Danista Chup By Iram Tahir Episode 6

Danista Chup By Iram Tahir Episode 6

دن سست روی سے گزرے تھے یا محسوس ہورہے تھے میسم اس بات سے انجان تھا۔ دادی اور گھر والوں کا فیصلہ سن کر وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا تھا۔ بیا اسکے دل کے بہت قریب تھی۔ دل اسکے ساتھ اسکی قربت کا خواہاں تھا۔ مگر یہ بھی ایک سچ تھا کہ وہ بیا کے ساتھ زور زبردستی بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے گھٹی گھٹی سے سانس خارج کی تھی۔ وہ اب پھر صفر پہ آچکا تھا۔ اتنے دنوں کی دانستہ جدوجہد جیسے ریت ہوئی تھی۔ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا تو کیا کرے۔ 

اس وقت بھی وہ تھکا ہارا کلب سے واپس آیا تھا۔ یہ تھکن جسمانی نہیں تھی یہ مسلسل ذہنی دباؤ تھا۔ جسکا صرف اسے ہی معلوم تھا۔ دادی اور بیا اسے لان میں ہی ملی تھیں۔ وہ خاموشی سے انکی جانب بڑھ گیا تھا۔ وہ سلام کرتے وہیں دادی کے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔ ان سے انکے حال احوال پوچھنے۔؟ بیا ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ وہ یہاں سے چلی جائے یا نہیں۔ جب اسے دادی کی بات سنائی دی تھی۔ 

"زارا اور جمال تو جمال کے کسی دوست کی عیادت کے لیے گئے ہیں۔ اور عالیہ اپنے کمرے میں پڑھ رہی ہے۔" غالباً اس نے سب کی عدم موجودگی کو محسوس کیا تھا۔ وہ ابھی اٹھی ہی تھی کہ میسم بھی اٹھ گیا تھا۔ 

"اچھا پھر طیبہ سے کہیں مجھے کھانا دے دے۔ بہت بھوک لگی ہے۔" وہ اپنی کہہ کر چلا گیا تھا فریش ہونے۔ مگر بیا کو جاتے دیکھ کر ہی دادی نے ٹوکا تھا۔ 

"تم کہاں جارہی تھی؟ اور بات سنو۔ میں نے تمہیں کچھ سمجھایا تھا چار دن پہلے۔ اس پہ بھی کچھ عمل کیا ہے؟" دادی کے سوالوں پہ تو وہ جھنجھلا ہی اٹھی تھی۔ مگر ضبط کرتی وہ دھیرے سے بولی تھی۔ 

"دادی میں نے پہلے کوئی بات ٹالی ہے آپکی جو اب ٹالتی۔ زور اسکے آفس ، کلب اور گھر میں پہننے والے کپڑے میں ہی ریڈی کرتی ہوں۔" وہ جاتنا نہیں بھولی تھی۔ جس پہ دادی نے اسے خشمگین نظروں سے گھورا تھا۔ 

  You can read this beautiful novel Danista Chup By Iram Tahir Episode 6 on this website

"تو اب کیا ہر بات میرے کہے پہ ہی کرو گی؟ کچھ خود کی بھی عقل دوڑا لو بی بنو ،،، کھانے کا کہہ کر گیا ہے وہ جا کر دو اسے۔ جلدی کرو بچے کو اتنی بھوک لگی ہے۔" دادی کی نئی فرمائش پہ تو اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔ اور وہ شاکی نظروں سے دادی کو دیکھے گئی تھی۔ اس سے پہلے کے وہ بحث و مباحثہ کرتی دادی نے تھوڑی اونچی آواز میں تسبیح شروع کرلی تھی۔ جسکا صاف صاف یہ مقصد تھا کہ "اب مزید اس پہ بحث نہیں کرنی۔" وہ پیر پٹختی وہاں سے کچن کی جانب آئی تھی۔ 

"اتنا ہی وہ بچہ ہے نا۔ اور اگر اس بچارے بچے کو اتنی ہی بھوک لگتی ہے تو فیڈر رکھ لے اپنے ساتھ۔ فضول۔" یہ فرمائش تو اسکے سر تا پا سلگا گئی تھی۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے کھانے کی ٹرے تیار کررہی تھی۔ 

ابھی وہ اسی بڑبڑاہٹ میں تھی کہ فریش سا میسم گیلے بالوں کو ایک بار سیٹ کرتا کچن میں نمودار ہوا تھا۔ طیبہ کی جگہ اسے دیکھ کر وہ اپنی مسکراہٹ دانتوں تلے دبا گیا تھا۔ اسے پتہ تھا یہ گیم بھی دادی نے اس پہ ڈالی تھی۔ اس لیے وہ خوش ہوتا کچھ شوخ ہوا تھا۔ بہت ہی مدھم آواز میں وہ اپنا فون نکال کر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا جب بیا نے پٹخنے کے انداز میں ٹرے سامنے رکھی تھی۔ گوکہ اتنا بھی غصہ نہیں دیکھایا تھا مگر میسم جان بوجھ کر چونکے کی سعی کرتے سیدھا ہوا تھا۔ جو بیا کو خجل سا کرگیا۔ 

وہ جلدی سے کھانے کے ساتھ پانی رکھ کر باہر جانے کے پر تول رہی تھی۔ مگر اسے واپس پلٹتا دیکھ کر وہ کچھ سنجیدہ ہوتا گویا ہوا تھا۔ 

"کیا کھانے دینے کے آداب یہ ہے؟" اسکے باہر جانے پہ ٹونٹ کیا گیا تھا۔ بیا تو اسکی بات سن کر تلملا کر رہ گئی تھی۔ پھر ضبط کرتی وہ واپس مڑ کر صاف شیلف کو پھر سے صاف کرنے لگی تھی۔ 

ابھی وہ دل ہی دل میں اس کو دو حرف بھیج رہی تھی کہ ایک نئی فرمائش اسکے لبوں سے جدا ہوئی تھی۔ 

"رائتہ ملے گا؟" دل تو کیا صاف جواب دے مگر پھر میسم کی عادت کو مدنظر رکھتے وہ خاموشی سے فریج میں پڑا رائتہ اسے سرو کرچکی تھی۔ 

Danista Chup By Iram Tahir Episode 6
Danista Chup By Iram Tahir Episode 6


"ایک اور چمچ ملے گا؟" وہ اب جان بوجھ کر سنجیدہ ہوتا اسے تنگ کرنے کی غرض سے بولا تھا۔ بیا کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ترخ کر جواب دے اور یہاں سے چلی جائے۔ مگر پھر دادی کے سوال نامے کا کیا کرتی؟ وہ تو پہلے ہی لان میں ہونے والے سوالات پہ بھری بیٹھی تھی۔ 

ایک بار پھر وہ خاموشی سے چمچ اسکے سامنے رکھ چکی تھی۔ مگر ابھی دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک اور نئی فرمائش کی گئی تھی۔ 

"بوٹل ملے گی؟ پانی کس کچھ مزہ نہیں آرہا بریانی کے ساتھ۔" اب تو واقعی بیا کا دل کیا تھا کہ وہ پانی سے بھرا جگ اسکے سر پہ ہی الٹ دے۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصدق وہ بوٹل بھی اسکے سامنے رکھ چکی تھی۔ اور شکر کیا کہ اسکی پلیٹ میں بس دو ہی نوالے رہ گئے ہیں۔ مگر یہ کیا ابھی وہ دیکھ ہی رہی تھی کہ میسم نے چالوں کے دو چمچ بھر کر اپنے پلیٹ میں اور ڈالے تھے۔ اور بیا نے تپ کر اب میسم کو دیکھا تھا۔ اس ٹائم اسے رہ رہ کر طیبہ پہ غصہ آرہا تھا کہ وہ کیوں موجود نہیں تھی۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی کھڑے کھڑے اسے نوکری سے نکال دے۔ 

ابھی اسے بات پہ وہ غور و فکر رہی تھی کہ میسم کی ایک اور فرمائش اسے سنائی دے تھی۔ 

"بوٹل ٹھنڈی نہیں ہے آئس کیوبز ملیں گے؟" اب کی بار بیا اپنا ضبط کھوتی آئس کیوبز میز پہ پٹخ کر بول کر دروازے سے کہیں غائب ہی ہو گئی تھی۔ 

"یہ بریانی کھانے کے بعد تسلی سے کھانا کھانے کے دوران کے آداب پڑھ لینا۔" اسکی بات پہ میسم نے کب سے دبایا ہوا قہقہہ لگایا تھا۔ 

"پاگل۔" 

جاری ہے۔ 

Post a Comment

0 Comments