Danista Chup By Iram Tahir Episode 5

Danista Chup By Iram Tahir Episode 5 

 It was published online on Word of Rain

It is available to download in PDF or for online reading. We provide the latest, Romantic and social issues based Urdu novels for free download in PDF file for your ease. You can now easily Download PDF file and save it into your Devices/Mobile with JUST one click.

"مما شاید وہ ریسٹ کررہی ہے۔" 

"ہاں تو کوئی بات نہیں بلا لو اسے۔ آؤٹنگ ہی ہوجائے گی۔" زارا نے عالیہ کو آنکھیں دکھائی تھیں۔ جبکہ میسم لاتعلقی سے کہتا باہر چلا گیا تھا۔ 

"میں باہر جارہا ہوں۔ آجاؤ آپ لوگ بھی جلدی سے۔" دادی بھی عالیہ کو خاموش رہنے کا کہتیں خود اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھیں۔ 

"کہیں جارہی ہیں آپ دادو۔؟" دادی کو شال لیتے دیکھ کر فون یوز کرتی بیا نے استفسار کیا تھا۔ جب دادی اٹھلاتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔ 

"ہاں ، آؤٹنگ پہ جارہی ہوں۔" جبکہ دادی کے ناز نخرے دیکھ کر بیا حیرت سے دیکھتی رہ گئی تھی۔ 

"میرے بغیر۔۔۔!" دادی دل ہی دل میں مسکراتے منہ بنا کر بولی تھی۔ 

"اللہ معافی دیں میں نے کونسا تمہارا داخلہ ممنون کرایا ہے۔ چلنا ہے تو چلو۔ ورنہ پھر سڑو۔" دادی کہتے ساتھ ہی چادر اوڑھتی مسکراہٹ دباتیں کمرے سے باہر چلی گئیں تھیں۔ بیا تو دروازے کو گھورتی جلدی سے اٹھی تھی مبادہ دادی اسے چھوڑ ہی نہ جائیں۔ اور عالیہ پہ بھی اسے شدید غصہ آیا تھا جو اسے بلانے ہی نہیں آئی تھی۔ کپڑے ٹھیک کرتی وہ لاؤنج میں پہنچی ہی تھی کہ زارا بیگم کچن سے باہر نکلیں۔ 

"آپ نہیں جارہیں؟" بیا ان کا حلیہ دیکھ کر ٹھٹھکی تھی۔ 

"نہیں تمہارے تایا ابو کے آنے کا وقت ہورہا ہے۔ تم لوگ جاؤ۔" انکی بات سن کر بیا بھی سر جھٹک کر باہر آئی تھی۔ اور ایک نظر کار کو دیکھتے ہی اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ داخلی دروازے سے چند قدم آگے تھی۔ پیچھے زارا بیگم تھیں اور آگے کار میں میسم ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ اور عالیہ اور دادی پیچھے بیٹھی تھیں۔ پتہ نہیں کیوں وہ میسم کی موجودگی کو فراموش کرگئی تھی۔ 

Danista Chup By Iram Tahir Episode 5
Danista Chup By Iram Tahir Episode 5


اب صورتحال یہ تھی کہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ آگے بڑھے یا پھر پیچھے مڑ جائے۔ آنکھیں ایک بار بند کرتی وہ خود کو پرسکون کرتی پیچھے قدم لینے ہی لگی تھی کہ زارا بیگم کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر وہ عین موقع پہ اپنا راستہ بدل گئی۔ 

ہاں اس نے اپنا پہلا قدم میسم کی طرف رکھ دیا تھا۔ یہ فیصلہ کس گھڑی نے کیسے اس سے کروایا تھا مگر یہ ہوچکا تھا۔ دوسری جانب وہ جو دم سادھے اسکے اگلے عمل پہ اپنی نگاہوں کا پہرہ لیے بیٹھا تھا گویا جھوم ہی اٹھا تھا۔ اس سمے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ خود کو خوش ہونے سے باز نہیں رکھ پایا تھا۔ 

"یہ میری روح کو سیراب کرنے والا پہرہ قطرہ ہے بیا۔ اور اب بارش ہمارا مقدر ہوگی۔" اسکو اپنے پہلو میں بیٹھتے دیکھ کر وہ خود سے بولا تھا۔ 

"یہ ان دونوں کو بھی پیچھے ہی بیٹھنا تھا۔" وہ دادی اور عالیہ سے خفا ہوگئی تھی۔ پورے راستے میسم سنجیدگی سے بھرپور توجہ سے گاڑی چلاتا رہا تھا۔ مگر دھیان پہلو میں ہی کہیں اٹکا تھا۔

آگے تو فل خاموشی تھی۔ مگر پیچھے تو نہ ختم ہونے والا فن تھا۔ دادی اور عالیہ خود ہلا گلا کررہی تھیں۔ جس کو سن سن کر بیا اندر ہی اندر کڑھ رہی تھی۔ 

اس وقت وہ ہوٹل میں بیٹھے اپنا اپنا آئس کریم شیک پی رہے تھے۔ میسم نے اپنی پسند کا ہی شیک آڈر کیا تھا۔ جو سب کو پسند بھی آیا تھا۔ گھر واپسی تک دادی نے جو امتحان لینا تھا وہ لی چکی تھیں۔ اور اب انہوں نے اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا تھا۔ ایک بات تو طے تھی کہ بیا نے جو بھی کرنا تھا اس میں سراسر اس نے میسم کا کندھا استعمال کرنا تھا۔ اسکے کندھے کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں لے سکے گی۔ اور اب انہیں میسم کے کان کھینچنے تھے۔ 

"فٹے منہ بونگے پہ۔ یہ پکا بن یا بنایا زن مرید ہے۔" دادی نے دل ہی دل میں میسم کو صلواتیں سنائی تھیں۔ جو اپنی جووروں کی بات سن کر اس پہ عمل در آمد شروع کرچکا تھا۔ سونے سے پہلے وہ صبح کے لیے سارے منصوبے بنا چکی تھیں۔ ایک نظر اپنے پاس سوتی بیا کو دیکھ کر وہ خود بھی آنکھیں موند گئی تھیں۔ 

   You can read this beautiful novel Danista Chup By Iram Tahir Episode 5

اگلا دن بہت شفاف تھا۔ معمول کے مطابق سب اپنی اپنی مصروفیات میں مصروف ہوچکے تھے۔ جمال صاحب اور میسم آفس جا چکے تھے۔ بیا ہوسپٹل جبکہ عالیہ کالج جاچکی تھی۔ اس وقت وہ دونوں ساس بہو لاؤنج میں بیٹھی سبزی بنا رہی تھیں۔ 

"جمال تو کہتا ہے کہ ولیمہ آگے مہینے کرلیتے ہیں میسم اور بیا کا۔" دادی نے زارا کو بتایا تھا۔ وہ بھی ان سے رائے لینا چاہتی تھی۔ 

"جی اماں مجھے بھی بتایا تھا انہوں نے۔ میرے خیال سے تو ٹھیک ہے۔ میں خود بھی ایسا ہی چاہتی تھی۔" زارا کے لہجے میں بےپناہ چاہت پنہاں تھی۔ جس دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی تھیں۔ یہی تو وجہ تھی کہ وہ بیا کی باتوں کو بےتکی جان رہی تھیں۔ اب ایسی چاہت پتہ نہیں باہر ملے یا نہ ملے۔ پہلے ہی عالیہ کی وجہ سے وہ پریشان تھیں۔ گو کہ وہ لوگ اچھے تھے مگر پھر بھی غیر تھے تو دل میں ایک ڈر سا تھا۔ یہ بات بچے نہیں سمجھتے کہ بڑے اگر کوئی فیصلہ ان سے رائے لیے بغیر بھی کرتے ہیں تو انکا مقصد صرف انکے ساتھ اچھائی کرنے کا ہوتا ہے۔ 

"بیا میسم آگیا ہے؟" یہ سوال پچھلے ایک گھنٹے سے دادی نے کوئی پانچویں دفعہ کیا تھا۔ جس پہ بیا اب جزبز ہی ہوگئی تھی۔ 

"دادو آپکو کوئی کام ہے تو رفیق بابا سے کہہ دیں یا پھر اسے فون کرلیں۔" بیا نے لپ ٹاپ اسکرین سے نظر ہٹاتے دادی کو مفت مشورہ دیا تھا۔ جس پہ دادی نے اسے گھورا تھا۔ 

"میں کیا ویسے نہیں پوچھ سکتی؟ اور کام کا بھی ٹھیک تم نے طعنہ دیا ہے۔ بھئی میں نے کونسا سارے نوکر اپنے کاموں پہ لگائے ہیں۔" دادی تو خفا ہی ہوگئی تھیں۔ 

"استغفراللہ ! توبہ میں نے یہ کب کہا ہے۔ آپ بار بار پوچھ رہی ہیں تو میں نے حل ہی دیا تھا۔ بیا نے لپ ٹاپ بند کر سائیڈ پہ رکھتے نروٹھے پن سے کہا تھا۔ اس وقت وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھی تھیں۔ وہ بھی اس لیے کہ بیا میڈیم آج پتہ نہیں کیسے گھر جلدی آگئی تھیں۔ دادی نے بھی اپنے پروگرام پہ عمل کرنے کا سوچ لیا تھا۔ 

دادی ابھی اسے کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ انہیں میسم آتا دیکھائی دیا۔ وہ خوش دلی سے اس سے ملتے پیار لیتا وہیں انکے پاس بیٹھ گیا۔ اسکی موجودگی سے بیا محفوظ ہوئی تھی۔ 

زارا بیگم سے پانی لیتا وہ انکو اپنی شرٹ پریس کروانے کے لیے کہتا اپنے کمرے میں آیا تھا۔ فہیم نے دس منٹ تک آجانا تھا اور پھر انہیں کلب جانا تھا۔ زارا بیگم طیبہ کو شرٹ کا بتا کر خود کچن میں چلی گئی تھی۔ 

"اچھا ادھر آؤ میرے پاس۔" زارا کو کچن میں جاتے دیکھ کر دادی نے بیا کو اپنے پاس آنے کا کہا تو بیا نے تفتیشی نظروں سے دادی کو دیکھا ہی تھا کہ پھر ان کی ایک گھوری پہ وہ فوراً اٹھ کر انکے پاس آگئی تھی۔ 

"بیٹا شوہر کا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں تبھی تو اسکے دل میں قدر بڑھتی ہے۔ زارا نے تو تمہیں کبھی نہیں کہنا کہ میسم کا فلاں کام کردو یا تو وہ خود کرلے گی یا ملازمہ سے کروالے گی۔ مگر تمہیں تو خیال ہونا چاہیے۔ تمہارے ہوتے ہوئے اسے میسم کا کام کرنا چاہیے؟ میری جان اسکا کام خود کیا کرو ایسے شوہر کے دل میں جگہ بنتی ہے۔ چلو ابھی اٹھو اور طیبہ سے اسکی شرٹ لو اور اسے استری کرکے دو ابھی دے کے گیا ہے۔" دادی نے بیا کو اپنے پاس بلا کر ، نہایت پیار سے سمجھایا تھا۔ جس پہ بیا منہ ہی بنا کررہ گئی تھی۔ یہ آج دادی نے نیا ہی شوشا چھوڑا تھا تھا شوہر والا۔ مگر سامنے بھی دادی تھی تو پھر چار و نا چار اسے اٹھنا ہی پڑا۔  طیبہ سے اسکی شرٹ لے کر وہ پیر پٹختی استری اسٹینڈ پہ آئی تھی۔ اسے کام کرنے سے مسئلہ نہیں تھا۔ بس "میسم" کا کام کرنا زہر لگ رہا تھا۔ 

"چلو جی یہ الگ منتطق ہے کہ کام کرو تو ہی جگہ بنتی ہے۔ اب دادی کو کون بتائے کہ اسکے دل میں کیا گردوں اور پھیپھروں تک میں گھسی ہوئی ہوں۔" وہ شرٹ کا کالر اچھے سے زور دے کر پریس کرتے بڑبڑائی تھی۔ غصہ حد سے سوا تھا۔ 

"ہیلو پیاری سے دادو۔ یہاں کیوں بیٹھی ہیں اکیلی۔" وہ کلب سے واپس آیا تھا جب ہاتھ میں تسبیح لیے دادی اسے لان میں بیٹھی نظر آئی تھیں۔ وہ انہیں دیکھتا انکے پاس آکر مستفسر ہوا تھا۔ 

"جب پوتے پوتیاں جوان ہوجائیں تو پھر دادے دادیوں کو ایسے ہی بیٹھنا پڑتا ہے تاکہ کوئی انکی بھی سن لے۔" دادی نے تسبیح ختم کرتے نروٹھے پن سے کہا تھا۔ کیونکہ ایک ہفتے سے پہلے انہوں نے میسم کو اپنے پاس بلایا تھا۔ مگر وہ آیا ہی نہیں تھا۔ 

"سوری۔ میں دو دفعہ آیا بھی تھا مگر آپ سو گئی تھیں۔" دادی کے شکوے پہ وہ سر کھجا کر رہ گیا تھا۔ 

"کیا بات کرنی ہے آپ نے؟"؟ وہ انکے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔ جب دادی نے اسے اطلاع دی تھی۔ 

"تمہارا باپ ولیمہ کرنا چاہتا ہے۔" 

"واہ مطلب اس دفعہ anniversary پر وہ اب اپنا ولیمہ کریں گے۔ مجھے تو نہیں بتایا انہوں نے۔" بیا سے بات کرنے کے بعد وہ اپنی زندگی سے شادی کا لفظ نکال چکا تھا جبھی اسکا دھیان دوسری طرف گیا تھا۔ جس پہ دادی نے اپنا ماتھا پیٹا تھا۔ 

"مجھے تو اب سمجھ آئی ہے کہ بیا سے ہی کیوں تمہاری شادی ہوئی ہے۔ دونوں ہی کم عقل۔ خوب جمے گی تم بے عقلوں کی ویسے۔" 

"دادی یار۔۔۔" دادی کی اچھی طرف دھلائی پہ وہ منہ پھولا کر بولا تھا۔ 

"نہیں تو تمہاری عقل کیا گھاس چرنے گئی ہے؟ ولیمہ اب اس نے تمہارا کرنا ہے یا اپنا؟ کل تک تمہیں سانس نہیں آرہا تھا شادی کے بغیر اب اپنا ولیمہ نہیں یاد۔" دادی کی بات سن کر وہ لب بھینچ کر کچھ سنجیدہ ہوا تھا۔ 

"اوہ اچھا ، یار ویسے جلدی کیا ہے ابھی؟" 

"نہیں تو اب بچوں کو بوڑھا کرلیں کہ ہمیں جلدی نہیں ہے۔" اسکی جلدی والی بات سن کر تو دادی آگ بگولا ہی ہوگئی تھیں۔ جبکہ میسم تو دادی کے تیور دیکھ کر ہی حیران ہورہا تھا۔ 

"کیا کھایا تھا آج جو اتنی آگ برسا رہی ہیں۔؟" 

"اصل بات پہ آؤ۔" دادی اس سے اصل بات اگلوانا چاہتی تھی تاکہ اچھی طرح اسکی درگت بنائے۔ 

"فلحال تو مجھے ایک دفعہ پھر باہر جانا پڑے۔۔۔" میسم نے کچھ سوچتے ہوئے سنجیدگی سے مہبم انداز میں انکار کیا تھا۔ جو دادی کو بھی یقیناً سمجھ آیا تھا۔ 

"کس خوشی میں۔" 

"نہیں تو جو پڑھا ہے اسکی ڈگری نہ لوں؟" اب تو میسم نے بھی دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ کر احتجاجاً کہا تھا۔ جس پہ دادی نے کچھ سوچ کر نیا منصوبہ تیار کیا تھا۔ 

"ہاں تو پھر اسی مہینے کے آخر میں کرلیتے ہیں ولیمہ۔ بیا کو بھی ساتھ لے جانا گھوم پھر آنا۔" میسم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دادی آخر انکے ولیمے کے پیچھے ہی کیوں پڑ گئی ہیں۔ 

"چلو اب بیا کو کہاں میں اٹھا کر پھرتا رہوں گا۔" 

"کم عقل ، لوگ وہیں بیوی کو اٹھا کر گھماتے ہیں۔" دادی نے اسکی بات پہ اپنا سر پکڑا تھا۔ دوسری طرف میسم کو تو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے۔ کچھ توقف سے وہ مستفسر ہوا تھا۔ 

"دادی ،،، بیا کو بتا دیا ہے آپ نے؟" 

"لو اسکو کیا بتانا اسکو تو پتہ ہے کہ جیسے ہی میسم نے آنا ہے پھر انکا ولیمہ ہے۔" 

"دادی ایسے نہیں۔ اب کی بار اس سے آپ لوگ پوچھ لیں۔" 

"کیوں۔؟" دادی نے تفتیشی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔ 

"آپ پوچھ لیں بہتر ہے۔" 

"مجھے اب اندر والی بات بتا رہے ہو یا لگاؤں پھر دو؟" 

"کیا اندر والی بات۔؟ ویسے ہی کہہ رہا ہوں۔" دادی کو جلالی روپ لیے دیکھ کر وہ منہ بسور کر بولا تھا۔ مگر دادی بضد تھیں۔ 

"میسم۔" 

"دادی بیا سے آپ پوچھ لیں ایک بار۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے کسی بھی بات سے جیسے وہ کہے۔" 

"کیا کہتی ہے وہ؟" دادی کے سوال میں وہ خاموش رہا تھا۔ اسے کچھ دیر ہنوز خاموش دیکھ کر دادی نے ایک بار پھر اس کے لتھے لیے تھے۔ 

"وہ تو بیوقوف ہے ہی اب کم عقل تم بھی مل جاؤ اسکے ساتھ۔ کوئی عقل کو ہاتھ مارو۔ تمہارے باپ کو پتہ چلا تو پتہ ہے کیا ہوگا؟" 

"دادو میں کیا کروں؟ میں اس سے دو دفعہ بات کرلی ہے۔ اب اور کچھ نہیں کرسکتا میں۔" بلآخر میسم نے گویا اقرار کرہی لیا تھا۔ ویسے بھی اب پہلیوں سے جان کہاں چھوٹٹی نظر آرہی تھی۔ 

"نہیں میں پوچھتی ہوں کہ تم لوگ اتنے بڑے ہوگئے ہو جو خود فیصلے کرو گے۔" 

"دادو میں اسکو اب مجبور تو نہیں کرسکتا۔ بچی تو ہے نہیں وہ جسے پتہ نہ ہو کہ اس رشتے کی اہمیت کا۔" 

"اگلے مہینے کی پندرہ سے پہلے ہی تم دونوں کا ولیمہ ہے۔ خبردار کچھ الٹا سوچا تو۔ اور کوئی ضرورت نہیں ہے بیا سے بات کرنے کی۔" میسم کی بات سن کر وہ تپ ہی اٹھی تھیں۔ پھر اسے اگلا حکم دیتیں وہ اندر چلی گئیں تھیں۔ 

"یہ اچھی دادا گیری تھی ،،، مطلب مجھے اچھی لگی۔۔۔" میسم کرسی پہ پھیلتے ہوئے مسکرا کر بولا تھا۔ اب آنے والا وقت اسے خوفزدہ نہیں کررہا تھا۔ 

جاری ہے۔

       You can read this beautiful novel Danista Chup By Iram Tahir Episode 5

#romantic_novel



Post a Comment

0 Comments