے ہے میری امی اب۔۔" زوار نے جیسے ڈاکٹر کو ایمرجنسی سے باہر آتے دیکھا تو اسکی طرف جاکے پوچھا تھا۔
‏‎"شی اِس فائن نائو۔ہم تھوڑی دیر تک آئی سی یو میں شفٹ کر دیں گے تب آپ مل لیں، آپ میرے روم میں آئیں۔"ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہہ کر زوار کو اپنے روم میں بلایا تھا۔
‏‎"شکر ہے اللہ کا بھائی اماں ٹھیک ہیں اب۔۔۔" ساریہ نے زوار کے گلے لگ کے کہا تھا۔اس بات سے بےخبر کے نجانے آگے کیا ہونے والا ہے۔
‏‎"چلو تم بیٹھو میں تمھارے لیئے پانی لاتا ہوں۔۔۔" زوار اسکو وہیں کرسی پہ بیٹھا کر کینٹین چلے گیا تھا۔
_____________________________________________
‏‎"ہیلو۔۔۔کدھر گم ہو تم کب سے فون کر رہی ہوں لیکن تمہاری کوئی خیر خبرہی نہیں ہے۔۔" ہما نے فون اٹھاتے ہی بولنا شروع کر دیا تھا۔
‏‎"کہیں نہیں یار بس وہ۔۔" زوار نے تھکن زدہ لہجے میں کہہ رہا تھا کہ ہما نے اسکی بات کاٹ دی تھی۔
"اچھا سب چھوڑو یہ بتاؤ پارٹی پہ کیوں نہیں آئے۔۔ " آج ہما اور زوار کے مشترکہ فرینڈ کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔
‏‎"یار وہ ماما کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اچانک تو انہیں اسپتال لے کے آیا ہوں۔۔" زوار نے بہت ضبط سے بتایا تھا۔
‏‎"اوہ مائی گاڈ کب۔۔اور اب ٹھیک ہیں کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے نا ؟" ہما نے گھبرا کر پوچھا تھا وہ شروع دن سے ہی چپکے سے زوار کو پسند کرتی تھی۔
‏‎"جی اب ٹھیک ہیں۔۔" زوار نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے خود کو پرسکون کیا تھا۔
‏‎"اچھا چلو تم ٹینشن مت لو انشاءاللہ آنٹی جلدہی ٹھیک ہو جائیں گئیں۔۔۔"
‏‎
"ممم انشاءاللہ۔۔۔چلو پھر بات ہوتی ہے۔۔" زوار نے فون بند کر کے کھانے کی لیے چیزیں لیں اور واپس اسپتال آ گیا۔
ساریہ کو کھانے کی چیزیں زبردستی کھلا کر اسنے احان کو فون کیا تاکہ غزالہ کو بتا سکے۔ زوار کے فون کرنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی وہ سب وہاں پہنچ چکے تھے۔ غزالہ کے گلے لگتے ہی ساریہ جو کہ اب کافی حد تک سنبھل چکی تھی پھر سے رونے لگی۔ ہاشم اور احان نے زوار کو گلے لگا کر تسلی دی تھی۔
رات ہوتے ہی ہاشم اور غزالہ نے ساریہ اور زوار کو گھر جانے کا کہا مگر وہ دونوں نہیں مانے۔ غزالہ انکی حالت سمجھ سکتی تھی اس لیے اس نے زیادہ زور نہیں دیا۔اور وہ ان دونوں کے ساتھ ہسپتال رک گئی۔ احان ہاشم اور عبیرہ کے واپس جاتے ہی زوار ڈاکٹر کے کیبن گیا تھا۔
"جی آپ نے بلایا تھا۔" زوار نے اندر آتے استفسار کیا تھا۔
"ہمم بیٹھیں۔ دیکھیں مسٹر زوار آپکی مدر کے ہم نے کچھ ٹیسٹ کیے ہیں رپورٹ صبح آئیں گئیں مگر۔۔۔" ڈاکٹر نے اپنی عینک اتارتے محتاط انداز اپنائے کہا تھا۔ وہ بات کرتے کرتے رک کر زوار کے تاثرات دیکھنے لگا۔زوار شدید اضطرابی حالت میں ڈاکٹر کو دیکھ ریا تھا۔
"مگر۔۔۔" زوار نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔ اسکا دل سوکھے پتے کی مانند لرزا تھا۔
"انکی حالت ٹھیک نہیں ہے اس لیے میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کل جو بھی رپورٹس آئیں آپ دماغی طور پر تیار ہوں۔۔۔" ڈاکٹر نے بمشکل اپنی بات مکمل کی تھی۔
"میں سمجھا نہیں۔" زوار ناسمجھی میں ڈاکٹر کو دیکھنے لگا۔ اسے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے تھا۔
"انکو برین ٹیومر ہے۔ اور انکی کونسی سٹیج ہے یہ ابھی کنفر نہیں ہے۔ اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ کل اپنے آپ کو دماغی طور پر تیار رکھیں۔"
"لیکن۔۔۔ایسے کیسے۔۔۔وہ تو ٹھیک تھیں۔۔۔۔" وہ شاکی نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگا۔ زبان کنگ رہ گئی تھی۔ وہ ڈگمگاتے قدم اٹھاتے ، بمشکل اپنے بوجھل دل کو سنبھالتے روم میں آیا جہاں اس کی ماں جس میں اسکی جان بستی تھی جسکے قدموں تلے اس کی جنت تھی وہ بستر پر ہوش و حواس سے بیگانہ تھی۔بمشکل اپنے آنسوؤں پہ بند باندھتے وہ اندر آیا اور شائستہ کے پاس رک کر اسکی پیشانی چومنے لگا۔ ساریہ اور غزالہ صوفے پہ نیم دراز تھیں۔ تھکاوٹ کی وجہ سے شاید انکی آنکھ لگ گئی تھی۔
زوار کے لیے خود کو سنبھالنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ وہ آنسو صاف کرتا باہر آگیا شدتِ غم سے اسکا دل پھٹا جارہا تھا۔
بیشک یہ ایک کٹھن مرحلہ تھا ماں باپ کو تکلیف میں دیکھنا اولاد کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ جس کو اپنا غم سنائے بغیر دل نہ سنبھلتا ہو ، جس کو دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہو اسکی تکلیف پر آپ کو اپنی ہی سانسیں بھاری نہ محسوس ہوں۔
_____________________________________________
رشتے والی بات کے بعد ردا میں تھوڑی سی تبدیلی آگئی تھی۔ ہر وقت نسرین کو پریشان اور چپ چپ دیکھ کر اسے بھی لگنے لگا تھا کہ اسنے غلطی کی تھی۔ ردا نے کافی بار نسرین سے سوری بھی کیا تھا جس پہ نسرین اسکو کہتی تھی کہ وہ ناراض نہیں ہے مگر ردا کو تسلی نہیں ہوتی تھی۔
"اٹھ جاؤ ردا بچے اور کتنا سونا ہے تم نے چلو شاباش جلدی اٹھو دس بج گئے ہیں۔" نسرین کمرہ سمیٹتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔
"جی ماما بس پانچ منٹ۔" وہ نیند میں کہتی دوسری طرف کروٹ لے گئی تھی۔
"کوئی پانچ منٹ نہیں اٹھو جلدی سے۔۔۔" نسرین نے اس پر سے کمبل ہٹاتے ہوئے کہا تھا کہ دروازے پہ بیل ہوئی تھی۔
"اٹھو اور باہر آؤ میں دیکھتی ہوں دروازے پہ کون ہے۔۔" نسرین اسکو کہتی باہر جانے لگی تھی۔
"جی اچھا۔۔" ردا کسلمندی سے اٹھتے فریش ہونے چلی گئی تھی۔
_____________________________________________
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 11
Hui Jo Ulfat by Iram Tahir Episode 11


نسرین نے جیسے ہی دراوزا کھولا بشرا (کام والی) آئی تھی۔
"مجھے تو لگا آج بھی تم نہیں آؤں گی۔۔" نسرین نے اسے دیکھتے ہی گھرکا جو آئے دن چھٹیاں کررہی تھی۔
"نہیں وہ باجی میرے بچے کی طبیعت خراب تھی اِس لیئے دیر ہو گئی۔۔" بشرا اسکی تقلید میں چلتے بتانے لگی تھی۔
"باجی یہ جو دوسری گلی میں شائستہ باجی ہیں نا وہ کل رات سے اسپتال ہیں۔۔۔" لاؤنج میں داخل ہوتے ہی بشرا نے بتایا
نسرین جو کے کچن میں جانے لگے تھیں بشرا کی بات سن کے پلٹی تھی۔
"کون وہ جو حیات خان کی بیوی ہیں۔۔" نسرین بھنوئیں اچکائے مستفسر ہوئی تھی۔
"جی باجی وہی۔۔"
"اچھا۔۔۔کیا ہوا ہے انہیں۔۔۔۔" نسرین متانت سے مستفسر ہوئی تھی۔
"پتہ نہیں باجی۔۔" بشرا نے کندھے اچکائے تھے۔
"اچھا چلو تم شروع کرو کام میں ردا کو ناشتہ بنا دوں۔۔" نسرین عیادت کرنے کا سوچ کر جلدی سے کام نبھٹانے لگی تھی۔
"اسلام وعلیکم چھوٹی باجی کیاحال ہے۔۔" ردا کے لاؤنج میں آتے ہی کام کرتی بشرا نے اسے سلامتی بھیجی تھی۔
"میں ٹھیک آنْٹی آپ سنائیں۔۔۔" وہ خوشدلی سے مسکراتے پوچھنے لگی تھی۔
"اللہ کا کرم ہے جی۔۔۔" بشرا کہہ کر صفائی کے لیے کمرے کی طرف جانے لگی تھی۔
"اچھا آنْٹی میرے ٹیبل کی بھی صفائی کر دیں اور بکس اسٹور میں رکھ دیں۔۔ " ردا کچن میں جاتے جاتے پلٹ کر کہنے لگی تھی۔
"جی اچھا۔۔۔"
"ماما بنا لیا ناشتہ ؟" ردا نے چیئر پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"ہمم بن گیا ہے بیٹھو۔۔" نسرین نے کپ میں چائے ڈال کے ناشتہ ٹیبل پہ لگایا۔ ردا ٹرے کسکا کر ناشتہ کرنے لگی تھی جب نسرین نے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
"ردا وہ شائستہ اسپتال میں ہے۔۔۔۔"
"کیا ہوا ان کو ۔۔"
"اللہ جانے میں سوچ رہی ہوں اسپتال جا کے دیکھ آؤں تم ایسا کرنا دروازہ اچھے سے بند کر لینا اور بشرا سے صفائی کروا لو۔۔" نسرین نے اسے اگلا پروگرام بتایا جس پر وہ منہ بنا کر یہ سوچ کر رہ گئی کہ ابھی وہ سو سو کر اتنا تھکی ہے اور اب یہ کام۔۔۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments