Danista Chup By Iram Tahir Episode 2


وہ گیارہ بجے کے قریب سو کر اٹھا تھا۔ فرش ہوکر جب وہ نیچے آیا تو اسے معمول سے زیادہ ہلچل محسوس ہوئی۔ وہ کندھے اچکا کر لاؤنج میں آیا تھا جہاں زارا بیگم کسی سے فون پہ بات کررہی تھیں۔ 


"جی جی ٹھیک ہے۔ جی شام کو ملاقات ہوتی ہے۔" وہ اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کرتیں فون بند کرگئی تھیں۔ میسم انکے سامنے جھک کر پیار لے کر انکے قریب ہی بیٹھ گیا تھا۔ 


"کس سے بات کررہی تھیں؟" 


"عالیہ کو دیکھنے ایک فیملی آرہی ہے۔ ان سے ہی بات ہورہی تھی۔ ناشتے میں کیا لوگے؟" 


"لائٹ سا ناشتہ ، رات بہت گڑبڑ ہوئی تھی۔" وہ ہنستے ہوئے بولا تھا کیونکہ دس بعد ماں کے ہاتھ کی بریانی دیکھ کر وہ کچھ زیادہ ہی لالچ کرگیا تھا۔ جس پہ زارا بیگم بھی مسکرا گئی تھیں۔ 


"باقی سب کہاں ہیں؟" میسم نے انکو کچن میں جاتے دیکھ کر پوچھا تھا۔ سب پہ خاصا زور دے کر۔


"عالیہ اور دادو تو کمرے میں ہیں۔ بابا آفس میں۔" 


"اور یہ مسز میسم کہاں چھپ گئی ہیں ،،، سمجھ نہیں آتی یہ لڑکی چاہتی کیا ہے۔" وہ رات والی ملاقات کے بارے میں سوچتا بڑبڑایا تھا۔ 


____________________________________


"تم میں شرم نام کی کوئی چیز ہے؟ کتنی تم وہ ہو! " عالیہ بیا کے فون اٹھاتے ہی شروع ہوچکی تھی جو شام کے چھ بجے بھی ہسپتال میں سر دےکر بیٹھتی تھی۔ 


"او ہو الزام بعد میں لگا لینا پہلے بتاؤ تو کیا ہوا؟" بیا نے جلدی سے بات سنبھالتے پوچھا تھا کہ عالیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بیا بس سامنے ہو اور وہ اسکی اچھی خاصی سنائے۔ 


"تمہارے ہمسائیوں کو آج دیکھنے آرہے تھے۔ میرے علاوہ صبح بارہ بجے تمہیں مما نے بھی بتایا تھا مگر تمہیں کونسا یاد ہوگی میری کوئی بات اللہ حافظ!" عالیہ نے ٹک سے فون بند کیا تھا۔ ادھر وہ یہ سوچ سوچ کر کملا گئی تھی کہ کونسے کپڑے پہنے کیسے تیار ہو اور ادھر بیا صاحبہ ابھی بھی وجہ پوچھ رہی تھی۔


اسکی بات سن کر ابیہہ نے اپنا ماتھا پیٹا تھا۔ کیونکہ عالیہ بہت برا ناراض ہوچکی تھی اور ہونا بھی بنتا تھا۔ اسکی صرف بیا سے اتنی دوستی تھی۔ بیا سب کچھ سمیٹ کر ڈاکٹر فیصل سے ایکسکیوز کرتی گھر کی طرف بھاگی تھی۔ سات بجنے سے پندرہ منٹ پہلے وہ گھر آئی تھی۔ زارا بیگم کچن میں تھیں اور دادی روم میں۔ وہ جلدی سے عالیہ کے کمرے میں آئی تھی۔ جہاں وہ کپڑوں کے ڈھیڑ میں بیٹھی سوں سوں کررہی تھی۔ 


"اللہ اللہ عالیہ تم بچی ہو جو رو رہی ہو؟" بیا سارا سامان ایک ہی جست میں اس تک پہنچی تھی۔ 


"بات نہیں کرو تم تو میرے سے۔ میں اب جانا ہی نہیں ہے نیچے۔" عالیہ نے تو بیا کے اچھے خاصے ہوش تھکانے لگائے تھے۔ بڑی مشکل سے اسکو بہلا پھسلا کر اسکی سو منتیں کرکے اسکو تیار کیا تھا۔


"ڈائن لگ رہی ہو۔" بیا نے منہ بسورتے اسے چڑانے کے لیے کہا تھا۔ 


"اب دیکھ لو پھر اپنے ہاتھوں کو کمال۔" عالیہ کی حاضری جوابی پہ بیا نے اسے ایک مکا جڑا تھا۔ ابھی وہ یونہی ایک دوسرے کے ساتھ کھٹ پٹ کررہیں تھیں کہ میسم کمرے میں آیا تھا۔


چھ سال بعد وہ بیا کو ایسے کھکھلا کر ہنستے دیکھ رہا تھا۔ میسم کو یوں اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اسکی ہنسنی کو بریک لگی تھی۔ وہ زبردستی سا مسکرا کر عالیہ کو دیکھتی جلدی سے وہاں سے واک آؤٹ کرگئی تھی۔ جسے میسم کے علاوہ عالیہ نے بھی محسوس کیا تھا۔ اور یہ عالیہ کے لیے حیرانی کی بات تھی کیونکہ بچپن سے ہی ان دونوں کی بہت دوستی تھی۔ عالیہ کو تو وہ ہمیشہ ہی اگنور کرتے تھے۔ 



"کیا میں اسے شرما کر بھاگ جانا تصور کروں؟"

Danista Chup By Iram Tahir Episode 2
Danista Chup By Iram Tahir Episode 2


میسم نے حیرانی سے دروازہ تکتے عالیہ کو دیکھ کر شرارت سے پوچھا تھا۔ جس پہ عالیہ کی ہنسنی چھوٹی تھی۔ 


"اللہ جانے ، شرمانے والا سیمپل تو نہیں لگتا۔ شاید کوئی ٹکینیکل خرابی ہوگئی ہو۔" عالیہ کی بات پر میسم نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔ 


مہمان عالیہ کو پسند کرگئے تھے۔ جس پہ گھر والے بھی سب خوش تھے۔ بیا سب کو چائے دیتی خود کچن سمیٹ رہی تھی۔ کیونکہ زارا بیگم نے آج سارا دن ناصرہ کی بہت مدد کروائی تھی۔ 


سب اس وقت لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے مگر میسم کو یہ چائے بہت بری لگ رہی تھی اور اسکا سارا دھیان کچن سے کبھی کبھار جھانکتے آنچل کی طرف تھا۔ بنی سنوری سی بیا نے اسکی توجہ خوب اپنی طرف مبذول کروائی تھی۔ مگر وہ تھی کہ چھپن چھپائی کا کھیل کھیل رہی تھی۔ 


ساڑے بارہ کے قریب وہ سب کاموں سے فارغ ہوکر نماز پڑھ کر ابھی بستر پہ لیٹی ہی تھی کہ فون پہ مسیج کی گھنٹی بجی۔ فون کھولنے پہ واٹس ایپ پہ میسم کا مسیج شو ہو رہا تھا۔ 


"بیا ، بات کرنی ہے مجھے۔" بیا میسم کی چیٹ کھولے بغیر دوسرے مسیجز کا جواب دے کر آنکھیں بند کرکے سوگئی تھی۔ 



آج اسکا مارننگ راؤنڈ تھا اسی لیے وہ عجلت میں داخلی دروازے سے باہر نکل رہی تھی جب میسم جاگنگ کرلے واپس آیا تھا۔ 


"السلام علیکم ،


میں چھوڑ دوں۔" بیا کے قریب آنے پہ وہ مسکرا کر سلام کرتے بولا تھا۔ 


"میں بھی یہی چاہتی ہوں!" بیا نے سامنے دیکھتے اپنی بات گویا پھر سے کہی تھی۔ 


"میں نے رات کو مسیج کیا تھا کہ بات کرنی ہے جواب کیوں نہیں دیا تم نے۔" اسکی بات کو یکسر نظر انداز کرکے وہ منہ بسورتے بولا تھا۔ جس پہ بیا نے بغیر لحاظ کیے جھوٹ بولا تھا۔ 


"سو گئی تھی میں۔" 


"آئندہ ایسا سونے سے پہلے "لاست سین" بند کرلینا۔" میسم نے اسے گھور کر دیکھتے میٹھے سے لہجے میں کہا تھا۔ جس پہ بیا غصے سے آگے بڑھنے لگی تھی مگر میسم کی بات کی وجہ سے اسکو ناچاہتے ہوئے بھی بریک لگانی پڑی۔ 


"میں گاڑی کی چابی لے کر آرہا ہوں یہیں رکو۔ بابا بھی واپس آرہے ہیں۔" میسم نے اسے تپانے کے لیے بلیک میل کیا تھا۔ جس پہ وہ اسکی پشت دیکھتی دو حرف بھیج کر کار کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔ اسکا غم و غصے سے برا حال تھا۔ 


جاری ہے۔

 

Post a Comment

0 Comments