Hui Jo Ulfat By Iram Tahir Episode 10

زوار دس منٹ میں نک سک سا تیار تھا۔ فوجی کٹ بال ، نفاست سے تراشی داڑھی اسکے تیکھے نین نقوش پر خوب جچ رہی تھی۔
وائٹ رنگ کی شلوار قمیض اسکی وجاہت کو مزید چار چاند لگا رہی تھی۔ زینے اترتے اپنے چاند سے بیٹے کو دیکھ کر شائستہ نے بےساختہ اسکی نظر اتاری تھی۔
"چلیں۔۔۔" وہ زینے اترتے شائستہ اور ساریہ کی طرف آتے خفگی سے کہنے لگا تھا۔
"ماشااللہ زاری بھائی آپ تو بہت بہت پیارے لگ رہے ہیں۔" ساریہ نے اسکا بازو پکڑ کر دل سے تعریف کی تھی۔
"میرا بیٹا ہے ہی پیارا۔ اب چلو انتظار کروانا ٹھیک نہیں ہوتا۔" شائستہ نے دل ہی دل میں اسکی نظر اتارتے کہا تھا۔
"آجائیں آپ۔۔۔"
"چلو دیکھوں تو سہی آج اس شاہکار محترمہ کو جس کو دیکھ کر ان لوگوں کا چین و قرار ہی ختم ہوگیا ہے۔ عجیب زبردستی ہے ویسے۔ پتا نہیں ان محترمہ کے کیا مزاج ہوں گے۔ یااللہ تو ہی میرے پہ رحم کرنا۔" کار چلاتے وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے مخاطب ہوا تھا۔
"آپ چلیں میں آتا ہوں۔" زوار نے گیٹ کے سامنے گاڑی روک کر کہا تھا۔
"کیوں تم کہاں جارہے ہو اب۔۔" شائستہ بھنوئیں اچکائے سوالیہ ہوئی تھی۔
"بھاگ رہا ہوں۔۔۔ ظاہر ہے کار پارک کرنے جانا ہے۔" شائستہ کی بے اعتباری پر زوار نے خفگی سے کہا تھا۔
"زوار میں تم سے کہہ رہی ہوں اپنا یہ جلا بھنا منہ لے کر نہ آنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" شائستہ نے کار سے اترتے آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
"جی بہتر۔۔"
"چلو ساریہ۔" شائستہ اسے کہتی کار سے باہر نکل گئی تھی۔
"بھائی وہ۔۔۔" ساریہ ہچکچا کر بولتے ہوئے رکی تھی۔
"کیا۔۔" زوار پیچھے منہ کرکے مستفسر ہوا تھا۔
"بھائی پلیز ایک پھولوں کا گلدستہ لے آئیں۔"
"اب وہ کس کو دینا ہے۔۔" زوار نے کوفت سے پوچھا تھا۔
"ردا کے پڑوسیوں کو ، شگن ہوتا ہے۔" ساریہ اسکے بےتکے سوال پر چڑی تھی۔
"چلو جی اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے۔"
"اللہ زاری بھائی آپ نے لے کر آنا ہے میں بتارہی ہوں آپکو۔" ساریہ نے روہانسی شکل بنائی تھی۔
"اچھا جا رہا ہوں۔۔" ان دونوں کو گیٹ پر چھوڑتے وہ اپنے درد سر کے لیے پھولوں کا گلدستہ لینے چلاگیا تھا۔
____________________________________________
"السلام علیکم۔۔" شائستہ نے اندر آتے خوشدلی سے سلامتی بھیجی تھی۔
"وعلیکم سلام کیسی ہیں آپ۔۔"
"اللہ کا شکر ہے ٹھیک ٹھاک اور بہت خوش۔۔" شائستہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
"آئیں اندر۔۔"
"میرا بیٹا ابھی آتا ہے۔" شائستہ اندر آتے خود ہی بتانے لگی تھی۔
"اچھا۔آپ کیسی ہو؟" نسرین نے ساریہ سے استفسار کیا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں آنٹی۔ ردا کہاں ہے۔"
"وہ اپنے کمرے میں ہے میں بلاتی ہوں اسے۔" نسرین انہیں لاؤنج میں بیٹھا کر چائے کے ساتھ لوازمات سرو کرتے ردا کو بلانے چلی گئی تھی۔
"زوار اب کہاں گیا ہے۔" نسرین کے جاتے ہیں شائستہ نے اچنبے سے ساریہ سے استفسار کیا تھا۔
"مما وہ میں نے بھائی کو کہا تھا کہ وہ پھولوں کا گلدستہ لے کر آئیں ردا کے لیے۔"
"ایسے کام پہلے کرنے کے ہوتے ہیں۔اب دیکھو اچھا لگ رہا ہے یوں اور جتنا خیر سے اسنے منہ بنایا ہے جلدی آتا نظر نہیں آرہا مجھے۔" شائستہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
"مما آپ زیادہ سوچ رہی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے وہ آتے ہی ہوں گے بس۔"
_____________________________________________
"ردا وہ لوگ آگئے ہیں تم تیار ہو ،،، اللہ میرا بچہ کتنا پیارا لگ رہا ہے ،،، اچھا سنو جو جو میں نے سمجھایا ہے ویسے ہی کرنا زیادہ بولنا نہیں ہے ، ہر بات میں اپنی بات نہیں کرنی اور تمیز سے بیٹھنا ہے ،،، ٹھیک ہے۔" نسرین اندر آتے ہی خود ہے سوال و جواب کرنے لگی۔ ساتھ ساتھ پچھلی باتوں پر بھی زور دینے لگی تھی۔
"اب تم نے کس بات پہ اپنا منہ گول گپے کی طرح پھلایا ہے۔" اسکو مسلسل چپ دیکھ کر نسرین ٹھٹھکی تھی۔
"خود ہی تو منع کیا ہے بات کرنے سے اب جب نہیں بول رہی تو بھی ڈانٹ رہی ہیں آپ۔" ردا نے برا مناتے جواب دیا تھا۔ مطلب حد ہے اب نہیں بول رہی تب بھی اعتراض ہے۔
"ردا ان کے سامنے بولنے سے منع کیا تھا۔"
"ابھی تو پہلے کہہ رہیں تھیں کہ پریکٹس کروں گی تو ہی چپ رہوں گی تب۔" ردا نے دوبدو جواب دیا تھا۔
"تو منہ کیوں پھلایا ہے۔" نسرین تنک کر مستفسر ہوئی تھی۔
"ظاہر ہے مما اب بندہ منہ بند رکھے گا تو پھولا ہوا ہی لگے گا نا میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ نہ بولنے سے انہیں لگے گا میں ناراض ہوں۔"
"اللہ کا خاص کرم ہے ان کے پاس تمہارے جتنا دماغ نہیں ہے۔ میں پھر کہہ رہی ہوں چپ رہنا۔" نسرین نے بھرپور طنز کے ساتھ کہا تھا۔
"میں تو چپ ہی تھی آپ نے بلوایا تھا۔"
"اچھا سر پر ڈوپٹہ ٹھیک کرو اور چلو باہر چلیں۔"
"اچھا۔" خلافِ معمول وہ تابعداری سے چل پڑی۔
_____________________________________________
"السلام علیکم آنٹی۔" لاؤنج میں آتے ہی اس نے شائستگی سے ان کے قریب آتے سلام کیا تھا۔
"وعلیکم سلام کیسی ہے میری بیٹی۔۔" ردا کو اپنے پاس بیٹھاتے شائستہ نے مسکرا کر پوچھا تھا۔
"جی میں ٹھیک۔۔۔ آپ کیسی ہو؟"شائستہ کو جواب دے کر و ساریہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
"میں بھی ٹھیک۔۔۔بھابھی جی۔" ساریہ نے آخر میں دھیمی آواز سے شرارتاً کہا تھا۔ جس پر وہ جھینپ گئی تھی۔
"مجھے بہت خوشی ہے آپ نے میری بات کا مان رکھا۔آپ بے فکر رہیں جب ردا کی پڑھائی ختم ہوگی تب ہی شادی کریں گے۔" شائستہ اور نسرین دونوں باتوں میں مگن تھیں۔ ایک دوسرے کو نئے سرے سے یقین دہانی کرائی جارہی تھی۔
"ہائے آنٹی آپ کو جلدی کیوں نہیں ہے۔ ابھی تو میکسی کا اتنا فیشن ہے تب تک پتہ نہیں ہو یا نہ ہو۔" شائستہ کی آواز ردا کی سماعتوں سے ٹکڑائی تو ردا دل مسوس کرکے رہ گئی تھی۔
"جی انشااللہ۔ میری بیٹی کا بہت خیال رکھیے گا بہت معصوم ہے وہ ، اپنے شوہر کے بعد میں نے اسکی پرورش بہت لاڈ پیار سے کی تھی بس اسی لیے تھوڑا بچپنا ہے۔"
"انشااللہ آپ اس بات کی فکر نہ کریں اور ویسے بھی انہی بچیوں کی وجہ سے ہی گھر میں رونق لگی رہتی ہے۔"
"آج بہت خاموش ہو۔۔" ساریہ نے بمشکل چپ بیٹھی ردا سے پوچھا تھا۔زبان بیچاری دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔
"ن نہیں تو۔۔۔" ردا نے سٹپٹاتے ہوئے جواب دیا۔( کہا بھی تھا مما کو لیکن کبھی جو میری بات مانی ہو)۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو۔" ردا پر اورنج رنگ خوب جچ رہا تھا۔ دودھیا سفید رنگ مزید نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ گھنگرالے بالوں کو باندھے اور سلیقے سے ڈوپٹہ لیے وہ بلکل موم کی نازک گڑیا لگ رہی تھی۔
"آپ بھی بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔" ردا نے بھی اسکی دل
سے تعریف کی تھی۔
"شکریہ۔۔" ساریہ دھیمے انداز میں مسکرائی تھی۔
"آپ کے ہسبنڈ آگئے باہر سے۔؟"
"ہاں چار دن پہلے ہی آئے ہیں۔" ساریہ کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھرے تھے۔
"اچھاااااا۔۔" ابھی ردا کوئی اور جواب دیتی کہ سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ ٹھٹکی تھی ، آنکھیں پھاڑے وہ اس شخص کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔
"انکل۔۔۔" بے ساختہ وہ زیر لب بڑبڑائی تھی۔
"السلام علیکم۔۔" زوار نے اندر آتے دھیمے لہجے میں سلام کیا تھا۔
ابھی اس کی نظر ردا کی طرف نہیں پڑی تھی کیونکہ ساریہ اور وہ دروازے والی دیوار کے ساتھ لگے صوفے پر بیٹھی تھیں جبکہ نسرین انکے سامنے اور ایک الگ صوفے پر شائستہ بیٹھی تھی۔
"میرا بیٹا زوار۔۔" شائستہ نے مسکرا کر نسرین کو بتایا تھا کیونکہ وہ اچانک زوار کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی کہ یہ کون ہے۔
"وعلیکم سلام ماشااللہ بہت پیارا بیٹا ہے آپکا۔" نسرین تو زوار کو دیکھ کر پھولے نہ سما رہی تھی کہ اتنا اچھا لڑکے کارشتہ یوں بیٹھے بیٹھائے اسے اپنی ردا کے لیے مل گیا تھا۔
"کیسے ہو۔" اسے اپنے صوفے کی دوسری طرف بیٹھنے کا اشارہ کرکے نسرین مستفسر ہوئی تھی۔
"جی آنٹی اللہ کا شکر۔"
"انکل آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔یہ نا میرا گھر ہے۔" زوار کے بیٹھنے کی دیر تھی کہ ردا لڑاکا عورتوں کی طرح دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے ، تیوڑی چڑھائے استفسار کرنے لگی۔ زوار کو دیکھ کر جو غبارہ اسکے اندر ہی اندر بھر چکا تھا وہ اسے بم کی طرح سب کے سروں میں پھوڑ چکی تھی۔ زوار کیا سب ہی شاک کی حالت میں سلطان راہی بنی ردا کو دیکھ کر رہ گئے تھے۔
"ردا۔۔" نسرین نے بروقت اسے آنکھیں دکھاتے ٹوکا۔جس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا تھا۔
"آپ لوگ جانتے ہیں ایک دوسرے کو۔" شائستہ نے تحیر سے زوار سے استفسار کیا تھا۔
"نہیں کچھ خاص نہیں وہ ایک دفعہ بک شاپ پر ملاقات ہوئی تھی۔" نسرین نے بات سنبھالتے ہوئے کہا۔ زوار تو اس چھوٹے پیکٹ کو دیکھ کر رہ گیا مطلب یہ وہ چاند تھا جس کی وجہ سے اتنی ادھم مچائی گئی۔ وہ یہ سوچ کر ہی رہ گیا کہ ، یہ وہ خوبصورت سی پیاری سی معصوم سی لڑکی تھی۔ ٹھیک تھا کہ وہ دل سے راضی نہ تھا مگر کم از کم اس نے ردا جیسی تیز گام کو بھی لڑکی کے روپ میں نہ سوچا تھا۔
"مما یہ یہاں کیوں آئے ہیں۔ضرور یہ آپ سے میری شکایت لگانے آئے ہیں۔ سچ میں اس دن بھی ان سے بک خود بخود گری تھی۔" ردا نے بھرپور اپنی معصوم شکل کا فائدہ اٹھاتے نسرین سے کہا تھا۔ باقی سب کے لیے تو اس کی باتیں کسی بم سے کم نہ تھیں۔
"ردا آپ کمرے میں جاؤ۔" نسرین نے اسے پھر آنکھیں دکھائیں تھیں۔
"مما پہلے انہیں بھیجیں مجھے نہیں یہ انکل دیکھنے۔" مگر ردا بی بی بضد تھیں زوار کو نکالنے کے لیے۔ زوار کا تو دل کررہا تھا کہ ایک لگا دے اس پٹاخہ کو۔
"ردا بچے یہ میرا بیٹا ہے۔" معاملے کو سنگین ہوتے دیکھ کر شائستہ نے اسے پیار سے بتایا تھا۔
"ہائےےےےے اللہ!۔۔ آنٹی اتنا بڑا بیٹا آپکا ہے۔" ردا دونوں ہاتھ گال پہ رکھے صدمے سے بولی تھی۔ نسرین تو اسکی حرکتوں سے ماتھا پیٹ کر رہ گئی۔ساریہ زوار کی شکل دیکھ کر بمشکل اپنا تھوک نگل رہی تھی۔
"جی۔۔" شائستہ نے ردا کی حالت سے محفوظ ہوتے کہا تھا۔
"نہیں آپ مذاق کررہی ہیں نا آپ دونوں تو اتنی پیاری سی کیوٹ سی ہیں اور یہ انکل۔۔" ردا نے منہ کے برے برے زاویے بناتے پوچھا تھا۔ شاید اس نے قسم کھا لی تھی کہ آج پیچھے نہیں ہٹنا۔
"میرا نام زوار ہے۔" زوار نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا تھا۔
"مگر میں تو بچی ہوں نا اور میری مما کہتی ہیں کہ بڑوں کا نام نہیں لیتے اس لیے آپ انکل ہی ہو۔" وہ بڑی بی بنوں کی طرح اسکی معلومات میں اضافہ کرنے لگی تھی۔ نسرین شرمندگی کے مارے شائستہ اور زوار کو دیکھ ہی نہیں پارہی تھی۔
"ردا اندر چلو آپ کیچن میں کھانا دیکھو۔" نسرین نے دانت پیس کر کہا تھا۔
"مما۔۔"
"ردا آپ جارہی ہیں۔" ابھی ردا پھر منہ کھولنے لگی ہی تھی کہ نسرین نے بروقت اسے پھر ے ٹوکا۔ زوار کا تو غصے سے برا حال تھا۔
"جی۔۔۔ ایک منٹ۔۔" وہ جاتے جاتے پلٹی تھی۔
"آپ اس دن کے لیے سوری تو نہیں کرنے آئے۔کیونکہ اس دن آپ نے پہلے مجھے مارا تھا اور پھر ڈانٹا بھی۔" ردا نے گلدستے کو دیکھ کر پھر سے عقل کے گھوڑے دوڑائے۔ بائیں گال پر انگلی رکھتی وہ زوار کو گھورنے لگی تھی۔
"میرے خیال سے انکل چھوٹے بچوں کو سوری نہیں کہتے۔ہمیشہ چھوٹے ہی سوری کرتے۔" زوار نے دانت پیس کر کہا تھا۔ نسرین کو تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان مہمانوں کے بیچ وہ اس کا منہ کیسے بند کروائے۔
"جی نہیں یہ کوئی بات نہیں ہوتی میری مما مجھے ڈانٹنے کے بعد مجھے سوری بھی کرتی ہیں۔" وہ ناک چڑائے بولی تھی۔
"میں آپکی مما نہیں ہوں۔" زوار نے غصے سے اٹھ کر چبا کرکہا تھا۔
"زوار آپ یہاں بیٹھو۔" شائستہ نے اسے بیٹھنے کو کہا تھا۔
"بیٹا آپ بیٹھو میں آتی ہوں۔"
"چلو تم۔۔۔" نسرین کی ہمت جواب دے گی اور وہ ردا کو گھسٹتے ہوئے کیچن میں لے گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کیا تماشہ لگایا ہے باہر۔" اندر آتے ہی نسرین دبے دبے لہجے میں غرائی تھی۔
"مما میں نے کیا کیا۔" ردا اچھا خاصا معصوم بنی تھی۔
"ردا میں نے اب کھینچ کے دو تھپر لگانے ہیں۔۔ کیا کہا تھا میں نے کہ چپ رہنا نہیں بولنا تو یہ سب کیوں بکواس کی۔۔۔"
"مما آپکے سامنے میں چپ تھی بول بھی کم رہی تھی شرمائی بھی تھی قسم سے مگر اس انکل نے سب کچھ کروایا۔" ردا نے اپنی زبان کی کھجلی کا الزام زوار پر دھر دیا تھا۔
"میں جب بار بار کہہ رہی تھی کہ چپ کرو چپ کرو تو کیوں چپ نہیں ہو رہی تھی۔"
"اللہ توبہ! مما آپ نے مجھے کمرے اور کیچن میں جانے کا کہا تھا چپ ہونے کا تو نہیں۔" ردا نے منہ بسور کر کہا تھا۔
"ردا۔۔۔۔ یا اللہ میں کیا کروں اس لڑکی کا۔۔"
"اب کیا ہوا ہے۔"
"تمہاری اس گل افشانی سے اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔" نسرین اسکی عقل پر ماتم کرکے رہ گئی تھی۔
"تو اچھا ہی ہے میں نے کوئی اس انکل ونکل سے شادی نہیں کرنی۔" ردا نے ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے انداز میں کہا تھا۔
"اب اسے ایک دفعہ مزید انکل کہا تو میں نے تمہیں زور کا تھپر مارنا ہے سمجھی تم۔۔" نسرین اسکی عقل پر کڑھ کررہ گئی تھی۔
"مما۔۔"
"کیا مما کب سے بولی جا رہی ہو بولی جارہی ہو۔۔ اور اب کہہ رہی ہو شادی نہیں کرنی۔" نسرین نے اسے گھرکا تھا۔
"آپ میری شادی اس انکل سے کرنا چاہتی ہیں۔۔ م میرا مطلب زوار بھائی سے۔"
"ہاں مجھے وہ لڑکا بہت پسند آیا ہے۔"
"مما اب ایسے کریں گیں میں آپکو تنگ کرتی ہوں اس لیے آپ شادی کرنا چاہتی ہیں میری۔" ردا نے دوبارہ وہی بات کہی تھی۔
"تم سے تو میں بعد میں نپٹوں گی۔ "
"مما میں نے نہیں کرنی شادی مجھے پڑھنا ہے۔"
"خبردار جو اب تم کچھ بھی بولی تو۔۔۔
اور یہیں بیٹھوں میں باہر جارہی ہوں۔"
"میں نے نہیں کرنی شادی۔۔" ردا نے پھر کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ نسرین کی گھوری سے چپ ہوگئی تھی۔
_____________________________________________
"ماشااللہ بہت اچھا چاند ڈھونڈا ہے آپ نے۔ " نسرین کے جاتے ہی زوار نے بھگو کر طنز کیا تھا۔
"زوار کیا ہوگیا ہے بچی ہے وہ۔" شائستہ نے اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے ڈپٹا تھا۔
"میری توبہ اس تیزگام بچی سے۔ مجھے بیوی چاہیے چھوٹا پٹاخہ نہیں۔" زوار دبے دبے لہجے میں غرایا تھا۔
"چپ کرو تم کونسا کم ہو۔۔" شائستہ نے اسکے دوبدو جواب دینے پر چوٹ کی تھی۔
"مما۔۔" زوار نے صدمے سے اپنی ماں کو دیکھا جسے ابھی بھی وہ معصوم لگ رہی تھی۔
"بھائی ابھی ہم ان کے گھر بیٹھے ہیں۔" ساریہ متانت سے کہا تھا۔
"تو چلیں اب چلتے ہیں ویسے بھی آپ نے اپنا بیٹا دیکھا تو دیا ہے اور خیر سے آپ کے چاند نے رزلٹ بھی آپکے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔" زوار کا تو غصہ ساتوں آسمان پر تھا۔
_____________________________________________
"میں بہت شرمندہ ہوں ابھی جو ردا۔۔ " نسرین انکے پاس آکر شرمندگی سے بولی تھی۔
"اونہوں نسرین کوئی بات نہیں بچی ہے ابھی اسے کیا پتا ہوگا کہ میرا بیٹا ہی زوار ہے۔" شائستہ نے اسے ریلکس کرنے کے لیے کہا کیونکہ نسرین نظریں نہیں اٹھا پارہی تھی۔
"پھر بھی میں بہت شرمندہ ہوں۔۔ بیٹا سوری اس نے اتنی بدتمیزی کی آپ سے۔۔"
"ارے آنٹی آپ کیوں سوری کررہی ہیں پلیز ایسے نہ کریں۔" زوار نے بروقت کہا تھا۔
"نسرین آپ پلیز شرمندہ نہ ہوں۔"زوار اور شائستہ نے اسے ہر ممکن ریلکس کرنے کی کوشش کی تھی۔
"جی اچھا۔۔آئیں چل کے کھانا کھاتے ہیں۔"
"آپ نے بےجا تکلف کیا۔۔" شائستہ نے نسرین کو کہا تھا۔
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔" تکلف والی بات پر نسرین کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اب رشتہ نہیں کریں گے شاید۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ زبردستی مسکرا کر انکا ساتھ دینے لگی تھی۔
کھانے کھاتے ہوئے سب کچھ بظاہر نارمل ہوچکا تھا۔ مگر نسرین اندر ہی اندر شرمسار تھی۔
زوار نے دو تین دفعہ ردا کو غصے سے گھورا جسے ردا نے کسی خاطر میں نہ لیا۔
_____________________________________________

Hui Jo Ulfat By Iram Tahir Episode 10
Hui Jo Ulfat By Iram Tahir Episode 10


"مما یہ سب آج کیا تھا۔" گھر پہنچتے ہی زوار نے اپنی عدالت لگائی تھی۔
"زوار میں نے بتایا تو تھا کہ ابھی چھوٹی ہے۔"
"مما وہ چھوٹی نہیں چھوٹی سی بچی ہے۔ اور آپ پلیز یہ سوچیں بھی نہ کہ میں اس سے شادی بھی کروں گا۔" زوار نے چھوٹی لفظ سنتے ہے بات کاٹی تھی۔
"زوار کیا ہوگیا۔۔"
"مما میں نے نہیں کرنی اس سے شادی اور میں آخری دفعہ کہہ رہا ہوں۔" زوار نے قطعیت سے کہا تھا۔
"بھائی۔۔۔" ساریہ نے بات کرنا چاہی تھی۔
"تم تو چپ ہی کرو پیاری معصوم سی ہے۔دیکھ لیا ہے اسکی معصومیت کا شو وہ بھی لائیو۔" زوار نے اسے گھرکا تھا۔
"تمہیں اتنا برا انکل کہنے پہ لگ رہا ہے نہ۔۔۔" شائستہ نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا تھا۔
"مما۔۔" زوار تحیر سے شائستہ کو دیکھ کررہ گیا تھا۔
"بھائی آپکو جینز اور شرٹ پہن کے جانا چاہیے تھا۔" ساریہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔
"وہ محترمہ کم تھی جو اب آپ لوگوں کو بھی میں غلط لگ رہا ہوں۔"
"بھائی اتنی ہنس مکھ ہے وہ دیکھنا آپ کتنا خوش رہتے۔"
"ایک نمبر کی لڑاکا عورت ہے۔مما میں سریس ہوں مجھے نہیں کرنی اس سے شادی"
"زوار۔"
"میرے سر میں درد ہے میں سونے جارہا۔" وہ بات ختم کرتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
"اس لڑکے کا کیا کروں میں۔۔"
"اب کیا ہوگا۔۔"
"کچھ نہیں بات ختم سمجو۔۔۔" شائستہ نے افسردگی سے کہا تھا۔
____________________________________________
"مما۔۔۔مما۔۔" ردانسرین کو آوازیں دیتے کیچن میں آئی۔ ردا کے بارہا بلانے پر بھی وہ چپ رہی تھی۔
"اچھا سوری مجھے ایسے سب کے سامنے نہیں بولنا چاہیے تھا۔" ردا نے اسکی بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
"پتہ نہیں تمہیں کونسی زبان سمجھ میں آتی ہے۔کتنا سمجھایا تھا میں نے لیکن ذرا جو تمہیں اثر ہوا ہو۔" نسرین نے تاسف سے کہتے اپنی بازو چھڑوائی تھی۔
"مما سوری پکا آئیندہ نہیں کروں گی۔۔۔"
"نہ کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے اب ، وہ کونسا رشتہ کرنا چاہیں گے اب۔"
"مما مجھے نہیں کرنی اس سے شادی مجھے نہیں پسند آیا وہ۔"
"کیوں کونسے شہزادے نے آنا ہے تمہارے لیے" رداکے انکارپر وہ پھر چڑی تھی۔
"آپ ہر وقت مجھے ڈانٹتی ہیں۔" ردا نے منہ بسورا تھا۔
"حرکتیں دیکھی ہیں اپنی۔۔۔"
"میں نے کھانا نہیں کھایا تھا۔"
"چلو آؤ کھانا دوں۔۔۔" نسرین نے بمشکل موڈ ٹھیک کرتے کہا تھا ورنہ وہ اندر سے بہت افسردہ تھی۔
_____________________________________________
شائستہ زوار کی وجہ سے چپ کرگئی تھی اس نے دوبارہ نسرین سے کوئی رابطہ نہ کیا۔ نسرین کو جو ہلکی سی امید تھی اتنے دن گزرنے کے بعد وہ معدوم ہوگئی۔ اسے زوار دل سے بہت پسند آیا تھا ، اسے دیکھ کر نسرین نے دل ہی دل میں اللہ کا بے حد شکر کیا۔
دوسری طرف شائستہ زوار کے انکار پر اس سے ناراض تھی لیکن زوار نے اپنے آپ کو نارمل رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ وہ کسی طور پر ردا سے شادی کے لیے تیار نہ تھا اس لیے انکی ناراضگی کو وقتی غصہ سمجھنے لگا۔۔۔

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments