Danista Chup by Iram Tahir Episode 4

 Danista Chup by Iram Tahir Episode 4

"پہلے مجھے بات کرنی ہے۔!" میسم نے گاڑی سائیڈ پہ روکتے کہا تھا۔ بیا نے گہری سانس بھر کر خود کو اس لمحے کے لیے تیار کرلیا تھا۔ 

"مگر مجھے یہاں کوئی بات نہیں کرنی ہے۔ گھر جانا ہے۔" بیا نے دوٹوک انداز میں کہا تھا جس پہ میسم کو مجبوراً راضی ہونا پڑا۔ اگلے دس منٹ میں وہ گھر کے اندر داخل ہوچکے تھے۔ بیا خاموشی سے اتر کر اندر جارہی تھی جب میسم نے پیچھے سے اسے پکارا تھا۔ 

"بیا ، میں نے کچھ کہا تھا تم سے۔" جس پہ بیا نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ اور پھر اپنا رخ لان کی طرف کرلیا تھا۔ میسم اسکے ہم قدم ہی تھی۔ وہ سیدھا جاکر جھولے پہ بیٹھی تھی۔ میسم بھی اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھنے لگا تھا جب بیا کرنٹ کھا کر اٹھی تھی۔ میسم نے بھی چونک کر اسے دیکھا تھا۔ اپنے ساختہ ردعمل پہ بیا بھی کچھ شرمندہ ہوئی تھی۔ مگر جلدی ہی اپنی گھبراہٹ پہ قابو پاتی وہ سنبھل کر بولی۔ 

"میں سامنے کرسی پہ بیٹھ جاتی ہوں۔" جس پہ میسم نے گھور کر اسے دیکھا۔ 

"اب اس میں کونسی راکٹ سائنس ہے بیا۔

"اب اگر تم نے اس بات کو کھینچنا ہے تو میں جارہی ہوں۔" بیا نے فوراً دھمکی لگائی تھی جو کام بھی کر گئی تھی۔ وہ اب ایک دوسرے کے بلکل سامنے بیٹھے تھے۔ بیا تو اور ہی خیالوں میں گم تھی بلکہ کڑی سے کڑی ملارہی تھی کہ کیا بات کروں۔ جبکہ میسم تو فرصت سے اسکا چہرہ تک رہا تھا۔ اور اسے لگ رہا تھا کہ محبت میں جب سے زیادہ حُسن یوں محبوب کے روبرو بیٹھ کر اسے یوں بےخوفی سے حفظ کرنا ہے۔ 

Danista Chup by Iram Tahir Episode 4
Danista Chup by Iram Tahir Episode 4


"تم نے کیا بات کرنی تھی م۔۔۔" وہ ہاتھوں کو مسلتے خود کو تیار کرتی بولی تھی مگر میسم کی چمکتی اور گہری باتیں کرتیں آنکھیں اسے چپ کرنے پہ مجبور کرگئیں۔ وہ جلدی سے اس بولتی آنکھوں کی مقناطیسیت سے خود کو آزاد کرنے کے لیے اپنی نگاہوں کا مرکز بدل چکی تھی۔ جس پہ میسم زیرِ لب مسکرا کر اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اپنی بات شروع ہی کرنے لگا تھا کہ بیا نے تقریباً چھیننے کے انداز میں اپنے ہاتھ اسکی نرم سے گرفت سے آزاد کروائے تھے۔ 

"کیا تم "اس" حوالے کو بھول کر کچھ دیر ہمیں نیوٹرل نہیں سمجھ سکتے۔" بیا کی ان دونوں نے حرکات نے میسم کو چونکا کر رکھ دیا تھی۔ اب اسے بھی معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ ہورہا تھا۔ اس لیے وہ ٹھہرے لہجے میں لندن ہونے والی آخری بات جہاں ختم ہوئی تھی وہیں سے بات کا آغاز لے چکا تھا۔ 

"بیا جو بات تم کررہی ہو جب مجھے اس بات پہ مسئلہ نہیں ہے تو پھر تم کیوں خود کو تھکا رہی ہو؟" وہ حقیقتاً ہی بیا کے جواز کو بہت ہلکا لے رہا تھا۔ اسکے نزدیک اسکا چھوٹا ہونا انکے رشتے پہ اثر انداز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 

"میسم کم از کم تمہیں اتنا خود غرض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہیں وہ بات ٹھیک لگ رہی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ دوسرے کو بھی لگے۔" بیا شکوہ کناں ہوئی تھی۔ بیا کے نزدیک چونکہ وہ پڑھا لکھا تھا تو اسے بھی دوسرے کی رائے کو اہمیت دینی چاہئے تھی۔ 

"بیا صرف تین سال کا تو فرق ہے۔ اور یار سچ میں اس سے اب اتنا بھی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے اہم یہ ہے کہ ہم پچپن سے ایک ساتھ رہے ہیں۔ ایک ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ تو پھر ہم یہ رشتہ کیوں نہیں نبھا سکیں گے۔ ؟" میسم نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا کیونکہ وہ اس سے جڑی ویرانی سے بلکل آگاہ تھا۔ دوسری طرف بیا بھی اپنے موقف پہ دو ٹوک تھی۔ برسوں وہ اسے اپنا سگھا بھائی مانتی آئی تھی اور اب سب کچھ اچانک ہی بدل گیا تھا۔ 

"میں نے تمہارے بارے میں ایسا کبھی نہیں سوچا۔ میں نے تمہیں ہمیشہ ایک چھوٹے بھائی کی طرح سمجھا ہے۔

"استغفراللہ ، ٹھیک ہے نہیں سوچا مگر بیا ہمارے نکاح کو اب چھ سال ہوچکے ہیں کیا ان چھ سالوں میں تم نے کبھی ہمارے رشتے یا میرے بارے ایسا نہیں سوچا؟" اسکے منہ سے اپنے لیے بھائی کا لفظ سن کر وہ بدک ہی گیا تھا۔ 

"تمہیں یہ پہلے دن سے پتا ہے کہ میرا دل ہی نہیں مانتا اس رشتے کو۔

"تو بیا تم اپنے دل کو قائل کرو اس رشتے کے لئے۔

"جب میرا دل ہی نہیں ہے اس رشتے میں تو میں زبردستی کیوں کروں اپنے ساتھ۔

"بیا تمہیں اندازہ ہے کہ ہمارا ایک  فیصلہ ہمارے گھر کو کس قدر متاثر کرے گا۔" بات جتنی آگے بڑھ رہی تھی۔ جرح اتنی آگے جارہی تھی۔ جس پہ میسم نے پریشانی سے اپنا ماتھا مسلا تھا۔ کیونکہ گھر والے انکے رشتے کے حوالے سے کیا سوچ رہے تھے اس وہ بخوبی آگاہ تھا۔ 

"اندازہ ہے ، اسی لیے میں چاہتی تھی کہ تم وہاں کسی سے شادی کرلو اور وہیں سیٹل ہوجاؤ۔ دو تین سال تک سب بھول جائیں گے۔

"سب ، سب بھول بھی جائیں تو میں ؟ بیا میرا کیا؟ میں محبت کرتا ہوں تم سے۔ کیا میری آنکھوں میں کبھی تم نے اپنے لئے چاہت محسوس نہیں کی؟" اسکے لفظوں نے میسم کو بہت تکلیف دی تھی۔ اور وہ ان کی شدت برداشت کرتا بلبلا اٹھا تھا۔ جو بیا کو نظریں چرانے پہ مجبور کرگیا تھ۔ 

"لیکن میں نے تمہارے بارے میں کبھی ایسا نہیں سوچا میسم۔ محبت تو بہت بعد کی بات ہے۔

"گزرے سال میں نے باہر تمہیں دیکھے بغیر کیسے گزارے ہیں یہ صرف میں جانتا ہوں۔" وہ اب لمحہ لمحہ اسے اپنے احساسات کی آگاہی دے رہا تھا تاکہ اسے بھی پتہ چلا کہ کہ محبت کے کونسے مقام پہ وہ اسکا ایسا تلخ امتحان لے رہی ہے۔ 

"بیا تم ایک دفعہ یہ رشتہ قبول تو کرکے دیکھو۔

"کیا کسی بھی فیصلے کا اختیار مجھے کبھی نہیں ملے گا؟" اور پھر بھیگی آنکھوں کے کنارے اس سے بہت تلخ اور تکلیف دہ فیصلہ کرواچکے تھے۔ وہ بمشکل خود کو جوڑ کر اسے زندگی کی نوید دے کر خود زہر کا پیالہ منہ کو لگا گیا تھا۔ مجبوب کے بغیر یہ زندگی زہر ہی تو تھی۔ جب دل ہی ویران ہوجائے تو پھر آس پاس کی رنگین دنیا بھی دل نہیں بہلا پاتی۔ 

"اس رشتے کا کیا مستقبل ہوگا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر میں اب کی بار جب ڈگری لینے جاؤں گا تو و واپس نہیں آؤں گا۔" اسے کے اپنے کہے الفاظ اسکے دماغ میں کل رات سے گھوم رہے تھے۔ اور اب بخار کی شدت کے ساتھ ساتھ اسکا سر بھی درد سے پھٹا جارہا تھا۔ بیا سے بات کرنے کے بعد وہ کافی دیر شاور کے نیچے اپنے اعصاب کو کنٹرول کرتا بھیگی جارہا تھا۔ جس کی وجہ سے اب بخار نے اسے آن گھیرا تھا۔ صبح کے گیارہ بجے بھی جب وہ باہر نہیں آیا تو زارا بیگم خود اسکے کمرے میں آئی تھیں اور اسکا سرخ چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر ایک وقت میں تو دہل ہی گئی تھیں۔ اور پھر میسم سے بھی خوب نالاں ہوئی تھیں کہ وہ کم از کم کسی کو بتا ہی دیتا۔ 

"میسم میرے بچے کیا حال کیا ہوا ہے تم نے۔ بخار دیکھو کس قدر تیز ہے۔ مجھے فون ہی کردیتے پتہ نہیں رات کیسے گزارے ہوگی۔" زارا تو اور بھی پتہ نہیں ٹھنڈی پٹیاں کرتے کیا کیا کہہ رہی تھیں۔ پاس بیٹھی دادی بھی سورتیں پڑھ پڑھ کر اس پہ دم کررہی تھیں۔ جبکہ عالیہ بھی ایک ٹانگ پہ کھڑی کبھی ادھر کبھی ادھر جارہی تھی۔ ناشتہ بھی زارا نے اسے اپنے ہاتھوں سے کھلایا تھا۔ میسم کے لاکھ اصرار کے بعد بھی وہ خود کھلانے پہ بضد تھیں۔ پھر میسم کو ہار ماننا ہی پڑی۔ 

اپنے اردگرد اتنی محبت و چاہت دیکھ کر میسم تلخی سے مسکرا کر آنکھیں موند کر بیا سے مخاطب تھا۔

You're reading Danista Chup by Iram Tahir Episode 4 

"تم کہتی ہو سب بھول جائیں گے۔ مگر بیا میں کیسے بھولوں ان پیارے رشتوں کو۔ جنہیں برسوں میں نے مس کیا۔ جن کی یاد سے کبھی میں غافل نہیں رہا۔ تم لوگوں کے بیچ آکر تو اب مجھے میرے اردگرد ہوا میں آکسیجن محسوس ہورہی ہے۔ تم بہت سخت دل کی ہو۔ یااللہ میری مدد کر۔ میں اسے بھی دکھی نہیں کرسکتا جو میرے دل کے سب سے نزدیک ہے۔ اور یہ امتحان بھی بہت کڑا ہے۔

شام تک سب نے ایک منٹ کے لئے اسکو اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔ جمال صاحب بھی لنچ پر گھر آگئے تھے۔ ایک بس بیا ہی تھی جو کہنے جو مسیحا تھی مگر وہ دستیاب نہ تھی۔ اور اسکی اس عدم دستیابی پہ میسم ایک افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ بس یہی سوچ گیا تھا کہ وہ میرے میسحائی کرے بھی تو کیسے۔ اسے تو رفو گری کے بھی آداب سیکھنے تھے ابھی۔ 

رات کے آٹھ بجے تک وہ تھکی ہاری لوٹی تھی اور سب کے ساتھ رات کے کھانے پہ اسے میسم کے بیمار ہونے کا پتہ چلا تھا۔ کیونکہ آج وہ غائب دماغی سے اپنا فون ہی ساتھ لیجانا بھول گئی تھی۔ ساڑھے نو بجے کے قریب وہ آہستگی سے میسم کے کمرے میں داخل ہوئی تھی جہاں زارا بیگم میسم کو کسی بچے کی طرح بہلاتی کچڑی کھلا رہی تھی۔ جس پہ وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ اسکے آنے کو میسم نے بھی محسوس کیا تھا۔ 

"کیسی طبیعت ہے اب؟" وہ سرسری سے انداز سے سوالیہ ہوئی تھی۔ پتہ ہی نہیں چلا تھا کہ وہ کس سے مخاطب تھی۔ میسم کے خاموش رہنے پہ زارا نے خود ہی اسکی طبیعت کے بارے میں بتادیا تھا۔ بیا وہیں ان کے پاس بیٹھ گئی تھی۔ میسم نے مزید کھانے سے منع کرتے لیٹ کر آنکھیں موند لیں تھیں۔ جو بیا نے اچھے سے محسوس کیا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے۔ زارا اور وہ دس پندرہ منٹ وہاں بیٹھ کر باتیں کرتیں اسکے آرام کا خیال کرتیں باہر لاؤنج میں آگئی تھیں۔ انکے جانے کے بعد میسم نے بےبسی سے چھٹ کی طرف دیکھا تھا۔ 

____________________________________

آج اتوار کا دن تھا تو بیا گھر ہی تھی۔ میسم بھی اب کافی بہتر تھا۔ مگر ایک چیز بیا نے دو دن سے شدت سے محسوس کی تھی۔ اور آج تو کچھ زیادہ ہی اس پہ متوجہ ہوئی تھی۔ عام روٹین میں دادی اسکے ساتھ بہت باتیں بہت ہنسی مزاق کرتی تھیں انکا رشتہ بہت دوستانہ تھا۔ مگر بیا کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ دادی ایسے کیوں کررہی ہیں۔ وہ اس بات سے انجان تھی کہ اس دن جو اسکی اور میسم کی ملاقات ہوئی تھی اسکے بارے ایک اور فرد جانتا ہے۔ 

عالیہ جس نے انکو ایک ساتھ گھر آتے دیکھا تھا وہ انکا مزہ لینے نیچے آئی تھی کہ انکی باتوں کو موضوع سن کر وہ تو ہکا بکا ہی رہ گئی تھی۔ کبھی تو اپنی آنکھوں پہ اور کبھی اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔ بیا اور میسم کے ساتھ ساتھ یہ آگاہی کی رات اس پہ بھی بہت بھاری تھی۔ وہ خود پہ کنٹرول کرتی ان دونوں کے لیے دعا گو تھی۔ کیونکہ وہ میسم کی دیوانگی کے بارے میں جانتی تھی۔ 

صبح تک وہ یہ بات کافی حد تک اپنے اندر جذب کرچکی تھی۔ مگر میسم کی حالت اسے پھر سے صفر پہ لے گئی تھی۔ اور پھر تو وہ دادی کے سامنے جو پھٹی تھی کہ بس اللہ کی پناہ۔ اپنے بھائی کے لیے ایسی وکیل بنی تھی کہ دادی بھی دیکھتی رہ گئی تھیں۔ 

دوسری طرف دادی کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ بیا ایسا کچھ سوچ سکتی ہے۔ بولنا تو بہت دور کی بات ہے۔ مگر میسم کی طبیعت کے دوران بیا کا جو محتاط انداز تھا وہ جس کچھ سلجھا گیا تھا۔ اس لیے وہ اب خائف تھیں بیا سے۔ 

"پتہ نہیں وہ کونسی دادیاں ہوتی ہیں جو اپنی پوتیوں کے سر پہ خود تیل لگاتی ہیں۔ ایک ہماری ہے  چھٹی والے دن بھی لفٹ نہیں کرواتی۔" بیا نے جان بوجھ کر شوخ لہجے میں دادی کو مخاطب کیا تھا۔ جس پہ دادی بھی مسکرا گئی تھیں۔ 

"لاؤ لگا دیتی ورنہ تو تم تینوں نے طعنے مار مار کر مجھے بوڑھا کردینا ہے۔

"یعنی آپکو ابھی بھی لگتا ہے آپ جوان ہو؟" بیا نے چڑانے کے لیے بولا تھا اور پھر دادی کی ایک زبردست گھوری نے اسکی ہوا نکال دی تھی۔ وہ دل ہی دل میں شکر کر رہی تھی کہ دادی کی ناراضگی اسکا بس وہم ہی تھا۔ 

وہ لاؤنج میں ہی بیا کے بالوں پہ تیل لگا رہی تھیں جب میسم وہاں سے گزرا تھا۔ 

"یہ سواری کہاں کی ہے اب؟" انہوں نے خود ہی میسم سے پوچھا تھا۔ 

"آرہا ہوں ایک دوست ہے اس سے ملنے جارہا ہوں۔" وہ بیا کو سرے سے ہی نظر انداز کیے بولا تھا۔ 

"آتے ساتھ ہی مجھے حاضری ملنی چاہیے۔" دادی نے اسے میٹھی سے وارننگ دی تھی۔ جس پہ وہ دھیما سا مسکرا کر باہر نکل گیا تھا۔ بیا نے باقی وقت اس انتظار میں گزارا تھا کہ شاید دادی اسے خود ہی بتا دیں کہ وہ میسم سے کیا بات کرنا چاہتی ہیں مگر وہ تو جیسے بھول ہی گئی تھیں کہ میسم سے کوئی بات کرنی ہے۔ بیا نے سر جھٹک کر کپڑے پکڑے اور فرش ہونے چلی گی۔ 

وہ صبح کا گیا رات کو آٹھ بجے لوٹا تھا۔ اور تھکن اسکے چہرے سے عیاں تھی۔ یوں بھی دو دن کی بیماری اور پھر ایک جان لیوا اعصاب کی جنگ نے اسے نڈھال سا کردیا تھا۔ وہ سب رات کا کھانا کھا رہے تھے جب میسم گھر آیا تھا۔ زارا بیگم نے تو اس کے کیے الگ پرہیزی کھانا بنایا تھا مگر وہ نہیں مانا تھا کیونکہ وہ دنر فہیم کے ساتھ ہی کرچکا تھا۔ وہ سب سے ایکسکیوز کرتا اپنے کمرے میں آیا تھا۔ آج چار دن ہوگئے تھے بیا سے بات کیے اور الجھن تھی کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ ہی رہی تھی۔ میسم نے تھک کر آنکھیں موند لی تھیں۔ 

یہ قربانی اس کے لئے شاید نہیں یقیناً بہت بڑی تھی۔ کیونکہ بات صرف بیا سے صرف دستبردادی کی نہیں تھی۔ اسے اپنے ماں باپ سے بھی الگ ہونا تھا۔ انکی ناراضگی مول لینی تھی۔ بیا سے دستبرادی بھی اسکے لئے کٹھن تھی مگر جب وہ خود ہی اسکے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی تو میسم کیسے اسے خود سے جوڑ سکتا تھا۔

Read all the previous epsiodes of Danista Chup by Iram Tahir on wordofrain.blogspot.com

اگلے دن بہت اجلا تھا۔ وہ بہرحال خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار کر ہی چکا تھا۔ نماز کے بعد وہ جاگنگ کے لیے ابھی گھر سے نکلا ہی تھا کہ افرا بھی ٹریک سوٹ میں ملبوس ہاتھ میں پانی کی بوٹل پکڑے اپنے گھر سے نکلی تھی۔ میسم کو جاگنگ کے لیے تیار دیکھ کر گویا اسکی تو عید ہی ہوگئی تھی۔ وہ خود ہی نامحسوس انداز میں اس کے قریب آئی تھی۔ اور پھر یوں ہی ہیلو ہائے کے بعد انہوں نے ایک ساتھ ہی جاگنگ کی تھی۔ افرا کا تو خوشی سے برا حال تھا۔ البتہ میسم بہت چپ چپ سا تھا۔ 

جاگنگ کے بعد وہ سیدھا گھر آیا تھا جب بیا ناشتے کے لیے کچن کی طرف جارہی تھی۔ زارا بیگم بھی کچن میں ہی ناشتہ تیار کروا رہی تھیں۔ بیا کو نظر انداز کیے وہ ان سے ملتا اپنے کمرے میں 

آکر آفس جانے کی تیاری کرنے لگا تھا۔ پندرہ منٹ میں تیار ہوکر وہ نیچے کھانے کی میز پہ تھا۔ جہاں اب جمال صاحب اور دادی بھی تھیں۔ وہ سب تو اسکو یوں تیار دیکھ کر حیران ہی ہوئے تھے۔ جس پہ وہ منہ ہی بسور گیا تھا۔

"کیا ہوگیا ہے سب ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں جیسے میں نے کوئی الٹا فیشن کیا ہے۔" اس بات پہ سب مسکرا اٹھے تھے۔ 

"کوئی تو کہہ رہا تھا کہ شادی کے بعد گھوم پھر کر پھر آفس جانے کا سوچے گا۔" دادی نے کچھ سوچتے ہوئی بظاہر شوخ جملے میں کہا تھا۔ 

"اوہ یہ بات ، ہاں پھر میں نے سوچا ایسے ویلے بندے کو اپنی بیٹی کون دے گا اس لیے میسم اٹھ اور اب آفس جا۔" وہ شوخی برقرار کرتے بولا تھا۔ اور اسکا یہ مقصد بھی پورا ہوا تھا۔ مگر اپنی بیٹی کی لفظ پہ انکے کان متوجہ ہوئے تھا۔ 

"نہیں معلوم کے یہ کیا سوچ کر بیٹھے ہیں۔ اللہ ہی ہمارے حال پہ رحم کرے۔" اسے جمال صاحب کے ساتھ جاتا دیکھ کر اسکی پشت کو پرسوچ انداز میں دیکھتیں خود سے بولی تھیں۔ 

فہیم کا مشورہ واقعی کار آمد ثابت ہوا تھا۔ جس کا اقرار میسم نے بھی کیا تھا۔ نو بجے سے پانچ بجے تک آفس اور اسکے بعد دو گھنٹے کلب میں گزار کر وہ اسقدر تھک جاتا تھا کہ دس بجے ہی نیند میں جھول رہا ہوتا تھا۔ بیا سے بھی بس رات کے کھانے پہ سامنا ہوتا تھا۔ گویا زندگی میں ایک ٹھہراؤ سا آگیا تھا۔ مگر میسم ابھی تک بری طرح کنفیوز تھا کہ کیا اسے واپس جانا چاہیے۔ یا اگلا قدم کیا لینا چاہیے۔ 

آج ویک اینڈ تھا تو دادی میسم کے کان مڑورنے کے لیے تیار تھیں۔ خود میسم بھی مصروفیت کی وجہ سے انکو وقت نہ دینے پہ سر کھجا رہا تھا۔ 

"او میری پیاری دادو آؤ آج میں آپکو آپکی پسند کا شیک پلاتا ہوں۔" میسم نے لاڈ سے انکے گلے میں بازو ڈالے منہ پھلائے دادی کو مسکا لگایا تھا مگر دادی ہونہہ کرکے اسے خود سے الگ کر گئی تھیں۔ دادی کی ناراضگی پہ وہ لب دبا کر مسکراہٹ چھپا گیا تھا۔ 

"پسند ہونہہ۔ تمہیں کیا۔ دادی ہے یا نہیں۔

"اللہ اللہ دادی توبہ میری۔ یار آپکا بیٹا اتنا کام کرواتا ہے مجھ غریب بچے سے کچھ تو خیال کریں۔

"ہاں اب سارا قصور میری اولاد پہ ڈال دو۔" دادی نے گھور کراسے کہا۔ جبکہ میسم نے میری اولاد کے لفظ خود احتجاج کیا۔ 

"وہ آپکی اولاد ہے تو میں کیا ہوں؟ مجھے نہیں پتہ میرے سے دوستی کریں اب۔ ورنہ پھر میں بھی ناراض ہوں۔" میسم کی پیار بھری دھمکی سن کر عالیہ اور زارا نے بھی اپنی مسکراہٹ روکی تھی۔ میسم نے آنے سے واقعی گھر میں رونق لگ گئی تھی۔ ورنہ بیا اور عالیہ کبھی کبھی ہی چہکتی تھیں جب کبھی وہ ہسپتال سے فری ہوتی تھیں۔ 

"لو بتاؤ یہ کسی کو منانے کا کیا طریقہ ہے۔؟

"مجھے تو گوریوں نے یہی سیکھایا ہے۔" میسم نے ایک آنکھ کا کونہ دبا کر شرارت سے کہا تھا۔ جبکہ دادی نے گوری کے لفظ پہ اسے ایک دھب لگائی تھی۔ 

"دادو یار چلو نا اس کنجوس سے اپنی ناراضگی کیش کراؤ۔" عالیہ نے منہ بسورا تھا کہ دادی اب مان بھی جاؤ۔ جس پہ دادی نے بھی منہ بنا کر اچھا کہا تھا۔ وہ سب جانے کے لیے اٹھنے ہی لگے تھے جب زارا نے عالیہ سے بیا کو بھی ساتھ لیجانے کا کہا تھا۔ مگر عالیہ اسکو ساتھ لیجانے کے لیے راضی نہ تھی۔ 

 Now Read all the previous epsiodes of Danista Chup by Iram Tahir on wordofrain.blogspot.com 


Post a Comment

0 Comments